محبت اور نفرت جیسے انسانی جذبوں کی طرح منافقت بھی شاید انسانی جبلت کا خاصہ ہے۔ فرد کی طرح قومیں اور ملک بھی منافقت کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اب دنیا نے ان رویوں کو ڈپلومیسی کا خوشنما نام دے رکھا ہے لیکن اچھے لفظوں کا لبادہ اوڑھانے سے برائی‘ اچھائی نہیں بن جاتی۔ منافقت‘ منافقت ہی رہے گی۔ خواہ اُسے کوئی نام دے دیں۔ میں بھی دوسروں کی طرح منافقت کرتا ہوں کیونکہ میں بھی ایک انسان ہوں؛ تاہم کچھ منافقتیں ہمارے اجتماعی ضمیر کا حصہ بن چکی ہیں۔ دو دن پہلے امریکہ نے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر 320 ملین ڈالرز بقایا جات ادا کیے۔ یہ وہ رقم ہے جس کا بل بنا کر ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے امریکہ کی وزارت خزانہ کو بھیجا تھا کہ جناب! ہم آپ کی جنگ لڑ رہے ہیں اس پر ہمارا اتنا سرمایہ صرف ہوگیا ہے لہٰذا مہربانی فرما کر ادائیگی کی جائے۔ اس سے پہلے امریکہ‘ جنرل مشرف دور سے اب تک ہمیں اس مد میں بارہ ارب ڈالر سے زیادہ دے چکا ہے۔ ہم شور مچاتے ہیں کہ امریکی کنٹینرز نے ہماری سڑکیں تباہ کر دی ہیں لیکن کوئی نہیں بتاتا کہ امریکہ ان سڑکوں کی درستی کے لیے ہمیں جو مال دیتا ہے وہ کہاں ہے؟ کچھ عرصہ پہلے امریکہ کو پتہ چلا کہ اسے جو بل بھیجے جارہے ہیں وہ درست نہیں۔ اس پر انہوں نے بل روک لیے تو ہم ناراض ہوگئے۔ اب انہوں نے وہ پیسے جاری کر دیے ہیں تو ہم خوش ہوگئے ہیں۔ پیسے بھی لیتے ہیں اور شور بھی مچاتے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی پارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف نے یہ جنگ‘ امریکہ کے کہنے پر شروع کی تھی۔ تو پھر جنرل مشرف دور سے جاری اس جنگ کا بل اب نواز حکومت کیوں وصول کر رہی ہے؟ ہم بارہ سال سے امریکہ کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں کہ اس کے افغانستان آنے سے خطے میں تشدد بڑھ گیا ہے۔ جب امریکہ نے واپسی کا پلان دیا تو ہم نے شور مچانا شروع کر دیا کہ اگر امریکہ افغانستان سے چلا گیا تو وہاں پھر سول وار شروع ہوجائے گی اور پاکستان متاثر ہوگا۔ جب ہم مانتے ہیں کہ امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے سے پاکستان کے مفادات متاثر ہوں گے تو پھر ہم امریکہ کو افغانستان سے واپس بھیجنے کے لیے بے چین کیوں تھے۔ خیبر پختون خوا کے سابق گورنر اویس غنی نے مجھ سمیت کئی صحافیوں کو بتایا تھا کہ اگر امریکہ افغانستان سے چلا گیا تو ہمارے لیے بہت مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ اسی طرح ہمارے فوجی اور سیاسی حکمران امریکہ کو ڈرون حملے کرنے پر اُکساتے رہے اور بتاتے رہے کہ یہ حملے پاکستان کے مفادات میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ہماری فوج ان علاقوں میں جا کر القاعدہ سے نہیں لڑ سکتی۔ ہم نے اندر کھاتے امریکہ کو اڈے فراہم کیے جہاں سے ڈرون اڑتے ہیں۔ ہر حملے سے پہلے ہم مذمتی بیان تیار کر لیتے ہیں۔ قوم سیاستدانوں اور فوجی قیادت کے بیانات پڑھ کر سمجھنے لگی کہ جن پر حملے ہو رہے ہیں وہ بہت مظلوم ہیں اور امریکہ ان پر ظلم کر رہا ہے۔ لیکن وکی لیکس نے سارا بھانڈا پھوڑ دیا کہ کیسے پاکستانی قیادت نے امریکہ سے طے کیا تھا کہ وہ حملے جاری رکھیں ۔ کیا ایک لیڈر بھی ایسا نہ تھا جو ڈرون حملوں پر کھل کر بات کرتا۔ اگر حملے ہمارے مفادات میں ہیں تو قوم کو بتایا جاتا۔ اگر مفادات کے خلاف ہیں تو پھر امریکیوں سے ہونیو الی ملاقاتوں میں بھی اس پر احتجاج کیا ہوتا۔ بے خبری کا یہ عالم ہے کہ خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے بعض صحافیوں کا بھی یہ حال ہے کہ وہ ہمارے ساتھ نجی محفلوں میں ڈرون حملوں کی قبائلی علاقوں میں افادیت پر لیکچر دیتے اور ٹی وی اور پبلک مقامات پر وہ بھی ڈرون حملوں کے خلاف دوسروں کی طرح برستے ہیں۔ عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا مسئلہ ہے جس پر پوری قوم کنفیوز ہے۔ ایک ٹاپ پاکستانی ٹی وی اینکر کے بارے میں ایک دوسرے ٹی وی اینکر نے خود ہم سب کو بتایا ہے کہ ذرا ان صاحب سے پوچھیں کہ اس کی 2007ء میں اسلام آباد کے ایک گھر میں عافیہ صدیقی سے ملاقات ہوئی تھی یا نہیں۔ حالانکہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ 2003ء سے لاپتہ ہیں۔ پھر عافیہ صدیقی 2007ء میں اسلام آباد میں کیا کررہی تھیں؟ تاہم سب کچھ جاننے کے باوجود ہم سچ نہیں بولتے کیونکہ ہمارے معاشرے میں منافقت اور جھوٹ بکتا ہے اور ان سودوں کے خریدار بھی بہت ہیں۔ شکیل آفریدی کی کہانی بھی سن لیں ۔ جنرل مشرف نے خود اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہوں نے چھ سو سے زیادہ غیرملکی دہشت گرد‘ فوج اور ایجنسیوں کی مدد سے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیے اور اس کے بدلے میں کروڑوں ڈالرز ملے ۔ یہ کام شکیل آفریدی نے کیا تو وہ ملک دشمن اور غدار بن گیا ۔ اسامہ بن لادن بھی غیرملکی تھا جیسے وہ سب تھے جنہیں جنرل مشرف دور میں سیکرٹ ایجنسیوں نے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ اگر جنرل مشرف انعام کا حق دار ہو سکتا ہے تو شکیل آفریدی لالچ کا شکار کیوں نہیں ہوسکتا؟ امریکی ڈالرز جنرل مشرف پر حلال اور آفریدی پر حرام کیسے ہوگئے؟ دنیا حیران ہے کہ جس نے دنیا بھر کے موسٹ وانٹڈ اسامہ کو ٹریس کیا وہ پاکستان میں غدار سمجھا جاتا ہے اور ہم پھر بھی کہتے ہیں دنیا ہم پر بھروسہ نہیں کرتی کہ ہم وار آن ٹیرر میں ان کے ساتھ ہیں۔ بھروسے کی بات چلی ہے تو سن لیں کہ شور مچایا جا رہا ہے کہ امریکہ ہمیں ڈرون ٹیکنالوجی کیوں فراہم نہیں کرتا۔ امریکی حیران ہیں کہ کیسے کریں۔ انہوں نے ایف سولہ طیارے ہمیں دیے تو کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ وہ ٹیکنالوجی چین پہنچ گئی ہے۔ امریکہ نے سٹنگر میزائل دیے جس سے افغان جنگ کا پانسہ پلٹ گیا تھا ہم نے انہیں ایران کو بیچ دیا۔ ہم نے جیسے تیسے ایٹم بم بنایا تو پتہ چلا کہ ہمارے بعض سائنسدانوں اور جرنیلوں نے دکان کھول کر پوری دنیا میں مال کمایا۔ پھر بھی ہم کہتے ہیں دنیا ہم پر بھروسہ کرے۔ دنیا جدید ٹیکنالوجی ایجاد کرے اور ہمارے حوالے کرے اور ہم جسے چاہیں دنیا میں بیچیں۔ کیا یہ منافقت نہیں کہ ہم 1980ء میں افغانستان میں لڑی گئی جنگ کو اپنی جنگ کہتے ہیں؛ حالانکہ یہ جنگ ہماری سرزمین پر نہیں لڑی گئی۔ لیکن وہ جنگ جس میں ہمارے پچاس ہزار سویلین اور فوجی مارے جاچکے ہیں اسے ہم امریکہ کی جنگ قرار دیتے ہیں حالانکہ ہمارے بازار، مساجد، مندر، گرجا گھر اڑائے جارہے ہیں ! اگر وہ ہماری جنگ تھی تو پھر جنرل ضیاء نے امریکہ کو کیوں کہا تین سو ملین ڈالرز کی امداد بہت کم ہے، ہمیں مزید مال دو! امریکہ ہمیں امداد نہ دے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اس نے استعمال کر لیا اور ہم تباہ ہوگئے ہیں وہ ہمارا نقصان پورا کریں ۔ اگر امریکہ امداد دے تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری غیرت کا تقاضا ہے کہ ان سے پیسے نہ لیں۔ فوراً غیرت بے غیرتی کے طعنے شروع ہوجاتے ہیں۔ ایک اور منافقت خودمختاری کے نام پر ہورہی ہے۔ ہم کہتے ہیں امریکہ ڈرون حملوں کے ذریعے ہماری خودمختاری چیلنج کر رہا ہے اور دوسری طرف کوئی شخص ان علاقوں میں داخل نہیں ہوسکتا جہاں ڈرون بم گرتے ہیں۔ کرنل امام اور خالد خواجہ بھی یہی سوچ کر ان قبائلی علاقوں میں طالبان سے ملنے گئے تھے اور وہ بے چارے زندہ نہ لوٹ سکے اور پھر بھی ہم ان علاقوں کو اپنا سمجھتے ہیں جہاں امریکی ڈرون طیارے تو پہنچ سکتے ہیں لیکن ہمارے فوجی اور سویلین قدم نہیں رکھ سکتے۔ ہم تاریخ کا سبق بھول گئے ہیں۔ جب طاقتور فوج یا گروہ کسی علاقے پر قبضہ کر لیتے ہیں تو وہاں دوسرے ملک کی سرحد خودبخود سکڑجاتی ہے اور اس کی خودمختاری ختم ہوجاتی ہے۔ ہماری خودمختاری اس طرح متاثر ہو رہی ہے کہ طالبان اور امریکہ نے قبائلی علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ جن علاقوں کو ہم اپنا سمجھ کر خودمختاری کا نعرہ لگا رہے ہیں اب وہاں طالبان اور امریکہ کے درمیان قبضے کے لیے لڑائی جاری ہے۔ جو جیتے گا وہ علاقے اُس کے کہلائیں گے۔ طاقتور کھلاڑیوں کے درمیان جاری ایسے خونریز مقابلے میں انعام دراصل میچ جیتنے والی ٹیم کو ہی ملا کرتے ہیں نہ کہ اسٹیڈیم یا گھر پر ٹی وی پر میچ دیکھتے اور خودمختاری کے نعرے لگانے والے ناظرین اور تماشائیوں کو! ہمارا حال تو وہ ہو چکا ہے… دُکھ جھیلے بی فاختہ‘ کوے انڈے کھائیں۔