"RKC" (space) message & send to 7575

چیئرمین نیب سے

ٹوئیٹر اکائونٹ پر مجھے فالو کرنے والے طعنہ دیتے ہیں کہ آپ کے پاس اتنے ثبوت ہیں تو آپ سپریم کورٹ کیوں نہیں چلے جاتے؟ سوشل میڈیا نئی ٹیکنالوجی ہے لہٰذا نئی نسل کے نوجوان ابھی صحافت اور صحافی کے کام کے بارے میں کم جانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ صحافی پہلے خبر نکالے، ایڈیٹر کو مشکل سے قائل کر کے چھپوائے، سوشل میڈیا پر شیئر کرے، ٹی وی ٹاک شو میں شور مچائے اور پھر تگڑا سا وکیل تلاش کرے‘ جسے اپنی جیب سے تیس لاکھ روپے فیس دے کر سپریم کورٹ جائے، سب کام چھوڑ کر اس کیس کو فالو کرے اور پھر ملزموں کو سزا دلوائے اور زندہ باد کے نعرے لگوائے۔ جناب‘ یہ سب صحافی کا کام نہیں ہے۔ اس کا کام خبر اور درست خبر دینا ہے۔ صحافی کو ریاست یا ٹیکس ادا کرنے والے عوام سے تنخواہ نہیں ملتی‘ وہ پھر بھی عوام کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے۔ ریاست جن اداروں اور لوگوں کو جس کام کے لیے تنخواہ دیتی ہے یہ ان کا کام ہے کہ وہ کرپشن کے واقعات پر ایکشن لیں۔ انہیں اس کام کی تنخواہ ملتی ہے۔ مثلاً اگر ایک سکینڈل سامنے آتا ہے تو تحقیقات حکومت‘ ایف آئی اے یا نیب کا کام ہے۔ تین برس قبل ایک سکینڈل فائل کیا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کے فاٹا سے ایک وزیر کی منی ایکسچینج فرم کے ذریعے دبئی سے منی لانڈرنگ ہورہی تھی۔ ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ نے ہاتھ ڈالنا چاہا تو وزیراعظم ہائوس بلا کر کہا گیا کہ باز رہو۔ چند دن بعد کھوسہ اپنی جگہ پر نہیں تھے۔ مجھے بھی منی لانڈرنگ سکینڈل فائل کرنے پر ایک پیار بھری دھمکی بھجوائی گئی اور یاد دلایا گیا کہ تمہاری بیوی بھی ایک سرکاری ملازم ہے۔ اب اس عمر میں، میں نے خاک مسلمان ہونا تھا! خاک باز آتا! پہلے چھوٹے لیول کی کرپشن ہوتی تھی ۔کوئی ایک سیکرٹری کسی غلط کام میں ملوث پایا جاتا تھا اور اب اللہ کے فضل سے ہر دوسرا سیکرٹری سکینڈل کی زد میں ہے اور اسے پروا بھی کوئی نہیں۔ جس ملک میں سابق وزیراعظم اور صدر کرسی سے ہٹتے ہی نیب کے پاس ہاتھ باندھ کر اپنی کرپشن کی صفائیاں دینے کے لیے کھڑے ہوں‘ وہاں ایک وزیر کو کیا شرمندگی ہوگی۔ یہی دیکھ لیں کہ وفاقی وزیر داخلہ ان دو ہزار لوگوں کے نام بتانے کو تیار نہیں ہیں جنہیں رحمن ملک کے دور میں غلط بلیو اور سفارتی پاسپورٹ جاری کیے گئے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ کل کلاں‘ جب وہ وزیر نہیں رہیں گے تو ان کے کارنامے بھی کھل سکتے ہیں؛ چنانچہ رحمن ملک کو بالکل کچھ نہیں کہا گیا‘ حالانکہ انہوں نے وزارت تباہ کر کے رکھ دی۔ جس طرح اسلحہ لائسنس اور اب بلیو اور ریڈ پاسپورٹ جاری ہوئے ہیں‘ پاکستانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ رحمن ملک نے اپنے پورے خاندان کو دس برس کے لیے بلیو پاسپورٹ بنا کر دیے۔ اپنے بھائی اور بچوں کے لیے بھی جنت کے دروازے کھول دیے۔ ہر دوست کو نوازا ۔ رحمن ملک کا ایک بیٹا جو لندن میں طالبعلم ہے‘ اسے لندن کے ایڈریس پر بلیو پاسپورٹ بھیجا گیا ۔ سینٹ کے سابق سیکرٹری نے اپنی برطانوی بہو کو بلیو پاسپورٹ لے کر دیا ۔ صلاح الدین شیخ کو دبئی کے ایڈریس پر بلیو پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ نادرا کے ایک اعلیٰ افسر نے اس گڑ بڑ میں ان کا ساتھ دیا تو اسے بھی انعام دس برس کے لیے بلیو پاسپورٹ کی شکل میں عطا کیا گیا۔ بھلا چیئرمین پبلک سروس کمشن آصف حیات اور ان کی بیگم کو سفارتی پاسپورٹ دس برس کے لیے دینے کی کیا تُک تھی؟ کوئی بتائے کہ ان لوگوں کا احتساب کیسے ہو؟ جو ان کی چوری پکڑتا ہے‘ یہ اسے اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ حکومت اپنی کمزوریاں چھپانے کے لیے ان پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں کیونکہ اب یہ سب اپوزیشن میں براجمان ہیں اور چپ ہیں کیونکہ ان کے کھاتے بند پڑے ہیں ۔ انہوں نے منہ کھولا تو وہ کھل جائیں گے۔ یوں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا کام چل رہا ہے۔ حکومت اپنی ناکامیاں چھپا رہی ہے اور اپوزیشن حکومت کو کچھ نہیں کہتی۔ اسے کہتے ہیں اس ہاتھ دے، اس ہاتھ لے۔ پتہ نہیں کتنے لوگوں کو یاد ہوگا کہ جنرل مشرف کے دور میں پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر نے70 کے قریب ریفرنس نیب میں دائر کیے تھے۔ بابر صاحب روزانہ پریس کانفرنس سے خطاب فرماتے‘ وزیروں کی کرپشن کہانیاں ایک ریفرنس کی شکل میں پیش کی جاتیں اور اکثر ہماری فائل کی گئی اسٹوریز کی بنیاد پر فائل ہوتی تھیں ۔ اس وقت دعوے کیے جاتے تھے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے آتے ہی ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ سب ڈرامہ تھا کیونکہ فرحت اللہ بابر کے ذمے محترمہ بینظیر بھٹو نے کام لگایا تھا کہ جنرل مشرف کے وزراء پر دبائو بڑھائو اور اخبارات میں آنے والے سکینڈلز کو ریفرنس کی شکل دے کر نیب میں داخل کرو تاکہ جنرل مشرف سے بارگین کرنے میں آسانی ہو۔ ان 70کرپشن ریفرنسز کو پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ سے ہٹانے کی قیمت پیپلز پارٹی کو این ار آو کی شکل میں دی گئی۔ رہے نام اللہ کا۔ جب میرے جیسے کچھ اخبار نویسوں نے فرحت اللہ بابر سے پوچھنا شروع کیا کہ اب تو آپ کی حکومت آگئی ہے ان ریفرنسز کا کیا بنا جو فائل کر رکھے ہیں؟ تو تنگ آکر انہوں نے وہ ریفرنس ہی پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ سے ہٹوا دیے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ مشرف کے جن ساتھیوں کے خلاف کرپشن ریفرنس فائل کیے گئے تھے وہی گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں وزیر بن بیٹھے۔ اب نواز شریف کیوں کر آصف زرداری اور ان کے ٹولے کا احتساب کریں گے؟ اگر کریں گے تو ساڑھے چار ارب روپے کے بنک قرضے کا حساب بھی دینا پڑے گا جو 1988ء سے ادا نہیں ہوا۔ اسحاق ڈار کے منی لانڈرنگ بیان کا کیا ہوگا؟ لندن میں زیرتعمیر ٹاورز کا کیا جواب ہوگا؟ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو جو حکم دے رکھا ہے اس کا کیا ہوگا ؟ کرپشن کی ایک لمبی داستان ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ قرضہ معاف کرانے کا ایک اور کارنامہ ہے جو پیپلز پارٹی دور میں ہوا ۔ 130 ارب روپے معاف ہوئے۔ سب سے زیادہ قومی بنک کولوٹا گیا ۔ معززین کے نام لکھے تو فہمیدہ مرزا کی بیٹی فرماتی ہیں کہ میں جھوٹا ہوں ۔ ستاسی کروڑ بھی معاف کراتے ہیں اور ہمیں جھوٹا بھی کہتے ہیں ۔ فہمیدہ مرزا کا امریکہ میں چالیس لاکھ روپے سے زیادہ کا علاج بھی عوام کے پیسوں سے ہوا۔ فہمیدہ مرزا نے چھیالیس لاکھ روپے کی نئی پروٹوکول گاڑی خریدی ، اپنے لیے تاحیات مراعات لیں اور جھوٹے بھی ہم ٹھہرے۔ ایک ملتانی خواجہ نے میرے دوست گیلانی صاحب کی مہربانی سے اپنے ذمہ ایک قومی بنک سے چالیس کروڑ روپے کے قرضے بھی معاف کرائے اور اس وقت اسلام آباد میں وزارت صنعت و پیداوار کی Productivity Organization کے سربراہ کے طور پر چار سال سے ایم پی سکیل ون میں بھاری تنخواہ بھی ہر ماہ وصول فرما رہے ہیں۔ گیلانی صاحب کروڑوں روپوں کی مہربانی مفت میں تو کرنے سے رہے۔ جس بنک کے سربراہ نے وہ قرضہ معاف کیا اس نے بھی اپنا حصہ مانگا جو گیلانی صاحب نے ایک برس اس کی مدت ملازمت میں توسیع دے کر ادا کیا ۔ دنیا میں مفت کا کھانا کوئی نہیں کھلاتا۔ دوسری طرف بلوچستان کے وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ انہیں زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے چالیس ارب روپے درکار ہیں ۔ شاید ماضی کی طرح شاید وہ بھی اب پچیس پچیس کروڑ روپے اپنے وزیروں اور ایم پی ایز میں بانٹیں گے۔ بلوچستان کے سرداروں نے پہلے ہی وزارتوں میں اپنا حصہ لے لیا ہے۔ اور تو اور محمود خان اچکزئی بھی اپنے بھائی کو گورنر لگوا کر عمر بھر کی پختون قوم پرستی کے نعرے کی قیمت وصول کر چکے ہیں۔ پندرہ برس تک ہم جیسے صحافیوں نے عقیدت مندی سے محمود خان اچکزئی کے بھاشن سنے کہ پنجابی اور سندھی حکمران اپنے بچوں اور خاندان سے باہر نہیں نکلتے اور ملک تباہ ہوگیا ہے۔ وقت آنے پر وہ بھی اپنے خاندان سے باہر نہیں نکل سکے۔ وہ اتنا بڑا دل کہاں سے لاتے کہ اپنے بھائی کی بجائے کسی اور کو گورنر لگوا دیتے۔ قوم پرستی اور اصول پسندی کا ٹھیکہ اکیلے ہمارے دوست اچکزئی نے تھوڑا لے رکھا ہے! بندہ کس پر بھروسہ کرے اور کہاں جا کر اپنا سر پھوڑے؟ پچھلے دس برس میں بلوچستان کے اپنے سونے، تابنے اور چاندی کے ذخائر نکال کر ایک غیر ملکی کمپنی نے 1.4 ارب ڈالرز عالمی مارکیٹ میں کمائے۔ اس کمائی میں سے حکومت پاکستان نے 48 فیصد جب کہ اس کمپنی نے 50 فیصد حصہ لیا اور دو فیصد بلوچستان کو دیا گیا ۔ جس صوبے کا ایک ارب چالیس کروڑ ڈالرز کا سونا چاندی بیچا گیا اس کا وزیراعلیٰ کہتا ہے کہ ان کے پاس اپنے لوگوں کی بحالی کے لیے پیسے نہیں ہیں ! اور سن لیں۔ چیئرمین نیب نے وزیراعظم کے دورۂ ترکی کے دوران یہ انکشاف کیا تھا کہ رحمن ملک نے 68 ملین ڈالرز کی ایڈوانس ادائیگی ایک غیر ملکی کمپنی کو کرائی تھی جس نے سیف سٹی پراجیکٹ پر کام کرنا تھا۔ غیر ملکی کمپنی وہ 68ملین ڈالر لے کر واپس اپنے وطن پہنچ گئی ہے اوراسلام آباد کے سپاہی آج بھی ایک ٹارچ لے کر دہشت گرد تلاش کر رہے ہیں۔ کیا چیئرمین نیب اب اپنے ہی سابق وزیر کو اس سکینڈل میں دھر لیں گے؟ جس کا انکشاف انہوں نے ترکی کے ہوٹل کی لابی میں مجھے کافی پلاتے ہوئے کیا تھا اور اس کا بل بھی مجھے ادا نہیں کرنے دیا تھا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں