30جنوری 2011ء کو جب میں نے ایک انگریزی اخبار میں ایک سکینڈل فائل کیا تو سوچا بھی نہیں تھا کہ31اکتوبر 2013ء کو33 ماہ بعد سپریم کورٹ اس سکینڈل کا فیصلہ سنائے گی اور انجم عقیل خان کے خلاف نیب کو کارروائی کا حکم دیا جائے گا اور نیشنل پولیس فائونڈیشن کو اس کے چھ ارب روپے واپس مل سکیں گے۔ یاد پڑتا ہے جنوری کی ایک سرد شام ’’سورس‘‘ نے فون کیا کہ جناب آپ کے لیے گرم مصالحہ ہے۔ وعدہ کریں کہ اس کی قیمت انجم عقیل سے وصول نہیں کریں گے کیونکہ چھ ارب روپے کا معاملہ ہے۔ ہاں کمانا چاہیں تو آپ کو بھی دو تین پلاٹ مل سکتے ہیں اور ایک پلاٹ کی قیمت تین کروڑ روپے سے کم نہیں ہوگی ۔یہ سکینڈل اسلام آباد کے پراپرٹی ڈیلر اور ایم این اے انجم عقیل کے بارے میں تھا کہ کیسے اس نے نیشنل پولیس فائونڈیشن کے افسران کے ساتھ مل کر چھ ارب روپے کا فراڈ کیا تھا۔ خیر سکینڈل فائل ہوا اور اسی شام ایم این اے انجم عقیل خان کا فون آیا ۔ آپ سے ملنا ہے۔ میں نے کہا حکم کریں۔ کہنے لگے کہ سکینڈل تو آپ نے فائل کر دیا۔ جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ اب ذرا مشورہ دیں کہ اس معاملے کو کیسے سنبھالوں۔ میں حیران ہوا۔ کیونکہ زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جس کے خلاف سکینڈل فائل کیا وہی مجھ سے مشورے مانگ رہا تھا۔ پیشکش بڑی واضح تھی۔ انجم عقیل خان سکول ماسٹر تھا۔ بچوں کو پڑھانے کا بور کام پسند نہ آیا تو پراپرٹی ڈیلر بننے کا فیصلہ کیا اور سب سے پہلا شکار نیشنل پولیس فائونڈیشن کو بنایا۔ نیشنل پولیس فائونڈیشن نے اربوں روپے کے کنٹریکٹ انجم عقیل خان کی فرم ’’لینڈ لنکر‘‘ سے کیے جو کہیں رجسٹرڈ تک نہ تھی۔ تین سو کنال زمین لینے کا معاہدہ ہوا۔ کروڑوں روپے نقد لے لیے۔ زمین ایک کنال نہیں دی اور اس کے بدلے میں نیشنل پولیس فائونڈیشن میں اپنے سینکڑوں لوگوں کو پلاٹ الاٹ کر کے خود پیسے لے لیے۔ ڈھائی سو کنال کے بدلے اکہتر کنال ٹرانسفر کرائی اور دو سو کنال پر مال کمایا اور اپنی زمینوں کو کمرشل کرالیا۔ ایم ڈی نیشنل پولیس فائونڈیشن کھل کر یہ ڈیل کرتے رہے کیونکہ چونچ گیلی ہورہی تھی۔ انجم عقیل خان نے ایک زمین تین تین دفعہ نیشنل پولیس فائونڈیشن کو بیچی۔ سرکاری فائلیں دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس طرح کی لوٹ مار کی مثال کہیں نہیں ملے گی۔ جب یہ سکینڈل سامنے آیا تو ظفر قریشی انکوائری افسر مقرر اور انجم عقیل خان گرفتار ہوئے۔ رہائی کے بدلے اشٹام لکھ دیا کہ وہ چھ ارب روپے واپس کریں گے۔ ایف آئی اے کے مقدمات خود بھگتیں گے۔ ظفر قریشی نے بھی جاتے جاتے انجم عقیل خان کو چھیالیس فیصد کی بجائے تیئس فیصد waste کی شکل میں پچاس فیصد رعایت دی تاکہ کسی طرح پیسے واپس ہوجائیں ۔ یوں انجم عقیل خان پھر خوش قسمت نکلے۔ اراضی دو سو کنال کی بجائے 126 کنال بنا دی گئی۔ اس سکینڈل میں ظفر قریشی پر بہت دبائو تھا کیونکہ موجودہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے سمدھی افتخار احمد خان پر بھی جو ایم ڈی رہے تھے‘ چھ ارب کے اس سکینڈل میں مال کمانے کا الزام تھا ۔ ایاز صادق‘ ظفر قریشی کے قریبی رشتہ دار تھے اور خاندان نے ان کا بائیکاٹ کر رکھا تھا کہ اگر افتخار کو سکینڈل سے نہ نکالیا گیا تو پھر ان کی خیر نہیں۔ اس ڈیل کے تحت انجم عقیل سے دو ارب روپے کا کرسٹل کورٹ لے لیا گیا اور اس نے باقی چار ارب روپے دینے کا وعدہ کر لیا۔ اس اثناء میں تین آئی جی طارق کھوکھر، حسین اصغر وغیرہ نے مل کر ایک اور انکوائری کی اور ایک دفعہ پھر دو سو کنال انجم عقیل کے ذمے نکلے اور سفارش کی گئی کہ سخت کارروائی کی جائے۔ انجم عقیل نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ دو سال تک سب خاموش رہے لیکن انجم عقیل خان اور ان کے ہمدرد چپ کرکے نہیں بیٹھے تھے۔ رحمن ملک‘ ریٹائرڈ افسر طارق حنیف جوئیہ کو کنٹریکٹ پر نیشنل پولیس فائونڈیشن لے آئے اور ٹاسک دیا گیا کہ انجم عقیل خان کو کلین چٹ دے کر اربوں روپے واپس کرنے ہیں۔ سرکاری ملازم پیدا ہی تابعداری کے لیے ہوئے ہیں۔ ایک خفیہ پلان بنایا گیا اور پیپلز پارٹی حکومت ختم ہونے سے دس دن قبل چار مارچ کو رحمن ملک کی وزارت داخلہ کے صدیق اکبر، آئی جی اسلام آباد بن یامین اور نیشنل پولیس فائونڈیشن کے زاہد محمود نے ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل‘ ماضی میں انجم عقیل کے ساتھ ظفر قریشی کے کیے گئے تمام معاہدے کینسل کر دیے۔ یوں چار مارچ کو کی گئی اس نئی ڈیل کے تحت اب ظفر قریشی کے ساتھ ہونے والی ڈیل ختم اور نئی ڈیل کے تحت پہلے واپس لیے گئے دو ارب روپے کے کرسٹل کورٹ کو دوبارہ انجم عقیل خان کو واپس کرنا تھا ۔انجم عقیل خان کے خلاف ایف آئی اے کے مقدمات بھی واپس۔ پہلے دو سو سے زائد کنال کو ایک سو چھبیس کنال اور پھر پچاس کنال بنا دیا گیا ۔ سونے پر سہاگہ‘ انجم عقیل کو بتایا گیا کہ اگر پچاس کنال زمین نہیں ہے تو فی کنال آٹھ لاکھ روپے یا کل چار کروڑ روپے کے برابر پیسے جمع کرا دو۔اندازہ کریں کہ اسلام آباد کے آئی الیون سیکٹر میں ایک کنال آٹھ لاکھ روپے میں؟ یوں چار ارب روپے کا معاملہ چار کروڑ میں سیٹل کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انجم عقیل خان کو وہ بائیس پلاٹ واپس کر دیے گئے جو ایم ڈی جاوید اقبال نے انجم عقیل کے فراڈ پرکینسل کیے تھے۔ یوں پچاس کروڑ روپے کا یہ نقد فائدہ خوش قسمت انجم عقیل کو ملا۔میں نے اس سکینڈل کا پارٹ ٹو ارشد شریف کے دنیا ٹی وی کے شو ’’کیوں؟‘‘ میں بریک کیا کہ کیسے انجم عقیل نے رحمن ملک کی مہربانی سے چار ارب روپے کا معاملہ چار کروڑ روپے میں سیٹل کرالیا تھا۔ اس پر چیف جسٹس افتخار چوہدری نے دوبارہ کارروائی دنیا ٹی وی پر میرے اور ارشد شریف کے پروگرام میں سرکاری دستاویزات دکھانے کے بعد شروع کی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کیسے سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چار ارب روپے کو چار کروڑ روپے میں بدل کر انجم عقیل کو کلین چٹ دے دی گئی۔ چیف جسٹس کو عدالت میں بتایا گیا انجم عقیل خان کے ساتھ سب معاملات طے ہو چکے ہیں اور سب مقدمات واپس لے لیے گئے ہیں ۔ چیف جسٹس حیران ہوئے کہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کیس عدالت میں ہے اور وزارت داخلہ اور نیشنل پولیس فائونڈیشن کے افسران نے اربوں کے فراڈ کے ملزم کو کلین چٹ دے کر سب مقدمات سے بری کر دیا؟ اس سے پہلے پوری قوم نے دیکھا انجم عقیل خان تھانے پر حملہ کر کے فرار ہوا مگر عدالت نے باعزت بری کردیا۔ ایک اور نچلی عدالت میں انجم عقیل خان کے خلاف اس سکینڈل پر کیس دائر ہوا تو محترم جج نے پوچھا آپ چاہتے ہیں کہ اخبار میں چھپنے والی خبر پر ایکشن لیا جائے۔ کیس ختم۔ ذرا تصورکریں ایک عام آدمی جرم کرے تو یہی پولیس حشر کر دیتی ہے اور یہاں چھ ارب روپے فراڈ کے بعد ایف آئی اے چالان تک واپس لے چکی تھی۔ انجم عقیل کو بچانے اور نیشنل پولیس فائونڈیشن کو نقصان پہنچانے کے لیے خود فائونڈیشن‘ پولیس‘ ایف آئی اے‘ وزارت داخلہ‘ رحمن ملک‘ سیکرٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر‘ آئی جی اسلام آباد بن یامین‘ ریٹائر ہونے والے ایم ڈی نیشنل پولیس فائونڈیشن زاہد محمود اور پوری کی پوری نواز لیگ سرگرم عمل تھی۔ وجہ یہ تھی کہ انجم عقیل کی جیب میں وہ پیسہ ہے جو اس نے نیشنل پولیس فائونڈیشن کو لوٹ کر بنایا ہوا ہے اور سب کو اس میں سے حصہ دے رہا تھا۔ اب جمعرات کو عدالت نے نیب کو حکم دیا ہے کہ انجم عقیل خان سے ریکوری کریں۔ مقدمات درج کریں اور اگر پیسے نہ دے تو جائیداد ضبط کر لیں۔ سپریم کورٹ نے تو فیصلہ دے دیا ہے لیکن مجھے ایک اور پریشانی لاحق ہوگئی ہے۔ اپنے تئیں تو سیکرٹری داخلہ کی حیثیت سے قمرزمان چھ ارب روپے کے اس قیمتی کمبل سے جان چھڑا چکے تھے لیکن اب کیا کریں کہ چیئرمین نیب بنتے ہی وہ کمبل دوبارہ ان کے سامنے ہے۔