رونا دھونا ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ روزانہ نئے ’’بلف‘‘ کھیلے جا رہے ہیں اور ہر روز ایک نیا جھوٹ گھڑا جا رہا ہے۔ جس کو بلف کی سمجھ نہیں آتی‘ وہ فلم Bluff Master دیکھ لے تاکہ اس کی تسلی ہو جائے۔ طالبان کہتے ہیں کہ ان کے حکومت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے تھے اور چوہدری نثار کہتے ہیں کہ جناب ان کے تین پُراسرار فرشتے روانہ ہونے ہی والے تھے کہ ڈرون آ گیا۔ امریکی حیران ہیں کہ جس وزیر داخلہ کی وزارت نے حکیم اللہ محسود کے سر پر پچاس لاکھ روپے کا انعام رکھا ہوا تھا وہ کیسے ان کے ڈرون حملے میں مارے جانے پر اعتراض کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے پچاس لاکھ روپے انعام رکھا تھا تو امریکہ کا مقرر کردہ انعام اس سے کئی گنا زیادہ تھا۔ میرے ذرائع کہتے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فون کر کے میاں نواز شریف سے کہا تھا (جس کا جواب میاں صاحب کے پاس نہیں تھا) کہ اگر حکیم اللہ محسود حکومت پاکستان کا دوست بن چکا تھا تو اس سے مذاکرات سے پہلے اس کے سر پر لگایا گیا انعام کیوں نہیں ہٹایا گیا؟ کیا چوہدری نثار نے مذاکرات سے پہلے وہ پچاس لاکھ روپے کا انعام وقتی طور پر ختم کیا تھا‘ تاکہ مذاکرات کامیاب ہوں اور طالبان اور تین حکومتی فرشتوں کے درمیان مذاکرات سے پہلے اچھا ماحول پیدا ہو؟ مذاکراتی ٹیم میں شامل فرشتے ایسے تھے جنہیں صرف چوہدری نثار جانتے ہیں اور جن کا علم نہ طالبان کو ہے اور نہ ہی کسی اور کو۔ اگر طالبان کو علم نہیں تھا کہ ان سے ملنے کون آ رہا ہے اور انہیں کس جگہ سے لینا اور چھوڑنا ہے تو پھر یہ کیا معاملہ چل رہا تھا؟ بعض کہتے ہیں کہ طالبان کی بات پر اعتبار مت کرو۔ تو کیا ان حکمرانوں پر اعتبار کریں جو واضح اور صاف بات کرنے کو تیار ہی نہیں۔ چوہدری نثار وہ بہادر سیاستدان ہیں جو سینیٹ میں اپوزیشن کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں لیکن اپنے سے طاقت ور دشمن طالبان کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کے خلاف ان کی تقریر سن لیں اور طالبان کے معاملے پر ان کے لہجے پر غور فرما لیں۔ بے صبرے امریکی ذرا جلدی کر گئے ورنہ پتہ سب کو تھا کہ ان مذاکرا ت کے تھیلے سے کیا نکلنا تھا۔ کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ سوات پر جب ڈیل ہوئی تھی تو کیا ہوا تھا؟ اس وقت بھی صوفی محمد سے مذاکرات کیے گئے تھے۔ باقاعدہ ایک ٹیم بھیجی گئی تھی۔ صوفی صاحب نے شرائط بیان کی تھیں۔ سب مان لی گئیں۔ نظام عدل وجود میں آگیا تھا۔ بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ صوفی محمد کا مطالبہ تھا کہ اسے پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے۔ جس دن پارلیمنٹ میں میرے دوست وزیر قانون بابر اعوان بل لائے تھے‘ اس روز پورے ملک پر دہشت کا راج تھا۔ مسلم خان نے دھمکی دی تھی کہ اگر کسی نے اس بل کی مخالفت کی تو اس کی خیر نہیں۔ سب بکری بن گئے۔ صرف ایک آواز ایوان میں گونجی تھی اور وہ چکوال سے ایم این اے ایاز امیر کی تھی۔ انہوں نے ایوان میں بیٹھے دہشت زدہ وزیر اعظم گیلانی، ان کے کانپتے ہوئے وزرا اور اپنی سلامتی کی تسبیح پڑھتے ایم این ایز کو خبردار کیا تھا کہ ریاست کے اس سرنڈر اور ڈیل سے مزید خون بہے گا۔ آپ شیر کے منہ کو لہو لگا رہے ہیں۔ اسے ایک ریاست کا کنٹرول دیا جا رہا ہے اور وہ اب سوات کو اڈا بنا کر مزید علاقوں پر قبضہ کریں گے۔ اس ڈیل سے خون رُکے گا نہیں بلکہ مزید بہے گا۔ اگلے دن سب نے ایاز امیر پر تنقید کی کہ وہ امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ پھر ایک ہفتے بعد وہی کچھ ہوا جس کا انہوں نے اپنی تقریر میں خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اس ڈیل کے بعد طالبان کا اعتماد آسمان کو چھونے لگا اور انہوں نے وہ کارروائیاں شروع کیں کہ وہ خواتین جو ان پر اپنے زیور نچھاور کرتی تھیں‘ بچوں سمیت راتوں رات گھروں سے نکلنے پر مجبور ہو گئیں۔ سواتیوں کو لوگوں کی دی گئی امداد پر کیمپوں میں رہنا پڑا۔ خون بہا اور پھر پوری قوم نے زندہ باد کے نعرے لگائے۔ اس وقت پیپلز پارٹی حکومت کے وزراء کہتے تھے کہ صبر کریں۔ ہمیں علم ہے کہ امن اس طرح قائم نہیں ہو گا۔ طالبان سوات میں سب کو مایوس کریں گے‘ پھر فوجی آپریشن ہو گا اور ہم کامیاب ہوں گے۔ سب کو علم تھا کہ یہ کام نہیں چلے گا؛ تاہم وہ چاہتے تھے کہ پہلے قوم کو بتایا جائے کہ ہم نے کوشش کی تھی لیکن طالبان جلدی میں تھے۔ کسی میں اتنی جرأت اور قابلیت نہ تھی کہ قوم کو سمجھاتا کہ ملک کے مفاد میں کیا ہے۔ صدر زرداری نے ایک غیرملکی اخبار کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا تاکہ سوات کے لوگوں کو بھی تھوڑی سی سزا ملے‘ آخر ان کی عورتوں نے طالبان پر اپنے زیور نچھاور کیے تھے۔ سوات کے عوام کو تو سبق مل گیا مگر اس کی پاکستان سمیت سب نے بھاری قیمت ادا کی اور طالبان کو حوصلہ ملا کہ اگر وہ تھوڑی سی مزید کوشش کریں تو دوبارہ حکومت کو جھکایا جا سکتا ہے۔ اب پھر سب ہمیں بتا رہے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کے نتیجہ کا ہمیں علم ہے کہ اس میں سے کچھ نہیں نکلے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ وہی کچھ ہو گا جو سوات میں ہوا تھا ۔ پھر شمالی وزیرستان میں ایک نئی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ اس بار بابر اعوان کی جگہ پوٹھوہار کا ایک اور سپوت نیا بل پارلیمنٹ میں لائے گا کہ شمالی وزیرستان طالبان کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ سب اس پر ٹھپہ لگائیں گے لیکن اس دفعہ پارلیمنٹ میں ایاز امیر جیسی تقریر سننے کو نہیں ملے گی۔ پھر کچھ عرصے بعد وہی سوات والی کہانی دُہرائی جائے گی۔ پھر وہی آپریشن اور پھر وہی لوگوں کو خون بہے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم الٹا کیوں سوچتے ہیں؟ جب نتائج کا علم ہے تو کیوں ہم وہی کام نہیں کرتے جو ہمیں کرنا ہے۔ کنفیوژن کی حد دیکھیں کہ ایک طرف بتایا جاتا ہے طالبان ہمارے اپنے ہیں ان سے مذاکرات کریں گے۔ پھر کہتے ہیں کہ ان طالبان کو بھارت، امریکہ اور افغانستان کی سیکرٹ ایجنسیاں سپورٹ کر رہی ہیں۔ ایسا ہے تو غیرملکی ایجنسیوں کے سہارے چلنے والوں سے مذاکرات کیوں ہو رہے ہیں؟ پھر آپ بھارت‘ امریکہ اور افغانستان سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ طالبان ہماری فوجی طاقت سے نہیں بلکہ ڈرون سے ڈرتے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فوج لڑنے کو تیار ہے لیکن سیاستدان ڈر گئے ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ موجودہ سیاستدان جنگ لڑنے کو تیار نہیں ہیں لیکن2001ء سے یعنی جب سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے‘ تب سے کس کی پالیسیاں چل رہی ہیں؟ پیپلز پارٹی کے حکمران تو اتنے کمزور اور بزدل تھے کہ میمو گیٹ سکینڈل کو بھی نہ سنبھال سکے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اسی میں خوش تھی کہ اسے کھل کر لوٹ مار کرنے دی جائے باقی جو ادارہ جو کرنا چاہتا ہے‘ کرتا رہے۔ اسی دور میں ایک ریاست کے اندر کئی ریاستوں‘ جو پہلے سے چل رہی تھیں‘ نے پوری طاقت سے سر اٹھایا اور وہ آرام سے سب کچھ دیکھتے رہے۔ جب سے طالبان نے ڈرون حملے کے بعد دھمکیاں دی ہیں‘ حکومت میں ہر طرف دہشت پھیلی ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیر اعظم تک سب بنکرز میں چھپ گئے ہیں۔ کوئی ایک بھی نہیں جو باہر نکل کر قوم کی اس طرح رہنمائی کرے جیسے جنگ عظیم دوم میں برطانیہ کی چرچل نے کی تھی۔ جرمن طیارے لندن پر بم برسا رہے تھے لیکن چرچل ڈٹا ہوا تھا اور اس نے پوری قوم کا مورال بلند رکھا تھا۔ ہمارے یہاں اُلٹ ہو رہا ہے۔ سب خاموش، حکمران اپنے اپنے حفاظتی بنکرز میں، ہمارے ٹیکسوں سے اکٹھے کیے گئے اربوں روپے کی سکیورٹی ان کی اور ان کے بچوں کی حفاظت پر تعینات جبکہ خوفزدہ قوم اپنے قاتل کے انتظار میں‘ کہ کب وہ آئیں اور وہ سب بھی بھٹو کی طرح اپنی کمر پر کھردری رسّی سے ہاتھ سختی سے بندھوائیں، رات کی تاریکی میں منہ پر کالا کپڑا پہنیں، گلے میں تنگ پھندا لگوائیں اور بے بسی کی حالت میں اپنے بے رحم جلّاد سے کہیں… پلیز فنش اٹ!