ایران کے وزیرخارجہ کا وطن واپسی پر ہیرو جیسا استقبال دیکھ کر حیران ہوں ۔
وہ ایران کے کئی دہائیوں سے جاری نیوکلیئر پروگرام پر یورپی اور امریکی ملکوں سے ڈیل کر کے لوٹے ہیں اور پھر بھی لوگ ان کے گلے میں ہار ڈال رہے ہیں۔ ایران اب نیوکلیئر بم نہیں بنا سکے گا اور ایرانی عوام پھر بھی شاد ہیں اور گلیوں میں نعرے لگا رہے ہیں۔ پابندیاں اٹھیں گی، اربوں ڈالر‘ جو بنکوں میں پڑے تھے‘ واپس ہوں گے، تیل کی فروخت شروع ہوگی۔ ایرانی معیشت کچھ سنبھلے گی۔
ہم یہ کام کیوں نہ کر سکے؟ کیا ہمارے اندر یہ جرأت ہے‘ ہمارا کوئی وزیرخارجہ کشمیر یا نیوکلیئر مسئلے پر عالمی طاقتوں کے ساتھ کوئی ڈیل کرکے وطن لوٹے اور ہیرو بن جائے؟
یاد پڑتا ہے جنرل ایوب نے1965ء کی جنگ کے بعد تاشقند میں بھارتی وزیراعظم شاستری کے ساتھ معاہدہ کیا تو بھٹو صاحب نے نعرہ مارا کہ پاکستان کی عزت بیچ دی گئی۔ قوم سے کہا کہ وہ اس قومی راز سے پردہ اٹھائیں گے کہ جنرل ایوب نے کیسے ہندوستان کو کشمیر بیچ دیا‘ حالانکہ جنگ شروع کرانے کی بڑی وجہ خود بھٹو صاحب تھے جنہوں نے جنرل ایوب کو مشورہ دیا تھا کہ بھارتی کشمیر میں کمانڈوز بھیج کر قبضہ کر لیا جائے کیونکہ کشمیری بغاوت کے لیے تیار ہیں۔ کشمیریوں نے ہی پاکستانی کمانڈوز کو پکڑ کر بھارتی فوجوں کے حوالے کر دیا اور ساتھ ہی بھارت نے لاہور اور دیگر محاذ کھول دیے۔ آخر جنگ ختم کرانے کے لیے روس کی مدد لینا پڑی۔ یہ راز کئی دہائیوں تک راز ہی رہا کہ بھٹو صاحب کے پاس کون سا ایسا ثبوت تھا کہ جنرل ایوب پاکستان کا سودا کر آئے تھے۔ بھٹو صاحب کو داد دیں کہ انہوں نے مرتے دم تک یہ راز باہر نہ نکالا‘ شاہ محمود قریشی ہوتے تو دوسرے دن ٹی وی چینل پر دس اینکرز کو انٹرویوز دے رہے ہوتے۔
2012ء میں بھارتی صحافی کلدیپ نائر نے اپنی کتاب 'Beyond The Lines‘ میں اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ بھارتی وزیراعظم چاہتے تھے کہ پاکستان ہندوستان کے ساتھ معاہدہ کرے کہ وہ جنگ نہیں کرے گا۔ جنرل ایوب بھی اس حق میں تھے لیکن بھٹو اس معاہدے کے خلاف تھے۔ مذاکرات کے دوران جنرل ایوب نے اپنے ہاتھ سے اس معاہدے کے ڈرافٹ پر لکھ دیا تھا کہ پاکستان اور بھارت بغیر مسلح لڑائی کے کشمیر کے معاملے کو حل کریں گے۔ بھٹو صاحب کو اس کا پتہ چل گیا تھا اور یہ وہ راز تھا جس کا صرف بھٹو کو علم تھا۔ بھٹو بھارت سے کیوں جنگ چاہتے تھے؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے جس کے تانے بانے ان کے اپنے والد سر شاہنواز بھٹو اور ان کی ریاست جونا گڑھ سے ملتے ہیں۔ ایک اور ڈیل محمد خان جونیجو کے دور میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا پر ہوئی تھی‘ جب وزیرخارجہ زین نورانی اس معاہدے پر دستخط کر کے لوٹے تھے۔ وہ معاہدہ جنرل ضیاء اور ان کے جرنیلوں کو پسند نہیں آیا؛ چنانچہ جونیجو کو گھر بھیج دیا گیا۔ جنرل ضیاء اس معاملے کو لٹکانا چاہتے تھے؛ تاہم اس وقت پاکستان کی سیاسی قیادت نے سمجھداری کا مظاہرہ کر کے جونیجو کی حمایت کی تھی۔ ہمارے
جنرل سمجھتے تھے کہ جلدی کی گئی تھی ورنہ وہ افغانستان میں سے اور بہت کچھ نکال سکتے تھے۔
نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم واجپائی کے ساتھ لاہور میں کشمیر پر ایک بہتر ڈیل کی تھی جسے اگلے دن اس وقت کی فوجی قیادت نے کارگل کی پہاڑیوں پر ختم کر دیا ۔ خود جنرل مشرف بھی آگرہ میں ایک ڈیل کرنے گئے تھے جو دو تین لفظوں کی وجہ سے نہ ہوسکی۔ بھارتی چاہتے تھے کہ پاکستان دہشت گردی کی مذمت کرے۔ انکار کیا کہ عوام نہیں مانیں گے اور یوں وہ موقع ضائع ہو گیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ2004ء میں اس سے کہیں آگے بڑھ گئے۔ تنظیموں کو بین کیا گیا لیکن اس وقت جنرل مشرف کو جرأت نہ ہو سکی کہ بہادروں کی طرح حالات کا سامنا کرتے اور کہیں بھی ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کرتے۔ ایک اور ڈیل ہوتے ہوتے رہ گئی جو جنرل مشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان تقریباً طے پاچکی تھی اور امید تھی کہ اس سے پاکستان اور بھارت کشمیر کا مسئلہ حل کر سکیں گے۔ اس کی جو تفصیلات سامنے آئی تھیں‘ ان سے لگتا تھا کہ وہ بہتر ڈیل تھی جس پر دونوں ملکوں کے عوام مطمئن ہوسکتے تھے۔
تو خرابی کہاں ہے ؟
غالباً ہمارے لیڈروں میں جو عوام کے پیچھے چلتے ہیںاور انہیں اپنے پیچھے چلانے کی سکت نہیں رکھتے۔ کوئی چارلس ڈیگال کی طرح اپنے عوام کے سامنے ڈٹ جانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ ہم میں تو اتنی سکت بھی نہ تھی کہ قوم کو بتا سکتے کہ ڈرون حملے ہماری اپنی بقا کے لیے ضروری تھے‘ اسی لیے امریکیوں کو ہماری قیادت کہہ رہی تھی کہ حملے جاری رکھے جائیں۔ اس جھوٹ اور خوف کا نتیجہ یہ ہے کہ آج نہ تو پاکستانی ریاست ڈرون حملوں کی مدد سے بچ سکتی ہے اور نہ ہی ڈرون حملوں کے بغیر۔
اس کا ذمہ دار کون ہے ؟
ہماری قیادت کو پہلے دن سے ہی قوم کو بتانا چاہیے تھا کہ ہمارے مفاد میں کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان نوجوانوں کو سڑکوں پر لا چکے ہیں جو اپنے ہی پاکستانی ڈرائیورز کو سڑکوں پر پیٹ رہے ہیں۔ کچھ والدین کہنے لگے کہ ہم تو سمجھے تھے کہ عمران خان ہمارے بچوں کو کوئی نیا مستقبل دیں گے۔ حیرانی کی بات ہے کہ شاہ محمود قریشی کا بیٹا زین قریشی امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے دفتر میں کام کرتا رہا ہے لیکن وہ ہمیں امریکہ دشمنی کی کہانیاں پڑھا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے ہمیں ایران سے سبق سیکھنا چاہیے۔
عمران خان کسی وقت سینیٹر صغریٰ امام سے بھی فارن پالیسی پر گفتگو کر لیں۔ وہ یقینا شاہ محمود قریشی اور خورشید قصوری سے بھی بہت کچھ جان چکے ہوں گے لیکن ایک اور نکتہ جاننے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ جو باتیں پاکستان امریکہ تعلقات پر صغریٰ امام نے سینیٹ کی کمیٹی میں پچھلے ہفتے کی تھیں۔ صغریٰ امام درست کہتی ہیں کہ پاکستانی لیڈرز کبھی بھی امریکہ سے اپنے مفادات کے لیے ڈیل نہیں کر سکے اور اس میں امریکیوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا ۔ امریکی سمجھدار ہیں کہ جو پیسہ پاکستان کا حق بنتا ہے‘ بھیک اور امداد کی شکل میں دیتے ہیں اور ساتھ شرائط بھی رکھتے ہیں۔
اسی اجلاس میں انکشاف ہوا کہ پاکستان کو نیٹو سپلائی کی مد میں ان دس برسوں میں ایک ڈالر بھی نہیں ملا۔ جن ڈھائی سو ڈالروں کی بات ہوتی ہے وہ کراچی پورٹ چارجز اور مزدوروں کی اُجرت ہوتی ہے۔ پاکستان نے ''گڈ وِل‘‘ کے نام پر نیٹو سپلائی کی مفت میں اجازت دے رکھی ہے۔ جب پاکستان نے آٹھ ماہ نیٹو سپلائی بند کی تھی تو دوسرے ملکوں نے 1700 سو ڈالر فی کنٹینر کرایہ لیا تھا۔ صغریٰ امام کا کہنا بجا ہے کہ اگر پاکستان نے وہ سترہ سو ڈالرز فی کنٹینر کرایہ لیا ہوتا تو کیا ہمیں آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالرز کی ضرورت تھی؟ یوں ہم بھکاری بنے ہوئے ہیں ۔ صغریٰ امام کا مشورہ بُرا نہیں ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے جو بتیس ارب ڈالرز کا سامان پاکستان کے راستے نکالنا ہے اس کے لیے دس ارب ڈالر لینے چاہئیں۔
ایک روپیہ ٹیکس نہ دینے والے لیڈرز اور ان کے ''غیرت مند‘‘ حامی اس دس ارب ڈالرز لینے کے مشورے کو بے غیرتی سمجھیں گے اور خود یہ غیرت مند لیڈرز اپنے بچوں کو پہلے ہی بڑی سمجھداری سے پاکستان سے نکال کر برطانوی اور امریکی پاسپورٹ دلوا چکے ہیں جب کہ ہم نے اپنے بچوں سمیت اس ملک میں ہی رہنا ہے !