آخر کار سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایف آئی اے نے آئی ایس آئی سے متعلق اصغر خان کیس میں سیاستدانوں میں بانٹی گئی رقوم کی تفتیش شروع کر دی ہے۔اس سکینڈل کے اہم ملزم جنرل اسلم بیگ نے کہاہے کہ پنڈورا بکس کھلے گا تو بات دور تک جائے گی۔اسے سابق آرمی چیف کی طرف سے مشورہ سمجھا جائے یادھمکی؟بہرحال، یہ کام بھی اسی ملک میں ہوتا ہے کہ جس شخص نے سپریم کورٹ میں تسلیم کیاکہ اس نے سیاستدانوں میں پیسے بانٹے تھے، وہی قوم کو ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔دراصل قوم کوپنڈورا بکس کھلنے سے ڈراناہماری عادت بن گئی ہے۔
گزشتہ ماہ بلیو پاسپورٹ کا سکینڈل سامنے آیاکہ کیسے طاقتور لوگوں نے سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کی مہربانی سے دو ہزار سے زیادہ سرکاری پاسپورٹ بنوالیے تھے جنہیں اب منسوخ کیا گیا ہے۔ رحمٰن ملک نے نہ صرف سرکاری پاسپورٹ لندن میں اپنے بیٹے کو بھی گھر کے پتے پر بھیج دیا تھا بلکہ اپنی بھابی اوربھتیجوںکو بھی سرکاری افسر کا درجہ عطافرمادیا۔
چودھری نثار علی خان سے ان دوہزارافراد کے نام سامنے لانے کے لیے کہاگیا تو فرمایا:اگر یہ نام بتادیے تولوگ سر پکڑکر بیٹھ جائیں گے اورپنڈورابکس کھل جائے گا، یوں ہمیں سر پکڑنے سے بچانے کے لیے چودھری نثار نے وہ نام نہیں بتائے۔ ڈی جی پاسپورٹ بھی ڈر گئے اور نام سامنے لانے کی جرأت نہ کر سکے۔ وہ بھی ہمیں ڈراتے ہیں کہ نام بتا دیے توپنڈورا بکس کھل جائے گا۔اب وہ اس فائل پر پہرہ دے رہے ہیں اوریہ نہیں بتاتے کہ ان کے اپنے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ وہ فائل گم کر دی جائے۔حقیقت یہ ہے کہ جب سیاستدانوں اوردوسرے کرپٹ لوگوں کے نام چھپانے ہوں تو اعلیٰ افسر پوری وفاداری دکھاتے ہیں۔
جنرل بیگ بھی یہی کہتے ہیں کہ تحقیقات آگے بڑھائی گئی تو پنڈورا بکس کھل جائے گا۔سوال یہ ہے کہ اگر پنڈورا بکس کھلے گا توکیااس میں سے کسی گائوں کے کسی محمد بخش یا فقیروکے راز فاش ہوں گے کہ انہوں نے آئی ایس آئی سے پیسہ لے کر الیکشن لڑا؟اورکیا بلیو پاسپورٹ بنوانے والے دوہزارافراد میں میرے گائوں کے کسی آدمی کانام بھی آئے گا؟ قطعاً نہیں۔ تو مجھے یامیرے گائوں کے لوگوں کو وزیر داخلہ اورڈی جی پاسپورٹ کی ہاں میں ہاں ملانے کی کیاضرورت ہے؟آخر ہمیں چوروں سے کیوں ڈرایا جارہاہے؟
ہمیں دنیا کی خوفزدہ قوم بنا دیا گیا ہے، ہربات پر ہمیں ڈرایا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہرایک نے بندوق اٹھالی ہے۔ریاستی ادارے پہلے ہی کرپٹ تھے،اب خوفزدہ بھی ہوچکے ہیں۔کرپٹ لوگوں کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ کرپشن بھی کرتے ہیںاوردھڑلے سے ٹی وی اوراخبارات میں ہمیں ڈراتے بھی ہیں۔۔۔ اور ہم ڈربھی جاتے ہیں!
جنرل بیگ ہمیں ڈرا رہے ہیں۔جناب، آپ کا پول تو کھل چکا اورآپ سپریم کورٹ میں مان بھی چکے ہیں،اب آپ یہ بھی بتادیں 1990ء کی دہائی میں یونس حبیب کے مہران بنک میں آپ کے اکائونٹ سے ڈھائی لاکھ ڈالر کس کام کے لیے امریکہ بھیجے گئے تھے اوروہاں آپ کیا خرید و فروخت کر رہے تھے؟سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کوکن خدمات کے عوض آپ کے اکائونٹ سے رقوم بھیجی جارہی تھیں؟ایک میجرکوآپ کے اکائونٹس سے ادائیگیاںکیوںکی جارہی تھیں؟آپ کی اپنی تنظیم کو جگہ جگہ سے کیسی ادائیگیاں ہورہی تھیں اوریہ پیسہ آپ کے اکائونٹ میں کیونکر منتقل ہورہاتھا؟ایک سابق آرمی چیف ریٹائرمنٹ کے
بعد1990 ء کے ابتدائی برسوں میں لاکھوں ڈالرامریکہ میں ایک شخص کو کیسے بھیج رہا تھا؟میرے پاس مہران بنک میںجنرل بیگ کے اکائونٹ کی تمام تفصیلات موجود ہیں۔انہیں اس سلسلے میں عدالت سے جو جھڑکیاں پڑ چکی ہیں،وہ خود جانتے ہیں۔ان کے خلاف گواہی کسی اور نے نہیں ان کے اپنے ساتھی جنرل اسد درانی نے دی اوربتایا تھا کہ جنرل بیگ نے انہیں ہدایات دی تھیںکہ کس کو پیسے دینے ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ عدالت میں جنرل بیگ حیران تھے کہ انہوں نے کیاغلط کیاتھاجس کی وجہ سے انہیں عدالت بلایا گیا؛حالانکہ وہ تواپنے تئیں ملک کی خدمت کر رہے تھے اورانہیں ایوانِ صدر کی طرف سے ہدایات دی گئی تھیں کہ بینظیر بھٹوکسی صورت بھی دوبارہ اقتدار میں نہ آئیں کیونکہ وہ سکیورٹی رسک ہیں۔
کیا کبھی جنرل بیگ نے سابق صدرغلام اسحاق خان سے پوچھاتھا کہ سر!آپ نے 1990ء کے انتخابات میںتو بینظیر بھٹوکوہرانے کے لیے تن،من،دھن صرف کردیاتھااور سیاستدانوں میں مال بھی بٹوایاتھالیکن تین برس بعد ان کے شوہر آصف زرداری سے نگران وزیرکا حلف بھی لے لیاتھا؟ان کے ساتھ نئی ڈیل کیوں کی جارہی تھی؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ غلام اسحاق خان(ان کے مداحوں سے معذرت جوانہیں فرشتہ بنانے پر تلے رہتے ہیں)جنرل بیگ سے زیادہ سمجھدارسیاستدان نکلے کہ سب کواستعمال کیااورجب گرم مٹی پرپائوں جلنے لگے توفوراً دشمنوں کو بھی دوست بنالیاجبکہ بیگ صاحب آج تک پیشیاں بھگت رہے ہیں۔
اس کھیل میں سیاستدانوں اور بعض جرنیلوں کے ساتھ ساتھ کچھ بیوروکریٹس بھی اپنے کارنامے دکھا رہے تھے۔ایوان صدرکے ایک طاقتورمکین روئیداد خان کے بارے میں یونس حبیب نے عدالت میںانکشاف کیا تھا کہ موصوف نے انہیںکراچی سے بلا کرکہاتھاکہ پیسہ دو۔انکارپردھمکیاں دیںاورکراچی ایئرپورٹ پر اترتے ہی ایک ادارے کے ارکان نے یونس حبیب کو اٹھا لیا تھا۔ میں حیران ہوں کہ وہ کون سا پنڈورا بکس ہے جو ابھی کھلنا باقی ہے اورجس سے ہمیں ڈرایا جارہا ہے۔کیایونس حبیب نے اپنے بیان میں تفصیل سے نہیں بتایا تھاکہ کیسے انہوں نے حبیب بنک کے بعد مہران بنک قائم کرنے کے لیے سب کو مال کھلایا تھا؟ وزیراعظم کے ایک مشیر کے برخوردارکا نام بھی اس فہرست میں موجود ہے جنہیں رقم ملی تھی کیونکہ بنک کا لائسنس ان کی مرضی کے بغیر نہیں مل سکتا تھا۔کیا یونس حبیب وہ تفصیل نہیں بتا چکے کہ کیسے ایک وزیراعظم کے دفتر سے ایک فون کال پر ان کے رشتہ داروںاوردوستوں کو مہران بنک سے قرضے دلوائے گئے اور راتوں رات وہ رقوم ایک ادارے کے اکائونٹ میں منتقل ہوگئی تھیں۔
جنرل اسد درانی نے بھی سب کچھ بیان کر دیا تھااور ان کا بیان حلفی ریکارڈ پرموجود ہے۔انہوں نے ان تمام سیاستدانوں کے نام بھی بتادیے تھے جنہیں رقوم دی گئی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو بہت بعد میں پتا چلا کہ یونس حبیب تو بہت بڑی پارٹی ہے جس سے اس وقت کے وزیراعظم اور بعض جرنیلوں نے مال حاصل کیا لیکن وہ پیچھے رہ گئے۔ چنانچہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی توانہوں نے بھی یونس حبیب سے خوب مال کمایا۔ گویا اگر ایک سابق وزیراعظم اورجنرل بیگ نے یونس حبیب کے حبیب بنک کو بینظیر بھٹو کے خلاف استعمال کیا تو پیپلز پارٹی والوں نے اسی یونس حبیب کے مہران بنک کو کھل کر لُوٹا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دوراقتدار میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا تھا۔
پہلے حبیب بنک اور پھر مہران بنک کو لوٹنے کے بعد بنکوںکو لوٹنے کی روایت پڑگئی۔ جنرل مشرف اورشوکت عزیزکے دورمیں بڑے بڑے لوگوں نے ساٹھ ارب روپے کے قرضے معاف کرائے تو پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں ایک سو تیس ارب روپے معاف کر دیے۔ زرداری صاحب اورگیلانی صاحب کے دوستوں کے قرضے نیشنل بنک اور دوسرے مالی اداروں سے معاف کرائے گئے۔ فہمیدہ مرزا نے اپنی مرزا شوگر مل کے 87 کروڑ روپے پانچ بنکوں سے معاف کرالیے۔
ابھی اور کون سا پنڈورا بکس کھلنا باقی ہے جس سے ہمیں ڈرایا جارہا ہے۔اگر یہ کھل بھی گیاتو کون سا آسمان گر پڑے گا؟یہ پنڈورا بکس کھلنے سے کرپٹ سیاستدان اور بعض سابق جرنیل ہی ڈرتے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں جی بھر کے مال بنایا اوراب بڑے معزز بن کرقوم کو پنڈورا بکس کھلنے سے ڈراتے ہیں!
ہمیں اپنے کرتوتوں کے پنڈورا بکس کھلنے سے ڈرا ڈرا کے جوکمال اورکرتب ہمارے یہ کرپٹ لیڈر دکھاتے ہیں، وہ تو بچوں کی کہانیوں کے بڑے افسانوی کردار عمروعیار اور سامری جادوگر بھی نہ دکھا سکے تھے!