قوم کو مبارک ہو کہ اب سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کے سربراہ بے نظیر بھٹو کے سکیورٹی ایڈوائزاور پانچ سال تک اس ملک کے وزیرداخلہ رہنے والے رحمن ملک ہوں گے۔ اگر رحمن ملک اتنے ہی قابل تھے تو پھر یہ کیوں کر ہوا کہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے ایک چوک میں لہولہان پڑی تھیں اوررحمن ملک انہیں چھوڑکر دوسری گاڑی میں بلاول ہائوس اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔کچھ ہی عرصہ بعد وہ ملک کے وزیرداخلہ بنادیے گئے۔
سوچتا ہوں، اگر سینٹ کمیٹی کا کوئی رکن قائمہ کمیٹی کے ایجنڈے پر یہ سوال رکھ دے کہ رحمن ملک کی وزارت نے 124ملین ڈالر کے سیف سٹی پراجیکٹ کی منصوبہ بندی کیسے کی تھی اور اس میں کس کس نے کتنا مال کمایا تھا، تو کیسا رہے گا ؟
کمیٹی کے سامنے ان کے دور کے سابق سیکرٹری داخلہ قمرالزمان چودھری کو بھی بلا یا جائے اور اگر گواہی کی ضرورت پڑے تو میںیہ بتانے کے لیے حاضر ہوں کہ قمرالزمان چودھری نے خود مجھے ترکی کے ایک ہوٹل کی لابی میں کافی پیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ حیران ہیں کہ ان کے سیکرٹری داخلہ بننے سے پہلے رحمن ملک نے ایک چینی کمپنی کو 68 ملین ڈالر کی پیشگی ادائیگی کروا دی تھی جبکہ اس نے کوئی کام نہیں کیا تھا اور وہ کمپنی یہ رقم لے کرچلی گئی تھی۔ اس پراجیکٹ کا مقصد اسلام آباد کو دہشت گردوںکی کارروائیوں سے محفوظ رکھنا تھا۔اس کے لیے ایک چینی بنک سے 124 ملین ڈالرکا قرضہ لے کراسی میں سے 68 ملین ڈالرکی پیشگی ادائیگی کی گئی تھی۔چینی کمپنی یہ رقم لے گئی اور ہم 2009 ء سے آج تک 124ملین ڈالر کا قرض سود سمیت ادا کر رہے ہیں۔ یہ تھا قوم کے مہربان رحمن ملک کی منصوبہ بندی کاکمال!
اگرکسی دوسرے رکن کو سوجھے تو وہ ایجنڈے میں یہ آئٹم ڈال دے کہ جناب رحمن ملک کی وزرات نے سرکاری سطح پردوہزارسفارتی پاسپورٹ کس قانون اور منصوبہ بندی کے تحت غیرقانونی طور پر بڑے بڑے لوگوں کے ہاتھ فروخت کیے تھے؟انہوں نے کس طرح پہلے اپنے خاندان کو سرکاری اور سفارتی پاسپورٹ جاری کیے،پھراپنے کاروباری بھائی اور ان کے بیوی بچوں کو بھی یہ پاسپورٹ جاری کیے اوراپنے بیٹے کو لندن میں سرکاری پاسپورٹ بھیجا کہ بیٹا کیا یادکرے گا!
سینٹ کاکوئی اوررکن گرے فون ٹریفک پریہ آئٹم ڈال سکتاہے کہ کس کمال ہوشیاری سے مختلف شعبوں میں وارداتوں سے کروڑوں ڈالر کمائے گئے کہ کسی کو ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی اور ایف آئی اے میں بیٹھے سرکاری غلاموں کی مدد سے اپنے سب پیاروں کو خوب عیاشی کرائی گئی۔ ایک اور ایجنڈا آئٹم کے ذریعے یہ پوچھاجاسکتاہے کہ ملک صاحب نے کیسے وزیراعظم گیلانی کے ساتھ مل کر چار لاکھ سے زائد اسلحہ لائسنس جاری کیے اورلائسنس ہولڈروں کے گھروں میں کس منصوبہ بندی کے تحت اسلحہ پہنچایا گیا۔کبھی گلی محلے میں کوئی چاقو بھی نکال لیتا تھا تو شور مچ جاتا تھااور اب ہرگھر کی چھت سے تڑٖ تڑگولیاں چلتی ہیں اورکسی میں بولنے کی ہمت نہیں۔
کسی دن رحمن ملک مناسب سمجھیں تو کمیٹی ممبران کے ساتھ شیئرکریں کہ وہ مشرف دور میںکس کمال منصوبہ بندی سے کرپشن کے مقدمات سے بچنے کے لیے طالبان کا روپ دھارکر افغانستان کے راستے فرارہوکرلندن پہنچ گئے تھے۔ یہ کہانیاں وہ لندن میں ایجویئر روڈ پر واقع اپنے ذاتی فاسٹ فوڈ ریسورنٹ میںبیٹھ کر ہرآنے جانے والے کو سنایاکرتے تھے۔اس سے ان کی طرح کے دوسرے منصوبہ سازوں کوپتاچلے گاکہ لوٹ مار کے بعد ملک سے بھاگنا ہولیکن آپ کانام ای سی ایل پر ہو توملک سے کیسا روپ روپ دھارکر فرارہوجاسکتاہے۔ایک سوال یہ بھی اٹھایاجا سکتا ہے کہ انہوں نے کس مہارت سے اپنے جوان بیٹے کو لندن سے بلوا کر سندھ حکومت کامشیر لگوایاتاکہ وہ ابھی سے سرکاری مال پرعیاشی کرنا سیکھے اوراس بدقسمت قوم کو لیڈ کرے۔
حیران ہوں کہ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان چیئرمین نادرا کے دوبڑے''سکینڈلز‘‘سامنے لائے جن کے بعد انہیں سزا ملنی ضروری تھی۔ایک یہ تھاکہ انہوں نے پاسپورٹ میں یہ کیوں نہیں لکھا تھاکہ وہ سرکاری ملازم یا کینیڈا کے شہری ہیں ۔اتنے بڑے ''جرائم‘‘ پر ایف آئی اے کے ایک بدنام زمانہ ڈپٹی ڈائریکٹرکی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ طارق ملک کو ٹائٹ کریں۔طارق ملک نے جواب دیا کہ اس وقت فارم میں اس طرح کا کوئی خانہ نہیں تھا تو پھر الزام لگا کہ آپ نے فارم میں یہ نہیں لکھا کہ آپ سرکاری ملازم ہیں۔اس کا جواب انہوں نے یہ دیاکہ میںکنٹریکٹ پر تھا۔ لیکن چودھری صاحب نے ایف آئی اے کو دوہزار غیرقانونی پاسپورٹس کا سکینڈل اور سیف سٹی پراجیکٹ سکینڈل تفتیش کے لیے کیوں نہیں بھیجے؟اس ملک کے 68 ملین ڈالر چینی لے گئی لیکن چودھری صاحب اس پر بھی خاموش ہیں۔
سینٹ کے اجلاس میں جب پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے چودھری نثارکومخاطب کرکے کہا کہ وہ امریکہ کو طعنے دینے سے پہلے اپنے بیوی بچوں کے امریکی پاسپورٹ واپس کر دیں تو اس پر رحمن ملک اچھل کرکھڑے ہوئے اور مطالبہ کیاکہ وہ چودھری نثار کی شان میں گستاخی پر معذرت کریں؛چنانچہ سعید غنی کو فوراً الفاظ واپس لینے پڑے۔ آخر رحمن ملک سے کون ٹکر لے سکتاہے؟
کیا اس ملک کو ڈی ایم جی گروپ کبھی چلنے دے گا؟ پہلے وزیراعظم ہائوس میںبیٹھے کشمیری ڈی ایم جی افسران نے طارق ملک کے خلاف سازش تیار کی اور اس پر عملدرآمد ایک اور ڈی ایم جی افسر، سیکرٹری داخلہ شاہد علی خان سے کراتے ہوئے راتوں رات انہیں برطرف کردیاگیا۔ بیوی کوجگاکر میاں کی برطرفی کی دستاویزات وصول کرائی گئیں،شاید اس رات کے بعداگلا دن طلوع نہیں ہونا تھا۔رہی سہی کسر ڈی جی ایف آئی اے سعود مرزا نے پوری کر دی کہ طارق ملک جس نے نادراکو 17.5 ملین ڈالر کما کر دیئے‘ کو ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کے ہاتھوں ذلیل کرایا۔سعود مرزا پانچ فروری کو ریٹائر ہورہے ہیں۔
اب موصوف شام کوگالف کھیلیں گے اور رات کو ٹی وی شوز دیکھ کر ملک کی تباہی وبربادی پر دوستوں سے گفتگو کریں گے لیکن یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ انہوں نے ملک کی خدمت کرنے والے افسرطارق ملک کواس لیے ذلیل کرایا تھاکہ وہ ڈی جی کے عہدے پر چند دن اورکام کرسکیں۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ طارق ملک بھاگ کیوں گئے، لڑتے رہتے۔ حیرت ہے کہ یہ طعنہ زنی وہ لوگ کررہے ہیںجوایک سپاہی کے سامنے کھڑے ہوکر بھی بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ جس کی بیٹی کو فیصل آباد سے فون پر دھمکیاں ملنا شروع ہوجائیں وہ بھلا کیسے اورکتنی دیر تک کھڑارہ سکتا ہے؟ جس کامیڈیا، عدالت ، سیاسی پارٹیاں اور سول سوسائٹی ساتھ چھوڑ جائے وہ کیسے اکیلا لڑ سکتا ہے؟
اور پھریہ بھی تو بتائیں کہ طارق ملک کیوںلڑے؟ کس کے لیے لڑے؟کیااس ملک کے لیے لڑے جس کے کرپٹ حکمران کرپٹ بیوروکریسی کے ساتھ مل کر قومی دولت لوٹ رہے ہیں اور عوام بقول شیخ رشید کے ستو پی کر سو رہے ہیں؟
جب سے طارق ملک کے بارے میں بیٹی کو فون پر دھمکیاں دینے کی بات سامنے آئی ہے مجھے یاد آیا کیسے چوہدری نثار علی خان نے مجھے دکھ کے ساتھ بتایا تھا جب وہ بیوی بچوں کے ساتھ جنرل مشرف دور میں گھر میں قید تھے اور بچے سکول جانے لگتے تو فوجی نہ صرف ان کی تلاشی لیتے تھے بلکہ ان کی پہلی جماعت میں پڑھنے والی بیٹی کے سکول بیگ تک کی تلاشی لی جاتی تھی ۔
آج اسی وزیرداخلہ کے دور میں طارق ملک سے استعفیٰ دلوانے کے لیے ان کی بیٹی کو فون پر دھمکیاں دی گئی ہیں!
ہم شاید غلط سنتے تھے کہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں ۔
یہ ہے چوہدری نثار علی خان کا رحمن ملک سے لے کر طارق ملک تک کیا گیا عدلِ جہانگیری جو مدتوں یاد رہے گا !