جب پورا ملک طالبان طالبان کھیل رہا ہے، اس وقت چند ہوشیار اور سمجھدار کاروباری اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ سمجھدار کاروباری چین کے ایک مشہور لیڈر کے قول کو پڑھے بغیر اس پر عمل کرتے ہیں کہ جب معاشرے میں شدید بحران چل رہا ہو تو سمجھدار اسے توانائی اور فائدے میں بدل دیتے ہیں‘ اس لیے جب سب اپنے اپنے کھیل میں مصروف ہیں‘ اس وقت دو بھائی خاموشی سے اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ایسے ہی کھیل کی کہانی آج میرے پاس موجود ہے۔
نیا سال شروع ہوتے ہی آٹھ اور نو جنوری کو نج کاری کمیشن کے بورڈ ممبرز کا ایک اجلاس بلایا گیا جس کی صدارت اس کے نئے چیئرمین محمد زبیر عمر نے کی۔ انہیں جس طرح راتوں رات بورڈ آف انویسٹمنٹ سے ہٹا کر نج کاری کمشن کا سربراہ بنایا گیا‘ اس سے مجھے پیپلز پارٹی دور کے آخری ماہ میں وزیرخزانہ حفیظ شیخ کی جگہ سلیم مانڈوی والا کو لانا یاد آ گیا۔ شاید یہ اتفاق ہو کہ ایک ماہ کے لیے وزیرخزانہ لگنے سے پہلے سلیم مانڈوی والا بھی محمد زبیر عمر کی طرح بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین تھے۔ شاید ترقی کے لیے ضروری ہے کہ پہلے بورڈ آف انویسٹمنٹ کا چیئرمین لگا جائے۔ جو کام سلیم مانڈوی والا نے ایک ماہ میں وزارت خزانہ میں کیا اُسے تاریخ کبھی نہیں بھولے گی۔ زرداری صاحب کے دوست وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کے ساتھ مل کر انہوں نے قومی خزانے کو برباد کرنے کے نئے ریکارڈ قائم کیے، جو جلد نہیں توڑے جا سکیں گے۔ یاد پڑتا ہے اب جس طرح زبیر صاحب نے دو دن مسلسل نج کاری کمشن کا اجلاس بلایا تھا کہ کیا چیز کس کو اور کب بیچنی ہے ایسے ہی سلیم مانڈوی والا نے بھی دو دن مسلسل کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کا اجلاس بلایا تھا جس میں نرگس سیٹھی برابر کی شریک تھیں جو اس وقت کابینہ کی سیکرٹری تھیں کہ لوٹ لو جو لٹ سکتا ہے۔ کل اٹھائیس ایجنڈا آئیٹم سامنے لائے گئے اور ان میں سے بیس سمریاں ڈاکٹر عاصم اپنی وزارت کی لائے تھے جس میں 45 ارب روپے کا ایک اور فراڈ ایل این جی کا معاہدہ بھی شامل تھا ۔ جتنی بربادی ڈاکٹر عاصم نے وزارت پٹرولیم سے لے کر پاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل تک کی وہ اتنی جلدی بھلائی جانے والی نہیں ہے۔
خیر بات ہورہی تھی، محمد زبیر کی جنہوں نے دو دن اس اجلاس کی صدارت کی جو نواز لیگ کے میڈیا سیل میں کام کرتے کرتے اب یک دم انرجی، انویسٹمنٹ اور آخر پر نج کاری کے ماہر بن گئے ہیں۔ حالانکہ وہ بننا چیئرمین ایف بی آر چاہتے تھے۔ ایجنڈے پر سب سے پہلے 2012ء کے آڈٹ اینڈ اکائونٹس کی رپورٹ پیش کی گئی۔ نج کاری کمشن بہت سمجھدار ہے کہ وہ ایک پرائیویٹ پارٹی کو لاکھوں روپے ادا کر کے ان سے مرضی کی رپورٹ تیار کروا کے اپنے بورڈ سے منظور ی لے کر سب اچھا کی رپورٹ لے لیتا ہے۔ سب لوٹ مار کا حساب ختم۔ جب آڈیٹر جنرل موجود ہے تو پھر پرائیویٹ پارٹی کو کیوں لاکھوں روپے ادا کر کے آڈٹ کرایا جاتا ہے؟ جواب آسان ہے کہ اپنی مرضی کی رپورٹ لینی ہوتی ہے کہ سب اچھا ہے اور کسی کا کچھ نہیں بگڑتا ۔
اس اہم اجلاس میں سب سے بڑا ایجنڈا پی آئی اے کو بیچنا ہے۔ لہٰذا جو ارکان بیٹھے ہیں وہ باقی ایجنڈے پر اتنا غور نہیں کر رہے کیونکہ سب کو علم ہے کہ اصل کھیل تو اس میں کھیلا جانا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جلدی میں ایک اہم ایجنڈا آئیٹم سامنے لایا جاتا ہے کہ تین بینکوں میں جو حکومت پاکستان کے بقیہ شیئرز ہیں انہیں بیچ دیا جائے تاکہ کچھ مال پانی جمع کیا جائے۔ تجویز دی گئی کہ ان شیئرز کو بیچنے کے لیے ایک فنانشنل ایڈوائزر کاتقرر کیا جائے۔ اس پر بند کمرے کے اس اجلاس میں کسی سمجھدار نے کہا یہ مت کریں کیونکہ اس وقت مارکیٹ کے حالات اتنے بہتر نہیں ہیں کہ شیئرز کی اچھی قیمت لا سکیں۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ کچھ عرصہ انتظار کر لیا جائے جب ان شیئرز کی قیمت اوپر جائے گی تو پھر بیچ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی مارکیٹ میں اتنا پیسہ بھی نہیں ہے کہ وہ تین بنکوں کے اتنے بھاری شیئرز کو خریدنے کے لیے پیسہ نکال سکیں۔ بہتر ہوگا کہ ایک ایک کر کے ان شیئرز کو بیچا جائے اور پہلے مارکیٹ میں ان شیئرز کے لیے کچھ طلب پیدا ہونے دی جائے؛ تاہم جب بات یہاں تک پہنچی اور محمد زبیر نے دیکھا کہ یہاں تو معاملہ کچھ اور ہورہا ہے تو انہوں نے اپنی جگہ نج کاری کمشن کے ایک ممبر نصیرالدین کو بٹھایا اور کمرے سے نکل گئے۔ اندازہ کریں کہ تین بنکوں کے اربوں روپے کے شیئرز بیچنے کا ایجنڈا چل رہا ہے اور چیئرمین زبیر عمر کو کوئی ضروری کام پڑ گیا اور وہ چلے گئے۔ ان کے اجلاس سے جانے کے بعد نج کاری بورڈ نے فیصلہ کیا کہ حکومت کے ان تین بنکوں میں جو حصص ہیں انہیں مارکیٹ میں بیچ دیا جائے اور ایڈوائزر کا بھی تعین کیا جائے جو ان تین کیسز کو دیکھے۔ اس پر ایک کمیٹی بھی بنائی گئی جس کے ممبران میں ایک ممبر نج کاری کمشن نصیرالدین اور دوسرے چیئرمین نج کاری زبیر عمر کے بھائی منیر کمال کو بنایا گیا اور بنکوں سے بھی کچھ نمائندے لیے گئے جو ٹرانزیکشن کے معاملات کو دیکھیں گے۔
اس کے بعد ایک اور اہم ایجنڈا سامنے تھا۔ یہ ایجنڈا پاور کنسٹرکشن کارپوریشن کے حوالے سے تھا ۔ بورڈ کے ممبران کو اس پر ایک بریفنگ دی گئی جس میں اس کی پرانی تاریخ ، پراجیکٹ کے پس منظر اور سعودی عرب کی پاور مارکیٹ کے حوالے سے سب کچھ بتایا گیا کہ مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے۔ اس کی نج کاری کے حوالے سے بھی بحث شروع ہوگئی۔ بتایا گیا کہ اس کی نج کاری کا معاملہ مئی 2011ء میں شروع کیا گیا تھا تاہم نج کاری نہ ہوسکی اور بار بار درخواستوں کے باوجود دسمبر 2012ء تک اس کی نج کاری نہ ہوئی۔ نج کاری بورڈ کے اکثر ممبران کا خیال تھا کہ پاور کنسٹرکشن کی ٹرانزیکشن اس بنک کے ذریعے جاری رکھی جائے جو پہلے ہی اس میں کام کررہا ہے کیونکہ اسے اس کیس کی تاریخ کا علم ہے اور خرچہ بھی کم ہوگا۔ بورڈ نے پہلے سے موجود چھ پارٹیوںکا جائزہ لیا جنہوں نے اس کے لیے بولی دے رکھی تھی اور یہ سوال بھی اٹھا کہ بہتر ہوگا کہ نئے سرے سے پیش کش مانگی جائے۔ اس وقت پتہ چلا کہ بورڈ کے ممبراور نج کاری کمشن کے چیئرمین زبیر عمر کے بھائی منیر کمال کے اس پاور کنسٹرکشن کی نج کاری میں کچھ مفادات شامل ہیں۔ اس پر موصوف کھڑے ہوگئے اور اجلاس سے یہ کہہ کر باہر چلے گئے کہ آپ اس پر بات کرلیں۔ اچھا نہیں لگتا کہ جس سودے میں میرے کچھ مفادات ہیں‘ میں اس ایجنڈے میں بیٹھا رہوں۔ یوں ایک بھائی صدارت کررہا ہے، دوسرا بھائی نج کاری کمشن کا نہ صرف ممبر ہے بلکہ موصوف ایک بہت بڑے سودے میں شریک بھی ہیں ۔
جب تین بنکوں کے اربوں روپے کے حصص کو ابھی مارکیٹ میں بیچنے کا ایجنڈا چل رہا تھا تو نج کاری کمشن کے سربراہ اجلاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں، جب پاور کنسٹرکشن کی نج کاری کا معاملہ اٹھتا ہے تو دوسرا بھائی اٹھ کر چل پڑتا ہے کہ اس ڈیل میں ان کے اپنے مفادات ہیں۔ فیصلہ وہی ہوا جو ہونا تھا کہ نئے سرے سے پارٹیوں سے پیشکش مانگی جائے اور حکومت پاکستان کے اس کمپنی میں 88 فیصد شیئرز کو بیچ دیا جائے۔ منیر کمال اس بنک کے صدر رہے ہیں جسے ان کے بھائی زبیر عمر نے آٹھ جنوری کو دوبارہ ڈیل دی کہ اربوں روپے کی ٹرانزیکشن اس بنک کے ذریعے ہی ہوگی۔ حیرانی کی بات ہے اس پاور کنسٹرکشن کی نج کاری کے لیے تو پرانی چھ پارٹیوں کی بولیاں مسترد کر کے اب نئی پارٹیوں سے بولی مانگی جائے گی لیکن بینکوں سے یہ ٹرانزیکشن کرانے کے لیے نئی بولی نہیں مانگی جائے گی جس کے ذریعے یہ ٹرانزیکشن ہوگی بلکہ بنک وہی رہے گا جس کے صدر منیر کمال تھے۔
ہے کوئی جو اس راز سے پردہ اٹھائے کہ جنرل عمر کے دونوں ہونہار صاحبزادے اور سگے بھائی نج کاری کمشن میں کیا کھیل کھیل رہے ہیں، کیونکہ باقی پورا ملک تو طالبان طالبان کھیلنے میں مصروف ہے !!