صوفیوں اور محبت کرنے و الوں کی دھرتی سندھ میں بے بس اور کمزور ہندوئوں کے جلتے مندر دیکھ کر آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے ؟
چلیں، آپ جواب نہ دیں ۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مجھے کیا محسوس ہوتا ہے۔
1997ء میں ملتان میں نیا نیا انگریزی اخبار کے لیے رپورٹنگ کررہا تھا ۔ مجھے اسائنمنٹ ملی کہ میں لورالائی بلوچستان جائوں‘ جہاں 1992ء میں بابری مسجد گرانے کے خلاف ہونے والے فسادات میں ہندوئوں کے گھر جلائے گئے اور ہندو بچے اور عورتیں ماری گئی تھیں۔ میں حیران ہوا کہ پانچ برس بعد اب جانے کا کیا فائدہ؟ جو ہونا تھا‘ ہوچکا۔ جس نے جلنا تھا، وہ جل گیا۔ کون اب بچ گیا ہوگا جو میرے انتظار میں ہوگا کہ میں اس کی کہانی لکھوں۔
لورالائی میں کالج دور کا دوست ناصر عباس کالج میں پڑھا رہا تھا جو وہاں کے مقامی لوگوں کے بچوں کو جدید تعلیم دینے کے لیے بنایا گیا تھا اور واقعی اچھا کالج تھا اور اچھے دن تھے‘ ابھی بلوچستان میں سرائیکیوں، پنجابیوں اور اردو سپیکنگ استادوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع نہیں ہواتھا۔ رات کو ڈیرہ غازی خان سے بس پکڑی اور روانہ ہوگیا۔ لورالائی ایک چھوٹا لیکن خوبصورت شہر ہے۔ بس سٹینڈ سے دوست نے لیا اور شہر سے کچھ فاصلے پر واقع سکول اپنے ہوسٹل لے گیا۔ اگلے دن اس نے سکول سے چھٹی کی۔ ہم لورالائی کے مین بازار پہنچے تو لوگوں سے پوچھنا شروع کیا ۔ پہلے تو کسی کو سمجھ نہ آئی کہ ہم کس سے ملنا چاہتے ہیں؛ تاہم جب ہم نے بتایا کہ یہاں ہندوئوں کے گھر جلائے گئے تھے تو سب کو پانچ برس پہلے کا واقعہ یاد آگیا کہ کچھ لوگ اس آگ میں جل گئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہم ان گھروں کے سامنے کھڑے تھے۔ دروازے پر دستک دی تو ایک شخص باہر نکلا۔ اس نے حیران نظروں سے ہمیں دیکھا کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا ہم اس شہر میں اجنبی تھے۔
میں نے اسے بتایا آپ سے ملنا تھا ۔ وہ حیرانی سے بولا کیوں ملنا ہے؟ وہ گھبرا گیا تھا۔ اتنی دیر میں ناصر عباس نے کوئی بات سرائیکی میں کہی تو وہ چونک گیا ۔ پوچھا آپ سرائیکی ہیں؟ میں نے بتایا‘ جی۔ اس پر اس نے بھی سرائیکی میں گفتگو شروع کردی۔ وہ ہمیں گھر کے اندر لے گیا۔ اندر سے بھاگ کر چائے کا کہہ آیا ۔ کچھ بسکٹ اور پانی لایا اور چارپائی بچھادی۔ اب میرے لیے مسئلہ تھا کہ کیسے پوچھوں کہ آج سے پانچ برس ان کے گھر پر حملہ کیسے ہوا اور آگ کیسے لگائی گئی تھی۔آخر میں نے طویل اور بوجھل خاموشی توڑنے کا فیصلہ کیا اور کہا آپ کے اس گھر کو پانچ برس پہلے آگ لگائی گئی تھی۔ اس نے اچانک میری طرف دیکھا۔ آنکھیں درد سے بھر گئیں۔ لگتا تھا کوئی دریا بہہ نکلا ہو۔ میں نے اپنے آپ کو مجرم سمجھا کہ میں غلطی کر بیٹھا تھا۔
پتہ نہیں کتنی دیر خاموشی رہی۔ کافی دیر بعد وہ سنبھلا تو اتنا منہ سے نکلا کہ جی ہاں میرے کچھ معصوم بچے اس آگ میں جل گئے تھے۔ ان کی ساتھ گھر کی عورتیں بھی جل گئی تھیں۔ پتہ نہیں اسے کیسے خیال آیا‘ فوراً بولا لیکن میرا مطلب ہے اس میں آگ لگانے والوں کا کوئی قصور نہیں تھا ۔ میں حیران ہوا اور پوچھا کہ کیا مطلب؟ بولا‘ جس دن بابری مسجد کو گرایا گیا‘ اس کے اگلے دن ہم سب کے گھر جلائے گئے تھے۔ ہندوستان میں ہندو طاقتور تھے انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی تھی‘ یہاں مسلمان طاقتور تھے انہوں نے ہم سے اس کا بدلہ لے لیا۔ ہندوستان میں مسلمان ہندوئوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ ہندو اکثریت میں ہیں‘ یہاں ہم اقلیت میں ہیں ۔ وہاں مسلمانوں کو ہندوستانی نہیں سمجھا جاتا اور یہاں ہمیں پاکستانی نہیں سمجھا جاتا ۔ یہ دونوں ملکوں کے مسلمانوں اور ہندوئوں کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ملک میں ہونے والے کسی غلط کام کی سزا بھگتتے رہیں گے۔ ہمیں کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے۔
وہ اپنی کہانی سناتا رہا اور ہم چپ...
ہم صدیوں سے لورالائی میں رہتے ہیں۔ کاکڑ قیبلے سے تعلق ہے۔ ہم مقامی ہیں لیکن ہمیں کاکڑ کی بجائے اس دن سے ہندو سمجھنا شروع کر دیا گیا تھا جب اس علاقے میں افغانیوں نے افغانستان سے آکر بسنا شروع کیا ۔ ان افغانیوں نے ہمارے کاروباروں پر قبضہ کرنے کے لیے ہمیں ہندو بنادیا وگرنہ ہم پاکستانی اور کاکڑ ہیں ۔ جب لورالائی میں جلوس نکلا تو اس میں کسی مقامی نے ہندوئوں کے گھر پر پتھر نہیں پھینکا کیونکہ سب کو علم تھا کہ ہم کاکڑ ہیں اور ہمارا بھی اس زمین پر اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا ہے۔ جب جلوس ہمارے گھروں کے قریب پہنچا تو ان افغانیوں میں سے کسی نے اچانک ان ہندوئوں کے چند گھروں پر پتھر پھینکنے شروع کردیے۔ انہوں نے ہمارے گھروں کو آگ لگانی شروع کردی۔ گھر میں موجود چند عورتوں اور بچوں نے ڈر کر اس جگہ پناہ لے لی جہاں گندم محفوظ کی جاتی ہے تاکہ اگر لوگ گھر میں داخل ہوکر لوٹ مارکریں تو انہیں قتل نہ کریں۔ جب افغانی گھروں میں داخل ہوئے تو انہوں نے گھر کو خالی پاکر اسے آگ لگادی ۔ انہیں پتہ نہیں تھا کہ گھر میں عورتیں اور بچے چھپے ہیں ۔ یوں وہ سب گندم کے ساتھ جل گئے۔ کسی نے ڈر کے مارے آواز نہ نکالی کہ باہر نکلے تو ہجوم انہیں مار ڈالے گا‘ لہٰذا آگ نے انہیں جلا دیا۔
میں اور ناصر صدمے سے اس ہندو باپ کی آنکھوں سے ابلتے آنسو اس کی گالوں پر گرتے اور اپنے دل پر ٹپکتے محسوس کرتے رہے۔ اس نے خاموشی توڑی اور بولا‘ سائیں اب آپ بتائیں‘ اس میں اس ہجوم کا کیا قصور تھا۔ انہیں پتہ ہوتا اندر بچے اور عورتیں گندم کے گودام میں چھپے ہوئے ہیں تو وہ شاید آگ نہ لگاتے۔ وہ اتنے ظالم تو نہیں ہوسکتے کہ عورتوں اور بچوں کو زندہ جلاتے۔ ہمیں پتہ ہے اسلام بھی عورتوں، بچوں اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھانے سے منع کرتا ہے۔ اس لیے صاحب اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔
''تو پھر آپ سب کی جان کیسے بچ گئی؟‘‘
وہ بولا''جب گھروںکو آگ لگی تو ہم مرد‘ دکانوں پر تھے۔ اتنی دیر میں کاکڑوں کو علم ہواہندوئوں پر حملہ ہوگیا ہے۔ وہ اسلحہ اور بندے لے کر پہنچے اور انہوں نے باقی ماندہ ہندوئوں کو ان افغانیوں سے بچایا اور انہیں بحفاظت ساتھ لے گئے اور کئی دنوں تک سکول میں پناہ دیے رکھی۔ اگر اس دن کاکڑ ہماری مدد کو نہ آتے تو شاید ہم چند بچے کھچے ہندو گھرانے بھی آج نہ ہوتے۔
''تو آپ لوگ یہاں سے چلے کیوں نہیں گئے؟‘‘
اس نے درد بھری آواز میں کہا ''سائیں کیا بات کرتے ہو۔ بھلا کوئی اپنا گھر اور اپنی دھرتی چھوڑ کر جاتا ہے؟ اس دھرتی سے پیار ہے۔ یہیں جیئیں ہیں، یہیں مریں گے۔ اگر ہندوستان جانا ہوتا تو ہمارے بزرگ آزادی کے وقت چلے جاتے۔ وہاں ہندوستان میں مسلمانوں اور ان کی مسجدوں کے ساتھ اکثر یہی سلوک ہوتا ہے، ہمارے ہاں کبھی کبھار ہوجاتا ہے۔ کمزور کے ساتھ ہر جگہ یہی کچھ ہوتا ہے اور ہمیشہ سے ہوتا آ یا ہے اور ہوتا رہے گا ۔ مسلمان یہاں طاقتور ہیں، وہاں ہندوئوں کا غلبہ ہے۔ طاقتور کا اپنا انصاف ہوتا ہے۔ آپ اپنے انداز میں انصاف
کرتے ہو، ہندوستانی اپنے انداز میں انصاف کرتے ہیں ۔ قصور ایک کا اور سزا سب کو ملتی ہے۔ دونوں ملکوں کے کمزور قیمت ادا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ جلانے والے کو کب احساس ہوتا ہے کہ وہ کسی کا گھر یا مندر یا مسجد یا اس کے بچے جلاکر غلط کررہا ہے۔ ٹھیک ہے ہمارے بچے اور عورتیں جل گئیں، بس جل گئیں‘‘۔
اس کے منہ سے یہ فلسفیانہ جواب سن کر میں سن ہوگیا ۔
اتنی دیر میں ایک بچہ کمرے میں آگیا ۔ میں نے اسے پیار کیا۔ اپنی گود میں بٹھایا لیکن وہ اجنبی لوگوں کو دیکھ کر ڈرا اور سہما ہوا لگا۔ میں نے دیہاتی روایت کے مطابق اس بچے کو پیسے دینے چاہے تو اس نے انکار کردیا۔ میں نے اس ہندو بوڑھے کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ انکار کرتا، میں نے کہا کچھ صدیوں پرانی روایات ہیں، بچوں کو کچھ دیا جاتا ہے، اب اتنا حق تو رہنے دو !
''ایک شرط پر؟ ‘‘
میں نے حیران ہوکر پوچھا ''کیا ؟‘‘
بولا ''آپ مہمان ہو ۔ بہت دور سے آئے ہو ۔ رات کا کھانا ہمارے پاس کھانا‘‘۔
ہم دونوں دوست پوتے کے گلے لگ کر روتے بوڑھے ہندو پر ایک اداس نظر ڈال کر اس جلے اور ویران گھر کی چوکھٹ سے نکل گئے، جو ابھی تک اپنی صدیوں پرانی روایات کا غلام تھا !
برسوں گزر گئے ۔
آج بھی اسلام آباد کی بارش میں بھیگتی طویل تنہائی کا لبادہ اوڑھے، بھولی بھٹکی سرد‘ اداس شام میں اس بوڑھے ہندو کے اپنے پوتے کے گلے لگ کر بہنے والے آنسو اپنے دل پر ٹپکتے محسوس کرتا ہوں کیونکہ مجھے ان لگاتار آنسوئوں کو دیکھ کر ہی عظیم پنجابی شاعر بلھے شاہ کی یہ بات سمجھ میں آئی تھی ؎
مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا
پر کسے دا دل نہ ڈھائیں، رب دلاں وچ ریہندا