"RKC" (space) message & send to 7575

بوڑھا رومن جنگجو باپ اور کیا کرتا !

آپ سب کیوں حیران ہورہے ہیں کہ ہم دونوں نے پندرہ سو برس بعد بھی اپنی قبر میں ایک دوسرے کے ہاتھ تھام رکھے ہیں ؟
پوری دنیا میں ہنگامہ مچا ہوا ہے کہ اٹلی کے شمال میں ایک قبر سے دو انسانی ڈھانچے ملے ہیں جنہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رکھا ہے اور صدیوں بعد بھی ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے ہیں ۔ باقی چھوڑیں جس ماہر نے پندرہ سو برس بعد ہمیں ڈھونڈ نکالا ہے‘ وہ بھی جذباتی ہورہا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آرہی بھلا یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے۔ 
ایک اور بات اسے پریشان کررہی ہے۔ البرٹ کا سر دوسری طرف کیوں ڈھلک گیا ہے‘ حالانکہ اسے پتہ ہے دفن ہوتے وقت ہمارے سر جڑے تھے۔ 
میں چپ ہوں۔ دیکھنا چاہتی ہوں‘ وہ ماہر کس نتیجے پر پہنچتا ہے۔ کیا وہ یہ سوچے گا کہ صرف میں اس سے محبت کرتی تھی‘ لہٰذا میں اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مرنا چاہتی تھی اور البرٹ کو مجھ سے کوئی پیار نہیں تھا‘ لہٰذا وہ مرتے وقت میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نہیں مرنا چاہتا تھا؟
میں خاموشی سے اس کی رائے کا انتظار کررہی ہوں۔ اس کی طویل خاموشی سے میری بے چینی بڑھ رہی ہے‘ کہیں وہ غلط اندازے لگا کر پوری دنیا کو کوئی غلط کہانی نہ بتا بیٹھے اور ہم دونوں نے محبت کی جس داستان کو پندرہ سو برس تک زندہ رکھا ہے‘ اسے غلط رنگ ہی نہ دے دے! 
آپ سب کو تو پتہ ہے انسان بدگمان ہونے میں کتنی دیر لگاتے ہیں۔ ویسے بھی محبت کرنے والوں سے سب جلتے ہیں۔ جنہوں نے زندگی میں محبت نہ کی‘ وہ دوسروں کو مسکراتے دیکھ کر ہی جل جاتے ہیں‘ اس لیے مجھے فکر ہے کہیں یہ ماہر جو ہمارے ڈھانچوں کو بیٹھا غور سے دیکھ رہا ہے وہ بھی محبت سے بیزار نہ ہو ! 
شکر ہے‘ وہ درست سوچ رہا ہے کہ البرٹ کا سر دوسری طرف اس لیے ڈھلک گیا ہے کیونکہ ہمارے ان علاقوں میں سیلاب آتے ہیں ۔ ایک ایسے سیلاب میں ہم دونوں کو جھٹکا لگا تھا۔ البرٹ کو پتہ نہیں چلا لیکن میں نے اپنے آپ پر قابو پا کر اپنا ہاتھ اور سر اپنی جگہ سے نہیں ہٹنے دیا ۔ میں کتنی دیر صدمے کا شکار رہی ۔ خود البرٹ بھی افسردہ تھا ۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے میں کتنی اذیت سے دوچار ہوں کہ ہم دونوں نے کتنی محبت اور جتن کر کے اپنے قاتل سے کہا تھا کہ ہمیں زندہ دفن تو کر رہے ہو لیکن سنا ہے مرنے والوں کی آخری خواہش پوری کی جاتی ہے۔ ہمارے قاتل کے دل میں بھی شاید رحم تھا۔ 
جب ہم دونوں کو فارم ہائوس پر پھیلی چاندنی میں پکڑا گیا اور محبت کی کہانی کھل گئی تو قاتل کا خیال تھا ہم زندہ رہنے کی بھیک مانگیں گے۔ البرٹ نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی تو میں نے اسے سختی سے منع کر دیا تھا ۔ مجھے پتہ تھا کہ اس جرم کی معافی نہیں ملے گی۔ جب معافی نہیں ملنی تو اپنے قاتل سے کیوں التجا کر کے اس کی انا کی تسلی کرائی جائے۔ وہ ساری عمر اس اذیت کا شکار رہے گا اور اپنی مجروح انا کے ساتھ جیے اور مرے گا کہ جن محبت کرنے والوں کو اس نے زمین میں گاڑ دیا تھا انہوں نے ایک دفعہ بھی زندہ رہنے کی بھیک نہیں مانگی تھی۔ میں نے یہ بات البرٹ کو سمجھائی۔ اپنے قاتلوں سے اس سے بڑا بدلہ نہیں لیا جاسکتا کہ ان سے رحم کی اپیل مت کریں۔ مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ اگر میرے باپ کو چل گیا تو بہت برا ہوگا کیونکہ وہ البرٹ کے خاندان کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ میں نے عمر بھر باپ کو کبھی مسکراتے نہیں دیکھا۔ ایک امید اماں سے تھی کہ شاید وہ کسی دن میرے 
باپ سے عمربھر اس جیسے سخت اور بے رحم انسان کے ساتھ رہنے کی قیمت میری البرٹ سے شادی کی شکل میں مانگ لے اور کسی کمزور اور انسانی جذبات کے زیر اثر میرا باپ بھی مان لے۔ میں سوچتی رہتی کہ اگر سب کو پتہ چل گیا تو میں بات کو کیسے سنبھالوں گی ۔
ایک دفعہ بھائی نے مجھے البرٹ کے ساتھ گھر سے کچھ دور ایک چھوٹے سے جنگل میں دیکھ لیا تھا۔ میری جان نکل گئی تھی۔ رات کو گھر میں وہ صرف اتنا بولا تھا‘ بابا تمہیں مار ڈالیں گے۔ میں ڈر گئی۔ میں نے کہا بھائی‘ تو تم کیوں نہیں مار ڈالتے؟ تم نے بھی تو سب کچھ دیکھ لیا ہے ۔
وہ صرف اتنا بولا‘ میرے اندر اپنی بہن کو قتل کرنے کی ہمت نہیں ہے لیکن مت بھولنا ہمارا باپ روم کی فوج میں جنگیں لڑا ہوا ہے۔ اس نے بہت خون بہایا ہے اور بہتا دیکھا ہے۔ اگر ہمارا باپ اتنا بے رحم نہ ہوتا تو بھلا روم کی فوج میں کیسے اپنے جیسے انسانوں کے سر کاٹ کر وحشیانہ انداز میں خوشی کا اظہار کرتا۔ اس لیے آج البرٹ سے مل لیا پھر نہ ملنا ۔ ہم اپنی بہن کو نہیں کھونا چاہتے۔ 
میں چپ ہوگئی تھی۔ ایک لمحے کے لیے سوچا‘ یہ میں کیا کر رہی ہوں؟ اس پوری رات نہ سو سکی۔ مجھے البرٹ سے دور ہوجانا چاہیے۔ میرا باپ ہم دونوں کو نہیں چھوڑے گا۔ گھر کی کھڑکی سے ہمارے فارم ہائوس پر پھیلے پورے چاند کی چاندنی میں دیکھتے ہوئے میرے دل میں پتہ نہیں کہاں سے ایک خواہش ابھری‘ کیا یہ ممکن نہیں تھا بابا جتنا روم کے بادشا ہ کا وفادار تھا،کیا وہ اپنی بیٹی سے بھی اتنا وفادار نہیں ہوسکتا؟ وہ روم کے بادشاہ کے لیے کسی اجنبی کی جان لے سکتا تھا تو کیا میں اس کے لیے اتنی ہی اجنبی تھی جتنا جنگ میں لڑنے والے دوسرے تھے‘ جن کے گلے کاٹ کر اسے تسلی ملتی تھی؟ کیا وہ مجھے بھی اپنے خاندان کی عزت کے نام پر اس طرح مار ڈالے گا جیسے وہ روم کی عزت کے نام پر اس کے دشمنوں کو مارتا چلا آیا ہے؟ پھر مجھے احساس ہوتا میں غلط سوچتی ہوں۔ بھلا بابا کیسے اپنی بیٹی کو اجنبی دشمن کی طرح قتل کر سکتا ہے۔ 
شاید میں غلط تھی۔ جب میرے باپ نے مجھے اور البرٹ کو رات کے اندھیرے میں پکڑا تو مجھے پتہ چل گیا تھا کہ فیصلہ ہو چکا۔ 
چاند کی میٹھی چاندنی میرے اور البرٹ کے چہروں پر پھیلی طویل اداسی کو نمایاں کررہی تھی۔ میں البرٹ کے مزید قریب ہوگئی اور اس کے ہاتھ کو سختی سے اپنے ہاتھ میں دبا لیا اور اس کے سر کے ساتھ اپنا سر جوڑ لیا ۔ مجھے باپ کی جگہ تلوار پکڑے ایک رومن سپاہی نظر آیا جو آج خاندان کی عزت کے نام پر ایسے دو انسانوں کو قتل کرنے کے لیے تیار تھا جو اس کے خاندان کی بدنامی بن گئے تھے۔ 
بابا کے نزدیک روم اور خاندان کی عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا تھا ۔ 
میں نے دور سے ماں کی چیخ سنی ۔ وہ ہماری طرف دوڑ رہی تھی۔ مجھے پتہ تھا دیر ہوچکی تھی۔
میں نے کہا ''بابا ایک آخری خواہش ہے۔ پوری کرو گے؟‘‘ 
وہ چونک گئے۔ میں نے کہا۔ ''جب ہمیں دفن کرنا تو ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ ایسے ہی رہنے دینا اور میری آنکھوں کے سامنے البرٹ ہو۔ اور ہاں بابا ایک اور بات۔ یہ مت سمجھنا کہ مجھے آپ سے کوئی شکایت ہے۔ آپ تو البرٹ کو میرے حوالے کررہے ہو۔ اب کئی صدیوں تک البرٹ صرف میرا رہے گا۔ ایک باپ اس سے زیادہ اور اپنی بیٹی کو کیا دے سکتا ہے کہ ہمیشہ کے لیے اس مرد کو اس کے حوالے کر دے جس سے وہ محبت کرتی ہو۔ آپ کے پاس ایک آپشن تھا کہ آپ البرٹ کو زندہ حوالے کرتے۔ کیا پتہ البرٹ ہر مرد کی بدل جاتا اور اس کا مجھے سے دل بھر جاتا۔ دوسرا آپشن یہ ہے آپ البرٹ کو اس طرح میرے حوالے کریں کہ یہ صدیوں تک میرے ساتھ رہے۔ آپ کا فیصلہ درست ہے اور مجھے آپ پر فخر ہے‘‘۔ 
میں نے آخری انسانی چیخ جو سنی تھی وہ میری ماں کی تھی۔
اب پندرہ سو برس بعد یہ ماہر ہمارے ڈھانچوں پر بیٹھا سوچ رہا ہے‘ ہم کیسے مرے اور کیونکر ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر یہاں صدیوں سے کسی کے انتظار میں لیٹے تھے۔ وہ آئے اور ہماری کہانی دنیا کے سامنے لائے ! 
میرے باپ کو خاندانی وقار‘ خاندان اور بیٹی میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا ۔ میرے باپ نے درست انتخاب کیا تھا اوردفن کرتے وقت میری آخری خواہش کا احترام کرنا نہیں بھولا تھا۔
ایک بوڑھا رومن جنگجو باپ اور کیا کر سکتا تھا !
( یہ فرضی کہانی اس تصویر پر لکھی گئی ہے جو ایک عورت اور مرد کے ڈھانچے کی ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ پندرہ سو برس قبل دفن ہوئے تھے اور آج بھی ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے، آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے تھے۔ صدیوں کا سفر بھی ان کی محبت کی داستان کو نہیں مٹا سکا) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں