امریکہ میں بیٹھ کر وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات کا سب سے زیادہ مزا میں نے اٹھایا ہے۔ سابق وزیرقانون بابر اعوان میری اس بات کو بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ مجھے اتنا مزہ کیوں آیا ہوگا ۔
اس مزے کے پیچھے بھی کہانی ہے۔
2008ء کے الیکشن کے بعد جب زرداری صاحب نے صدر بننے کا اعلان کیا توسب حیران ہوئے۔ صحافی دوستوں نے انہیں وزیراعظم بننے کا مشورہ دیا ۔ تاہم وہ مسکرا کر ٹال گئے تھے۔ سب حیران تھے کہ زرداری صاحب چیف ایگزیکٹو کیوں نہیںبننا چاہتے۔ کیا واقعی سونیا گاندھی کی طرح قربانی دے رہے ہیں اور اپنا منموہن سنگھ لانا چاہتے ہیں؟ عامر متین نے تو باقاعدہ انگریزی اخبار میں ایک لمبا چوڑا مضمون لکھ مارا تھا جس کا عنوان تھا Here Enters Mr. Sonia Gandhi ۔ سونیا گاندھی کے نام سے پہلے ''مسٹر‘‘ کا اشارہ زرداری صاحب کی طرف تھا ۔
جب زرداری صاحب نے صدر بننے کا اعلان کیا‘ اس وقت بھی کوئی ان کی گیم نہ سمجھ سکا ۔ سب کا خیال تھا کہ وہ نیا فاروق لغاری پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے، لہٰذا یہ منصب خود سنبھال لیا تھا۔ تاہم اُن کے اس فیصلے کے پیچھے سمجھداری کا علم اس وقت ہوا جب سپریم کورٹ نے این آر او کو باہر پھینک کر صدر زرداری کے خلاف ایک درجن سے زائد مقدمات دوبارہ کھولنے کا حکم دے دیا۔ اس دن سب کو پتہ چلا وہ کیوں صدر بنے تھے۔ اگر وہ وزیراعظم ہوتے تو شاید گرفتار ہوجاتے یا پھر ان کے لیے وزارت عظمیٰ پر فائز رہنا مشکل ہوتا ، لیکن صدر بن کر انہیں فوری طور پر استثنیٰ مل گیا تھا اور یوں پانچ برس وہ آرام سے ایوان صدر میں بیٹھ کر کھیل کھیلتے رہے اور قیوم ملک سے لے کر میرے دوست بابر اعوان تک سب کو استعمال کرتے رہے کہ کس طرح سوئس بنکوں میں موجود ساٹھ ملین ڈالرز ہر قیمت پر بچانے ہیں ۔
انہی دنوں جب بھی نواز شریف صدر زرداری سے ملنے کے لیے ایوان صدر گئے تو ہر دفعہ انہیں ایک بات ضرور کہی کہ خاکی وردیوں پر اعتماد مت کرنا ۔اپنی نصیحت میں وزن پیدا کرنے کے لیے نواز شریف ایک ہی کہانی دہراتے اور زرداری صاحب حسب عادت مسکرا کر سنتے رہتے‘ جیسے انہیں کچھ پتہ نہیں اور وہ واقعی ہمہ تن گوش ہو کر سن رہے ہوں ۔ نواز شریف ملاقات شروع ہوتے ہی بارہ اکتوبر سے بات شروع کرتے اور زرداری صاحب کو بتاتے کہ انہوں نے اس وقت کی فوجی قیادت کو کیسے کیسے خوش کرنے کی کوشش کی تھی ۔ کارگل کے معاملے پر صدر کلنٹن سے جا کر ملے اور منت ترلے کے بعد پاکستان کو جنگ سے بچایا تھا لیکن پھر بھی سزا انہیں ملی ۔
اس طرح نواز شریف ایک اور واقعہ آصف زرداری کو سناتے۔ نواز شریف کے بقول سابق سیکرٹری دفاع جو خود بھی جنرل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے‘ ان کے پاس ایک خفیہ فائل لے کر آئے۔ یہ فائل فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل کے کام کے حوالے سے تھی جس سے اس جنرل کو خاصا مالی منافع ہونا تھا۔ یہ جنرل ان دنوں آرمی چیف جنرل مشرف کے بڑے قریبی دوست اور قابل اعتماد ساتھی بھی تھے۔نواز شریف نے وہ فائل سیکرٹری دفاع سے لے کر اپنے پاس رکھ لی ۔ سیکرٹری دفاع کو لگا جیسے نواز شریف اس فائل کو منظور نہیں کریں گے۔ سیکرٹری دفاع نے نواز شریف سے کہا کہ سر یہ اہم کورکمانڈر ہیں اور آپ کو پتہ ہے کب کس کی ضرورت پڑ جائے۔ اس پر نواز شریف کو یاد آیا کہ جب وہ جنرل کرامت کو ہٹانے کے بعد نئے آرمی چیف کی تلاش میں تھے تو اس وقت چوہدری نثار علی خان بھی جنرل مشرف کو ان سے خفیہ طور پر ملانے کے لیے یہ کہہ کر لائے تھے کہ وہ سادہ انسان ہے اور اپنے کام کا ہے اوراس کی تعیناتی سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا جیسے ماضی میں جنرل آصف نواز یا جنرل کرامت کے حوالے سے ہوا تھا ۔
چوہدری نثار کی یہ بات یاد آئی تو نواز شریف کو خیال آیا کہ چلیں اچھا ہے، پہلے آرمی چیف بھی اپنا ہے اور اب کور کمانڈر بھی ۔ ان سب پر احسان کر کے رکھو تو بہتر رہتا ہے۔ یوں نواز شریف نے وہ فائل منظور کر دی۔ فائل کی منظوری کے ساتھ ہی اس جنرل کی زمینوں اور جائیداد کو کمرشل لینڈ کا درجہ مل گیا تھا اور راتوں رات موصوف نے تگڑا مال کمالیا تھا ۔وہ آج کل دین کی تبلیغ فرماتے ہیں ۔
تاہم بارہ اکتوبر کو فوجی بغاوت ہوئی اور جو جنرل صاحب نواز شریف کو گرفتار کرنے وزیراعظم ہائوس پہنچے‘ وہی موصوف تھے جنہیں نواز شریف نے کروڑوں روپے کا فائدہ ایک لمحے میں پہنچایا تھا۔ نواز شریف کا خیال تھا شاید ایک فائل پر دستخط کر دینے کے بعد وہ جنرل اب جنرل مشرف کی بجائے ان کے وفادار ہوں گے۔ نواز شریف یہی کہانی کئی دفعہ آصف زرداری کو بھی سنا چکے تھے کہ اگر وہ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی فوج کا اعتماد نہیں جیت سکے تو پھر وہ بھلا کچھ بھی کر لیں وہ اس وقت کی فوجی قیادت کو رام نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے بدھ کے روز زرداری صاحب یقینا نواز شریف سے ملتے وقت ہنسے ہوں گے کہ انہوں نے جیسے تیسے کر کے پانچ سال گزار لیے، میاں صاحب تو پہلے سال ہی فوج سے سینگ پھنسا بیٹھے تھے۔
صدر زرداری نے پہلے دن طے کر لیا تھا کہ وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر جمہوریت کی مضبوطی کے نام پر فوج سے ٹکر نہیں لیں گے۔ رائے ونڈ گئے تو بھی نواز شریف نے وہی بات کی تو زرداری صاحب نے وہی جواب دیا کہ وہ اب مزید قبریں گڑھی خدابخش میں نہیں کھدوا سکتے۔ اب کسی اور کو یہ بوجھ اٹھانا چاہیے۔ شاید ان کا اشارہ نواز شریف کی طرف تھا کہ جب وہ وزیراعظم بنیں تو پھر وہ فوج سے ٹکر لے سکتے ہیں ۔ ان کے کندھوں میں تو اب دم خم نہیں رہا۔ صدر زرداری یہ راز بہت پہلے پا چکے تھے کہ انہوں نے اپنی تمام تر ذہانت اور چالاکیاں اپنے سے کمزور لوگوں پر ہی آزمانی ہیں ۔
آصف زرداری کے ذہن میںیقینا وہ تمام باتیں ہوں گی جو نواز شریف فوج کے حوالے سے ایوان صدر اور رائے ونڈ میں ان سے کر چکے تھے۔ لہٰذا نوڈیرو میں 27 دسمبر 2013ء کو تقریر کرتے ہوئے انہوں نے نواز شریف سے کہا کہ''بلا‘‘ بھاگنے نہ پائے اور وہ اس کا ٹرائل کرنے میں ان کا ساتھ دیں گے۔ زرداری نوازشریف کا ذہن پڑھ چکے تھے کہ جنرل مشرف کا ٹرائل نواز شریف کی کمزوری ہے۔ زرداری صاحب کو بھی پتہ تھا کہ سیاست میں کوئی دوست نہیں ہوتا بلکہ ذاتی مفادات آپ کے دوست ہوتے ہیں اور اب مفاد اس میں تھا کہ نواز شریف کو فوج سے لڑوایا جائے اور وہی کچھ ہوا جو زرداری نے سوچ کر تقریر کی تھی ۔
اب بدھ کے روز نواز شریف سے ملتے وقت یقینا آصف علی زرداری کے ذہن میں یہ بات بھی ہوگی کہ چند دن پہلے سوئس وکیل نے ایک ای میل وزارت قانون کو بھیجی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ جناب زرداری کے وکیل نے ان سے رابطہ کیا ہے کہ وہ اپنی مرحومہ بیگم کا تیس لاکھ ڈالرز کا ہار واپس لینا چاہتے ہیں ۔ اس وکیل کا کہنا تھا کہ کیا حکومت پاکستان اس ہار کے خلاف کوئی اسٹینڈ لینا چاہتی ہے یا پھر یہ ہار زرداری صاحب کو لینے دیا جائے۔ اس پر نواز شریف کی حکومت نے باقاعدہ فیصلہ کیا کہ وہ اس ہار پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کریں گے کہ یہ پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت سے خریدا گیا تھا لہٰذا یہ زرداری صاحب کو نہیں دیا جا سکتا ۔ یوں اب حکومت ِپاکستان اس کا مقدمہ لڑے گی۔
تو کیا زرداری صاحب کو یہ سوچ کر صدمہ نہیں ہوگا کہ جب سپریم کورٹ میں آٹھ برس بعد نواز شریف کو جنرل مشرف طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں عمر قید کا کیس دوبارہ کھول کر انہیں باعزت بری کیا جارہا تھا تو انہوں نے پی پی پی حکومت کے چند بڑوں کو کہا تھاکہ وہ اس معاملے میں کوئی مخالفت نہیں کریں گے اور یوں فیڈریشن کی مخالفت نہ ہونے کی وجہ سے نواز شریف اتنے عرصہ گزرنے کے بعد بھی بری ہوگئے تھے۔
یقینا زرداری صاحب توقع رکھتے ہوں گے کہ اگر وہ تیس لاکھ ڈالرز کا ہار واپس لینا چاہتے تھے تو کیوں نواز شریف حکومت باقاعدہ پارٹی بن رہی تھی اور اب مقدمہ لڑا جائے گا ؟ اگر یہ ٹیکس دینے والے عوام کا پیسہ تھا تو وہ بھی چار ارب روپے عوام کا ہی پیسہ تھا جو شریف خاندان نے بینکوں سے بطور قرض لیا لیکن ابھی تک نو بنکوں کو واپس نہیں ملا تھا ۔ تو کیا ان حالات میں زرداری صاحب جب نواز شریف سے ملاقات کریں اور جمہوریت بچانے کے نام پر نوازشریف کو ان کے دراصل پرانے خواب پورے کرنے کے لیے یہ کہہ کر اپنی حمایت کا یقین دلائیں کہ بیٹا چڑھ جا سولی‘رام بھلی کرے گا‘تو کیا میں امریکہ میںبیٹھ کر مزے نہیں لوں گا ؟