اسلام آباد پولیس کا نک نیم میں نے پیار سے '' باجی پولیس ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ میری یہ ''باجیاں ‘‘مجھ سے خفا بھی نہیں ہوتیں کیونکہ ان بے چاریوں کو کسی سے خفا ہونے کی عادت ہی نہیں ہے۔
اسلام آباد لٹ رہا ہے، روزانہ گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں لیکن انہیں کوئی پروا نہیں ہے۔ ہمارے سینئر صحافی طلعت حسین کا ہی وہ خط پڑھ لیں جو انہوں نے اپنے اسلام آباد میں واقع گھر میں مسلح ناکام ڈکیتی کے بعد اپنے محلہ داروں کو لکھا ہے۔
اس سے پہلے اسلام آباد میں ہی سلیم صافی کے گھر سے گن پوائنٹ پر گاڑی چھین لی گئی تھی۔ چونکہ سلیم صافی بھی خود پختون ہے لہٰذا اس نے چند ماہ بعد اپنی گاڑی خود ہی سوات سے ڈھونڈ نکالی ۔ نیب کے ترجمان رمضان ساجد کے گھر ڈاکو تین گھنٹے لوٹ مار کرتے رہے اور وہ بیوی بچوں کے سامنے رسیوں میں بندھا رہا ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سابق افسر محمد سلیم کے گھر پر یہی کہانی دہرائی گئی۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق صرف 2013ء میں ایک ارب روپے کی گاڑیاں اسلام آباد سے چرا لی گئی تھیں ۔ ڈاکے میں لٹنے والوںکی مالیت اس سے بھی زیادہ تھی۔ جب سے نیا سال شروع ہوا ہے ،اسلام آباد میں ساٹھ سے زیادہ ڈاکے پڑ چکے ہیں۔کبھی حیران ہوتا ہوں کہ ایک سپاہی یا پولیس افسر کیوں اپنا سینہ تان کر جرائم پیشہ افراد کے سامنے کھڑا ہوگا؟ اب ہر کوئی ایڈیشنل آئی جی سندھ شاہد حیات کی طرح تو ہے نہیں جو یہ کہتا پھرے کہ اگر وردی پہنی ہے تو پھر اس کی اپنی قیمت بھی ادا کرنا ہوگی۔ کیا کریں اب پولیس میں ''باجیاں ‘‘بھرتی ہوگئی ہیں اور وہ بھلا غنڈوں سے کیسے نمٹ پائیں گی۔ جس کو نوکری نہیں مل رہی تھی وہ سپاہی بن گیا ۔ پولیس افسران نے سی ایس ایس کر لیا تو اس کے بعد حلال وحرام کی تمیز ختم، کمائی شروع، اور اب ساری عمر ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے سفارشیں ڈھونڈنے میں گزرے گی...!
قومی اسمبلی میں وزارت داخلہ کی چند ہفتے پہلے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اسلام آباد پولیس کا سپاہی سو روپے تک رشوت لے لیتا ہے۔ اندازہ کریں جو سو روپے رشوت لے سکتا ہے وہ شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی جان کی قربانی دے گا اور شہریوں کو لٹنے سے بچائے گا؟ اب تو پولیس میں ایسے افسران اور سپاہی بھرتی ہوگئے ہیں جو ڈاکوئوں کے ساتھ مل چکے ہیں اور اپنی محرومیوں کے بدلے میں وہ ان امیروں کے گھروں کو لوٹ لیتے ہیں۔ امیر لوگوں سے بدلہ لینے کا اس سے بہتر اور کیا طریقہ ہوسکتا ہے کہ ان کے گھروں پر ڈاکے پڑیں اور جن گاڑیوں پر وہ سوار ہوکر ان کے آگے سے گزرتے ہیں وہ چرا لی جائیں اور وہ بھی ان کی طرح سڑک چھاپ بن جائیں۔
اسلام آباد سے باہر رہنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ حکمرانوں کا شہر ہے ،لہٰذا یہاں زندگی پرسکون ہوگی۔ کبھی ہوتی ہوگی لیکن اب نہیں رہی ۔ سابق آئی جی سکندر حیات اور ایس ایس پی آپریشن ڈاکٹر رضوان کے درمیان بول چال تک نہیں تھی ۔ دونوں کی اپنی اپنی سفارشیں تھیں ۔ ڈاکٹر رضوان نااہلی کی بنیاد پر ہٹائے گئے تو اگلی فلائٹ پکڑ کر آسٹریلیا پہنچ گئے۔ وہاں آرام فرما رہے ہوں گے۔ اگر انہیں وقت ملے توذرا آسٹریلیا کے کسی عام پولیس افسر سے مل کر کچھ پولیسنگ اور اس کے وقار کے بارے میں بھی سیکھ لیں تو ان کا دورہ ضائع نہیں جائے گا ۔
میں چند پولیس افسروں کو جانتا ہوں جو شہر میں امن و امان لا سکتے ہیں لیکن وہ خوشامدی نہیں بن سکتے، اس لیے کھڈے لائن ہیں ۔ ذرا تصور کریں جس شہر میں وزیراعظم نواز شریف بیٹھتے ہوں، وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان ہوں وہاں کوئی آزاد منش ٹائپ پولیس افسر کام کر سکتا ہے؟ میرا خیال ہے ہرگز نہیں ۔میرٹ کا یہ حال ہے ایک پولیس افسر کا میں نے دو تین دفعہ نام اپنے کالموں میں لکھ دیا کہ میں انہیں اچھا اور ایماندار سمجھتا ہوں تو ان کا فون آیا ، بھائی جان رحم کریں ،آپ میرا ذکر نہ کیا کریں۔ آپ کی تعریف سے حکمران سمجھتے ہیں کہ اس افسر کا دماغ خراب ہے لہٰذا اسے رہنے ہی دیں ۔ آپ کی وجہ سے مجھے اب کہیں پوسٹنگ نہیں ملتی۔ دل دکھی تو ہوا کہ ایماندار بھی اب اپنی تعریف سے ڈرنے لگ گئے ہیں۔
یہ بات کتنی دفعہ دہرائی جائے کہ یہ ملک اب ایسے نہیں چل سکتا جیسے اسے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شہروں کی آبادیاں بڑھ رہی ہیں اور اب شہر اس طرح نہیں چل سکیں گے۔ پنجاب اور دیگر صوبوں کے عوام کا اپنے صوبوں سے رومانس اپنی جگہ لیکن اب یہ صوبے اس طرح نہیں چل سکیں گے اور صوبے بچاتے بچاتے آپ لوگ اپنے ملک کا بیڑا غرق کرابیٹھیں گے۔ عوام اب شہروں کا رخ کررہے ہیں کیونکہ اب دیہات میں کھانے اور کمانے کو کچھ نہیں رہ گیا۔ جب این ایف سی میں سے سات سو ارب روپے لاہور اور چار سو ارب روپیہ کراچی میں کھا لیا جائے گا تو اس کے بعد باقی اضلاع کے لیے کیا بچے گا ۔ خود وزیرداخلہ نے کہا کہ اب لوگ بڑی تعداد میں دیہات چھوڑ کر اسلام آباد میں مزدوری کے لیے پہنچ گئے ہیں ۔ اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ پورے شہر کو لشکر جھنگوی، تحریک طالبان اور القاعدہ نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اس رپورٹ کے ایک ہفتے بعد ہی اسلام آباد کچہری میں دہشت گردوں نے بندے ماردیے۔آپ ہماری تیاری ملاحظہ فرمائیں ۔ اس سے نالائق طالب علم کون ہوسکتا ہے جسے پورے پرچے کا ایک ہفتے پہلے علم ہو اور پھر بھی وہ اس امتحان میں فیل ہو اور میڈیا کے سامنے بڑھکیں بھی مارے۔
پہلے کراچی، اس کے بعد لاہور ،اب اسلام آباد کی باری لگ گئی ہے جہاں اسٹریٹ کرائم بڑھ رہا ہے اور ارباب اختیار چین کی نیند سورہے ہیں ۔
میں نے ایک دفعہ ٹویٹ کیا کہ اسلام آباد کوئی عام شہر نہیں، لیکن جب روزانہ اسلام آباد جیسے شہر میں ڈاکے پڑ رہے ہوں ،وہاں باقی ملک کے بارے میں کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔ میں نے کہا ،اربوں روپے بجٹ لینے والے ادارے کیا کررہے ہیں۔اس پر میرے ٹوئیٹر کے دوستوں نے تبرہ کہنا شروع کردیا کہ جناب ایجنسیوں کا لاء اینڈ آرڈرسے کیا تعلق ہے۔ بعض کو میری ذ ہنی حالت پر شک ہونے لگا ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اربوں روپے کا فنڈز لیتی رہیں اور ان کی ساتھ والی گلی میں ڈاکے پڑتے رہیں اور انہیں خبر تک نہ ہو تو بھی ان کی ذمہ داری نہیں بنتی ۔ان کی موجودگی میں تو اسلام آباد میں چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ ان کے پاس تو پورے شہر کا پروفائل ہونا چاہیے ۔ انہیں جرائم پیشہ لوگوں کو ڈھونڈنے کے لیے پولیس کی مدد کرنی چاہیے ۔ اگر وہ عام جرائم پیشہ لوگوں کو نہیں ڈھونڈ پاتے تو پھر دہشت گردوں کو کیسے اس ہجوم سے ڈھونڈ پائیں گے؟ چھوٹے موٹے جرائم پیشہ لوگوں کے درمیان ہی دہشت گرد چھپے ملتے ہیں۔
پولیس کا کیا کام ہے؟ پولیس کے پاس کیا طریقے ہیں وہ جرائم پیشہ افراد کو ڈھونڈ سکے؟ ان کے پاس موجود پٹرولنگ کی گاڑیاں تو افسران کے بچوں کو سکول چھوڑنے اور لانے پر مامور ہیں ۔ پٹرولنگ کا بجٹ افسران خود کھاجاتے ہیں ۔ فون ٹیپ وہ نہیں کر سکتے تو پھر دیگر ادارے ان کی کیوں مدد نہ کریں جن کے پاس یہ سب کچھ ہے اور ہمارے پیسوں سے ہی خریداگیا ہے۔
اسلام آباد میں افغان اور قبائلی علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ راولپنڈی میں بھتہ نہ دینے پر پہلا دھماکہ ہو چکا ہے۔ یہ وزیرداخلہ کا اپنا شہر ہے۔ پولیس کہتی ہے اغوا اور ڈاکے میں وہی گروپس ملوث ہیں اور ایک چار بندوں کا گروپ ساہیوال سے گیا ہوا ہے۔
دوسری طرف ہماری ہوشیاریاں دیکھیں کہ سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کے خلاف ایف آئی اے نے طویل تحقیقات کے بعد اب مقدمہ درج کر لیا ہے کہ جناب آپ نے اپنی شہریت چھپائی تھی۔ ویسے سوال تو یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ جناب ہمارے سابق وزیرداخلہ بھی تو برطانوی شہری تھے، وہ بھی برطانوی پاسپورٹ کے ساتھ ساتھ سفارتی اور بلیو پاسپورٹ پر سفر کرتے تھے، ان کا آپ نے کیا کر لیا ؟ ایک اور وزیرداخلہ کے بچوں نے بھی امریکی شہریت چھپا رکھی تھی وہ تو اللہ بھلا کرے وکی لیکس کا کہ بھانڈا پھوڑ دیا ۔
ایف آئی اے کی تفتیش کا عالمی معیار دیکھیں کہ کیسے طارق ملک جیسے خطرناک ملزم کو ڈھونڈ نکالا اور وقت ضائع کیے بغیر اس کے خلاف پرچہ بھی دے دیا ۔
ایسے تو نہیں کہتے کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں...ہمارے سینئر صحافی طلعت حسین کے گھر داخل ہونے کی کوشش میں مصروف اسلحہ سے لیس کھڑے تین نوجوان ڈاکوئوں کے لیے نہیںبلکہ طارق ملک جیسے پوٹھوہار کی دھرتی کے بیٹے کے لیے جو نادرا کو بلندیوں پر لے جا کر ملک کا نام روشن کرتے ہوں...!
شاباش او میرے سرکاری شیرو...جیندے رہو !