محمودخان اچکزئی کی پہلی تقریر 2002ء کی قومی اسمبلی میں سنی تھی، وہی تقریر اتنی بار سنی کہ اب یاد ہوگئی ہے۔ میں کبھی ان سے متاثر تھا کیونکہ سمجھتا تھا انہیںکوئی خرید نہیںسکتا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری یہ خوش فہمی ختم ہوگئی اور ان کی سیاست اور شخصیت سے جڑا رومانس بھی دم توڑگیا ۔اب محمود خان نے اپنی تقریر میں ایک نئی بات کہی ہے کہ ڈاکٹرطاہر القادری کوگرفتارکر لیا جائے یا ملک بدر کر دیا جائے توجمہوریت بچ جائے گی۔
حیران ہوں، یہ بات وہی محمود خان اچکزئی کہہ رہے ہیں جو جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد بننے والی اسمبلی میں مجھ جیسے صحافیوں کے لئے رول ماڈل کے طور پر ابھرے تھے۔ ان کی تقریریں سن کر اور انداز دیکھ کرخیال آتا تھاکہ کبھی سیاستدان بنا تو محمود خان اچکزئی کی طرح کا سیاستدان بنوںگا ۔ آج وہ ڈاکٹرطاہر القادری کی گرفتاری کی بات کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے خود ہمیں بتایا تھاکہ ان کے والد عبدالصمد خان اچکزئی کو پاکستان بننے کے فوراً بعداس لئے گرفتارکر لیاگیا تھا کہ وہ آل انڈیا کانگریس کے ممبر تھے۔ ان کے خیال میں جمہوری پاکستان میں ان کے والدکوگرفتارکرکے بلوچستان میں نفرت کی بنیادیں رکھ دی گئی تھیں ۔ وہ ہرملاقات میںاپنے والدکی گرفتاری کا ذکر ضرورکرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگرمحمود خان کانگریس کا ممبر ہونے کی وجہ سے اپنے والد کی گرفتا ری کوغلط سمجھتے ہیں تو وہ آج طاہر القادری کے کینیڈا کا شہری ہونے پران کی گرفتاری کوکیسے جائز سمجھتے ہیں؟
ہو سکتا ہے جن لوگوں نے عبدالصمد خان اچکزئی کوگرفتارکیا تھا، ان کے ذہن میں بھی پاکستان کو بچانے کے لئے ان کی گرفتاری اسی طرح ضروری ہو جیسے آج محمود خان کے نزدیک طاہر القادری کوگرفتارکرنا پاکستان اور جمہوریت کو بچانے کے لئے ناگزیر ہے۔ ہو سکتا ہے جیسا مشورہ آج وہ نواز شریف کو دے رہے ہیں ویسامشورہ اس وقت پاکستان کے گورنر جنرل کو دیاگیا ہو۔اسی طرح کا ایک مشورہ جنرل مشرف کو بھی دیا گیا تھا جس پرعمل کرتے ہوئے انہوں نے میاں نواز شریف کو دس برس کے لیے ملک سے باہر بھیج دیاتھا، لیکن پھر بھی انہیں تیسری باروزیراعظم بننے سے نہ روک سکے۔
کبھی محمودخان اچکزئی نے سوچا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ذات پر ہم سب مل کر جوہزاروں اعتراضات اٹھا تے رہتے ہیں اور شاید اٹھ بھی سکتے ہیں لیکن کیا جو باتیں وہ (طاہرالقادری)کررہے ہیں وہ غلط ہیں؟ آپ اس ملک کو چار صوبوں کے ساتھ کب تک چلا سکتے ہیں؟ نئے صوبے کیوں نہیں بناتے؟ طاہر القادری سے پہلے خود محمود خان نئے صوبوں کی بات کرتے رہے ہیں‘ آج وہ کس بنیادپر اس مطالبے کے دشمن بن گئے؟ کیا اس لئے کہ ان کاایک بھائی گورنر بلوچستان اور دوسراوزیر بن گیا ہے؟ وہ اب یہ تقریرکیوں نہیں کرتے کہ ضلعی حکومتیں نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کمزور ہورہی ہے۔ وہ یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ پورے ملک میں ضلعی حکومتیں ہونی چاہئیںاورنیشنل فنانس کمیشن سے براہ راست انہیں ترقیاتی فنڈزملنے چاہئیں؟
صوبوں کو اس سال این ایف سی سے 1700ارب روپے دیئے گئے جوغالباً زیادہ تر لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں خرچ ہوںگے،آخر مرکز اضلاع کو براہ راست فنڈزکیوں نہیں دے سکتا؟اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ درمیان سے کرپٹ صوبائی بیوروکریسی اور سیاستدانوں کاکردارختم ہوجائے گاجو ہرکنٹریکٹ سے مال کماتے ہیں۔
محمود خان ہمیں یہ تو بتاتے رہتے ہیں کہ پاکستان اس صورت میں بچ سکتا ہے جب وہ بھارت اور افغانستان میں آئی ایس آئی کی مداخلت بندکرد ے ۔ میں ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں، لیکن وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ پاکستان پر جمہوریت کے نام پر جو خاندانی بادشاہت مسلط کی گئی ہے اس سے پاکستان کمزور ہورہا ہے، اسے ختم کرنا چاہئے۔ شاید محمود خان یہ بات اس لیے نہیں کہتے کہ ان کے نزدیک جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ ان کا ایک بھائی گورنراور دوسرا وزیر ہو۔ میاں نوازشریف بھی جمہوریت کی یہی تعریف کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کے بعد ان کی برادری کے افراد ہی سیاستدان، جج اور سرکاری افسرہوں۔ پیپلز پارٹی کوکچھ بھی کہیں لیکن بھٹو؍زرداری خاندن نے گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو موقع دے کر اپنے اوپرعائد اس الزام کوکسی حد تک دورکردیا ہے کہ وہ اپنے سواکسی کو بڑے عہدے پر فائز ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔
جب ہم خاموشی سے محمود خان کو سنتے تھے تو اقتدار ان سے دور ہوتا تھا لیکن شایدانہوں نے پنجاب اور سندھ کے حکمرانوں سے سیکھ لیا ہے کہ موقع ملے تو اپنے خاندان کی قسمت بدل لو، ملک کی قسمت بدلتی رہے گی ۔ اچکزئی خاندان سدھرگیا،اب کوئی اورملک میں 'اسٹیٹس کو‘ توڑنے کی بات کرے تو محمود خان کو جمہوریت خطرے میں نظرآتی ہے۔
شاید محمود خان کو احساس نہیں ہے کہ انہوں نے ہم جیسے خواب دیکھنے والوں کے ساتھ کیا ظلم کیا ہے؟ بعض لیڈر ایسے ہوتے ہیں جن سے عام لیڈروں جیسے رویے کی توقع نہیں کی جاتی۔ مجھے پہلا دھچکا اس وقت لگا جب محمود خان نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے کروڑوں روپے کا ترقیاتی فنڈلیا تھا‘ حالانکہ وہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی نہیں تھے۔ نوازشریف وزیراعظم بنے تو ان سے بھی جمہوریت کی حمایت کرنے کی قیمت دوبڑے عہدے لے کروصول کرلی۔کاش میں وہ گفتگو یہاں دہرا سکتاکہ وہ 2008 ء کے الیکشن میں دھوکا کرنے پرمیاں نوازشریف کو کن کن القابات سے نوازتے تھے۔ توگویا محمود خان بھی دوسروں کی طرح محض اقتدارکی سیاست کررہے تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ وہ اکیلا لیڈر ہے جسے عہدے کی کوئی پروا نہیں اور جس کا دل اس ملک اور اپنے پختونوں کے لیے دھڑکتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں عراق پر ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عراق کے لوگ صدام حسین اور اس کے خاندان کی آمریت سے تنگ تھے اور اب مالکی بھی اپنی ذات میں صدام حسین بن چکے ہیں ۔ وہ دو بار وزیراعظم بن چکے ہیں اوراب تیسری بار بھی اسی عہدے پر متمکن ہونے کے لئے کوشاں ہیں۔اس سے لوگوںکو جمہوریت کے نام پر آمریت طاری ہوتی نظر آرہی ہے۔ اخبار کے مطابق عراق کے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ صدام حسین بندوق کے زور پر ان پر حکومت کرتا تھااور مالکی جمہوریت کے نام پر ان پر مسلط ہے ۔مالکی نے بھی جمہوریت اور حکومت میں اپنے خاندان کوحصے دار بنادیا ہے یعنی جمہوریت کا سارا فائدہ مالکی اوراس کے خاندان کو ہورہا ہے۔ مالکی کو علم تھا کہ عراق میں سنی مسلک اورکردنسل کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں،اس لئے انہیں چاہیے تھاکہ وہ اپنا وزیردفاع کرد اور وزیر داخلہ سنی مسلک کے فردکو بناتے تاکہ سب کو محسوس ہوتا کہ وہ بھی عراق کی نئی حکومت میں شریک ہیں، لیکن انہوں نے تمام اہم عہدوں پر شیعہ مسلک کے لوگوں کو تعینات کردیا اورایران پرانحصار بڑھادیا۔ یوں آہستہ آہستہ لوگوں میں یہ خیال پختہ ہوگیا کہ صدام حسین اور مالکی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا !
پاکستان میں جمہوریت کو خطرہ طاہرالقادری سے زیادہ ایسے سیاستدانوں سے ہے جن کے نزدیک جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ ہر بڑے عہدے پر ان کا باپ، بھائی، بھتیجا، سمدھی، بھانجا، داماد، بیٹی اوراپنی ہی قوم یا برادری کافرد بیٹھا ہو۔ میرے پختون دوست ! موجودہ کرپٹ اسٹیٹس کو ٹوٹنے دیں، نئے صوبے بننے دیں، ضلعی حکومتیں بننے دیں، این ایف سی کے 1700 ارب روپے صوبوں کے بجائے ضلعی حکومتوں تک جانے دیں، جمہوریت کو گراس روٹ لیول پر شفٹ ہونے دیں، ضلعی حکومتوں کے انتخابات میں نوے ہزار منتخب کونسلرزکی شکل میں نئی لیڈرشپ پیدا ہونے دیں تاکہ سب کو محسوس ہوکہ وہ اقتدارمیں شریک ہیں۔پاکستان اسی طرح بچے گا وگرنہ پارلیمنٹ میں بیٹھے آپ جیسے اقتدارکے کھلاڑی تو خاندان اور رشتہ داروں کو اقتدار میں حصہ دلاتے دلاتے ملک کو اس حال تک لے آئے ہیں!