میرے جیسے اسلام آباد کے کچھ صحافیوں کو شکایت رہتی تھی کہ ہمارے سمجھدار دوست محمود اچکزئی دھواں دھار تقریروں میں حکمران کو اتنے اچھے اچھے مشورے دیتے ہیں، ان پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ چلیں ہماری شکایت دور ہوئی اور ان مشوروں میں سے کچھ پر عمل شروع ہوگیا ہے۔ موصوف نے پچھلے ہفتے ہی قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریر میں نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ کینیڈا کے شہری کو گرفتار کر لیں۔ ایوان میں موجود نواز شریف اُن کا یہ مشورہ بڑے غور سے سن رہے تھے۔ جو کچھ لاہور میں ہوا ہے یقینا وہ اچکزئی کے مشورے پر عمل کی طرف پہلا قدم ہے۔ حکمران کتنے اچھے ہیں نہ صرف ایسے مشوروں پر عمل کرتے ہیں بلکہ اگر چار بچوں کی حاملہ ماں کو بھی جبڑے میں گولیاں مارنا پڑیں تو بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ میں نے ابھی تک‘ ان ہلاکتوں پر اچکزئی کی طرف سے شہباز شریف کی مذمت نہیں پڑھی۔ (ہوسکتا ہے انہوں نے کی ہو) جمعرات کو اچکزئی کی وزیراعظم سے پھر ملاقات ہوئی۔ یقینا انہوں نے کچھ نئے مشورے دیے ہوں گے کہ اب عوامی تحریک کے کارکنوں کو گولیاں مارنے کے بعد طاہر القادری کے ساتھ ان کی پاکستان آمد پر کیا سلوک کرنا ہے‘ تاکہ بقول میرے مارننگ پروگرام کے دوست سعید قاضی کے‘ اس ''ٹھیکیدار جمہوریت‘‘ کو بچایا جا سکے جس میں صرف نواز شریف کا اپنا خاندان ، ان کی برادری اور اچکزئی کا اپنا بھائی گورنر اور وزیر لگ سکتا ہے۔
ہو سکتا ہے محمود خان اچکزئی کے چاہنے والے کہیں کہ انہوں نے قادری کو گرفتار کرنے کی بات کی تھی نہ کہ ان کے ورکرز کو مارنے کی ۔ یہ تو اب مشورہ سننے اور ماننے والے پر منحصر ہے کہ وہ آپ کے مشورے پر کس رنگ میں عمل کرتا ہے۔ آپ نتیجہ دیکھیں۔ یہ نہ دیکھیں کہ نتائج کیسے حاصل کیے گئے ہیں۔ ممکن ہے ورکرز کو مارنا اچکزئی کے مشورے پر عمل کرنے کی طرف پہلا قدم ہو۔ سوچا گیا ہو‘ اچکزئی چاہتے ہیں کہ طاہر القادری کو ایئرپورٹ پر گرفتار کر لیا جائے
تو پہلے ذرا دیکھ لیا جائے کہ اگر گرفتاری کی نوبت آئے تو ان کے ورکرز کیا ردعمل دیں گے اور پولیس کیا کارروائی کرے گی؟ یوں ردعمل کو چیک کرنے کے لیے آٹھ نو ورکرز کو مارنا ضروری ہوگیا تھا! اب یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے محمود خان اچکزئی اس طرح کے نادر مشورے عطا کر کے اپنے پسندیدہ وزیراعظم نواز شریف سے دوستی کررہے ہیں (جن کی دوستی کی وجہ سے وہ اپنے ایک بھائی کو گورنر اور دوسرے کو وزیر لگو ا چکے ہیں) یا پھر وہ ان سے 2008ء کے الیکشن میں دغا کرنے کا بدلہ لے رہے ہیں ( نواز شریف نے اچکزئی سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ جنرل مشرف کے کرائے گئے الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ اچکزئی اور دیگر دھوکے میں رہے اور حصہ نہ لیا لیکن نواز شریف نے الیکشن میں حصہ لیا) ویسے محمود خان اچکزئی کا یہ فیصلہ سمجھ سے باہر ہے‘ وہ جمہوری دور میں‘ کسی کو آئینی حق کے تحت احتجاج کرنے پر کیوں گرفتار کرانا چاہتے ہیں ۔
کئی لوگ اس پر بھی آج تک حیران ہیں کہ پختون اچکزئی نے بلوچستان سے بننے والے بلوچ وزیراعظم جمالی کو تو ان کی منت سماجت کے باوجود ووٹ نہیں دیا تھا لیکن نواز شریف کو فوراً ووٹ دے دیا۔ شاید اس وقت بلوچ جمالی کے پاس ان کے پختون بھائی کو گورنر بنانے کا اختیار نہ تھا یا پھر وہ بھائی ابھی اسلام آباد میں سرکاری نوکری کرتے تھے اس لیے وہ گورنر نہیں لگ سکتے تھے۔ یاپھر جنرل مشرف کے جمالی اور جنرل ضیاء کے نواز شریف میں کوئی ایسا فرق تھا جس کا علم صرف اچکزئی کو ہی تھا۔
جہاں تک لاہور میں قتل و غارت کی بات ہے تو مجھے حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ پولیس ہو یا سول سروس اب اس حالت میں پہنچ چکی ہے کہ یہ اپنی پوسٹنگ کے لیے کسی کو بھی قتل کرنے کو تیار ہے ۔ پاکستان کی سول سروس کا ڈھانچہ جس طرح تباہ ہوچکا ہے اس میں غنڈہ گرد ہی اب سروس اور ترقی کر سکتے ہیں۔ میں نے ایسے ایسے افسران کو پوسٹنگ کے لیے سیاستدانوں کے تلوے چاٹتے دیکھا ہے کہ یقین کریں گھن آتی تھی ۔ یہ لوگ ایک پوسٹنگ کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ۔ تنخواہ یہ عوام کے ٹیکسوں سے لیتے ہیں لیکن غلامی سیاستدانوں کی کرتے ہیں۔ اس ملک میں کوئی افسر اس وقت تک اوپر نہیں جا سکتا جب تک وہ باس کے ہر حکم کو بجا نہ لائے۔
آج کل وزیراعظم ہائوس میں جس طرح پروموشن کا فیصلہ ہوتا ہے اس سے مزید سرکاری غلاموں کی ایک نئی نسل ترقی کر کے اگلے گریڈز میں جارہی ہے۔ وزیراعظم خود فرما چکے ہیں انہیں بڈھے بیوروکریٹس کی ضرورت نہیں رہی بلکہ جی حضوری (Go getters) افسران چاہئیں۔ یعنی ایسے افسران ہوں جو اعتراض نہ کریں بلکہ حکم بجا لائیں۔ یقین کریں ایسی ہی نسل اب سی ایس ایس کر کے سول سروس میں آرہی ہے جسے پتہ ہے کہ اس ملک میں ایمان بیچ کر اور دوسروں کے بچوں کو قتل کر کے ہی ترقی لی جاسکتی ہے۔ جب یہ پیمانہ ہو کہ اب کسی ایماندار اور اہل افسر کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دینا تو پھر رونا کس بات کا ۔ جب افسران نے بھی طے کر لیا ہے کہ وہ ساری عمر ایک شخص کی غلامی کر کے باقی سب پر حکم چلائیں گے تو پھر کہاں کا انصاف اور کہاں کا ضمیر۔
ایک دن ڈاکٹر ظفر الطاف اپنے دور کے ایک سابق چیف سیکرٹری آغا فضل کی باتیں سنا رہے تھے کہ کیسے وہ ڈپٹی سیکرٹری کے طور پر آغا صاحب کو افسران کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کی فہرست بھیجتے تھے تو وہ زیادہ تر ان سفارشات پر عمل کرتے۔ میں کچھ دیر سنتا رہا اور بول پڑا واقعی اس دور میں چیف سیکرٹری کو اختیار تھا کہ کس افسر نے کس ضلع یا جگہ پر تعینات ہونا ہے اور وہ آگے سے ڈپٹی سیکرٹری کی طرف سے بھیجی گئی سفارشات پر عمل کرتا تھا اور سیاستدانوں کو اس فیصلے سے اختلاف کی جرات نہیں ہوتی تھی؟ واقعی ہمارے ملک میں کبھی ایسا ہوتا تھا؟
اب ایک نیا طریقہ واردات نکالا گیا ہے۔ ایک جونیئر افسر کو اس کی اوقات سے بڑی پوسٹ دے دو۔ وہ ابھی اسسٹنٹ کمشنری کر کے فارغ نہیں ہوتا کہ اسے کمشنر یا سیکرٹری لگا دیا جاتا ہے۔ وہ افسر بھی انکار کی بجائے اپنے خاندان اور بیچ میٹس کے سامنے اپنی ٹور بنانے کے چکر میں ان پر ہی افسر لگ کر ہر غلط کام کرنے اور بندے مارنے پر تل جاتا ہے۔ آپ وزیراعظم ہائوس سے لے کر وزیراعلیٰ پنجاب تک میں بیٹھے بابوئوں کے گریڈ اور ان کی پوسٹیں دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کون کس قابلیت پر اور کیوں بیٹھا ہے۔ خیر اب تو ترقی اور پوسٹنگ لینے کے لیے کشمیر ی ہونا بھی ضروری ہوگیا ہے‘ وگرنہ قابل اعتبار نہیں ہوگا۔ پنجاب سے لے کر اسلام آباد تک اب سب بیوروکریٹس کو پتہ ہے وہ کن شرائط پر نوکری کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے ضلع میں پولیس مقابلے میں اگر بندے مارسکتے ہیں تو پھر وہ ڈی پی او لگے رہیں گے وگرنہ نہیں۔ وہ نواز لیگ کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے کہنے پر ان کے مخالفو ں کا جینا حرام کریں گے تو ڈپٹی کمشنر لگ سکیں گے۔ شاہی خاندان کے جانشینوں کے دودھ دہی ، انڈوں کے کاروبار کا تحفظ کر سکتے ہیں تو آپ ٹھہر سکتے ہیں ۔
ایک لمبی کہانی ہے کیسے پولیس کسی دور میں اپنے ٹائوٹ رکھتی تھی اور اب اس دور میں وہ خود شاہی خاندان کی ٹائوٹ بن کر رہ گئی ہے۔ سب نے دیکھا کہ گلو بٹ کیسے پولیس کی فورس کے آگے ڈنڈا لہراتا دوڑ کر حملہ آور ہوا اور درجنوں گاڑیوں کو توڑنے کے بعد ایک مجاہد ایس پی سے مبارکباد کا مستحق ٹھہرا۔ یہ ہے وہ کلچر جو پنجاب میں اب جڑیں پکڑ چکا ہے۔ کسی شریف اور ایماندار افسر کی اب گنجائش نہیں رہی۔ اب اگر سروس کرنی ہے توپھر آپ کو بندے قتل کرنے پڑیں گے۔ نہیں کریں گے تو آپ کے محکمے کے ہی درجنوں افسران آپ کی جگہ لینے کو تیار ہیں‘ جو اپنے بچوں کے لیے روزی کمانے کے چکر میں چار بچوں کی ماں کو بھی گولیوں سے مار ڈالیں گے۔ لاہور میں ہونے والے قتل عام پر مجھے پنجاب کے سابق چیف سیکرٹری جیون خان کی کتاب ''جیون دھارا‘‘ کا ایک باب یاد آرہا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کیسے نواز شریف نے 1988ء میں وزیراعلیٰ بننے کے لیے نائب تحصیلدار اور اے ایس آئی کی سیٹیں ایم پی ایز میں دھڑا دھڑ بانٹی تھیں۔ وردیوں میں چھپے یہ بھیڑیئے جو غریبوں اور نہتوں پر غراتے اور طاقتور کے آگے بھیگی بلی بن جاتے ہیں‘ ملک کے اصل دشمن ہیں۔ جو خود ہی قانون ہیں اور خود ہی قاتل۔
امید ہے جمعرات کے روز ہونے والی وزیراعظم سے ملاقات میں اچکزئی نے انہیں مزید مشوروں سے نوازا ہوگا جس کے اثرات چند روز میں اس طرح سامنے آئیں گے‘ جیسے قومی اسمبلی میں ان کے دیے گئے مشورے کے بعد لاہور میں چار بچوں کی ماں سمیت آٹھ ورکرز کو قتل کرنے کے بعد سامنے آئے ہیں! میرے دوست اچکزئی نواز شریف سے 2008ء میں ان سے الیکشن میں دغا کرنے کا اس سے بہتر انتقام نہیں لے سکتے جو وہ ایسے مشوروں کی شکل میں ان سے لے رہے ہیں۔ ماریو پزو نے شاید یہ فقرہ ایسے کرداروں کے بارے میں گاڈفادر میں لکھا تھا:
Revenge is a dish,best served cold.