ویک اینڈ پر ورجینیا اور واشنگٹن کا پروگرام بن گیا ۔
دل چاہ رہا تھا لیوس میں ہی ڈاکٹر عاصم صہبائی کے ساتھ ویک اینڈ پر نئی فلمیںدیکھوں ۔ ابھی سے لگتا ہے پاکستان لوٹ کر میں ڈاکٹر صہبائی کے ساتھ فلمیں دیکھنے کو مس کروں گا ۔ ڈاکٹر احتشام قریشی بالٹی مور آرہے تھے، ان کے ساتھ چل پڑا ۔ بالٹی مور میں میوزیم کے قریب پرانی کتابوں کی دوکان ہے۔ اعلیٰ کتابیں اورانتہائی سستی۔ پہلی دفعہ گیا تو بھی دو گھنٹے اکیلا گاہک تھا۔ اب گیا تو بھی اکیلا۔ حیران ہوا دوکان کیسے چلتی ہوگی ۔ بیسویں صدی کے بہترین ناولز میں سے ایک ناول Lolita اٹھایا جس کا ذکر کلدیپ نائر کی آٹوبائیوگرافی Beyond the Lines میں پڑھا تھا ۔ وزیراعظم نہرو کو تجویز کیا گیا کہ متنازع ناول بین کر دیں۔ نہرو نے الٹا ایک نوٹ لکھا تھا یہ ناول کیوں بین ہونا چاہیے۔
کہاں گئے ہندوستان، پاکستان کے لیڈرز جو کبھی پڑھتے اور شعور رکھتے تھے۔
ناول اٹھا کر کائونٹر پر گیا تو لڑکی بولی ۔یہ نیا ایڈیشن ہے۔ میں پرانا ایڈیشن دیتی ہوں۔ سستا پڑے گا ۔ حیران ہوا اکیلے گاہک کی جیب کاٹنے کی بجائے سولہ ڈالرز کا ناول وہ دو ڈالر میں دے گی۔
لندن ریلوے اسٹیشن کی لڑکی یاد آئی جس نے کہا تھا، پانچ منٹ انتظار کروں تو سات پائونڈزکا ٹکٹ چار میں ملے گا کیونکہ رش آور ختم ہوجائے گا ۔پرانی کتابوں کا بنڈل اٹھایا ۔ بالٹی مور سے ورجینیا اکبر چوہدری کے گھر آگیا ۔
اگلے دن اکبر چوہدری نے بتایا کہ ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک ٹائون میں ڈاکٹر حماد حفیظ نے افطاری پر کچھ دوستوں کو بلا رکھا ہے۔ شام سے پہلے ایک خوبصورت گھر میں پہنچے۔
ڈرائنگ روم میں کچھ پاکستانی ڈاکٹرز اور پاکستان ہی زیربحث۔
اس طرح کی محفل میں میری کوشش ہوتی ہے زیادہ سنا جائے۔ پھر سوچتا ہوں چپ رہا تو سمجھا جائے گا مغرور ہے۔ صحافت سر کو چڑھ گئی ہے۔ڈاکٹر حماد کے والد حفیظ صاحب بھی محفل میں شریک ہوئے۔ بتانے لگے کہ وہ 72 برس کے ہیں تو یقین نہ آیا ماشاء اللہ اتنے صحت مند...میں نے کہا :یہاں امریکہ میں نوے برس تک جینا عام سی بات ہے۔ اسی برس تک تو لوگ کام کرتے ہیں ۔
ڈاکٹرحماد نے کہنے لگے‘ ایشیائی، امریکن اور یورپین کے جینز میں بہت فرق ہے۔ ان لوگوں کے جینز اس طرح کے ہیں،یہ لوگ تندرست رہتے ہیں۔طویل عمر پاتے ہیں۔ بتانے لگے :ہندوستان، پاکستان ، سری لنکا یابنگلہ دیش کے لوگوں کے جینز مختلف ہیں ۔ ایشیا میں چین اور جاپانی مختلف جینز کے مالک ہیں ۔ان کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں ۔ اگر ان کے پاس ایک دل کا مریض پاکستانی اور ایک امریکن یا یورپین ہو اور دونوں کو ایک جیسی بیماری ہو تو دیکھا گیا ہے یورپین مریض تندرست ہوکر گھر جائے گا جب کہ پاکستانی کا بچنا مشکل ہوگا ۔ ڈاکٹر حماد بتانے لگے :ان کی جسمانی ساخت اور دیگر اعضاء میں بہت فرق ہے۔یہ زیادہ محنتی اور سخت جان ہوتے ہیں ۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب! قدرت ان پر ہر لحاظ سے مہربان ہے۔ ٹھنڈے موسم، سبزہ، بہتر جینز، زندہ رہنے کو بہترین ماحول، اچھے حکمران، پرسکون زندگیاں، ذہانت ۔۔لمبی عمریں۔ جفاکشں۔۔صفائی پسند۔۔
ڈاکٹر حماد مسکرا پڑے۔
مجھے سخت سوالات کرتے سب ڈاکٹر اچھے لگے۔ امریکہ میں اگر واقعی کوئی امیر ہے تو وہ یہ ڈاکٹرز ہیں ۔ اپنے فارم ہائوس ٹائپ گھر ہیں۔ قیمتی گاڑیاں۔۔ بیوی بچے، اچھا رہن سہن ۔۔ ہر سہولت میسر ہے۔ پھر بھی انہیں پریشانی ہے ، ان کے ملک کا کیا حشر ہوگیا ہے۔ میں نے کہا :ایک بات میں نے نوٹ کی ہے آپ لوگ اس لیے بھی پریشان ہیں کہ آپ ابھی تک امریکہ کو اپنا نہیں سکے۔ آپ کے ذہن میں ہے کہ کبھی نہ کبھی پاکستان لوٹ جانا ہے۔ ڈلیور ریاست میں کچھ ڈاکٹرز واپس لوٹنے کا سوچ رہے ہیں کہ بچے بڑے ہورہے ہیں ۔ اس لیے آپ لوگ پاکستان کو اس حالت میں دیکھ کر پریشان ہیں ۔ جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے یہ معاشرہ ہمارے بچوں کے لیے مناسب نہیں۔ میں تو ایسے خاندان سے بھی یہاں ملا ہوں جو اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجتے کہ معاشرہ درست نہیں ہے۔ کچھ واپس جانا چاہتے ہیں۔
سب نے کہا نہیں ایسی بات نہیں ہے وہ سب یہیں رہنا چاہتے ہیں ۔ لیکن ان کے رشتہ دار، دوست، ماضی سب کچھ پاکستان میں ہے ...وہ چاہے واپس نہ جانا چاہتے ہوں لیکن اپنے وطن کو خوشحال اور سکون کا گہوارا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ تلخ لیکن اچھے سوالات۔۔ حیران ہوا کیا جواب دوں ۔
میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب آپ سب مجھے بتارہے تھے یہاں لوکل لیول پر کیسے سب انتظامات کونسل نے سنبھال رکھے ہیں ۔ طاہر القادری متنازع ہوں گے، ان میں ہزار برائیاں ہوں گی لیکن جو وہ بات کررہے ہیں اس پر ہم غور نہیں کرتے کہ اقتدار نچلے لیول پر شفٹ کرو۔ عمران خان نے کبھی نعرہ مارا تھا وہ اقتدار میں آتے ہی تین ماہ میں ضلعی حکومتوں
کے الیکشن کرائیں گے۔ ڈیڑھ سال ہونے کوہے،کچھ نہیں ہوا ۔ مختلف بہانوںسے کام چلا رہے ہیں۔ نہ ہوگا نو من تیل نہ رادھا ناچے گی۔ اصلی جمہوریت ملک میں ضلعی حکومتیں لاتی ہیں۔ ضلعی حکومتیں ہی اسٹیٹس کو توڑیں گی۔ کہاں ایک ہزار ایم این ایز، سینیٹراور صوبائی ممبران اسمبلی جنہوں نے سب اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور کہاں نوے ہزار منتخب کونسلر۔ جمہوریت تو وہ ہوتی ہے جو لوکل لیول پر آسانیاں پیدا کرے۔ کتنی بار لکھ چکا ہوں،پنجاب کو نو سو ارب روپے ملے ہیں ۔ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کو پانچ سو ارب روپے بھی دے دیں اور باقی تیس اضلاع کو پھر بھی چار سو ارب میں سے اوسطاً دس ارب روپے سالانہ ملتے ہیں ۔ اندازہ کریں کہ ایک سال میں دس ارب اور پانچ برس میں پچاس ارب روپے ایک ضلع کو۔۔بیوروکریٹ اور سیاستدان کتنا کھا لیں گے۔کھانے کے لیے بھی پراجیکٹ شروع کرنے پڑیں گے...اگر پچاس ارب میں سے تیس ارب روپے بھی اصل خرچ ہوگیا اور بیس ارب روپے کھا جائیں پھر بھی ایک ضلع پانچ برس میںکہاں جا پہنچے گا ؟ ہمارے اضلاع بھی امریکہ اور یورپ کی طرح بن سکتے ہیں ۔ فیڈرل حکومت ہر ضلع کو براہ راست این ایف سی میں سے دس ارب روپے سالانہ دے اور درمیان سے صوبائی حکومتوں کا کردارختم کرے جو ان کے حصے کا مال کھارہی ہیں ۔
یہ فارمولہ اسٹیٹس کو توڑ سکتا ہے۔ لوکل لیول پر نوے ہزار نئے سیاستدان پیدا کرسکتا ہے۔ جس میں کسی وزیر یا ایم این اے کا بیٹا یا بیٹی نہیں ہوگا ۔ سیاستدانوں نے مافیا کی طرح ہر ضلع پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ مافیا سیاستدان ضلعی حکومتوں کے خلاف ہیں کیوں کہ اگر لوکل سطح پر اختیارات جاتے ہیں تو ہر ضلع کو سالانہ چالیس سے پچاس ارب روپے این ایف سی سے مل سکتا ہے۔ ہر ضلع میں نئے سیاستدان پیدا ہوسکتے ہیں جو ان وزیروں اور کرپٹ سیاستدانوں کا کنٹرول ختم کر سکتے ہیں۔
خاصی دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔مجھے پاکستان کی محبت میں سرشار ان ڈاکٹروں کو وطن سے بہت دور بیٹھ کر مایوس کرنا برا لگ رہا تھا ...ہزار کوشش کی انہیں کوئی میٹھی گولی دوں،کوئی امید دوں،کوئی نئی بات کہوں،پھر سوچتا کیا کہوں کہ وہ سب جانتے ہیں !
اور کوئی بات نہ ملی تو انہیں کہا کسی وقت فلم Gangs of New York دیکھ لیں ۔ ڈیڑھ سو سال پہلے امریکہ کا یہی حال تھا جو آج ہمارا ہے۔کرپٹ سیاستدان، کرائے کے قاتل ، قتل و غارت، بھتے خور، نااہل پولیس، مافیا ، الیکشن دھاندلیاں، گینگ وارز، ٹارگٹ کلنگ...
بس ڈیڑھ سو برس کا فرق ہے۔ زیادہ نہیں ۔
رات گئے واشنگٹن لوٹتے ہوئے اکبر چوہدری نے پوچھا: رئوف بھائی کیسی رہی یہ ملاقات۔ میں نے کہا ،سب اچھے ہیں ۔ کیا کریں۔ ان کے خوابوں کے قاتل امریکہ نہیں پاکستان میں رہتے ہیں جن کا یہ اور ہم کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
اکبر چوہدری نے پوچھا اور کیا اچھا لگا۔
میں نے کہا جب ڈاکٹر حماد حفیظ کے ڈرائنگ روم میںبیٹھے تھے تو گھر کی طرف باپ کی رینگتی گاڑی دیکھ کر تین سالہ پیاری بچی سارا دن باپ کے انتظار کے بعد جس طرح ڈیڈی ڈیڈی کہتی، لان میں سے دوڑ تی گلے جا لگی وہ بھی اچھا لگا ۔
دن بھر کا تھکا ہارا باپ اور سارا دن انتظار کرتی بیٹی کا اداس ڈھلتی شام میں یوں دنیا جہاں سے بے خبر پیار سے گلے لگنے کا منظر، مجھے برسوں پہلے بچپن اور گائوں کی گلیوں میں لے گیا ۔ میں نے اپنے آپ کو کچے گھر کی چھت پر اس سے ملتی جلتی شام میں گائوں کے دھول اڑاتے راستوں پر گھنٹوں نظریں جمائے ملتا جلتا انتظار کرتے پایا اور پھر مایوس ہو کر نم آنکھیں بند کر لیں !!