"RKC" (space) message & send to 7575

امریکی نیگر اور پاکستانی سفیدفام

ڈیلور ریاست کے شہر لیوس سے ویک اینڈ پر نیویارک آنے کا پروگرام بن رہا تھا مگر ڈاکٹر عاصم صہبائی کو چھوڑ کر جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ چار ماہ میں ان کی اب عادت سی ہوگئی۔ بڑے عرصے بعد ایک خوبصورت انسان کے ساتھ چار ماہ گزرے۔ اپنے گرو عامر متین کی بات یاد آتی ہے کہ عاصم صہبائی کے اندر ایک فرشتہ صفت انسان چھپا ہوا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ ڈاکٹر عاصم صہبائی اور بھابی عائشہ خان نے زندگی کے برے دنوں میں میری مدد کی ہے جو میں عمر بھر نہ بھلا سکوں گا؛ تاہم نیویارک جانا بھی ضروری تھا۔ 
ڈاکٹر احتشام قریشی نے کہا‘ شاہ جی والنگٹن شہر سے ٹرین پر سوار ہوجائیں‘ اچھا رہے گا ۔ اگرچہ نیویارک سے میاں مشتاق احمد جاوید کہہ چکے تھے کہ پروگرام ہو تو وہ آکر لے بھی جائیں گے اور میں نے ٹھہرنا بھی انہی کے پاس ہی تھا؛ تاہم احتشام کی بات مان لی اور ٹرین پر سفر کا ارادہ کر لیا ۔
راستے میں احتشام کہنے لگے ''شاہ جی یہ وزیراعظم نواز شریف نے کیا بیان دیا ہے۔ فرماتے ہیں انہوں نے سرکاری افطاریوں پر پابندی لگا دی ہے؟‘‘ میں نے کہا ''ایسا بین ہر سال لگتا ہے۔ آپ اس بات کو سنجیدہ نہ لیں ۔ ایسے ناٹک اور نوٹنکیاں ہمارے سب حکمران کرتے ہیں۔ عوام بھی عادی ہوچکے ہیں۔ امریکہ سے ایک صاحب سب دوستوں کو لوٹ کر وطن واپس تشریف لے گئے۔ پہلے سیلاب زدگان کے ساتھ ایک ملین ڈالر کا فراڈ کیا ۔ پھر ایک پارٹی میں شامل ہو کر سینٹ کا ٹکٹ خریدا۔ سابق حکومت میں وزیر لگے۔ فرمایا‘ اب وہ پچاس ہزار روپے کی تنخواہ نہیں لیں گے۔ ایسی باتوں پر ہمارے عوام بہت خوش ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک وہ ایماندار ترین شخص ہے جو پچاس ہزار روپے تنخواہ نہ لے چاہے باقی سب کچھ لوٹ لے۔ وہی ایماندار صاحب دبئی میں اپنے بھتیجے کے ساتھ ایک بحری جہاز کی خریداری کے سکینڈل میں ملوث پائے گئے۔ آج کل موصوف ایک نئی پارٹی میں شامل ہو کر انقلاب لانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
ڈاکٹر احتشام بولے ''شاہ جی آپ کو نیگر اوربلیک میں فرق کا علم ہے؟‘‘ 
میں نے اپنے آپ کو مشکل میں پایا اور اتنا بول سکا کہ میرے نزدیک تو ایک ہی ہیں۔ ڈاکٹر احتشام بولے ''نیگر اور بلیک میں بڑا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلیک کو اگر نیگر کہا جائے تو وہ اپنی سخت توہین سمجھتا ہے‘‘۔ 
میں نے کہا ''شاہ جی چلیں‘ آج یہ فرق ہی بتادیں‘‘۔ 
ڈاکٹر قریشی کہنے لگے: نیگر وہ ہے جو ہر اس کام کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتا ہے جو اسے ایک ذمہ دار شہری کے طور پر دوسرے لوگوں کی طرح کرنے ہی چاہئیں۔ اگر وہ یہ کام کرتا ہے تو کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ اسے پتہ ہونا چاہیے کہ یہ کام کرنے میں اس کی اپنی بھلائی ہے۔ میں تھوڑا سا حیران ہوا ۔ ڈاکٹر احتشام بولتے رہے۔ ''ایک نیگر اس بات پر فخر کرے گا کہ اس نے اپنے بیٹے کو سکول بھیجا ہے۔ وہ اب اپنا کوڑا کرکٹ ڈسٹ بن میں ڈالتا ہے۔ وہ ایک ماہ سے جیل نہیں گیا۔اس نے اس دفعہ بجلی کا بل دے دیا ہے۔ اس نے آج ہارن نہیں بجایا ۔ وہ پچھلے دو دن سے ٹریفک سگنل پر رکتا ہے۔ نیگر ان باتوں پر اتراتا اور دوسروں سے داد کا طالب ہوتا ہے‘ جب کہ اس کے برعکس بلیک کو پتہ ہے کہ اس نے گوروں کی طرح یہ سب کام کرنے ہیں کیونکہ اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ بلیک ذہنی طور پر ترقی کر گیا ہے‘ لہٰذا رنگ تو دونوں کا ایک ہی ہے لیکن نیگر اور بلیک کی اپروچ میں بہت فرق ہے۔ جب نیگر یہ سب کام دوسروں پر احسانات جتا کر کرتا ہے تو گورا حیران ہوتا ہے کہ جس بات پر نیگر اتراتا پھر رہا ہے‘ یہ سب کام تو اسے ویسے ہی کرنے چاہئیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کاموں کا فائدہ ریاست یا دوسروںسے زیادہ خود اس کی اپنی ذات کو ہے‘‘۔ میں نے کہا ''شاہ جی آپ نے نیگر اور بلیک کا فرق مجھے سمجھانے کی کوشش ہے۔ یقینا اس کے پیچھے کوئی وجہ ہوگی‘‘۔ ڈاکٹر احتشام مسکرائے اور بولے ''شاہ جی آج صبح ایک پاکستانی اخبار میں لیڈ اسٹوری پڑھی جس کے بعد میرے ذہن میں نیگر آرہا ہے۔ اب بتائیں اس میں لیڈ اسٹوری لگنے کی کیا بات ہے کہ وزیراعظم نے حکم دیا ہے کہ سرکاری خرچے پر کوئی افطاری نہیں ہوگی ۔ یہ تو وہی نیگر والا کام ہورہا ہے۔ یعنی ریاست اور اس کے شہریوں پر احسان کیا جارہا ہے کہ اب ان پیسوں کو افطاریوں پر خرچ نہیں کیا جائے گا ۔ اس بات پر تو ویسے ہی بین ہونا چاہیے‘ کیونکہ یہ پیسہ اس کام کے لیے تو ہے ہی نہیں۔ ہمارا حال اس نیگر کی طرح ہوچکا ہے جو اپنے فائدے کا کام بھی سب پر احسان بنا کر کرتا ہے۔ اب یہ بھی احسان ہے کہ افطاری ان پیسوں سے نہیں ہوگی۔ بھائی یہ پیسے اس کام کے لیے عوام سے اکٹھے بھی نہیں ہوئے تھے تو پھر کس بات کا بین اور کس بات کا کریڈٹ؟‘‘ 
ڈاکٹر احتشام قریشی تو یہ کہہ کر چپ ہوگئے لیکن مجھے احساس ہوا کہ واقعی ہم سب اس نیگر کی طرح ہوگئے ہیں جو ہر کام پر احسان جتاتا ہے ۔ اگر ہم ٹریفک لائٹ پر رک جائیں تو بھی ہم احسان کرتے ہیں ۔ پولیس کانسٹیبل ہمیں سیٹ بیلٹ یا ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان کرے تو ہم اس پر چڑھ دوڑتے ہیں کیونکہ ہمارے خیال میں وہ ہمارے ساتھ زبردستی کررہا ہے اور اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہماری جان بچانے کی کوشش کرے‘ ہم جیئیں‘ چاہے مریں۔ ہمارے ملک میں کوئی کام جس کے ہمیں پیسے یا تنخواہ ملتی ہے‘ وہ بھی کیا جائے تو ایک احسان سے کم نہیں ہوتا ۔ خاکی مارشل لاء نہ لگائے تو بھی احسان‘ سیاستدان پل کا افتتاح کرے تو بھی احسان‘ حالانکہ پیسے عوام کے ہی لگے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی ایماندار آدمی کے اندر چھپے زعم تقویٰ یا خبط عظمت کے مظاہرے دیکھیں۔ بھائی آدمی کو ویسے ہی ایماندار ہونا چاہیے۔ کیا ایماندار یا نیک ہونا کسی پر احسان ہے ؟ کوئی اگر اچھا ہے تو اس سے اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہوتا ہے اس میں دوسروں پر احسان کہاں سے آجاتا ہے؟ 
جب میں پاکستان میں ہر دوسرے وزیر‘ سرکاری افسر‘ کسی بڑے سیاستدان یا ان کے حواریوں کو اس طرح کے کریڈٹ لینے کی کوشش میں مصروف پاتا ہوں تو مجھے وہ نیگر یاد آتا ہے جو ہر وہ کام کر کے احسان کرتا ہے جس کے اسے پیسے یا تنخواہ ملتی ہے۔ ایک ایم این اے، وزیر، ایم پی اے، سینیٹر قوم سے ہر ماہ ایک بڑی رقم تنخواہ، الائونس، فری ٹکٹ، میڈیکل، گاڑیوں وغیرہ کی شکل میں وصول کرتا ہے اور پھر قوم پر احسان کرتا ہے کہ وہ ان کی ''مفت‘‘ خدمت کررہا ہے۔ پاکستان میں اکثریت کو علم تک نہیں ہے کہ ان کا ہر چھوٹا بڑا لیڈر ان کی خدمت کرنے کا ہر ماہ کیا معاوضہ لیتا ہے۔ حکمران کی حالت ایک ملازم جیسی ہے جسے ہر ماہ کام کی تنخواہ ملتی ہے اور آپ اپنے ملازم سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اچھا کام ہی کرے گا ۔ یہی وجہ ہے مغربی ملکوں میں حکمران کو سکینڈل پر استعفیٰ دینا پڑتا ہے یا پھر جیل جاتا ہے۔ہمارا حکمران ہمارے پیسوں پر عیاشی بھی کرتا ہے اور ہم پر احسان بھی جماتا ہے۔ 
ایک دفعہ میں نے اپنے انگریزی اخبار کے ایڈیٹر سے یہی کہا تھا کہ سر کیا بات ہے جب میں کوئی بڑا سکینڈل فائل کرتا ہوں آپ تعریف کا ایک لفظ تک نہیں کہتے اور خبر کی وضاحت آجائے تو آپ ڈانٹتے ہیں۔ ایڈیٹر صاحب نے بڑی اچھی بات کہی ۔ وہ بولے ''تمہیں نوکری یہ سمجھ کر دی گئی ہے کہ تم اچھی خبریں لائو گے اور تمہیں اس کام کی تنخواہ ملتی ہے۔ اگر تم اچھا کام کرتے ہو تو کسی پر احسان نہیں کرتے کیونکہ تمہیں اس کے پیسے ملتے ہیں ۔ یہ تمہارے فرائض میں شامل ہے۔ ہاں جب تم برا کام کرو گے تو تمہاری جواب طلبی ہوگی کیونکہ دنیا میں کوئی کسی کو برا کام کرنے کی تنخواہ نہیں دیتا‘‘۔
بہت پہلے یہ بات میری سمجھ میں آگئی تھی‘ اس لیے میں نے کبھی اپنے ایڈیٹرز اور مالکان سے اپنے کام کی تعریف کی توقع نہیں رکھی کیونکہ میری تسلی کے لیے یہ کافی ہے کہ میں نوکری پر قائم ہوں اور ہر ماہ مجھے تنخواہ مل جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے میں درست کام کررہا ہوں۔ تو جو عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے ہونے والے اربوں روپوں سے عیاشی کرتے ہیں، ہر ماہ اچھی خاصی تنخواہ لیتے ہیں، پھر احسن اقبال کی طرح صرف گیارہ ہزار روپے سالانہ ٹیکس ادا کرتے ہیں، ایک وفاقی وزیرکی طرح بیٹے کو اکتالیس کروڑ روپے کا قرضہ حسنہ دے کر بھی ٹیکس گوشوارے میں ظاہر کرتے ہیں کہ آمدن صرف ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ ہے، عوام کے پیسوں سے بنے ہوئے محلوں میں رہتے ہیں، سال میں غیرملکی دوروں پر ڈیڑھ ارب روپے خرچ کرنے کا پلان بناتے ہیں، بلٹ پروف گاڑیاں اور اپنی رکھوالی کے لیے چوبیس چوبیس لاکھ روپے کے کتے خریدتے ہیں، سرکاری نوکر چاکر، سکیورٹی فورس، اربوں کے قرضے معاف کراتے ہیں، ان گنت مراعات اور بے پناہ کاروباری فائدے لیتے ہیں‘ پھر اپنے بچوں کو سیاست میں لانچ کرنے کے لیے ایک سو ارب روپے تک مختص کردیتے ہیں‘ کیا یہ ہمارے سفید فام حکمران پاکستانیوں پر حکمرانی کر کے اس طرح کے احسانات کرتے ہیں جیسے کوئی نیگر ایک ماہ جیل نہ جا کر یا بچے کو سکول بھیج کر امریکی معاشرے پر کرتا ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں