امریکہ میں رہنے والے پاکستانی پریشان ہیں ۔ وہ پاکستان سے چلے تھے کہ نئی دنیا بسائیں گے۔ نئی دنیا بسا بھی لی، تو اب پتہ چلا پیچھے گھر ڈوب رہا ہے۔ ہر پاکستانی کے پاس اپنی جدوجہد کی ایک متاثر کن کہانی ہے۔ اکثریت کو علم ہے وہ دوبارہ پاکستان نہیں لوٹ سکتے لیکن پھر بھی سب نے پاکستان میں اپنے اپنے گھر بنا رکھے ہیں ۔
کچھ کے گھروں پر رشتہ دار قبضہ کر لیتے ہیں تو کسی گھر کا کرایہ دار مالک بن جاتا ہے۔ اگر بچوں کو پاکستان ملوانے لے جائیں تو ان کے بچوں کو اغوا کر کے ان سے تاوان وصول کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ دھرتی کی محبت میں پھر بھی دھوکے کھاتے رہتے ہیں ۔ سب کو علم ہے وہ اپنی اولاد کو پاکستان واپس نہیں لے جا سکتے۔ ان کے بچوں کا امریکہ میں حاصل کیا گیا جدید علم اور نئی ٹیکنالوجی اپنے ملک کے کام کبھی نہیں آئے گی ۔ یہ سب یہیں دل جلاتے رہیں گے۔
اپنا ملتانی دوست روشن ملک یاد آتا ہے جو امریکہ آن بسا ہے۔ روشن ملک اور میرے کئی دکھ سانجھے تھے۔ ملتان میں اس کا گھر ہمارا اپنا گھر ہوا کرتا تھا ۔ اس کے گھر کمال کی دال پکتی تھی اور رات گئے بھی تازہ گرم تندور کی روٹی مل جاتی۔ اس سے ملنے کو بہت دل چاہتا تھا لیکن نہ مل سکا۔ امریکہ آکر بھی نہیں مل سکا ۔ دل پر ایک بوجھ لے کر پاکستان لوٹ رہا ہوں۔ کتنی راتیں روشن کے گھر کے لان میں گزری ہیں جہاں بیٹھ کر ہم ملتانی دوست گپیں ہانکتے اور کھانے کھاتے۔
روشن نے ایک دفعہ بتایا کہ وہ ایک سکھ کو امریکہ میں کہہ بیٹھا تھا کہ جب اس کی تعلیم مکمل ہوگی تو وہ پاکستان لوٹ جائے گا تو اس سکھ نے قہقہہ لگا کر کہا تھا... پر کتھوں... سکھ نے بتایا سب کہتے ہیں وہ لوٹ جائیں گے۔ بس کچھ پیسے کما لیں۔ لوٹ جائیں گے۔ پھر کہتے ہیں چلیں ایک بچہ پیدا ہوجائے پھر چلیں جائیں گے۔ پھر سوچتے ہیں چلیں اب موقع مل ہی گیا ہے تو بچے کو امریکہ میں ہی پڑھا لیں۔ بچے بڑے ہوجاتے ہیں اور پھر ہم سب امریکی زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں ۔ ایک دن پتہ چلتا ہے اب نہ ہم آگے جا سکتے ہیں نہ پیچھے۔ جب واپس جانے کا وقت ملا تو بڑھاپا سامنے کھڑا ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے اب اچھا علاج یہیں ملتا ہے اور پھر ایک دن سب یہیں رہ جاتے ہیں۔ اکیلے کسی بینچ پر بیٹھ کر روتے رہتے ہیں۔ جسم امریکہ میں تو روح گائوں میں چکر لگاتی رہتی ہے۔
ہمارا یار روشن ملک بھی اب امریکہ بس گیا ہے۔کبھی وہ بھی پاکستان لوٹنے کی بات کرتا تھا ۔
بات کہاں نکل گئی۔
سب پوچھتے ہیں پاکستان کا کیا بنے گا ؟ پاکستان کیسے سدھر سکتا ہے؟ میں نے کہا جب ہم نے سوچ لیا ہے ہم نے نہیں سدھرنا تو پھر کس سے شکوہ؟
ایک دوست نے یہ سوال دہرائے تو میں نے اسے ابوالکلام کا ایک واقعہ سنایا ۔
ابوالکلام سے پہلا تحریری تعارف ان کی کتاب ''غبار خاطر‘‘ پڑھ کر ہوا تھا جو میرے ایک اور ملتانی پیارے مرحوم دوست ذوالکفل بخاری نے دی تھی ۔ تاہم میں آزاد صاحب کا اس وقت فین ہوا جب میں نے برصغیر کی تاریخِ صحافت کے ایک بڑے نام دیوان سنگھ مفتون کی آپ بیتی ''ناقابل فراموش‘‘ پڑھی تھی۔ اس کتاب میں پاکستان کے حافظ آباد میں جنم لینے والا دیوان سنگھ مفتون لکھتا ہے کہ ان کی اور آزاد کی ملاقات نہ ہوئی تھی ۔ ابوالکلام آزاد وزیراعظم نہرو کی کابینہ میں وزیرتعلیم تھے۔ ایک دن ملاقات کا وقت طے ہوا ۔ دیوان سے گپ شپ جاری تھی کہ سیکرٹری نے ابوالکلام آزاد کو اندر آکر بتایا کہ وزیراعظم نہرو ان سے ملنے آرہے ہیں۔ آزاد نے کہا نہرو صاحب کو بتائیں کہ وہ ان سے ایک گھنٹے بعد مل سکتے ہیں کیونکہ اس وقت میں دیوان سنگھ سے ملاقات کررہا
ہوں کیونکہ یہ وقت ان سے طے ہوا تھا ۔ سیکرٹری نے بتایا کہ وہ ان سے ملنے کے لیے چل پڑے ہیں تو آزاد نے جواب دیا انہیں کہیں کہ وہ کچھ دیر بھارتی صدر کے پاس چائے پینے کے لیے رک جائیں کیونکہ یہ وقت دیوان سنگھ کا ہے۔
دیوان سنگھ دم بخود ہوگیا ۔ کیا کوئی وزیر اپنے وزیراعظم کو یہ کہہ سکتا تھا کہ وہ انتظار کرے ۔۔
اسی طرح اب سعیدہ وارثی کو دیکھ لیں۔ انہوں نے استعفیٰ دیا اور کھل کر لکھا کہ انہیں وزیراعظم سے اختلاف کیوں ہوا تھا اور وہ کیوں استعفیٰ دے رہی تھیں ۔
اب ان دونوں واقعات کو ملا کر دیکھیں ۔
ابوالکلام آزاد کو یہ جرات کس نے دی تھی کہ وہ نہرو کو بتا سکیں کہ وہ ان سے نہیں مل سکتے کیونکہ نہرو نے کوئی اپائنٹمنٹ نہیں لی تھی لہٰذا وہ یہ وقت انہیں نہیں دے سکتے تھے۔ یہ جرأت آزاد کو ان کے کردار نے دی تھی ۔ آزاد نے وزیراعظم سے پرمٹ نہیں لینا تھا ، کوئی ترقیاتی فنڈز لے کر مال نہیں کمانا تھا اور نہ ہی مرضی کا تھانیدار یا پٹواری لگوانا تھا اور نہ ہی پیسے لے کر نوکریاں دینی تھیں۔
ایسے وزیر کتنے ہوں گے جو اپنے وزیراعظم کو ایسی بات کہہ سکیں اور وزیراعظم بھی برداشت کر لے؟
میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کتنے وزراء اپنے وزیراعظم کی پالیسیوں سے اختلافات رکھتے ہیں لیکن کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ استعفیٰ دے سکیں ۔ ہاں ایک مثال یاد آتی ہے کہ ایک دفعہ قومی اسمبلی میں شوکت عزیز حکومت کو ایک بل پر شکست ہوگئی۔ میرے دوست ڈاکٹر شیر افگن نیازی وزیر برائے پارلیمانی امور تھے۔ شیرافگن سے سیاسی اختلافات چلتے رہتے تھے لیکن وہ ایک سادہ اور ایماندار انسان تھے۔ میں ان سے ملنے ان کے پارلیمنٹ لاجز میں فلیٹ پر گیا تو وہ اداس بیٹھے تھے۔ کہنے لگے یہ وزیر کے طور پر ان کی ناکامی تھی ۔ اگلی صبح وزیراعظم شوکت عزیز سے ملے اور انہیں استعفیٰ دے دیا۔ وزیراعظم نے قبول نہ کیا کہ آپ کی اس میں غلطی نہیں تھی۔
میں بھی توقع رکھتا تھا اگر نواز لیگ میں کوئی بے ضابطگی ہوگی تو اس پارٹی میں چند لوگ ایسے تھے جو نواز شریف کے خلاف اصول کی بنیاد پر اسٹینڈ لے سکتے تھے۔ان میں سے ایک خواجہ آصف تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے خواجہ محمد آصف نے اس وقت ہم صحافیوں کے دل جیت لیے تھے جب انہوں نے جنرل مشرف دور میں قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر اس بات پر قوم سے معافی مانگی تھی کہ ان کے والد خواجہ محمد صفدر نے جنرل ضیاء کا ساتھ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا جنرل ضیاء کا ساتھ دینے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد پر بھٹو نے قید میں دبائو ڈالا تھا۔
اس لیے میرا خیال تھا جس دن میاں نواز شریف نے اپنی پارٹی میں جنرل مشرف کے ساتھیوں کو دھڑا دھڑ شامل کرنا شروع کیا تھا‘ اس دن خواجہ آصف کو سعیدہ وارثی کی طرح استعفیٰ لکھ کر وزیراعظم کو بھیج دینا چاہیے تھا کہ وہ اس پارٹی میں مزید نہیں رہ سکتے۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ کبھی باپ کے جنرل ضیاء کے ساتھ کام کرنے پر وہ معافی مانگ رہے تھے لیکن نواز شریف ان لوگوں کو پارٹی میں شامل کر رہے تھے جو مشرف کے دست و بازو تھے، اس پر خواجہ آصف کے منہ سے ایک لفظ احتجاج کا نہ نکلا‘ استعفیٰ دینا تو دور کی بات تھی۔
خواجہ سعد رفیق میرے خیال میں دوسرے سیاستدان تھے جو سعیدہ وارثی کی طرح لکھ کر استعفیٰ دے دیتے کہ ان کی پارٹی کا لیڈر بے اصولی کی سیاست کررہا تھا ۔ جاوید ہاشمی بھی اس دن استعفیٰ نہ دے سکے تھے جس دن جنرل مشرف کے وزیرقانون زاہد حامد کو نواز شریف نے ایم این اے کا ٹکٹ دیا تھا۔ ہاشمی صاحب اس دن دیتے تو اور بات ہوتی ۔
ہو سکتا ہے بہت سارے لوگ ہنسیں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں کیونکہ اگر وہ یہ کرتے تو ان سب کے سیاسی مستقبل تباہ ہوجاتے؟ پھریہ خطرات تو لینے پڑتے ہیں ۔
مستقبل تو وزیرتعلیم آزاد کا بھی تباہ ہوسکتا تھا ۔ مستقبل تو سعیدہ وارثی کا بھی تباہ ہوا۔ انہوں نے بھی وزیراعظم کو خط لکھ کر شرم دلوانے کی کوشش کی ۔ یا آپ اپنا مستقبل بچالیں یا پھر ملک کو بچالیں ۔ اگر آپ کہتے ہیں کوئی دوسرا اصول پر اسٹینڈ لے گا تو پھر کبھی تبدیلی نہیں آسکتی۔ سعیدہ وارثی کے لیے یہ فیصلہ کرنا اس لیے آسان تھا کہ انہوں نے وزیر ہوتے ہوئے کسی بڑے بزنس مین کے ساتھ کاروبار میں اپنے شیئر نہیں ڈال رکھے تھے اور نہ ہی وہ مال کما رہی تھیں کہ انہیں خدشہ ہوتا کہ انہیں نقصان ہوگا۔ انہیں یہ بھی خطرہ نہیں تھا کہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ناراض ہو کر ان کے ٹیکس گوشوارے کھلوا دیں گے یا پھر ایف آئی اے ان کے پیچھے لگوا دی جائے گی کیونکہ انہوں نے سیاست کو مال کمانے کے لیے نہیں جوائن کیا تھا ۔
یہ ملک اسی صورت بچ سکے گا جب یہاں بھی ابوالکلام کی طر ح کوئی اپنے وزیراعظم کو پیغام بھیج سکے گا کہ وہ ایک گھنٹہ انتظار کرے کیونکہ وہ اس شخص سے ملاقات کررہا ہے جس سے اس کا وقت طے تھا یا پھر کوئی سعیدہ وارثی کی طرح اپنے وزیراعظم کے نام وجوہ لکھ کر استعفیٰ دینے کی جرأت کرے گا ۔
باقی سب ان سیاستدانوں کے ڈرامے ہیں ، گپ شپ اور ٹائم پاس کہانیاں ہیں جو وہ ہمیں اور آپ کو بیوقوف سمجھ کر روزانہ سناتے رہتے ہیں اور ہم اور آپ بیوقوفوں کی طرح سنتے رہتے ہیں!