"RKC" (space) message & send to 7575

جمہوریت کو خطرہ ڈی جے بٹ سے ہے !

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کہتے ہیں کہ کرپشن جمہوریت کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے‘ اسے روکنا ہوگا۔ 
پاکستان میں اس کے برعکس جو کرپشن روکنے اور کرپٹ کو سزا دینے کی بات کرتا ہے‘ اسے جمہوریت دشمن سمجھا جاتا ہے۔ چوہدری اعتزاز اور چوہدری نثار ایک دوسرے کے خلاف پوری قوم کے سامنے ثبوت رکھنے کی بات کرتے ہیں اور سب ان کی صلح پر تالیاں بجاتے ہیں۔
دنیا حیران ہوتی ہوگی کہ ہم نے تو جمہوریت اس لیے متعارف کرائی تھی کہ بادشاہ کا احتساب نہیں ہوسکتا تھا‘ جبکہ جمہوریت میں کرپٹ جیل میں پھینکا جاتا ہے۔ پاکستان برانڈ جمہوریت میں کوئی بھی وزیراعظم اور صدر بن سکتا ہے۔ 
دو دن پہلے ایک برطانوی سیاستدان نے اپنے حلقے میں ووٹروں کو ایک ہزار خطوط سرکاری سٹیشنری سے لکھ کر بھیج دیے۔ پتہ چلا تو حکم ہوا‘ پیسے جمع کرائو۔ اسے جو لعن طعن کی گئی ہے وہ اپنی جگہ ایک کہانی ہے ۔ وہاں جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا لیکن ہمارے ہاں کرپشن اور کرپٹ کے خلاف کوئی بات کرے تو اسے جمہوریت کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسے ملک کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ سب سے زیادہ ہمارے لبرل اور پروگریسو دانشور ڈھول بجاتے ہیں کہ کرپشن ہونے دو‘ ورنہ جمہوریت نہیں رہے گی ۔ اب تو مجھے بھی اپنے آپ کو لبرل اور پروگریسو کہتے ہوئے شرم آنے لگی ہے کہ ہمارے اندر کیا کیا منافقتیں چھپی ہوئی ہیں ۔ وہ دانشور اور نرگسیت کے مارے رائٹ ونگ کے کالم نگار ہم سے بہتر ہیں جو کل بھی طالبان کے ہاتھوں مذہب کے نام پر ہزاروں بے گناہوں کے قتل کے حامی تھے اور آج بھی ڈٹ کر ان کے حق میں لکھتے ہیں کہ مزید قتل کرو۔ بے چارے پریشان ہیں کہ دہشت گردی کم کیوں ہوگئی ہے۔ کیا میرے جیسا کوئی جغادری دانشور، ٹی وی اینکر، کالم نگار یا تجزیہ نگار سوچنے کو تیارہے کہ ہم حکومت اور جمہوریت کے حق میں کتنے دلائل ہی کیوں نہ دیں، فرسٹریشن کے شکار نوجوان اور مڈل کلاس ہماری باتوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے اور وہ اب حکومت کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی مسائل کے ذمہ دار سمجھتے ہیں‘ آخر کیوں؟ 
میڈیا ایک نیا کام کررہا ہے۔ جو بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر واویلا کرے‘ اس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جائو ۔ ڈی جے بٹ گرفتار ہوا کہ وہ میوزک چلا رہا تھا اور جو اس ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں، ان تک کسی کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا ۔ چوہدری نثار، چوہدری اعتزاز، انجم عقیل اور امین فہیم سے لے کر گیلانی، راجہ اور عاصم حسین تک یا پھر اپنے بچوں کو اکتالیس کروڑ قرض حسنہ دینے والے حکمرانوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ اس لیے کہ ان سے ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ خطرہ ڈی جے بٹ سے ہے جو میوزک سسٹم چلاتا ہے ۔ انجم عقیل خان چار ارب لوٹ لے اور سپریم کورٹ کا حکم بھی آجائے تو بھی کارروائی نہ ہو۔ آئی ایس آئی اصغر خان کیس میں سیاستدانوں نے مال کمایا‘ ان سے بھی جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ جمہوریت کو اصل خطرہ ڈی جے بٹ سے ہے۔ آئی پی پیز کے مالکان کو دیے گئے پانچ سو ارب روپے کاآڈٹ شروع ہو تو نظام کو آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا سے خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ انہوں نے جرأت کیسے کی گورنر اسٹیٹ بنک کو خط لکھ کر پوچھنے کی کہ وزارت خزانہ نے کیسے براہ راست پانچ سو ارب روپے آئی پی پیز کے اکائونٹس میں ٹرانسفر کرائے کیونکہ بغیر اکائونٹنٹ جنرل کی منظوری کے ایک روپیہ بھی نہیں دیا جا سکتا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اب وزارت خزانہ صدر پاکستان سے منظوری لے کر اربوں کی ادائیگی کر دے گی۔ چلیں صدر ممنون حسین کا کوئی کام تو نکل آیا کہ وہ وزارت خزانہ کے روزانہ بھیجے گئے ریفرنسز پر دستخط کرتے رہیں اور مال پانی دوسرے کھاتے رہیں۔ مجھے خطرہ ہے کل کلاں کو صدر ممنون حسین پر مقدمات نہ بن جائیں کہ وہ کیسے اربوں روپے کی ادائیگی کی منظوری دے رہے تھے جو ان کا کام نہیں تھا۔ لگتا ہے ان کی سادگی انہیں لے ڈوبے گی‘ لہٰذا بہتر ہوگا کہ ممنون حسین کسی سمجھدار بندے سے مشورہ لے لیں کہ وزارت خزانہ نے جو نیا طریق کار اختیار کیا ہے کہ صدر کی منظوری سے جس کو چاہے اربوں دیے جا سکتے ہیں تو کون کون ان کے نام پر مال کمائے گا اور پھنس وہ جائیں گے ۔ 
دوسری طرف مزے کی بات یہ کہ جن دوستوں نے بڑھ چڑھ کر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے بار بار ٹی وی انٹرویوز کیے تھے‘ ان میں سے کچھ کو تو میں جانتا ہوں کہ انہوں نے بہت بڑی بڑی سفارشیں بھی کرائی تھیں مگر آج وہی عمران اور قادری کے خلاف ہیں ۔ اس وقت ریٹنگ چاہیے تھی کیونکہ قادری اور عمران سکرین پر بک رہے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ دونوں انتشار پھیلانا چاہتے تھے تو پھر کیوں عمران اور قادری کے نظریات کو عوام تک پہنچایا؟ ان اینکرز نے بھی تو انتشار پھیلانے میں عمران اور قادری کا ساتھ دیا ہے۔ اب کیوں معصوم بن رہے ہیں؟ 
میں ایک لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ عمران خان کا کبھی کوئی انٹرویو کیا اور نہ ہی سفارشیں کرائیں اور نہ ہی کبھی بنی گالہ گیا کہ انہیں قیمتی مشوروں سے نوازوں اور طاہر القادری سے تو کبھی زندگی میں ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ عرصہ ہوا میں نے ان سیاستدانوں کے انٹرویوز یا ان سے گپ شپ کرنی ہی چھوڑ دی ہے کیونکہ مجھے یہی پتہ چلا کہ سب مایا ہے۔ سب جھوٹ ہے۔ ہم سب جھوٹے ہیں۔ اپنی اصل زندگیوں میں کچھ اور سیاست میں ہمارا چہرہ کچھ اور ہوتا ہے۔ اپوزیشن کے دنوں میں جو کالم نگار اور صحافی بہادر اور ایماندار 
لگتے ہیں وہ حکومت میں آپ کو ایجنٹ اور کرپٹ لگتے ہیں۔ میں شرطیہ کہتا ہوں کہ عمران خان کو وزیراعظم بننے دیں‘ سب سے زیادہ میرے جیسے صحافی ہی ان کا نشانہ ہوں گے جیسے آج کل میاں نواز شریف کے زیرعتاب ہیں ۔ کبھی میں بھی میاں صاحب کو بہت بہادر لگتا تھا کیونکہ اس وقت جنرل مشرف کے خوف سے وہ لندن رہتے تھے اور جنرل مشرف کا نام آف دی ریکارڈ بھی نہیں لیتے تھے۔ ہم پھر بھی جنرل مشرف دور کی کرپشن کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ آج کل میں انہیں برا لگتا ہوں۔ میاں صاحب کو واپس اپوزیشن میں لوٹنے دیں‘ میں پھر ان کا ہیرو بن جائوں گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان سے ملنا چھوڑ دیا ہے۔ 
ایک اور سن لیں ۔ وزارت اطلاعات کے اعلیٰ افسران کی طرف سے ایک بڑے ہوٹل میں صحافیوں کو کھانے پر بلایا گیا ۔ مجھے بھی دعوت ملی۔ میں نہ گیا ۔ پوچھا تو جواب دیا‘ حضور آپ چند سو روپے کی چائے پلاتے ہیں اور پھر دستاویزات میں لکھ دیتے ہیں کہ فلاں فلاں صحافی نے سیکرٹ فنڈز سے کھانا کھایا تھا یا چائے پی تھی اور پھر بڑے فخر سے وہ نام سپریم کورٹ میں بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اکثر وزارت اطلاعات کے افسران صحافیوں پر چند سو روپے خرچ کر کے ہزاروں کا بل بنوا کر بھی مال بناتے ہیں ۔ سب کچھ صحافیوں کے کھاتے۔ میں نے کہا مہربانی فرما کر میرا نام اس فہرست سے نکال دیں۔ پہلے کافی گالیاں سن لی ہیں‘ مزید کی نہ طلب ہے اور نہ گنجائش۔ 
دوسری طرف جو سبق ہمارے دانشور دے رہے ہیں کہ عوام صبر کریں اور سب کو کھانے دیں اور کسی کا احتساب مت کریں کیونکہ اسی میں ہم سب کی بقا ہے‘ ان کے لیے عرض ہے کہ ماڈل ٹائون قتل عام پر عدالتی کمشن بنتا ہے۔ شہباز شریف فرماتے ہیں اگر کمشن نے کہہ دیا کہ وہ ماڈل ٹاون قتل عام کے ذمہ دار ہیں تو وہ فوراً مستعفی ہوجائیں گے‘ مگر اب وہ مکر گئے ہیں۔ رانا ثناء اللہ الٹا فرماتے ہیں کہ جسٹس باقر کے خلاف کارروائی ہوگی‘ انہوں نے یہ جرأت کیسے کی۔ اندازہ کریں جو ملزم ہیں‘ وہ جج کوسرعام دھمکیاں دے رہے ہیں اور المیہ یہ کہ میڈیا سے لے کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک سب جسٹس باقر کو ملنی والی دھمکیوں پر خاموش ہیں ۔ 
2010ء میں فلڈ کمشن بنتا ہے اور جسٹس منصور سیکرٹری اریگیشن رب نواز کے خلاف کارروائی کی سفارش کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے پنجاب میں لوگ مرے اور اربوں کا نقصان ہوا۔ اسے میاں شہباز شریف نے ترقی دے کر سیکرٹری انرجی اور پھر اسحاق ڈار نے اسے بینظیر بھٹو سپورٹ پروگرام کا سیکرٹری لگا دیا کیونکہ وہ ڈپٹی وزیراعظم فواد حسن فواد کا بیج میٹ ہے۔ گوجرہ میں نو مسیحیوں کو زندہ جلایا جاتا ہے۔ جسٹس اقبال حمید الرحمن کمشن پولیس افسر احمد رضا طاہر کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور شہباز شریف اسے ترقی دے کر لاہور کا چیف لگاتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کمشن خواجہ شریف قتل سازش میں ڈاکٹر توقیر شاہ، کرنل احسان اور دیگر کو سازش کا مرکزی کردار ٹھہرا کر سزا کی سفارش کرتا ہے، شہباز شریف انہیں ترقی دے کر بڑی پوسٹ دیتے ہیں ۔ سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملہ روکنے میں ناکامی پر جن پولیس افسران کے خلاف عدالتی کمشن کارروائی کی سفارش کرتا ہے انہیں شہباز شریف ترقی دے دیتے ہیں ۔ 
اب بتائیں عوام کیا کریں؟ 
میرا مشورہ ہے کہ عوام اس کرپٹ بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ کے ساتھ ایڈجسٹ کریں وگرنہ جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی ۔ اس پر غور نہ کریں کہ بھارت کے چیف جسٹس کہتے ہیں کہ کرپشن روکنی ہوگی وگرنہ جمہوریت کو خطرہ ہوگا۔ پاکستان میں کرپشن ہونے دو‘ ورنہ جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ 
اب پتہ چلا کہ پاکستانی برانڈ جمہوریت کو خطرہ ڈی جے بٹ سے ہے جو میوزک بجاتا ہے ۔ اس جمہوریت کو چوہدری اعتزاز احسن اور ان کے دوست، چوہدری نثار اور ان کے پپو پٹواری، عاصم حسین، وزیراعظم راجہ ، گیلانی، آفتاب شیر پائو، امین فہیم، مونس الٰہی، انجم عقیل خان اور قبضہ گروپوں سے ہرگز ہرگز خطرہ نہیں ہے۔! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں