فون پر دوسری طرف آواز ابھری۔ میں ڈاکٹر جاوید ہوں ۔ آپ ہمارے ادارے میں نوجوان سول سروس کے افسران جو گریڈ انیس کی تربیت کے لیے کورس کررہے ہیں ، کو لیکچر دیں ۔
میں ہنس پڑا اور کہا سر، کہاں پدی اور کہاں پدی کا شوربہ ۔ میں نے کہا آپ کا شکریہ لیکن میں کہیں لیکچر دینے نہیں جاتا ۔ میرا خیال ہے پاکستان کے اصل حکمران جو دراصل بیوروکریٹس ہیں‘ انہیں ہرگز لیکچر کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ بیوروکریٹس چاہتے تو یہ ملک سنور سکتا تھا ۔ انہوں نے اپنے اور اپنے بچوں کے مفاد کو قوم کے مفاد پر ترجیح دی۔ اگر یہ بیوروکریٹس ملک کے اتنے وفادار ہوتے جتنے یہ اپنے سیاسی آقائوں کے ہوتے ہیں، یہ ملک آج ترقی میں کہیں آگے نکل چکل ہوتا۔
تاہم ڈاکٹر جاوید صاحب نے اس خوبصورتی سے دلائل دیے کہ میں نے اپنے آپ کو بے بس پایا اور فیصلہ کیا مجھے جانا چاہیے۔ ماریو پزو کا گاڈفادر یاد آیا کہ ہر انسان سے دلیل سے بات کی جاسکتی ہے لیکن اچھا انسان وہ ہوتا ہے جو دلیل کو مان لے۔ میں نے اچھا بننے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر جاوید کے دلائل کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔
مجھ کہنے میں ہرج نہیں جس طرح کے اچھے سوالات ان نوجوان سول سروس کے افسران نے مجھ سے کیے‘ میں ان سے بہت متاثر ہوا۔ پتہ چلا راکھ میں چنگاری ابھی باقی ہے۔
ایک اہم سوال پوچھا گیا میڈیا میں پاکستانی ایجنسیوں کے خلاف جو مہم شروع کی جاتی ہے وہ بیرونی سازشیوں کی وجہ سے ہوتی ہے؟
میں نے کہا زیادہ دور نہیں جاتے۔ 1990ء میں ایوان صدر میں اسحاق خان، جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی نے بیٹھ کر پلان تیار کیا کہ بینظیر بھٹو کو ہرانا ہے۔ سپریم کورٹ میں ریکارڈ پر سب کچھ لایا گیا کہ کس ایجنسی نے کیا کمال کیا ۔جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی نے چودہ کروڑ روپے اپنے ہی سیاستدانوں میں بانٹ کر انہیں کرپٹ کیا۔ کیا یہ منصوبہ سی آئی اے ، ایم سکس یا کسی کینیڈین ایجنسی نے بنا کر دیا تھا کہ پاکستان کی ایجنسیاں اپنے ہی سیاستدانوں کو کرپٹ کر کے انہیں استعمال کریں؟
اس طرح ایک اہم ادارے کے ایک سابق افسر نے چالیس کروڑ نکال کر ایک اہم وفاقی وزیرداخلہ کو اس لیے دیے کہ پاکستانی صحافیوں پر خرچ کرنے ہیں اور وہ وزیر خود ہی کھا پی گئے۔ تو یہ منصوبہ کسی بیرونی ایجنسی کی سازش تھی؟ شعیب سڈل جب ڈی جی آئی بی لگے تو وہ فائل لے کر وزیراعظم گیلانی کے پاس گئے کہ اپنے لندن پلٹ وزیر کے کرتوت دیکھ لیں ۔ گیلانی صاحب کو ابھی پتہ نہیں چلا تھا کروڑوں کی لوٹ مار کیسے ہوتی ہے لہٰذا وہ حیران رہ گئے۔ کیا بنا ان کروڑں روپوں کا ؟ کیا قوم اس لیے کما کر دیتی ہے کہ خفیہ فنڈز سے چالیس کروڑ ایک وفاقی وزیر نکلوا کر کھا جائے اور کہا جائے صحافیوں پر خرچ ہورہے تھے۔ اسی طرح نواز شریف کے دوسرے دور میں سیف الرحمن کو تیس کروڑ روپے دلوائے گئے تھے کہ انہوں نے جنیوا اور لندن میں کچھ پارٹیوں اور وکیلوں کو بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف مقدمات پر ادائیگیاں کرنی تھیں اور سیف الرحمن خرچ کر گئے۔ کیا یہ بھی کسی سازش کا حصہ تھا جو بیرون ملک تیار کی گئی تھی؟
ایک اور افسر نے بڑا اہم سوال کیا کہ کیا برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا پاکستان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں جیسے جنرل اسلم بیگ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں فرمایا ہے۔ یہ بھی ایک اور متھ ہے جو پاکستان میں کامیابی سے ہر کوئی بیچ سکتا ہے کہ یورپی ملک پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔
پہلے امریکہ سے شروع کرتے ہیں۔ امریکہ پاکستان میں کیوں چاہے گا کہ جو نیوکلیئر ملک ہے وہاں سیاسی بدامنی اس حد تک پھیلے کہ یہ ملک ہی خدانخواستہ نہ رہے۔ مان لیتے ہیں وہ نیوکلیئر پاکستان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں اس لیے کمزور کرنا چاہتے ہیں تو پھر اب تک پچھلے دس برسوں میں وہ پاکستان کو بیس ارب ڈالرز کولیشن سپورٹ کے نام پر کیوں دے چکے ہیں؟ کیری لوگر بل کے تحت یو ایس ایڈ کے ذریعے آٹھ ارب ڈالرز سے ہمارے ہاں سکول، سڑکیں، دیواریں، پل، پانی، ہسپتال، بجلی بنانے کے منصوبوں اور انرجی کی سکیموں پر کیوں لگا رہے ہیں؟ کیوں پاکستانی سینکڑوں طالب علموں کو فل برائٹ سکالرشپ دے رہے ہیں؟ پاکستانی صحافیوں کو بھی سکالرشپ دے رہے ہیں کہ وہ امریکی میڈیا میں ان کے خرچے پر جا کر سیکھیں؟ کیوں امریکیوں نے ابھی اردن سے ایف سولہ طیارے پاکستان کو لے کر دیے ہیں؟ کراچی میں امریکیوں نے پولیس کو ایک ہزار بلٹ پروف جیکٹ اور جدید اسلحہ مفت میں دیا ہے کہ وہ جرائم کے خلاف لڑیں۔ پاکستانی ہر سال امریکہ سے چار ارب ڈالرز پاکستانی بھیجتے ہیں۔ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بنک اور آئی ایم ایف جہاں امریکی عہدے دار بیٹھے ہیں، وہ کیوں انہیں نہیں روکتے کہ اس ملک کو دلوالیہ ہونے دیں۔ اگر ہمیں برباد کرنا تھا تو پھر کیوں امریکیوں نے چار دفعہ پاکستان اور بھارت کو جنگ کے دہانے سے پیچھے دھکیل دیا۔ ہمیں ایک دوسرے پر بم چلانے دیتے۔ نہ ہوتا بانس نہ بجتی بانسری۔
برطانیہ نے بھی سازش کرنی ہے تو پھر اس نے کیوں لاکھوں پاکستانیوں کو شہریت دے رکھی ہے اور وہاں سے بھی تین ارب ڈالرز کے قریب پیسے ہر سال پاکستانی بھیجتے ہیں۔ ہر سال ڈی ایف آئی ڈی برطانوی شہریوں سے ٹیکس اکٹھا کر کے نو سو ملین پونڈ پاکستان کی تعلیم، صحت اور دیگر سوشل سیکٹر کے شعبوں پر خرچ کرتی ہے۔ پاکستان کو جی ایس پلس اسٹیس دلوانے میں بھی برطانیہ کا اہم کردار رہا ہے جس سے ایک ارب ڈالر کی زیادہ تجارت متوقع ہے۔ وہ بھی ہر سال پچاس سے زائد پاکستایوں کو سکالرشپس دیتے ہیں کہ وہ وہاں پڑھیں اور لوٹ کر اپنے ملک میں کردار ادا کریں۔ میں خود برطانوی سکالرشپ پر لندن سے ماسٹرز کر کے لوٹا ۔ آپ سوچ سکتے ہیں مجھے اگر پاکستانی وزارت اطلاعات سے تیس لاکھ روپے کا سکالرشپ ملتا تو میرے اوپر کیا کیا الزامات لگتے۔ لیکن برطانیہ کی عوام کے تیس ہزار پائونڈز سے میں نے ماسٹرز کیا۔ کیا یہ بھی امریکی اور برطانوی سازش ہے کہ پاکستانی صحافیوں کو اپنے خرچے پر جدید تعلیم دلوائیں تاکہ وہ پاکستان لوٹ کر عوام کے حقوق کے لیے طاقتور طبقات کے خلاف لڑیں؟
برطانیہ کیوں چاہے گا جن پاکستانیوں کی لاکھوں کی تعداد ان کے ہاں رہتی ہے ان کا ملک تباہ و برباد ہوجائے جس کا نقصان انہیں خود ہوگا کہ وہ پاکستانی ڈسٹرب ہوں گے جو وہاں رہتے ہیں۔ ایک اندھے کو بھی یہ بات سمجھ آتی ہے۔
اس طرح کینیڈا کو اس میں کیوں دلچسپی ہوسکتی ہے کہ پاکستان نہ رہے۔ کینیڈا سے بھی ہر سال بڑی تعداد میں پاکستانی پیسے بھیجتے ہیں۔ وہ پاکستانیوں کو شہریت دیتے ہیں۔ انہیں اپنے ملک اور معاشرے کا حصہ بناتے ہیں۔ کینیڈا کے وزیراعظم تو جنرل مشرف تک سے ملنے سے انکاری ہوگئے تھے جب جنرل نے یہ فرمایا تھا کہ یہاں خواتین ریپ اس لیے کراتی ہیں کہ انہیں بیرونی ملک شہریت مل جائے۔
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے جیسے ہمیں بیرونی دنیا سے شکایتیں ہیں ویسے ہی بیرونی دنیا کو ہم سے ہیں۔ جہاں بھی دہشت گردی ہوئی پتہ چلا وہ لوگ پاکستان سے تربیت لے کر گئے تھے۔ پوری دنیا کو ہم نے خوفزدہ کر دیا۔ ہم نے پچاس ہزار لوگ اپنے بھی مروائے اور بیرونی دنیا میں بھی لوگ شکار ہوئے۔ ہماری اپنی اوقات یہ تھی ہماری فوج کا کمانڈر تین برس تک فیصلہ نہ کر سکا کہ فوجی آپریشن کرنا ہے یا نہیں اور ہزاروں لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ ان کا خون کس کی گردن پر ہے؟
سب کو ہم سے شکایات اور ہمیں ان سے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہم سے کہاں غلطیاں ہوئیں کہ پوری دنیا ہمارے خلاف ہوگئی اور ہر پاکستانی کو دہشت گرد سمجھ لیا گیا۔۔ہم نے کیوں افغانیوں کو لاکھوں کی تعداد میں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ دیے کہ اب ہر دوسرے روز جو عرب ملکوں میں سرقلم کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر افغانی ہیں لیکن کیونکہ پاسپورٹ پاکستانی ہے لہٰذا بدنام ہم ہوتے ہیں۔
ہاں ان تین ملکوں کو اس میں یقینا دلچسپی ہوسکتی ہے کہ پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط اور ذمہ دار قوم اور ملک کی حیثیت سے ابھرے جو نہ صرف اپنے خطے میں بھارت، افغانستان سے دوستی کرے بلکہ پوری دنیا میں امن کو لیڈ کرے۔
باقی اس ملک کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی کیا ضرورت ہے جہاں بیس کروڑ کی آبادی اس قابل نہیں ہے کہ اپنا کوڑا کرکٹ خود اکٹھا کر سکے اور اس کے لیے بھی اربوں روپے کا منصوبہ بنا کر ترکوں کو بلایا جاتا ہے کہ وہ ہمارا پھیلایا گند صاف کریں!
کیا ایسی قوم کے خلاف کسی کو سازش کی ضرورت ہے؟