"RKC" (space) message & send to 7575

شیطان کی تلاش میں

سابق صدر زرداری یکدم سرگرم ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہوا ہے پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
تاہم سرائیکی قوم کو صوبے کے نام پر پانچ برس تک بیوقوف بنانے کے اعتراف کے بعد انہیں سرائیکی ووٹ بھی نہیں ملیں گے۔ سینٹرل اور شمالی پنجاب کے پنجابیوں اور پوٹھوہاریوں سے وہ پہلے ہی ہاتھ دھو چکے ہیں ۔ پچھلے الیکشن میں بھی سرائیکیوں نے سولہ آزاد ایم این ایز اور تیس کے قریب آزاد ایم پی ایز کو ووٹ دے کر پیغام دیا تھا کہ سرائیکی ان سے دھوکے کھانے کے بعد اب نئی قیادت کی تلاش میں ہیں۔ 
اس لیے اب زرداری صاحب ایک در کے بعد دوسرا در کھٹکھٹاتے پائے جاتے ہیں۔ پرسوں ہی منصورہ کے دروازے پر دستک دی کہ اپنی ریٹنگ بہتر کی جائے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ اور ٹیم نے جس طرح زرداری صاحب کا استقبال کیا، وہ ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر پھر کبھی بات ہوگی کہ کیسے نظریات کی موت ہوچکی‘ اب اچھا برا کوئی نہیں رہا اور پاور گیم ہی سب کچھ ہے؛ تاہم میرے لیے زرداری صاحب کا وہ بیان قابلِ غور ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ اگر سیاستدان اکٹھے نہ ہوئے اور سمجھداری کا مظاہرہ نہ کیا تو ''شیطان‘‘ فائدہ اٹھالے گا۔ 
اب یہ شیطان کون ہے جس کی طرف سابق صدر اشارہ کررہے ہیں کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا شیطان ہوتا ہے جس پر ملبہ ڈال کر وہ دل خوش کرلیتا ہے۔ ہر انسان کو اپنے اندر چھپے شیطان کی طرح‘ اپنے باہر بھی ایک ''Punching bag‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ اپنا غصہ نکالتا رہے اور بیگ خاموشی سے پٹتارہے۔ لگتا ہے ہر سیاستدان کو ایک سیاسی شیطان کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ گالی دے کر اپنا جی خوش کرتا رہے۔ زرداری صاحب ہر دور میں ہر طرح کا سودا بیچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ انہیں یہ قیمتی راز بہت پہلے مل گیا تھا کہ ہرانسان بنیادی طور پر لالچی ہوتا ہے اور اس کے لالچ کو جب چاہیں انگیخت کر کے اسے اپنے گھٹنوں پر جھکایا جا سکتا ہے۔ 
پچھلے سات برسوں میں جب ہمارے ملک میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی اصلی نسل کی جمہوریت کا دور دورہ رہا تو آپ کو احساس ہوا ہوگا کہ لالچ کی جبلت کو انہوں نے کیسے استعمال کیا‘ جس کے نتیجے میں جمہوریت منّی کی طرح اس قدر بدنام ہوئی کہ آج کی نوجوان اور پڑھی لکھی نسل یہ لفظ سنتے ہی بدک جاتی ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کس کس کو کرپٹ نہیں کیا گیا اور کس طرح اپنے قریبی رشتہ داروں‘ دوستوں اور پارٹی لیڈروں کو فری ہینڈ دے دیا گیا۔ جس طرح ڈاکٹر عاصم حسین کے ذریعے پاکستان میں میڈیکل تعلیم کا بیڑا غرق کیا گیا اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے اور نہ ہوگا کہ کیسے راتوں رات نجی میڈیکل کالجز کھولے گئے۔پہلے ہی ڈاکٹروں کی قابلیت کا جو حشر ہو چکا ہے‘ اسے مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ اسلام آباد کے ایک بڑے پرائیویٹ ہسپتال کی نالائقی اور نااہلی کے ہاتھوں میری بیوی کو خدا نے بچا لیا وگرنہ انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اگر اسے امریکہ نہ لے گیا ہوتا تو شاید آج میرے بچے ماں کے لیے رو رہے ہوتے۔ 
ڈاکٹر عاصم نے جس طرح سلیم مانڈی والا کو آخری دنوں میں وزیرخزانہ بنوا کر ای سی سی کے اجلاس میں لوٹ مار کی یا راجہ پرویز اشرف نے آخری دن ستر سی این جی اسٹیشنوں کی منطوری دی، وہ اپنی جگہ پیپلز پارٹی کی حکومت پر ایک دھبہ ہے۔ حکومت ختم ہونے سے ایک ہفتہ پہلے دو دن تک چلنے والے اس اجلاس کی دستاویزات پڑھ کر لگتا ہے اس ملک پر بیرونی فوج نے قبضہ کر لیا تھا اور فاتح ایک اجلاس میں بیٹھ کر مال غنیمت بانٹ رہے تھے۔ مگر تب بھی شیطان کو تلاش کرنے کی کوشش نہ کی گئی۔ 
صدر زرداری کے ایک قریبی عطائی ڈاکٹر ایک ادارے سے ایک کروڑ روپے ماہنامہ لیتے رہے اور ادارے کے سربراہ ان کا ''جیب خرچ‘‘ انہیں پہنچاتے رہے۔ اس وقت بھی کسی کو شیطان یاد نہ آیا۔ رحمن ملک کی وزارت داخلہ نے چین سے جو سات ارب روپے کے سکینرز خریدنے میں ہاتھ دکھایا‘ اس پر بھی شیطان کا خیال نہ آیا۔ امیر حیدر خان ہوتی اور ان کے رشتہ داروں نے خیبر پختون خوا میں چار ارب روپے کے اسلحہ سکینڈل میں جس طرح مال کمایا اور دوبئی میں ڈالروں میں ادائیگیاں ہوئیں‘ اس پر بھی کسی کو شیطان یاد نہ رہا۔ 
زبیدہ جلال کو اس لیے توانا پاکستان سکینڈل سے نکال دیا گیا تھا کہ اس خاتون سے صدر زرداری نے ڈیل کی تھی کہ اگر صدر بننے کے لیے انہیں ووٹ دیا جائے تو وہ بھول جائیں گے کہ انہوں نے اپنے پراجیکٹ ڈائریکٹر کے ساتھ مل کر بیرون ملک پیسہ شفٹ کیا تھا۔ نیب نے اس وزارت کے ایک کلرک ظہور اعوان کو چار سال جیل میں رکھا کہ اس نے تیس ہزار روپے کے کھانوں کے بلوں پر دستخط کیے تھے۔ خود نیب ایک کروڑ روپے کے مفت کھانے کھا گیا لیکن ظہور اعوان نے تیس ہزار روپے کے عوض چار برس جیل کاٹی۔ 
شیطان کا اس وقت کسی کو خیال نہ آیا‘ جب نیب میں ایک چیئرمین لایا گیا‘ جس نے زرداری صاحب کو نیب عدالت سے بری کرایا اور اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج بھی نہیں ہونے دیا۔ باقی چھوڑیں اس وقت بھی شیطان یاد نہ رہا جب ایک سابق چیف جسٹس کے بیٹے کے بارے میں شعیب سڈل کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کیسے اربوں روپے کا ٹیکس چوری ہوا۔ ایف آئی اے سے لے کر نیب اور عدالتوں تک سب نے ہاتھ کھڑے کر لیے کہ جناب یہ بہت بڑے لوگ ہیں۔ قانون تو ظہور اعوان جیسے کلرک کے لیے ہے نہ کہ سابق چیف جسٹس کے بیٹے کے لیے۔
پھر سب نے دیکھا کہ کیسے چودھری نثار نے چودھری اعتزاز کے بارے میں کرپشن کی کہانیاں سنائیں اور جواباً اعتزاز صاحب نے کیا کچھ اُگلا۔ مگر پھر نظریۂ ضرورت کے تحت سرعام صلح صفائی ہوگئی۔ وزیراعظم نے معافی مانگ لی اور معاملہ ٹل گیا‘ جس پر میرے جیسے صحافی طبلچیوں نے جمہوریت بچ جانے پر ڈھول پیٹے۔ اس وقت بھی ہمارا شیطان سویا ہوا تھاا ور زرداری صاحب فون کر کے چودھری اعتزاز کو مبارکباد دے رہے تھے کہ فتح آپ کی ہوئی۔ 
جس طرح کے پیسے کمانے کے طریقے صدر زرداری اور ان کے دوستوں نے ایجاد کیے‘ ان پر حیرت ہوتی ہے۔ یوسف رضاگیلانی نے ایک ملتانی خواجہ کا چالیس کروڑ روپے کا بینک کا قرضہ معاف کرایا اور بنک کے صدر نے ایک سال کی توسیع کا انعام پایا ۔ اب گیلانی صاحب نے اسی ملتانی خواجہ کو نیشنل پروڈکٹوٹی آرگنائزیشن کا سربراہ لگایا، سرکاری گاڑی گھر اور بھاری تنخواہ دی۔ گیلانی صاحب نے اس کرم کے بدلے ملتانی خواجہ سے کیا کچھ وصول کیا ہوگا‘ اس کا اندازہ آپ سب کرسکتے ہیں۔ اس وقت بھی ہمارا شیطان سویا ہوا تھا۔ 
صدر زرداری کے قریبی افسران نے ایوانِ صدر میں چودہ کروڑ روپے کی عیدی سرکاری خزانے سے لی اور ایک محتسب بن بیٹھا ، دوسرا چیئرمین پبلک سروس کمشن بن گیا۔ دوسری طرف دیکھ لیں، گوشوارے جمع کرانے کا وقت آتا ہے تو ملک کا وزیرخزانہ کہتا ہے کہ اس نے تو اکتالیس کروڑ روپے کا قرضہ حسنہ اپنے ''غریب‘‘ بیٹے کو دے رکھا ہے۔ ''غریب‘‘ بیٹے نے اس سے سولہ ہزار پائونڈ کی پینٹنگز خرید لیں اور کہا یہ کہ شام کے پناہ گزینوں کے لیے چندہ دیا ہے۔ اپنے ملک میں آٹھ لاکھ قبائلی بے گھر ہوئے، لاکھوں سیلاب میں برباد ہوئے، مگر ان کے لیے باپ بیٹے کی جیب سے ایک روپیہ نہ نکلا۔ 
کس لیڈر نے ان آٹھ لاکھ قبائلیوں یا سیلاب زدگان کے لیے کوئی روپیہ دینے کی کوشش کی ہے؟ میں نے ٹوئیٹ کیا تو نواز لیگ کی لاہور سے بٹ خاتون ایم پی اے نے طعنہ دیا کہ میں نے کتنا چندہ دیا تھا ۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے پچھلے سال تیرہ لاکھ روپے ٹیکس اس لیے دیا تھا کہ آپ وہ پیسے ایسے مظلوموں پر خرچ کریں لیکن آپ کے وزیراعظم نے چوبیس کروڑ روپے کی بلٹ پروف گاڑی خرید لی، چوبیس لاکھ روپے کے کتے خرید لیے۔ اپنے اٹارنی جنرل کو بھی کروڑوں کی بلٹ پروف گاڑی لینے پر آمادہ کیا۔ پنجاب میں دس کروڑ روپے کی بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کا پلان بنایا۔ جو پیسہ عوام دیتے ہیں کہ کمزوروں اور غریبوں پر خرچ ہو وہ سب حکمران اور ان کے بچوں کی سکیورٹی اور ان کے لیے گاڑیوں پر خرچ ہوجاتا ہے۔ سیلاب زدگان اور آئی ڈی پیز کے لیے پیسہ کہاں سے آئے۔ 
سندھ میں یہ اسٹوری بھی سامنے آئی تھی کہ پیپلز پارٹی کے ایک وزیر کے گھر کی بیسمنٹ میں آگ لگ گئی اور ان کا ایک ارب روپے نقد جل گیا۔ لطیفہ بن گیا کہ وہ یہ تو بتا رہے ہیں کہ ایک ارب جل گیا‘ لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ بچ کتنا گیا تھا۔ 
صدر زرداری ہمیشہ کی طرح کمال کرتے ہیں۔ وہ ابھی بھی شیطان ڈھونڈ رہے ہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں