کتنی کتابیں ہوں گی جنہوں نے آپ کے رونگٹے کھڑے کر دیے ہوں گے۔ یہ ویسی ہی ایک کتاب ہے جو میرے دوست ارشاد بھٹی نے مجھے تحفتاً بھیجی۔ میں نے ورق گردانی شروع کی اور پھر کتاب نیچے نہ رکھ سکا۔ صبح کے چار بجے تک پڑھ ڈالی لیکن اس کے بعد مجھے نیند نہ آ ئی ۔
یہ کتاب صدرالدین ہاشوانی کی آپ بیتی ہے۔ میرا خیال تھا ایک روایتی کامیاب بزنس مین‘ جس نے ہوٹل انڈسٹری میں نام پیدا کیا‘ اپنی تعریفوں کے پل باندھے گا، لیکن اس کتاب میں چھپے سینکڑوں رازوں نے مجھے سونے نہ دیا۔ یہ ہاشوانی سے زیادہ اس ملک کے حکمرانوں کی کہانی ہے۔ بھٹو، زرداری، نواز شریف، جنرل ضیاء، بینظیر بھٹو تک سب کی سننی خیز کہانیاں موجود ہیں۔ یہ پتہ چلتا ہے کہ کون کیا کر رہا تھا اور اس ملک کی بربادی میں کس کا کتنا حصہ ہے۔
کتاب میں سابق صدر زرداری اور ہاشوانی کے درمیان جاری ایک خوفناک لڑائی کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جو اس کتاب کا 'مین تھیم‘ ہے۔ یہ لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب صدرالدین ہاشوانی کے کراچی ہوٹل میں 1983ء میں نوجوان آصف زرداری کی ہوٹل ڈسکو میں چند نوجوانوں سے لڑائی ہوئی‘ جس کے بعد ہوٹل کے گارڈز نے انہیں ہوٹل سے باہر پھینک دیا تھا، اس پر وہ ہاشوانی کے دشمن بن گئے۔
ہاشوانی لکھتے ہیں، جنرل ضیاء کا خیال تھا کہ وہ بینظیر بھٹو کی پارٹی کو فنڈز دیتے ہیں کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کے لیڈر جی اے الانہ کے والد کے بنائے ہوئے ٹرسٹ کے سرپرست تھے۔ یہ بات اتنی مشہور ہو گئی کہ نہ صرف جنرل ضیاء نے ان کا جینا حرام کر دیا بلکہ بینظیر بھٹو نے بھی ایک دن کہا کہ وہ میرے پیسے کہاں ہیں‘ جو تم جی الانہ کو دیتے ہو۔ ان کا مطلب تھا کہ آئندہ انہیں براہ راست پیش کیے جائیں۔ بعد میں جنرل ضیا سے ان کی جان پیر پگاڑا نے چھڑائی جب ان کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا گیا اور انہیں چالیس دن اپنے ملک میں مفرور رہنا پڑا۔ کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل ضیاء کو مری میں آٹھ اگست کو اس دن قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا‘ جس دن انہوں نے ہوٹل کا سنگ بنیاد رکھنا تھا۔ وہ مری نہ جا سکے اس لیے یہ منصونہ منسوخ کر دیا گیا۔
ہاشوانی دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے دور میں کراچی میں قتل کرنے کا منصوبہ بن چکا تھا اور اگر ان کے دوست کور کمانڈر آصف نواز جنجوعہ ان کی مدد نہ کرتے تو وہ ان کرائے کے قاتلوں کا نشانہ بن چکے ہوتے جنہیں خاص طور پر جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ جنرل جنجوعہ نے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف سے بات کرکے ان کے لیے لاہور میں محفوظ پناہ گاہ کا بندوبست کیا تھا۔
1990ء میں پیپلز پارٹی دور میں ہاشوانی کی گاڑی کا تعاقب شروع ہو گیا۔ ایک شام دوست نے بتایا کہ کیسے کچھ لوگ ان کے شیئرز کے پیچھے پڑ گئے ہیں، وہ ان کے کاروبار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا ان تمام واقعات کے پیچھے کہیں نہ کہیں آصف زرداری کا ہاتھ ہے۔ لیکن وزیر اعظم کے شوہر سے کون پنگا لے؟ خوفزدہ ہاشوانی نے کور کمانڈر جنرل جنجوعہ کو فون کیا۔ جنرل نے انہیں کہا کہ وہ اپنا روٹ بدل لیں اور سکیورٹی بڑھا لیں؛ تاہم ان کے اندر ڈر بیٹھ گیا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔
تیرہ جنوری کی شام انہوں نے فیملی سے کہا کہ سامان پیک کریں‘ وہ لندن جا رہے ہیں۔ اس اثناء میں کور کمانڈر جنرل جنجوعہ کا فون آیا کہ فوراً میرے دفتر پہنچو۔ ان کی آواز میں پریشانی تھی۔ بولے عام راستے سے نہ آنا، کوئی نیا راستہ لینا۔ پچیس منٹ کے بعد جنرل نے دوبارہ فون کیا کہ کہاں پہنچے ہو؟ وہ ابھی گھر میں تھے، جنرل پریشان ہو گیا، اس نے پھر کہا سب کچھ چھوڑو اور میرے پاس پہنچو۔
جب ہاشوانی کور کمانڈر ہائوس پہنچے تو وہاں انہیں ایک خط دکھایا گیا جو مہران فورس نے سندھ حکومت کو لکھا تھا کہ ہاشوانی کی جان کو خطرہ ہے لہٰذا انہیں سکیورٹی دی جائے۔ جن کرائے کے دو قاتلوں کو رہا کیا گیا تھا‘ ان کے بارے میں سندھ پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا انہیں علم نہ تھا کیونکہ انہیں اسلام آباد سے براہ راست احکامات پر رہا کیا گیا۔ فوج نے اپنی انٹیلی جنس کے ذریعے پتا چلایا کہ ان کرائے کے دو قاتلوں کو ہاشوانی کو قتل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ انیس جنوری کو جب وہ باتھ آئی لینڈ سے چلتے، ان کی گاڑی کو بلاک کرکے ڈرائیور کو گولی مار دی جاتی اور انہیں اغوا کرکے زبردستی تمام جائیداد اور ہوٹل کے کاغذات پر دستخط کرا کے قتل کر دیا جاتا اور لاش سمندر میں پھینک دی جاتی۔ جنرل جنجوعہ بولے، ان کی وزیر اعلیٰ نواز شریف سے بات ہو گئی ہے، وہ آپ کو پناہ دیں گے، آپ جائیں، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے آصف زرداری آپ کے ساتھ کیا کچھ کر گزرے؛ تاہم ہاشوانی نے لندن جانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کا ایک دستہ ان کے ساتھ ایئرپورٹ بھیجا گیا۔
برسوں بعد جب بینظیر بھٹو نواز شریف دور میں اپوزیشن لیڈر بنیں‘ تو وہ ہاشوانی کے اسلام آباد گھر چائے پر گئیں۔ ہاشوانی کو سمجھ نہ آئی کہ وہ ان کے گھر کیوں آئی ہیں۔ ان کا خیال تھا شاید وہ جانتی تھیں کہ ان کا شوہر انہیں اغوا کر کے قتل کروانا چاہتا تھا، لہٰذا وہ چاہتی تھیں کہ وہ بھول جائیں کہ کیا ہوا تھا۔ یوں ان کے تعلقات کچھ بہتر ہونا شروع ہو گئے۔ ایک دن بینظیر بھٹو نے انہیں پیشکش کی وہ ان کے سینیٹر بن جائیں یا ایڈوائزر؛ تاہم انہوں نے معذرت کر لی‘ لیکن زرداری نے اب تک ان پر آنکھ رکھی ہوئی تھی اور وہ کسی وقت کے انتظار میں تھے۔ کراچی میں ایک فائیو سٹار ہوٹل کے لیے حکومت نے زمین کی پیشکش اخبار میں دی۔ ہاشوانی کے بقول انہوں نے بھی بولی میں حصہ لیا۔ کچھ دن بعد آصف زرداری نے فون کرکے کہا کہ ان کے کراچی کے ایک کاروباری دوست کو وہ پلاٹ چاہیے۔ وہ مطلب سمجھ گئے اور اپنی بولی واپس لے لی۔
انہوں نے بینظیر بھٹو سے شکایت نہ کی کیونکہ یہ ممکن نہ تھا کہ انہیں اپنے شوہر کی سرگرمیوں کا علم نہ ہو۔ ایک دن ہاشوانی کی زرداری سے ملاقات ہو گئی، وہ بینظیرکے ساتھ چند ملکوں کی سیر کر کے لوٹے تھے۔ ہاشوانی نے پوچھ لیا کہ انہوں نے ان ممالک کے لیڈروں کو کیسا پایا۔ ہاشوانی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا جب زرداری نے کہا کہ وہ بیوقوف قسم کے لیڈر ہیں‘ درمیانے درجے سے بھی کم ذہنیت کے مالک‘ انہیں زمینی حقائق کا علم تک نہیں ہے۔
کتاب کا اہم باب وہ ہے جب میریٹ ہوٹل کو ایک ٹرک میں بھرے بارود سے اڑایا گیا تھا۔ ہاشوانی لکھتے ہیں کہ انہیں اس بات پر حیرت ہے کہ کیسے ایک بارود سے بھرا ٹرک اس دن شہر میں پھرتا رہا جبکہ ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر وزیر اعظم ہائوس میں صدر زرداری، آرمی چیف جنرل کیانی اور دیگر ٹاپ کے لوگ موجود تھے اور اس دن آصف زرداری نے قومی اسمبلی میں صدر بننے کے بعد پہلا خطاب کیا تھا۔ میریٹ میں بربادی جاری تھی کہ اوپر سے فون آیا، اگر آپ سے کوئی صحافی سوال کرے تو آپ بتائیں اس شام صدر زرداری نے میریٹ ہوٹل آنا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ دنیا کو
بتایا جائے کہ میریٹ پر حملہ اس وجہ سے ہوا کہ صدر زرداری کو دہشت گرد قتل کرنا چاہتے تھے۔ ہاشوانی نے صاف انکار کر دیا، ایسا کوئی پلان نہیں تھا، پھر وہ یہ بات کیوں کہیں؛ تاہم انہیں پھر بھی کہا گیا کہ وہ میڈیا کو بتائیں کہ اس حملے کا نشانہ صدر زرداری تھے۔ میڈیا کو ہاشوانی نے بتایا صدر زرداری کا اس شام ہوٹل میں آنے کا منصوبہ نہیں تھا اور اس حملے کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ زرداری دراصل امریکہ جانے سے پہلے یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ انہیں دہشت گردوں سے سخت خطرات لاحق ہیں۔ اس طرح امریکیوں سے ہمدردی لینی تھی کہ وہ اس خطے میں ان کے لیے لڑ سکتے ہیں۔
اسی رات رحمٰن ملک نے انہیں چائے پر بلایا اور کہا، ان کے ہوٹل پر حملہ بیت اللہ محسود نے کرایا ہے۔ ہاشوانی حیران رہ گئے کہ اتنی جلدی کیسے پتہ چل گیا۔ ہاشوانی یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کے ہوٹل پر حملہ طالبان نے کرایا تھا۔ وہ لکھتے ہیں، ہوٹل پر حملے کے بعد بھی ان پر قاتلانہ حملوں کا پلان بنایا گیا اور یہ کہ ان منصوبوں کے پیچھے طالبان نہیں بلکہ ''سیاسی کردار‘‘ تھے جو انہیں مارنا چاہتے تھے۔ ہاشوانی نے اس کے بعد پاکستان چھوڑ دیا اور اس دن پاکستان لوٹے جب زرداری پانچ برس بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔
ہاشوانی نے ہوٹل پر حملے کے بارے میں خدشات کا اظہارکرتے ہوئے لکھا کہ دراصل طالبان کا تو صرف نام استعمال کیا گیا، حملہ کچھ اور لوگوں نے کرایا تھا۔ کہانی کچھ اور تھی۔ ہاشوانی کے بقول یہ سیاسی کھیل تھا جو ان کے کاروبار اور ہوٹلوں پر قبضہ جمانے کے لیے رچایا گیا تھا اور کھیل میں اس خونی شام درجنوں بے گناہ انسان مارے گئے تھے!
نوٹ:- یہ کالم جناب صدرالدین ہاشوانی کی کتاب میں سے لئے گئے واقعات پر مشتمل ہے۔ ان کی اشاعت کی ذمہ داری کالم نویس اور کتاب کے مصنف پر عائد ہوتی ہے۔ ادارہ ''دنیا‘‘ اس کا ذمہ دار نہیں۔ کوئی کردار وضاحت کرنا چاہے تو ان کی تحریر شکریہ کے ساتھ شائع کی جائے گی۔