کابینہ کا اجلاس جاری ہے۔ ایک سال کی محنت کا ڈھول پیٹنے کے بعد کائونٹر ٹیررازم اسٹریٹیجی بنا کر کابینہ میں پیش کی جاتی ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے ایک دستاویز تیار کی جاتی ہے۔ چوہدری نثار بڑے فخر سے کابینہ کو بتاتے ہیں اب پاکستان میں دہشت گردی کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ریپڈ رسپانس فورس بننا تھی، ہیلی کاپٹر فراہم ہونے تھے، جدید اسلحہ، تربیت، کمانڈوز کے علاوہ وزارت داخلہ میں چھبیس ایجنسیوں اور اداروں کا ایک مشترکہ روم بننا تھا جہاں‘ سب سے خفیہ اور دیگر اطلاعات اکٹھی کر کے صوبوں تک پہنچانا تھیں۔
چوہدری نثار نے کہا اس منصوبے پر بتیس ارب روپے خرچ ہوں گے۔ سب نے اسحاق ڈار کی طرف دیکھا۔ اسحاق ڈار نے کندھے اچکائے اور کہا وہ آٹھ ارب روپے سے زیادہ نہیں دے سکتے۔ خزانہ خالی ہے۔ بولے ‘چاروں صوبوں کو کہیں وہ باقی کے 26ارب روپے فراہم کریں۔ صوبوں نے کہا آپ ہمیں بیوقوف سمجھتے ہیں کہ آپ کو 26ارب روپے دیں۔ لاء اینڈ آرڈر ایک صوبائی معاملہ ہے۔ ہمارے صوبے میں کوئی مرے یا جیے آپ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملات میں دخل دینے والے۔ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔ کسی کو یاد نہ رہا کہ کبھی کابینہ نے کائونٹر ٹیررازم پالیسی کی منظوری دی تھی۔
نئی سن لیں ۔ پچھلے ہفتے ایک دستاویز میں انکشاف کیا گیا صرف اسلام آباد میں لاء اینڈ آرڈر کے نام پر 23 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ جی ہاں 23 ارب روپے۔ میں نے غلط پڑھا ہے اور نہ ہی آپ غلط پڑھ رہے ہیں۔ بتیس ارب روپے کائونٹر ٹیررازم کے لیے نہ نکل سکے لیکن 23 ارب روپے صرف چند مربع کلومیٹر پر محیط اسلام آباد شہر پر خرچ ہوچکے ہیں ۔
اسلام آباد وہ شہر ہے جسے سب مال بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ہی بتایا گیا تھا جنرل مشرف اور شوکت عزیز دور میں اسلام آباد کی سڑکیں بنانے کا بھوت سوار ہوا۔ ستر ارب روپے سے چند سڑکیں، دو انڈر پاس اور ایک فلائی اوور بنایا گیا۔ ستر ارب روپے ہضم۔ پیپلز پارٹی کا دور آیا تو سی ڈی اے کو لوٹنے کا پروگرام بنا۔ کچھ نہ سوجھا تو زیرو پوائنٹ پر چار ارب روپے سے بنی بنائی سڑک اکھاڑ کر اس پر نئی بنا دی گئی۔ ابھی ان سب کا افتتاح ہوئے مشکل سے چند برس ہوئے ہیں کہ اب تیس ارب روپے سے میٹرو شروع کی گئی ہے۔ اسلام آباد جو کبھی خوبصورت شہر ہوتا تھا اس وقت بدترین بدانتظامی اور گندگی کا شکار ہے۔ پورے شہر کو ادھیڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ اسلام آباد کے چائنا چوک پر پہلے ہی انڈر پاس پر کروڑوں روپے لگے تھے۔ اب اس کے برابر میں میٹرو کے لیے علیحدہ انڈر پاس بن رہا ہے۔ بلیو ایریا میں فیصل مسجد چوک پر کروڑوں روپے سے فلائی اوور بنایا گیا تھا۔ آج کل اس کو گرانے کا کام جاری ہے کہ میٹرو کی شان و شوکت کے مطابق نیا بنایا جائے۔ چند برسوں پہلے بنایا گیا نیا فلائی اوور بیکار ٹھہرا اور اب اربوں سے نیا بنے گا۔ مقصد سریا بیچنا ہے چاہے ملک کیوں نہ دیوالیہ ہو جائے۔ اسلام آباد کی ہر سڑک چار لین تھی۔ اب پانچویں بنانے کے لیے پورا بلیو ایریا اکھاڑ دیا گیا ہے۔ ان لوگوں کے پاس تو کائونٹر ٹیررازم کے لیے بیتس ارب روپے تک نہیں تھے اور لوگ مررہے ہیں تو پھر یہ تیس ارب روپے اسلام آباد میٹرو کے لیے کہاں سے نکل آئے ہیں جہاں سب کو پتہ ہے کہ اس شہر کو نئی سڑکوں یا پلوں، انڈر پاس اور فلائی اوور کی ضرورت نہیں تھی؟ لندن، نیویارک، واشنگٹن میں سنگل لین پر میٹرو بس چلتی ہے توپھر اسلام آباد کی چار لین کیوں کم پڑگئی تھیں؟
اسلام آباد ہمیشہ سے ہی حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے لیے چراگاہ رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق جنرل مشرف دور میں سی ڈی اے شہر کی خوبصورتی کے نام پر ستر ارب روپے خرچ کرتا ہے تو موجودہ حکمران انہی سڑکوں کو ادھیڑ کر تیس
ارب روپے کی میٹرو شروع کردیتے ہیں۔ یوں پچھلے چند برسوں میں ایک سو ارب روپے صرف اسلام آباد کی چند سڑکوں پر لگ چکے ہیں۔ اب پتہ چلا ہے 23 ارب روپے اسلام آباد کے لاء اینڈ آرڈر پر خرچ ہوچکے ہیں۔ یوں ایک شہر صرف سڑکوں، فلائی اوور اور انڈر پاس کے نام پر ایک سو تیس ارب روپے سے زیادہ کھا گیا۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟ کیوں ہم اپنے وسائل کو یوں برباد کررہے ہیں؟
اور سن لیں۔ میں پہلے ایک کالم میں سلمان فاروقی اور ملک آصف حیات کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ کیسے انہوں نے ایوان صدر سے چودہ کروڑ روپے کی عیدی کھری کر لی تھی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا یہ تو محض Tip of iceberg تھی ۔ پوری فلم تو باقی تھی۔ اب جو دستاویزات میرے پاس موجود ہیں انہیں پڑھ کر میں مزید صدمے کی حالت میں ہوں۔ پوری کہانی سننا چاہتے ہیں تو سن لیں ۔
جب یہ پتہ چل گیا کہ اب پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں نہیں آئے گی تو ایوان صدر میں منصوبہ بنا کہ اپنے جتنے بھی وفادار ہیں ان سب کو پہلے ہی ایسے اہم آئینی عہدوں پر تعینات کر دو جہاں سے انہیں آنے والی حکومت نہ ہٹا سکے۔ ایوان صدر کے سیکرٹری جنرل سلمان فاروقی نے اپنے لیے سپریم کورٹ کے جج کے برابر کا عہدہ‘ وفاقی محتسب کا چُنا؛ چنانچہ ابتدائی طور پر نگران محتسب کا نوٹیفیکیشن جاری کرادیا۔ سیکرٹری ایوان صدر آصف حیات نے اپنے آپ کو وفاقی پبلک سروس کمشن کا سربراہ تعینات کرالیا۔ یہ مت بھولیے گا کہ دونوں اس سے پہلے چودہ کروڑ روپے کی عیدی وصول کر چکے تھے۔مختلف مقدمات میں مطلوب سلمان فاروقی 2008ء میں پیپلز پارٹی کے آنے کے بعد جلاوطنی ختم کر کے پاکستان لوٹے تھے۔ انہیں فوراً ڈپٹی چیئرمین پلاننگ ڈویژن لگا دیا گیا۔ جب زرداری صدر بنے تو اس قیمتی ہیرے کو ایوان صدر میں سیکرٹری جنرل کا عہدہ دے کر بلالیا ۔ تاہم اس عہدے پر وہ تنخواہ نہیں لے رہے تھے۔ تنخواہ انہیں وہی مل رہی تھی جو ڈپٹی چیئرمین کے طور پر منظور کی گئی تھی؛ تاہم سلمان فاروقی دوستوں کے سامنے فخر سے بتاتے کہ وہ ایوان صدر میں اعزازی کام کر رہے ہیں۔ کوئی معاوضہ نہیں لے رہے۔ لیکن یہ نہیں بتاتے تھے کہ وہ ڈپٹی چیئرمین کی تنخواہ اور فوائد سب لے رہے تھے۔
جب سلمان فاروقی نے اس قوم کا محتسب بننے کا فیصلہ کیا تو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو مارچ 2012ء میں ایک سمری بھیج کر وفاقی محتسب لگایا گیا ۔ ایوان صدر سے خود موصوف سلمان فاروقی نے لکھ کر بھیجا کہ انہیں وہ عدالتی الائونس اور تنخواہ دی جائے جو سپریم کورٹ کے جج کو ملتی ہے اور وہ جو مراعات لے رہے ہیں وہ بھی ملتی رہیں گی۔ وزیراعظم نے مئی 2012ء میں اس سمری کی منظوری دے دی۔ وفاقی محتسب کے طور پر انہیں ایک جج کی تنخواہ، اس کے علاوہ ڈھائی لاکھ روپے عدالتی الائونس بھی ملنا شروع ہوگیا جو سپریم کورٹ کے جج کو ملتا ہے۔ یوں جو کبھی اس ملک سے مقدمات کی وجہ سے مفرور ہوگیا تھا وہ اب اس ملک کی سپریم کورٹ کے جج کے برابر کا عہدہ پاکر انصاف کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوچکا تھا۔
تاہم فلم اس وقت شروع ہوئی جب سلمان فاروقی نے مئی 2012ء میں یہ فرمائش کی کہ انہیں وفاقی محتسب کے عہدے کی تنخواہ، الائونس اور مراعات چار سال قبل 2008ء سے ادا کی جائیں۔ یوں ایوان صدر کے لاڈلے کی فرمائش پوری کی گئی۔ اگرچہ ان کا نوٹیفیکیشن 2012ء میں جاری ہوا تھا لیکن اس میں لکھ دیا گیا تھا کہ سلمان فاروقی کو پچھلے چار برس کی تنخواہ اور مراعات بھی ادا ہوں گی۔ کسی نے نہ پوچھا کہ کس خدمت کے عوض انہیں چار برسوں کی تنخواہ پچھلی تاریخوں سے ادا کی جارہی تھی؛ چنانچہ سلمان فاروقی کو 28.11.2008 سے لے کر 30.6.2012 تک چار برسوں کی پچھلی تنخواہ اور الائونس ملا کر کل ایک کروڑ بیس لاکھ روپے ادا کیے گئے۔ یوں اس کام کا معاوضہ دیا گیا جو انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ جب سلمان فاروقی ایوان صدر میں کام کررہے تھے تو انہیں کل ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے تنخواہ اور الائونس کی مد میں بھی ادا کیے گئے۔ یوں چار برسوں میں سلمان فاروقی اکیلے نے تین کروڑ روپے صرف تنخواہ کی مد میں وصول کیے۔ اس کے علاوہ پچاس لاکھ روپے عیدی بھی یتیموں اور غریبوں کے فنڈ سے بھی وصول فرمائی۔ سلمان فاروقی کی اہلیہ کو امریکہ علاج پر لاکھوں روپے کا بل واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے ہماری جیبوں سے ادا کیے گئے ٹیکسوں سے ادا کیا۔ آج کل موصوف اس قوم کے محتسب اعلیٰ بنے ہوئے ہیں اور اس عوام کو انصاف فراہم کرتے ہیں جس کی عیدی وہ ایوان صدر میں صدر زرداری سے خود وصول کر چکے ہیں۔
روس کے عظیم ادیب لیو ٹالسٹائی نے ایک دن تنہائی میں اپنے آپ سے یہ سوال کر کے اپنی ساری جائداد کسانوں میں بانٹ دی تھی کہ ''ایک انسان کو دفن ہونے کے لیے کتنی زمین درکار ہوتی ہوگی؟‘‘
میرا سوال پاکستانی اشرافیہ سے مختلف ہے جس نے سوچ رکھا ہے اس نے کبھی نہیں مرنا لہٰذا انہیں چھ گز زمین کی ضرورت نہیں... لہٰذا ہزاروں برس زندہ رہنے اور اپنے پیٹ کی دوزخ حرام سے اکٹھے کیے ہوئے کتنے سو کروڑوں یا اربوں روپے میں بھرے گی؟