"RKC" (space) message & send to 7575

عمران خان کو شرمندہ کرنے کا نادر موقع

چوہدری انور عزیز ماشاء اللہ چوراسی برس کے ہوگئے۔ 
کل رات ان کے بیٹے ایم این اے دانیال عزیز اور ان کی بیگم نے گھر پر پارٹی کا انتظام کیا اور چوہدری صاحب کی فرمائش پر ان کے سب دوست بلائے گئے۔ نصرت جاوید، حارث خلیق، عامر متین سب موجود تھے۔ دانیال عزیز اپنے والد کے دوستوں کی خدمت میں مصروف تھے۔ چوہدری صاحب کی بہو مہناز عزیز صاحبہ نے کیا زبردست کھانا اپنے ہاتھوں سے پکا کر سب کو کھلایا ۔ 
چوہدری صاحب جب بولتے ہیں تو سب سنتے ہیں ۔ چوہدری صاحب کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ ماریو پزو کا گاڈ فادر یاد آ تا ہے جو جذبات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتا ۔ گاڈفادر جو مشکل سے مشکل صورت حال کو بھی غیرجذباتی انداز میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چوہدری صاحب اپنی ذات میں سیاسی ادارہ اور انسائیکلوپیڈیا ہیں ۔ یادداشت کمال کی پائی ہے۔ بڑھتی ہوئی عمر‘ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ۔ دن بدن جوان ہوتے جارہے ہیں ۔ ان کی محفل میں بیٹھ کر آپ کبھی بور نہیں ہوسکتے۔ محفل زیادہ سنجیدہ ہونے لگے تو ایسے ایسے لطیفے سنا کر ماحول کو گرمائیں گے کہ نوجوان شرما جائیں ۔ چوہدری صاحب کے حلقہ احباب میں جتنے دوست ہیں‘ ان کی بیگمات کے وہ فیورٹ ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ اپنی ان بہو بیٹیوں کے لیے شکر گڑھ سے کچھ نہ کچھ ضرور اپنے ساتھ لاتے ہیں ۔ ان کے کھانوں کی اپنے خوبصورت پنجابی انداز میں ایسی تعریفیں کریں گے کہ بیگمات انتظار کرتی ہیں کب چوہدری صاحب دوبارہ تشریف لائیں گے۔ 
چوہدری صاحب کی محفلوں سے رات گئے تک فیض یاب ہونے والے ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہیں ۔ امریکہ میں بھی ہمارے دوست اکبر چوہدری کے ورجینیا والے گھر میں ان کا ہی ذکر چلتا رہتا تھا ۔ نرگس بھابی نے چوہدری صاحب کی کتب بینی اور خوش خوراکی کے کئی واقعات سنائے کہ ان کاپسندیدہ کام امریکہ میں کتابیں خریدنا ہوتا ہے۔
میں ایسی محفلوں میں اپنے بڑوں اور اپنے سینئرز کے احترام میں جتنا چھپ کر بیٹھنے کی کوشش کروں کہ ان کی باتیں سنوں، وہ ہمیشہ مجھے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ میں نے چوہدری انور عزیز سے زیادہ سیاست کا رسیا نہیں دیکھا۔ اچانک چوہدری انور عزیز نے مجھ سے پوچھ لیا‘ تیس نومبر کو کیا ہونے والا ہے۔ میں گھبرا گیا ۔ زبان لڑکھڑا گئی ۔ چوہدری صاحب نہ مانے۔میں نے کہا‘ چوہدری صاحب پہلے تین ماہ عمران خان نے بیوقوفی کی حد تک ضد سے کام لیا اور اس کا نقصان اٹھایا ۔ اب یہ بیوقوفیاں کرنے کا وقت نواز شریف حکومت کا ہے۔ چوہدری صاحب کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری جس کا مطلب تھا‘ سرائیکی مت بنو۔ کھل کر بات کرو۔ کیوں دونوں سائیڈز کو بیلنس کرنے کی کوشش کررہے ہو۔ 
میں نے کہا‘ چوہدری صاحب عمران خان کو پہلے دن ہی کمشن پر مان جانا چاہیے تھا۔ کمشن بنانے کا خط تو سپریم کورٹ کو نواز شریف لکھ چکے تھے۔ عمران دبائو بڑھاتے کہ کمشن کا نوٹی فکیشن کریں۔ عمران اس وقت اس پوزیشن میں تھے کہ اپنی مرضی سے ایک دو اور چیزیں بھی ڈلوا سکتے مثلاً اس کمشن کے اختیارات کیا ہوں گے وغیرہ۔ عمران کے حامی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کمشن اگر فائنڈنگ دے بھی دیتا تو کون سی قیامت آجاتی ۔ ماڈل ٹائون کمشن سے کیا ہوگیا ۔ میرے خیال میں اگر ثابت ہوجاتا تو قیامت واقعی آجاتی۔ وزیراعظم کو پیغام بھجوایا جاتا کہ سر‘ اب چونکہ سپریم کورٹ کمشن نے کہہ دیا ہے حکومت دھاندلی کے ذریعے منتخب ہوئی اس لیے آپ کوئی فیصلہ کریں۔ اس طرح یہ پیغام پوری بیوروکریسی کو جاتا کہ وزیراعظم کو سپریم کورٹ کمشن نے دھاندلی زدہ وزیراعظم کہہ دیا ہے؛ لہٰذا ان کے ہر جائز و ناجائز حکم پر عمل درآمد رک جاتا۔ قومی اسمبلی کے اندر سے سیاسی جماعتوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی نوازشریف صاحب پر حملے کرنے تھے کہ وہ اب وزیراعظم نہیں رہے۔ پیپلز پارٹی لاکھ کہتی رہتی وہ جمہوریت کا ساتھ دے رہے ہیں، بات نہ بنتی۔ باہر عمران خان نے رولا ڈالنا تھا کہ کمشن نے فیصلہ دے دیا ہے۔ اب وزیراعظم استعفیٰ دیں۔ اس طرح نوازشریف کے لیے غیرملکی دوروں پر جانا مشکل ہوجاتا۔ میزبان ملک ایک ایسے وزیراعظم کو کیسے پروٹوکول دیتے جسے اُس کے ملک کے عدالتی کمشن نے دھاندلی کی پیداوار قرار دے دیا ہو۔ 
وزیراعظم گیلانی کا بھی یہی خیال تھا کہ کیا ہوا‘ اگر انہیں چند سیکنڈ کی سزا عدالت نے دی تھی‘ وہ بھی برطانیہ کے دورے پر روانہ ہوگئے تھے۔ تو کیا ہوا؟ وہ ان کا آخری دورہ ثابت ہوا تھا۔ کسی دل جلے نے سپریم کورٹ میں پٹیشن ڈال دینی تھی‘ جناب! کیا کمشن فائنڈنگ کے بعد نواز شریف وزیراعظم رہ سکتے ہیں؟ اور نواز شریف کا انجام بھی یوسف رضا گیلانی جیسا ہونا تھا۔ عمران اس صورت حال کو نہ پڑھ سکے اور اپنے لیے مسائل کھڑے کر لیے۔ اب جب عمران خان کو تین ماہ بعد یہ بات سمجھ آئی ہے تو حکومت ڈٹ گئی ہے۔ نواز شریف حکومت وہی بیوقوفی دہرا رہی ہے۔ اب عمران خان کے لیے سب راستے بند ہوچکے ہیں یا یوں کہہ لیں انہوں نے اپنے آپ کو ایک بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔ نواز شریف کو کمشن کی شکل میں عمران خان کو فیس سیونگ دینا پڑے گی۔ اگر نواز شریف کا خیال ہے کہ اس طرح عمران خان کی سیاست ختم ہوجائے گی اور گلیاں ہو جائیں گی سنجیاں اور اس میں وہ مرزا بن کر پھریں گے تو پھر وہ غلط سوچ رہے ہیں ۔ عمران ایسے ٹلنے والا نہیں لگتا ۔
نواز شریف اور ان کے حامی سمجھ نہیں پارہے کہ عمران خان کچھ بھی کہتا رہے، لوگ اس کی بات سنیں گے کیونکہ ابھی وہ بطور حکمران عمران کے حکومتی فیصلوں سے براہ راست متاثر نہیں ہو رہے ۔ عمران کے حکم پر ان کی جیب سے پہلے ستر ارب روپے بجلی کی اووربلنگ اور اب ستر ارب روپے گیس چوری کے نام پر نہیں نکالے گئے۔ لوگوں کا عمران سے رومانس اس وقت اترے گا جب وہ حکومت میں آئیں گے۔ 
گائوں میں جب کوئی مرتا ہے تو اس کے گھر سے رونے کی جو آوازیں بلند ہوتی ہیں ان میں اس میت کے عزیزوں سے زیادہ بلند چیخیں گائوں کے دوسرے لوگوں کی ہوتی ہیں ۔ اس میت کو دیکھ کر ہر ایک کے اپنے دکھ تازہ ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے مرنے والوں کو یاد کر کے رو رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے عمران خان کے جلسوں میں زیادہ وہ لوگ شرکت کرتے ہیں جو عمران خان کی باتوں سے زیادہ حکومت کی کرپشن اور زیادتیوں کے ہاتھوں تنگ آچکے ہیں۔ ایک ماہ میں ان کی جیبوں سے ایک سو چالیس ارب روپے گیس اور بجلی اووربلنگ کے نام پر لیے جاتے ہیں اورا نہیں شتروگھن سنہا کے انداز میں کہا جاتا ہے خاموش...! اب کوئی خاموش ہونے کو تیار نہیں۔ بہتر ہوگا نواز شریف سپریم کورٹ کو دوبارہ یاد دہانی کرائیں‘ ان کے پاس ان کا عدالتی کمشن بنانے کا خط پڑا ہے‘ اس پر کمشن بنا دیں۔ شعیب سڈل اور طارق کھوسہ جیسے اچھے ریٹائرڈ افسران کو ان کا سربراہ بنا کر انہیں اختیارات دیے جاسکتے ہیں کہ وہ جس ایجنسی یا ادارے کو چاہیں‘ بلا کر مددلے سکتے ہیں۔ 
میں نے کہا‘ چوہدری صاحب اس کے علاوہ ایک اور طریقہ بھی عمران خان کو شرمندہ کرنے کا ہے۔ 
چوہدری انور عزیز سمیت سب چونک پڑے۔میں نے بتایا کہ اب سوئس عدالت نے بینظیر بھٹو کے ایک لاکھ اسی ہزار ڈالر مالیت کے نیکلس، بریسلیٹ اور ایئرنگز کا مالک آصف زرداری اور ان کے بچوں کو ٹھہرایا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے کہ سوئٹزر لینڈ میں قبضے میں لیے گئے زیورات بینظیر بھٹو یا آصف زرداری کے وارثوں کی ملکیت ہیں۔ سوئس عدالت کہتی ہے کہ یہ زیورات اس وقت قبضے میں لیے گئے تھے جب بینظیر بھٹو کے خلاف کرپشن کی تحقیقات ہورہی تھیں۔ اس سے پہلے آصف زرداری نے ایک لیگل فرم کے ذریعے یہ زیورات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اس پر سیف الرحمن دور کے ایک وکیل نے پاکستان کو بتا دیا ۔ نواز شریف نے اس سال مارچ میں سیکرٹری قانون بیرسٹر ظفراللہ کو ہدایت کی تھی کہ آپ وکیل کو فیس ادا کریں اور اسے کہیں یہ ہیرے جواہرات پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت سے خریدے گئے تھے اور ان پر حکومت پاکستان کا حق ہے۔ اب اس نئے فیصلے کے بعد نواز شریف نے فیصلہ کرنا ہے کہ بینظیر بھٹو کے خلاف کرپشن تحقیقات کے دوران قبضے میں لیے گئے زیورات حکومت پاکستان کے حوالے کرانے ہیں یا پھر زرداری کو اس طرح لینے دیئے جائیں جیسے وہ ساٹھ ملین ڈالر نکال کر لے گئے ہیں۔
اب فیصلہ نواز شریف نے کرنا ہے۔ اگر عمران خان کو شرمندہ کرنا ہے تو اپنے اٹارنی کو ہدایت دیں کہ سوئس عدالت میں نئی درخواست ڈال کر یہ زیورات واپس لائیں یا پھر انہوں نے سلمان بٹ کو ہدایت دینی ہے کہ بٹ صاحب مٹھ رکھو‘ زرداری صاحب ناراض ہوجائیں گے۔ 
اگر نواز شریف نے مٹھ رکھنے کا فیصلہ کیا تو پھر عمران خان کی بات سمجھ میں آتی ہے کہ سب مایا ہے اور کرپشن پر مک مکا چل رہا ہے۔ اب تک وہ عمران خان کو اس مک مکا کے حوالے سے شرمندہ نہیں کر سکے۔ یہ بہت اچھا موقع ہے۔
امید ہے زرداری صاحب بھی جمہوریت کے نام پر ایک لاکھ اسی ہزار ڈالر کے ان زیورات کی قربانی دے کر نواز شریف کے سچے دوست ہونے کا ثبوت دیں گے تاکہ ایک طرف عمران خان کو شرمندہ کیا جاسکے تو دوسری طرف اصلی اور نسلی جمہوریت‘ جس میں ان سب کو لوٹ مار کا اختیار مل چکا ہے، وہ بھی بچ جائے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں