دو دن سے انتظار کر رہاہوں امریکہ پر کب آسمان گرتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی باتوں پر روزانہ آسمان گرتے ہیں۔ میرا خیال ہے امریکہ پر تو زیادہ گرنے چاہئیں۔ بات ہی کچھ ایسی ہوگئی ہے۔
امریکہ کی سینیٹ کمیٹی نے جب فیصلہ کیا کہ سی آئی اے کی طرف سے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد قیدیوں پر تشدد کیے جانے کے واقعات پر کی گئی انکوائری رپورٹ کو عام کیا جائے گا تو امریکی انتظامیہ میں ہل چل مچ گئی۔ جان کیری سے لے کر صدر اوباما تک‘ سب نے کوششیں کر کے دیکھیں کہ رپورٹ ریلیز نہ کی جائے۔ جان کیری نے سینیٹ کمیٹی کی چیئرپرسن کو ذاتی طور پر فون کیا کہ اگر رپورٹ ریلیز کی گئی کہ سی آئی اے قیدیوں پر تشدد کرتی رہی ہے تو بے پناہ مسائل کھڑے ہوجائیں گے۔ جب آگے سے بات ماننے سے انکار ہوا تو خبردار کیا گیا کہ اس سے امریکی شہریوں کی زندگیوں کو خطرات بڑھ جائیں گے۔ ممکن ہے اس رپورٹ میں جو انکشافات کیے گئے ہیں‘ ان کے بعد پاکستان اور دیگر ممالک میں امریکی عمارتوں اور ٹارگٹس پر حملے بڑھ جائیں اور ممکن ہے امریکی شہری مارے جائیں ۔
یہ بہت مشکل فیصلہ تھا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کے خلاف چودہ ہزار الفاظ پر مشتمل وہ رپورٹ شائع کردی جائے؛ تاہم آخر منگل کے روز اسے ریلیز کر دیا گیا‘ جس نے پورے امریکہ میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ آپ امریکی اخبار اٹھا کر دیکھیں تو ہر طرف اس رپورٹ کا ذکر ہے‘ جس میں بتایا گیا ہے کیسے انٹیلی جنس ایجنسی نے قیدیوں سے معلومات حاصل کرنے کے لیے قید خانے بنائے‘ جہاں ان پر تشدد کیا جاتا تھا ۔ یہ پروگرام صدر بش کے دور میں شروع ہوا ۔ ایک دفعہ اس پروگرام کے تحت دی گئی سزائوں کے بارے میں جان کر تو جارج بش جیسا سخت دل صدر بھی کانپ اٹھا تھا اور اس نے دو ایسی سزائوں سے منع کر دیا تھا جو اس کے خیال میں مناسب نہیں تھیں۔ ایک دفعہ بش کو بتایا گیا کہ ایک قیدی کو سیل میں اس انداز سے زنجیروں سے باندھ کر چھت کے ساتھ لٹکایا گیا تھا کہ جب وہ پیشاب کرتا تو وہ اس کے منہ پر ہی گرتا رہتا ۔ اس پر بش کانپ اٹھا تھا کہ سیکرٹ ایجنسی کیا حرکتیں کررہی تھی۔ قیدیوں کا سر پانی میں ڈبوئے رکھنا تو عام سی بات تھی تاکہ اس سے معلومات لی جا سکیں۔ جب اسامہ کو ٹریس کیا گیا تو یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دراصل جن قیدیوں پر تشدد کیا گیا تھا‘ معلومات انہی سے ملی تھیں اور انہی کی بنا پر ایبٹ آباد میں کامیاب چھاپہ مارا گیا تھا۔ اب پتہ چلا سی آئی اے کو ان قیدیوں سے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی جن سے اسامہ کو ٹریس کیا جاتا۔ اس رپورٹ میں کئی واقعات بیان کیے گئے ہیں‘ جن سے پتہ چلتا ہے کہ ایجنسی کس پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہی تھی اور امریکی جو اپنے آپ کو عالمی انسانی حقوق کا علمبردار بلکہ ٹھیکیدار کہلاتے ہیں‘ اب شرمندگی محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں علم تک نہ تھا قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک ہورہا تھا ۔
توقع کے برعکس سینیٹ کمیٹی نے رپورٹ جاری کی‘ کیونکہ شفافیت کا تقاضا یہی تھا کہ جب رپورٹ تیار ہوگئی تھی تو امریکی عوام کو اپنی ایجنسی کی کارگزاری کا پتہ چلنا چاہیے۔ امریکہ نے پہلی دفعہ ایسا نہیں کیا کہ پوری دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ننگا کرنا مناسب سمجھا اور اپنے اداروں اور ان میں بیٹھے لوگوں کو بچانے کی کوشش نہیں کی کہ اس سے امریکہ کی بدنامی ہوگی۔ جب نکسن کے خلاف واٹر گیٹ سکینڈل آیا تھا‘ تب بھی امریکی عوام یا میڈیا نے یہ نہیں کہا تھا کہ یار جانے دو‘ کیوں دنیا میں اپنے صدر کی عزت کاجنازہ نکالتے ہو ۔ لوگ کیا کہیں گے۔ امریکیوں نے اپنے صدر سے استعفیٰ لے کر گھر بھیج دیا۔ جب بل کلنٹن کا مونیکا لیونسکی کے ساتھ سکینڈل سامنے آیا‘ تب بھی صدر کا ٹرائل شروع کیا گیا اور بل کلنٹن سے جو سوال و جواب کیے گئے وہ براہ راست پوری دنیا نے دیکھے اور سنے۔ اس وقت ہمارا خیال تھا کہ امریکہ پر آسمان گر پڑے گا ۔ بھلا کیسے اپنے صدر کی اس سطح پر جا کر بے عزتی کی جائے گی۔ اب کی دفعہ بھی میرا یہی خیال تھا کہ سی آئی اے کے کرتوتوں کو سامنے نہیں لایا جائے گا‘ لیکن وہ رپورٹ سامنے آچکی ہے۔
اب تک میں امریکہ کے سب اہم اخبارات پڑھ چکا ہوں۔ کسی نے اس رپورٹ کے ریلیز ہونے پر شور نہیں مچایا ۔ کسی دانشور یا صحافی نے نہیں کہا کہ اپنے ملک کی ایجنسی کو کیوں بدنام کر دیا گیا۔ کون امریکی ایجنسی کے خلاف سازش کر کے اسے کمزور کررہا ہے؟ وہ کون لوگ ہیں‘ جنہوں نے دشمن کے ایجنڈے پر چلتے ہوئے سی آئی اے کی رپورٹ ریلیز کی جس سے امریکی مفادات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ہمارے ہاں پاکستان میں کیا ہوتا ہے؟ یہاں کوئی بھی واقعہ ہو‘ اس کی رپورٹ چھپا لی جاتی ہے کہ اس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ پتہ چلتا ہے رپورٹ چھپانے سے پاکستان کو نقصان کم‘ ان لوگوں کو زیادہ فائدہ ہوا ہے جن کے خلاف وہ رپورٹ تیار کی گئی تھی۔ جسٹس حمودالرحمن رپورٹ آج تک شائع نہ ہوسکی کیونکہ خطرہ تھا کہ اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔ ملک کو مزید کیا نقصان ہوتا‘ ان تمام لوگوں کو ترقیاں مل گئیں جنہیں اس رپورٹ کی روشنی میں سزائیں ملنی چاہئیں تھی۔
اس کے بعد سب سے اہم رپورٹ ایبٹ آباد کمشن کی تھی جسے ریلیز کیا جانا چاہیے تھا تاکہ پتہ چلتا کہ کن اداروں اور افسران کی نااہلی کی وجہ سے وہ واقعہ رونما ہوا تھا۔ کون سا ادارہ تھا جسے پتہ نہ چلا کہ اسامہ بن لادن پانچ برس سے پاکستان میں رہ رہا تھا‘ جسے امریکیوں نے ٹریس کر کے ہمیں پوری دنیا کے سامنے ننگا کر دیا اور مشہور ہوگیا کہ ہم دہشت گردوں کے ساتھی ہیں۔ پوری دنیا حیران تھی کہ اگر ہم امریکہ اور دنیا کا ساتھ دے رہے تھے تو پھر شکیل آفریدی کو کیوں سزا دی گئی؟ اگر اسامہ دشمن تھا تو پھر اسے ٹریس کرنے کا انعام ہونا چاہیے تھا نہ کہ اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ۔ اس کمشن نے جب جنرل پاشا کو بلا کر سوال جواب کیے تو وہ الٹا پاکستانی صحافیوں پر گرجے برسے کہ امریکی پاکستانی صحافیوں کو چند ڈالر، شراب اور عورت پر خرید لیتے ہیں۔ مجھے آج تک پتہ نہیں چلا کہ ایبٹ آباد کمشن اور اسامہ آپریشن سے صحافیوں کے کرپٹ ہونے کا کیا تعلق بنتا تھا ؟ جنرل پاشا سارا نزلہ صحافیوں پر گرا کر چلے گئے اور آج کل بیرون ملک ایک ہسپتال میں نوکری کرتے ہیں ۔
جب ایبٹ آباد رپورٹ ہی شائع نہ ہوئی تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کیسے ہوتی۔ الٹا صحافیوں کو ایبٹ آباد آپریشن کا ذمہ دار قرار دے دیا ۔ وزیراعظم گیلانی تک کو قومی اسمبلی میں کہنا پڑ گیا کہ ہم نے کمشن سے کہا تھا کہ پتہ کرے اسامہ بن لادن کیسے ایبٹ آباد میں رہ رہا تھا؟ کمشن الٹا حکومت سے پوچھنے لگ گیا کہ اسامہ کو چھوڑیں‘ یہ بتائیں امریکیوں کو حسین حقانی نے ویزے کیسے جاری کیے؟ یوں جن لوگوں کی انکوائری ہونا تھی انہوں نے انکوائری کا رخ ہی بدل دیا‘ رپورٹ ریلیز ہونا تو دور کی بات ہے۔
کوئی بھی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیں‘ وہ ملکی مفاد میں ریلیز نہیں ہونے دی گئی۔ ماڈل ٹائون میں چودہ بندے مار دیے گئے اور جسٹس باقر کی رپورٹ روک دی گئی ۔ الٹا جسٹس باقر کو وہ ملزمان دھمکیاں دینا شروع ہوگئے‘ جن کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ انہوں نے بندے مروائے ہیں۔ جسٹس منصور نے گوجرہ میں نو مسیحیوں کے زندہ جلائے جانے پر جس پولیس افسر کو ذمہ دار ٹھہرایا‘ اسے ترقی دے کر لاہور پولیس کا چیف بنا دیا گیا۔ سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کے ذمہ دار پولیس افسران کو ترقیاں دی گئیں ۔ جسٹس منصور نے ہی سیلاب سکینڈل کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تو پتہ چلا سیکرٹری اریگیشن کی وجہ سے درجنوں افراد مرے اور اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔ اسی شخص کو ترقی دے کر انرجی کا سیکرٹری اور پھر اسحاق ڈار نے اسے ایک سو ارب روپے کے بینظیر بھٹو پروگرام کا سیکرٹری لگا دیا کیونکہ وہ وزیراعظم ہائوس کے ایک بڑے زکوٹا جن کا بیچ میٹ نکل آیا تھا۔
ہمارے ہاں اگر کسی ادارے کی نااہلی سامنے آ جائے تو فوراً میرے جیسے کالم نگار، اینکر اور صحافی کمر کس کر میدان میں آ جاتے ہیں اور کسی کو اس کی ناکامی اور نااہلی کی سزا نہیں ملنے دیتے۔ ملکی مفاد کے نام پر تمام نااہل لوگوں اور اداروں کو بچالیا جاتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ کسی ادارے کو احتساب کا خوف نہیں۔ اس لیے روزانہ ایک سے بڑھ کر ایک خوفناک واقعہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ واہگہ بارڈر پر اسّی افراد مارے جاتے ہیں اور کوئی سوال نہیں پوچھا جاتا۔ سب کچھ اللہ کی مرضی پر چھوڑ کر ہم گھر لوٹ جاتے ہیں۔
ہم میں تو ماڈل ٹائون کی انکوائری رپورٹ تک باہر لانے کی ہمت نہیں‘ جب کہ امریکی سینیٹ کمیٹی نے دنیا کی طاقت ور ترین ایجنسی کے کرتوتوں پر مشتمل رپورٹ جاری کردی ہے۔ دیکھتے ہیں امریکہ پر آسمان کب گرتا ہے۔ ہمارے ہاں تو روزانہ کوئی نیا آسمان ہمارے اوپر گرنے کا خوف ہمیں سونے نہیں دیتا!