لگتا ہے خوبصورت ترک ناول نگار خاتون ایلف شفک کا یہ ناول مجھ پر بیت گیا ہے۔
پچھلے ماہ کراچی جانا پڑا۔ ایئرپورٹ پر کتابوں کی دکان میں "The forty rules of love" ناول نظر آیا ۔ یاد آیا یہ ناول میری دوست سعدیہ نذیر نے مجھے دیا تھا۔ میں اسے روایتی محبت کے اصول سمجھ کر بھول گیا تھا ۔ دو تین دفعہ سعدیہ نے پوچھا: ناول پڑھا ہے؟ میں ٹال گیا ۔ مایوس ہو کر اس نے خاموشی اختیار کر لی۔
سعدیہ نذیر میرے ٹیکس کے معاملات دیکھتی ہیں۔ ہر سال وہ میرے گوشوارے بنا کر ایف بی آر میں داخل کرادیتی ہیں۔ کئی بار معاوضہ دینے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ یہی جواب ملا: جب بیرون ملک جائو تو کوئی اچھی سی کتاب لیتے آنا۔ زندگی میں جن چند سمجھدار خواتین سے واسطہ پڑا‘ سعدیہ ان میں سے ایک ہیں۔ وہ KPMG میں ایک اچھے عہدے پر کام کرتی ہیں اور ادب سے بہت دلچسپی رکھتی ہیں۔
اسلام آباد تک میرے پاس دو گھنٹے تھے‘ سوچا یہ کتاب لے لوں ۔ جہاز کے اسلام آباد پہنچنے تک میں اس ناول کے ستر صفحات پڑھ چکا تھا اور ناول نیچے رکھنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا ۔یہ ناول میں نے سعدیہ کو خوش کرنے کے لیے پڑھنا شروع کیا تھا؛ لیکن جوں جوں پڑھتا گیا ، میں اس میں ڈوبتا چلا گیا ۔
ایلف شفک نے یہ ناول برسوں کی تحقیق کے بعد رومی اور شمس تبریز کی ملاقات پر لکھا ہے۔ جب وہ دونوں ملے تو کئی ہفتوں تک ایک کمرے میں بند رہے اور محبت کے وہ غیرمعمولی چالیس اصول لکھے‘ جو اس ناول کا تھیم ہیں۔ ایلف شفک نے جس خوبصورتی سے محبت کے ان چالیس اصولوں کو اپنے ناول کی شکل دی‘ وہ کمال ہے۔
رومی کو سننے کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے۔ ایک دن ایک طوائف‘ جس کا نام ڈیزرٹ روز تھا‘ بھی اُن کو سننے کے لیے مسجد پہنچ گئی ۔ ڈیزرٹ روز نے اس مقصد کے لیے اپنا حلیہ بدل لیا تھا۔ رومی کی گفتگو سننے کے دوران اس کے ایک پرانے گاہک نے اسے پہچان لیا ۔ اس پر وہاں شور مچ گیا کہ ایک طوائف مسجد میں موجود ہے۔ لوگوں نے اسے وہاں سے نکالا اور باہر لے آئے۔ ہجوم میں غصہ بڑھ رہا تھا ۔ ڈیزرٹ روز کو لگا‘ اب اسے وہیں کھڑے کھڑے سنگسار کر دیا جائے گا۔ اسی اثناء میں ایک درویش اس ہجوم کے قریب پہنچا اور چیخ کر بولا: رک جائو۔ ہجوم ساکت ہوگیا۔
''تم لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔تیس لوگ ایک کمزور عورت پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے‘‘ درویش بولا: اُس کے ساتھ کسی انصاف کی ضرورت نہیں ہے‘ مجمع میں سے کوئی بولا، ''یہ طوائف یہاں ایک مرد کے لباس میں آئی تاکہ ہم اچھے مسلمانوں کو دھوکا دے سکے‘‘۔
''تم لوگ مجھے یہ بتا رہے ہو کہ اس عورت کو اس لیے مارنا چاہتے ہو کہ یہ مسجد کیوں آئی تھی؟ کیا یہ جرم ہے؟‘‘ درویش کے لہجے میں اب طنز نمایاں تھا۔
یہ ''طوائف ہے‘‘ ہجوم میں سے کوئی چلایا ''مسجد میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔ ہجوم طوائف طوائف کے نعرے لگانا شروع ہوگیا۔ایک نے کہا: ''آئیں طوائف کو مارتے ہیں‘‘۔ لگتا تھا اس ایک فقرے نے درویش کے جلال کو مزید تیز کر دیا۔ ''رُک جائو اور مجھے ایک بات بتائو۔ کیا تم واقعی اس عورت سے نفرت کرتے ہو یا پھر تم لوگوں کے اندر اسے حاصل کرنے کی خواہش ہے؟‘‘ یہ کہہ کر درویش نے اس طوائف کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی طرف کھینچ لیا ۔ طوائف درویش کے پیچھے چھپ گئی‘ جیسے ایک چھوٹی سی بچی خطرہ دیکھ کر اپنی ماں کے پیچھے چھپ گئی ہو۔
ہجوم کے سربراہ نے درویش سے کہا: تم اس علاقے میں اجنبی ہو‘ تم بہت بڑی غلطی کررہے ہو‘ تمہیں ہمارا پتہ نہیں ہے۔ تم اس سے دور رہو۔ کوئی اور بولا: تم کیسے درویش ہو؟ کیا تمہارے پاس ایک طوائف کا دفاع کرنے سے بہتر کوئی اور کام نہیں ہے؟
درویش ایک لمحے کے لیے خاموش رہا‘ جیسے وہ اس سوال پر غور کر رہا ہو۔ اس نے غصے کا اظہار نہیں کیا اور پُرسکون رہا ۔
پھر کہا: ''پہلے تم لوگ یہ بتائو کہ تم لوگ مسجد میں عبادت کے لیے جاتے ہو یا اپنے ارد گرد لوگوں کو دیکھنے؟ کیا مسجد میں خدا سے اہم وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں تم لوگ تکتے رہتے ہو؟ اگر تم خداکی عبادت کرنے گئے تھے تو پھر تمہیں تو یہ عورت وہاں نظر ہی نہیں آنی چاہیے تھی۔ حلیہ بدلنا تو دور کی بات ہے، اگر اس نے کپڑے تک نہ پہنے ہوتے پھر بھی وہ تم لوگوں کو نظر نہیں آنی چاہیے تھی... جائو لوٹ جائو اور رومی کا وعظ سنو۔ اس کمزور عورت کو مارنے سے وہ کام زیادہ بہتر ہے‘‘۔
دھیرے دھیرے ہجوم چھٹ گیا۔
طوائف کے ہوش ٹھکانے آئے تو وہ بولی '' اے درویش‘ میں آپ کا کیسے شکریہ ادا کروں‘‘۔ درویش بولا: تمہیں میرا کوئی شکریہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم خدا کے علاوہ کسی کے شکرگزار نہیں ہیں ۔
ڈیزٹ روز نے نام پوچھا تو وہ درویش شمس تبریز نکلا ۔ درویش بولا: کچھ لوگ اچھی زندگی شروع کرتے ہیں لیکن کچھ اپنا رنگ کھو بیٹھتے ہیں۔ تم بھی انہی لوگوں میں سے لگتی ہو جو اپنا رنگ کھو بیٹھے ہیں۔ کبھی تمہارا رنگ للی کے پھول کی طرح سفید تھا؛ تاہم وقت کے ساتھ یہ رنگ کملا گیا ۔ اب یہ رنگ برائون ہو چکا ہے۔ کیا تم اپنے اس اصل رنگ کو مِس نہیں کرتیں؟ کیا تم دوبارہ اپنی اصلی ذات کے ساتھ جڑنا نہیں چاہو گی؟ تمہارا رنگ اس لیے بگڑ گیا ہے کیونکہ ان تمام برسوں میں تم نے اپنے آپ کو یہ یقین دلایا ہے کہ تم اندر اور باہر سے آلودہ ہوچکی ہو۔
ڈیزرٹ بولی: میں واقعی اچھی نہیں ہوں ۔ مجھے علم نہیں میں کیسے کچھ کما کر اپنی زندگی گزاروں ۔
درویش بولا: میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ ایک دن ایک طوائف نے گلی میں ایک کتے کو پیاسا دیکھا ۔ کتا سورج کی تیز دھوپ میں بے بس لیٹا تھا اور اسے سخت پیاس لگی ہوئی تھی۔ اس طوائف نے اپنا جوتا اتارا‘ اس میں ایک قریبی کنویں سے پانی بھر کر لائی‘ کتے کو پلایا اور چلی گئی ۔ اگلے دن طوائف کی ایک صوفی سے ملاقات ہوگئی۔ جونہی اس صوفی نے اسے دیکھا تو اس نے آگے بڑھ کر اس طوائف کے ہاتھ چومے۔ طوائف کو ایک دھچکا سا لگا۔ صوفی بولا: تم نے جو ہمدردی کتے کے ساتھ دکھائی تھی وہ خدا کو اتنی بھائی ہے کہ تمہارے سارے گناہ بخش دیے گئے ہیں ۔
یہ واقعہ سُن کر ڈیزرٹ روز بولی: اگر میں پورے شہر کے پیاسے کتوں کو پانی پلائوں تو بھی میرے گناہ معاف نہیں ہوں گے۔
شمس بولا: تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو؟ یہ تو صرف خدا کو پتہ ہے‘ کون نیک اور کون گناہگار ہے۔ اور تم کیسے کہہ سکتی ہو جنہوں نے تمہیں آج مسجد سے دھکے دے کر نکالا ہے‘ وہ خدا کے بہت قریبی ہیں اور تم خدا سے دور ہو۔ طوائف بولی: ان مردوں کو یہ بات کون بتائے گا؟
درویش بولا: بات تم انہیں بتائو گی۔ روز بولی: آپ کا خیال ہے وہ میری بات سنیں گے؟ وہ لوگ تو مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔
درویش بولا: ''اگر تم چاہتی ہو کہ دوسرے تمہارے ساتھ مختلف انداز میں سلوک کریں‘ تو پھر سب سے پہلے تم اپنے ساتھ سلوک کو تبدیل کرو۔ اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں کہ تم اپنے آپ سے محبت کر سکو‘‘۔
کچھ عرصے بعد ڈیزرٹ روز بھاگ کر رومی کے گھر چلی گئی‘ جہاں شمس تبریز ٹھہرے ہوئے تھے۔ رومی کا خاندان پریشان ہو گیا۔ سب کو رومی کی ساکھ کی فکر ہوگئی کہ لوگ کیا کہیں گے‘ ایک طوائف ان سے ملنے آئی ہے۔ رومی اور شمس سیر سے واپس لوٹے تو انہیں اس غیر متوقع مہمان کے بارے میں بتایا گیا ۔رومی کو ایک دھچکا لگا اور وہ بولے: تم یہ کہہ رہے ہو ایک طوائف ہم سے ملنے آئی ہے؟ ایک طوائف ہمارے گھر کی صحن میں موجود ہے؟ کوئی بولا: جی وہ کہتی ہے اس نے گناہ کی زندگی ترک کر دی ہے‘ وہ طوائف خانے سے بھاگ آئی ہے تاکہ خدا کو تلاش کر سکے۔ شمس تبریز بولے: اوہ یہ یقینا ڈیزرٹ روز ہوگی۔ اس کی آواز میں خوشی واضح تھی۔
گھر کے کسی فرد نے کہا: لوگ کیا کہیں گے‘ ہمارے گھر کی چھت کے نیچے ایک طوائف آئی ہوئی ہے۔
شمس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا: ''کیا ہم سب پہلے ایک چھت کے نیچے نہیں رہ رہے۔ بادشاہ ، ملکہ، کنواری ہو یا طوائف سب اس ایک آسمان کے نیچے ہی تو رہتے ہیں‘‘۔
شمس تبریز اور رومی پر لکھے گئے اس عظیم ناول کو پڑھتے ہوئے مجھے کوٹ رادھا کشن کے وہ بے بس میاں بیوی یاد آئے جنہیں ہجوم نے مسجد کے لائوڈ سپیکر سے ہونے والے اعلانات کے بعد گھر میں ان کے بچوں کی موجودگی میں گھسیٹ کر نکالا اور بھٹے کی آگ میں زندہ جلا دیا تھا۔
اس بدنصیب جوڑے کی قسمت میں شمس تبریز جیسا درویش نہیں تھا جو انہیں اس طرح بچا لیتا جیسے اس نے ڈیزٹ روز کو آج سے آٹھ سو برس قبل غضب ناک ہجوم سے بچالیا تھا۔