عابدہ حسین کی کتاب 'Power Failure‘ جس میں انہوں نے ایف سولہ طیاروں کے سودے میں لیے گئے تین ارب روپے کے کمشن کی پوری کہانی لکھی ہے‘ پر کالم کیا لکھا‘ کچھ قارئین ناراض ہی ہوگئے۔
چند دوستوں نے طعنے دینے میں دیر نہیں کی ۔صحافی دوست محمد شہزاد نے ای میل کی کہ عابدہ حسین خود کوئی دودھ کی دھلی ہوئی ہیں؟ میں نے جواب دیا‘ میرے بھائی کسی کو بولنے تو دیں۔ میں خود کون سا دھلا ہوا ہوں۔ کوئی بیتے دنوں کی کہانی سنا رہا ہے‘ تو سن لیں۔ میرے دوست فواد چوہدری نے رگڑا لگایا کہ اس کتاب میں اپنی اور باپ کی بڑھا چڑھا کر تعریفیں کی گئی ہیں۔ مزید کہا کہ اس نے میرے کہنے پر کتاب پڑھنی شروع کی لیکن اسے مایوسی ہوئی ۔ تلہ گنگ کے میرے دوست طاہر ملک نے کہا‘ کتاب میں لکھا ہے نور خان نے میانوالی سے الیکشن لڑا تھا لیکن وہ تلہ گنگ سے الیکشن جیتے تھے۔ چلیں سات سو صفحات کے قریب کتاب میں پروفیسر طاہر ملک کو کوئی غلطی مل ہی گئی۔
یہ ہمارا رویہ ہے جس کی وجہ سے کوئی پاکستان میں کتاب نہیں لکھتا ۔ سیاستدان اور بیوروکریٹس تو بالکل نہیں لکھتے جنہیں اندر کی باتوں کا علم ہوتا ہے کیونکہ پہلا طعنہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ آپ کون سے پاک صاف ہیں جو دوسروں کے بارے میں یہ کچھ لکھ رہے ہیں‘ یا پھر‘ آپ اپنی تعریفیں کررہے ہیں‘ یا یہ کہ کتاب میں کچھ غلطیاں ہیں ۔ آٹوبائیوگرافی کسی بھی شخص کا اپنا ذاتی اکائونٹ ہوتا ہے۔ ہم اتفاق کریں نہ کریں لیکن ہمیں کچھ تو پتہ چلتا ہے۔
تاہم بہت سے قارئین نے میری اس بات پر کلاس لے لی کہ اس سکینڈل میں ملوث لوگوں کے نام کیوں نہیں لکھے۔ شاید میں نے بھی تین ارب کمشن سے حصہ لے لیا تھا ۔ میں نے جواب دیا کہ جناب اگر کتاب میںنام لکھے ہوتے تو میں بھی لکھ دیتا ۔ اب اپنی طرف سے تو لکھنے سے رہا۔
ویسے اگر ایف سولہ طیاروں میں تین ارب روپے کمشن کھانے والوں کے نام چھپ بھی جاتے تو ہم سب نے کسی کا کیا بگاڑ لینا تھا؟ مخدوم امین فہیم کا ہم نے کیا بگاڑ لیا جن کے اکائونٹ سے چار کروڑ روپے نکلے تھے؟ مخدوم امین فہیم کے سٹاف افسر کا کسی نے کیا بگاڑ لیا جس کے دوبئی بنک اکائونٹ سے پچاس لاکھ ڈالر برآمد ہوئے اور جو آج کل لندن میں نئی جائیدادیں خرید رہا ہے۔ امین فہیم کی لندن میں میزبانی بھی اسی شخص کی ذمہ داری ہے۔ ایف آئی اے بھی اس سکینڈل میں اپنا حصہ لے کر چپ ہوگئی۔ ہم نے پنجاب کی ایک اہم شخصیت کا کیا کر لیا جس کے برطانوی بنک اکائونٹ میں سولہ لاکھ پونڈ واپس لانے کا حکم سپریم کورٹ نے دیا تھا؟ ہم نے این ایل سی کے چار ارب روپے کے سکینڈل میں ملوث تین ریٹائرڈفوجی افسران کا کیا بگاڑ لیا جن کے خلاف جی ایچ کیو نے انکوائری کی اور الزام ثابت ہو گیا تھا؟ آئی ایس آئی اصغر خان کیس میں جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی کے خلاف سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود وزارت دفاع اور دیگر اداروں نے کوئی کاروائی کی؟ چین سے منگوائے گئے ریل کے ناقص انجنوں کے سکینڈل کے ذمہ دار ریٹائرڈ جرنیلوں کا کیا بنا ؟ حاجی غلام احمد بلور کی چینی کمپنی سے کی گئی ڈیل میں پچیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ۔ بلور صاحب کا کیا کرلیا؟ پشاور میں باچا خان کے سیاسی وارثوں نے اسلحہ سکینڈل میں ایک ارب روپے دوبئی میں رشوت کے طور پر وصول کیے۔ ہم نے ان کا کیا بگاڑ لیا ؟ نواز لیگ کے انجم عقیل خان کا کیا بنا جس نے نیشنل پولیس فائونڈیشن کا چار ارب روپے کا فراڈ کیا۔ اس نے تحریری طور پر تسلیم کیا کہ اس نے فراڈ کیے تھے اور پیسے واپس کرے گا۔ نیب کے ایک افسر جو اپنے آپ کو ''صبح‘‘ اور ''صادق‘‘ کہلواتے تھے‘ نے سب کچھ گول ہی کر دیا۔ مجھ سے ملاقات ہوئی تو حیران ہوئے کہ سپریم کورٹ نے کیسے انجم عقیل کو پکڑ لیا‘ وہ بیچارا تو معصوم ہے۔ میں نے کہا‘ سرکار‘ کسی وقت اپنے موجودہ چیئرمین قمرالزماں چوہدری سے یہ سوال کریں کیونکہ وہ اس وقت سیکرٹری داخلہ تھے جب انجم عقیل کے خلاف انکوائری ہوئی تھی۔ انجم عقیل نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ظفر قریشی کو تحریری طور پر لکھ کر دیا تھا کہ وہ چار ارب روپے نیشنل پولیس فاونڈیشن کو واپس کرے گا۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے برعکس اب نیب انجم عقیل خان کے ساتھ مل گئی اور وہ نئی ہائوسنگ سوسائٹی لانچ کررہا ہے۔ ہم نے صدر زرداری کا کیا کر لیا جن کے سوئس اکائونٹ میں چھ ارب روپے پڑے ہوئے تھے۔ ہم نے سیف سٹی پراجیکٹ میں اس چینی کمپنی کا کیا کر لیا جو چھ ارب روپے ایڈوانس لے کر غائب ہو گئی۔
ہم نے ڈاکٹر عاصم حسین کا کیا بگاڑ لیا جو میڈیکل تعلیم کو تباہ کر کے آج کل سندھ میں حشر نشر کررہے ہیں۔ انہوں نے سی این جی سٹیشنز کے لائسنس سے لے کر پرائیویٹ میڈیکل کالجز تک کا جنازہ نکال دیا ۔ آخری دنوں میں تو ای سی سی کے فورم کو استعمال کرتے ہوئے ایک آئل ریفائنری کو کروڑوں روپے کی ادائیگی کرادی جس کا کوئی حق نہیں بنتا تھا ۔ بیالیس ارب روپے کے ایل این جی سکینڈل میں تحقیقات تک عاصم نے دبوالیں‘ جس کا حفیظ شیخ نے حکم دیا تھا اور یہ تحقیقات ہی حفیظ شیخ کو ہٹوانے کا سبب بنی تھی۔ پھر ہم نے سابق وزیرخزانہ حفیظ شیخ کا کیا بگاڑ لیا جنہوں نے خاموشی سے ایک ٹریکٹر کمپنی کے مالک اور اپنے قریبی دوست کو ایف بی آر سے
افغانستان جانے والے کنٹینروں پر ٹریکر سسٹم لگانے کا کنٹریکٹ فراڈ کر کے دلوایا اور اربوں کی گیم کھیلی اور بڑے شریف بھی بنے رہے۔ ہم نے وزیرخزانہ سلیم مانڈی والا کا کیا بگاڑ لیا جنہوں نے پیپلز پارٹی کے آخری دنوں مارچ 2013ء میں مسلسل دو دن تک ای سی سی کے اجلاس کی صدارت کر کے بڑے بڑے لوگوں کو مالی فائدے دیے اور خود خاموشی سے اسلام آباد کے بڑے شاپنگ مال میں عالی شان سینما ہائوس بھی تعمیر کر لیا۔ اکیلے عاصم حسین دو دن کے اجلاسوں میں بیس سمریاں منظوری کے لیے لائے تھے کیونکہ ایک ہفتے بعد حکومت ختم ہورہی تھی۔ ہم نے چوہدری نثار اور اعتزاز احسن کا کیا بگاڑ لیا جنہوں نے قوم کے سامنے ایک دوسرے کو کرپٹ کہا ۔ ہم نے سابق سینیٹر ظفر اقبال کا کیا بگاڑ لیا جنہوں نے لاہور سے کراچی تک ایکسپریس ٹرین چلانے کا ٹھیکہ لیا اور ریلوے کو ٹیکا لگا کر چلتے بنے۔
ویسے یہ کام کس کا ہے کہ وہ بات کو آگے بڑھائے اور پتہ کرے کہ تین ارب روپے کا کمشن کس نے کھایا تھا؟
سینیٹر محسن لغاری ملے تو میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے ممبر اور مشاہد حسین اس کے سربراہ ہیں۔ آپ عابدہ حسین کی کتاب کے وہ صفحے فوٹوکاپی کرائیں اور ایک ایجنڈا آیٹم بنا کر کمیٹی کا اجلاس بلوائیں۔ یہ کمیٹی وزارت دفاع، جی ایچ کیو، واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے افسران کو بلائے اور اس سکینڈل کی تحقیقات کرے۔ عابدہ حسین کو بھی بلوایا جائے اور ان سے کہا جائے‘ وہ بتائیں کہ کیسے وہ ڈیل ہوئی تھی۔ ایف سولہ طیاروں کا معاہدہ نکال کر کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔ ہر کوئی وہ نام پڑھ سکتا ہے کہ کس کس نے اس بوگس معاہدے پر دستخط کیے تھے جن کے مطابق امریکی کمپنی نے جرمانے کے طور پر پاکستان کے پندرہ ارب روپے کاٹ لیے۔ تین ارب روپے کے انتظامی اخراجات کی شق کس نے لکھوائی تھی اور وہ تین ارب روپے کس پاکستانی نے ادائیگی سے پہلے ہی جیب میں رکھ لیے تھے۔
قومی اسمبلی کی دفاع کی کمیٹی یہ کام کرسکتی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی بھی ایک خصوصی کمیٹی بنا سکتے ہیں جو اس معاملے کی تحقیقات کرے اور اس میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان شامل ہوں جیسے لاہور میں گالف کلب سکینڈل کے معاملے پر کمیٹی بنائی گئی تھی۔ یہ اور بات ہے وہ انکوائری رپورٹ بھی سپیکر فہمیدہ مرزا نے ہائوس میں منظور ہونے کے باوجود دبا دی تھی۔
ویسے نیب کو ہم نے کس کام کے لیے رکھا ہوا ہے؟ نیب عابدہ حسین کی کتاب کی روشنی میں کیوں ایکشن نہیں لیتا۔ کیوں کروڑوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات لے رہا ہے۔ نیب کے سفید ہاتھی کو تو بند ہی کردیں جو کمزور پر چڑھ دوڑتا ہے لیکن طاقتور کے آگے لیٹ جاتا ہے۔ تنخواہ اور عیاشی یہ عوام کے ٹیکسوں سے کرتے ہیں لیکن نوکری طاقتوروں کی مفت میں کرتے ہیں کیونکہ وہ انہیں اس اعلیٰ پوسٹ پر تعینات کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اچھی پوسٹنگ کے لیے ہمارے سرکاری زکوٹا جن کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ میں لکھ نہیں سکتا کہ یہ زکوٹا جن اچھی پوسٹنگ اور پروموشن کے لیے کس سطح تک گرجاتے ہیں۔
اور سپریم کورٹ کیوں نوٹس نہیں لے سکتی؟
میں نے نام نہیں لکھے تو کون سا قیامت آگئی۔ کیا باقی تمام لٹیروں کو سزائیں مل چکی ہیں جو یہ بچ جائیں گے؟ جس طرح لوٹ مارہورہی ہے اور انصاف کے سب ادارے ان لٹیروں کے ساتھ مل گئے ہیں، اس پر مجھے بے ساختہ سرائیکی کے ایک بڑے شاعر رفعت عباس کا شعر یاد آرہا ہے ؎
ہے کوئی اینجھی چوکی رفعت، ہے کوئی اینجھا تھانہ
ہیر سیال دے قتل اتے، ونج پرچہ درج کریجے!