سابق ڈی جی ریڈیو پاکستان مرتضیٰ سولنگی کا فون تھا ۔ اس ملک کی زبانوں اور موسیقی کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا اس کا رونا رو رہے تھے۔ مجھے یاد آیا آپ کوئی ٹیکسٹ بک اٹھا لیں، آپ کو ان زبانوں کے کسی بڑے شاعر یا ادیب کے بارے میں کچھ نہیں ملے گا ۔ پاکستانی بیوروکریسی نے اپنے اپنے شاعر، ہیروز، ادیب درسی کتب میں شامل کیے جن کا اس خطے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے وہی بڑے ادیب ٹھہرے جنہیں لاہور، اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ کے میڈیا یا جغادریوں نے ادیب مانا۔ اس کے علاوہ کوئی جگہ نہ بنا سکا ۔
پاکستانی زبانوں اور ان کے میوزک کے حوالے سے ریڈیو پاکستان میں کوئی بڑی تبدیلی آئی تو وہ مرتضیٰ سولنگی کی شکل میں تھی جو وائس آف امریکہ کی نوکری چھوڑ کر واپس لوٹے تھے۔ پہلی دفعہ ریڈیو کے دروازے ہر قوم اور اس کے میوزک کے لیے کھول دیے گئے۔ ہر قوم کی زبان میں بلیٹن شروع ہوا ۔ جب مرتضیٰ کو نگران حکومت نے ہٹایا تو اس وقت اکیس کے قریب زبانوں میں خبریں پڑھی جارہی تھیں کیونکہ سندھ کی دھرتی کا سپوت ان زبانوں کی اہمیت اور ان کے کلچر کی گہرائی سے آشنا تھا ۔
سندھ کی دھرتی کا سپوت مرتضیٰ سولنگی چولستان گیا ۔ صحرا کی خوبصورت آواز فقیرا بھگت اور موہن بھگت کی آئو بھگت کی۔ اگر آپ کو آنجہانی فقیرا بھگت یا موہن بھگت کے صحرائی گیت سننے کا موقع ملے تو شاید آپ کی روح اس رومانس سے مدتوں تک باہر نہ نکل سکے گی۔ چولستان کے صحرا کا دکھ فقیرا اور موہن کے سروں میں امڈا آتا ہے۔ آپ بے خود ہوجاتے ہیں ۔ جب یہ بھگت خاندان روایتی چولستانی لباسوں میں اور پھٹے پرانے میلے کپڑوں میں ملبوس اپنی عورتوں کے ساتھ سر لگاتا ہے اور دل میں بسا دکھ گلے سے بکھیرنا شروع کرتا ہے تو لگتا ہے دھرتی ساکت ہوگئی ہے۔ تاحد نظر پھیلے اداس صحرا کا سناٹا مزید گہرا گیا ہے۔ انسانی روح اپنے بدن سے نکلنے کو تیار ہے۔ سب کچھ رک جاتا ہے۔آپ بے خود ہوجاتے ہیں۔
لیکن ایسے عظیم صحرائی سرمایے پر سرمایہ کاری کون کرتا ۔ سولنگی نے کوشش کی اور خوب کی۔ اردو، پنجابی، پوٹھوہاری، براہوی، پشتو، بلوچی، ہندکو، بلتی، سرائیکی، سندھی اور دیگر زبانوں کو عزت دی اور خوب دی ۔ سب قوموں اور ان کے افراد کو پہلی دفعہ احساس ہوا ریاست میں کچھ حصہ ان کا بھی ہے۔ ان کی ماں بولی کو بھی عزت ملتی ہے۔ ان کے گلوکار یا میوزک کو بھی اپنا سمجھا جاتا ہے۔ ان اکیس بلیٹن کی وجہ سے ملک بھر کی ان زبانوں کا ایک نیا کلچر ریڈیو پاکستان میں ابھرا جہاں سب قومیں ایک چھت کے نیچے اکٹھی ہوتیں۔اپنی اپنی خبریں، میوزک اور پروگرام کرتیں۔
ایک نئے کلچر اور نئے پاکستان کا جنم ہوچکا تھا۔
پھر کیا ہوا۔وہی‘جو ہوتا آیا ہے۔ پانچ برس بعد جب مرتضی سولنگی ریڈیو چھوڑ گیا تونئی ڈی جی ریڈیو پاکستان ‘جو انفارمیشن گروپ کی تھیں‘ نے سب سے پہلے ان تمام مقامی زبانوں میں چلنے والے پروگرام بند کیے جو کیونکہ ان کے نزدیک یہ سب ''گند ‘‘ پھیلا رہے تھے۔ شکریہ محمود خان اچکزئی کا جنہوںنے شور مچایا ‘ چنانچہ وزیراطلاعات پرویز رشید نے دوبارہ کچھ پروگرام شروع کرادیے۔ مذکورہ خاتون پھر بھی باز نہ آئیں اور دھیرے دھیرے ان تمام زبانوں کے بلیٹن پرکام کرنے والوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا‘ چنانچہ وہ نوجوان ایک ایک کر کے ریڈیو پاکستان چھوڑ گئے اور پیچھے بچ گئے وہی طبلچی جو برسوں سے ریڈیو پاکستان میں بیٹھ کر اس دھرتی کی زبانوں اور موسیقی کو پاکستان کا دشمن سمجھ کر اپنے پروگرام تشکیل دیتے رہے تھے۔ ریڈیو پاکستان ایک دفعہ پھر ان سرکاری بابوئوں کے نرغے میں آچکا تھا جنہوںنے نگران حکومت کی ناسمجھی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ایک سرکاری افسر کو اس کا ڈی جی لگوا دیا تھا، حالانکہ یہ عہدہ اس انفارمیشن گروپ کی افسر کے قد، کاٹھ اور سب سے بڑھ کر سمجھ سے بہت بڑا تھا ؛چنانچہ وہی کچھ ہوا جو ہر سرکاری محکمے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان دو برسوں میں ریڈیو پاکستان میں دھرتی کی ماں بولیاں بولنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب وہ سرکاری بیوروکریٹ ایک بڑے مالی سکینڈل میں پھنس گئیں جب انہوں نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر راتوں رات ایک کمپنی کھڑی کی اور اسے رجسٹرڈ کرانے کے پانچ دن بعد اسے پندرہ کروڑ روپے کا ریڈیو پاکستان کے مفادات کے خلاف ٹھیکہ دیا ۔ یہ سکینڈل پبلک اکاونٹس کمیٹی گیا ۔ پی اے سی حیران کہ یہ سب کیا ہوا تھا ۔ نیب اور ایف آئی اے حسب روایت سوتے رہے کیونکہ ان کے نزدیک کوئی بھی اس ملک کو لوٹے جائے ،انہیں کوئی پروا نہیں ،جب کہ دوسری طرف موصوفہ کروڑوں روپے کی جو ڈیل یہاں اسلام آباد میں خفیہ طور پر فرما رہی تھیں، ان کے پاس بہاولپور ریڈیو کی عمارت کے لیے کوئی فنڈز نہ تھے جو مخدوش ہوکر گرنے کے قریب ہے۔
میں اس دن حیران ہوا جب پرویز رشید صاحب نے خاتون کی ریٹائرمنٹ پر اس حد تک ان کی خدمات کو سراہا کہ ریڈیو پاکستان کا نیوز روم ان کے نام کرنے کا فیصلہ کرلیاگیا، یعنی جس خاتون کو پندرہ کروڑ روپے کے سکینڈل میں ملوث ہونے پر نوکری سے برطرف ہوکر کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے، ان کے نام پر نیوزروم رکھا جائے گا ۔ یہ ہیں ہمارے سیاستدانوں اور زکوٹا جنوں کی مہربانیاں جو انہوں نے اس ملک پر فرمائی ہیں۔ نااہل سیاستدان اور کرپٹ زکوٹا جن ایک دوسرے کو سوٹ کرتے ہیں۔اس خاتون ڈی جی نے فقیرا بھگت اور موہن بھگت کے خاندان کو ریڈیو پاکستان کی طرف سے ہر ماہ ملنے والی مالی امداد بھی بند کر دی ۔ خود اپنے لیے مراعات کی ایک طویل فہرست اور چولستان کی آواز موہن بھگت کو ملنے والا مشاہر ہ بھی بند کیونکہ اسلام آباد میں ان پیسوں کی زیادہ ضرورت تھی۔
مرتضیٰ سولنگی کہنے لگا ‘مان لیتے ہیں سابق ڈی جی ریڈیو پاکستان ایک سرکاری بیوروکریٹ تھیں اور انہوں نے وہی کچھ کیا جو سرکاری بابو اس ملک کے ساتھ کرتے آئے ہیں لیکن موجودہ ڈی جی عمران گردیزی تو خود بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں،وہ کچھ کیوں نہیں کرتے؟ میں نے کہا ‘سولنگی ڈیر! پہلی بات یہ ہے کہ عمران گردیزی بھی انفارمیشن سروس گروپ کا افسر ہے جیسے مذکورہ خاتون تھیں ۔ مان لیتے ہیں عمران گردیزی اچھا افسر ہے۔ زیادہ مہذب اور سمجھدار ہے‘ لیکن ہے وہ بھی ایک سرکاری افسر ۔ وہ ایسا کوئی کام کرنے کی کوشش نہیں کرے گا جس سے دیگر زکوٹا جن ناراض ہوجائیں ۔ مذکورہ خاتون ان سب کے لے ایک رول ماڈل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عمران گردیزی نے بھی کچھ کرنے کی کوشش کی تو اسے خطرہ ہوگا کہ اس پر تنقید شروع ہوجائے گی کہ دیکھو وہ تعصب پھیلا رہا ہے۔
سرائیکی علاقے کے سب افسر ڈر کے مارے کبھی اپنے علاقے کے لوگوں کی معاشی ترقی ، میوزک یا ادیبوں کے لیے کچھ نہیں کرتے کیونکہ وہ ڈرتے ہیں طاقتور زکوٹا جن ان کا جینا حرام کر دیں گے۔ ہمارے سرائیکی افسران ''اس تعصب‘‘ کے الزام سے اتنے ڈرتے ہیں کہ ساری عمر وہ اسلام آباد میں اپنے سے بڑے زکوٹا جنوں کی خوشامدیں کر کے نوکری کرتے ہیں۔ عمران گردیزی لندن، واشنگٹن میں کام کر چکا ہے لہٰذاہو سکتا ہے اس کا ذہن اور تربیت کچھ بہتر ہوچکی ہولیکن اس کے اوپر بیٹھے افسران اور سیاستدان اسے کبھی اس دھرتی ماں کی بولیوں اور ان کے گلوکاروں اور کلچر کو ابھرنے نہیں دیں گے۔
سولنگی کا کہنا تھا کہ مجھے عمران گردیزی سے بات کرنی چاہیے ،وہ چولستان کی دھرتی کے فرزند موہن بھگت کے خاندان کو فاقوں سے بچائے اور ان کا مشاہرہ بحال کرے۔اس ملک پر کچھ حق چولستان کی دکھی آوازوں کا بھی بنتا ہے۔ بھگت خاندان چولستان کی سریلی آواز ہے۔ چولستان کی پہچان ہے۔اس سر کو مرنے نہ دیں ۔
خواجہ فرید کی میٹھی روہی کی سریلی لیکن دکھی آوازیں مررہی ہیں اور اس وقت دم توڑ رہی ہیں جب موجودہ ڈی جی ریڈیو عمران گردیزی کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے!!اب عمران گردیزی بھی کیا کریں۔ نوکری بچائیں یا چولستان کے بھگت خاندان کی سریلی آوازیں۔
چولستان کی دکھ بھری سریلی سرائیکی آواز موہن بھگت اور اس کے خاندان کا کیا ہے۔رہیں ‘نہ رہیں ۔اس سے اس ریاست اور اس کے اداروں کو کیا فرق پڑتا ہے۔ صحرا کی ایسی آوازیں اگر خاموش ہوبھی گئیں جو صدیوں سے اس اداس دھرتی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں تو کیا فرق پڑے گا ۔ صحرا کے یہ غریب بھگت اور ان کی دکھی آوازیں ،ایسے بھگت جنہوں نے1947 ء میں آزادی ملنے اور نئی دنیا اور خوابوں کی تلاش میں بھارت ہجرت کرجانے کی بجائے، اسی دھرتی کی محبت میں صحرا کی غلامی کو ترجیح دی تھی !