"RKC" (space) message & send to 7575

تلاش ہے جمہوریت اور سیاستدان کی!

عامر متین سے میں نے پوچھ لیا: آپ کو پارلیمنٹ رپورٹ کرتے پچیس برس سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ میں سے کوئی ایک نام بتا سکتے ہیں جو پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہو جس میں ہم پھنس گئے ہیں ؟
'' کوئی ایک نام‘‘۔ عامر کچھ دیر سوچتے رہے لیکن کوئی نام نہ بتا سکے۔ اتنا کہہ سکے کہ خرم دستگیر اور خواجہ سعد رفیق اچھا کام کر رہے ہیں۔ میں نے کہا مان لیتے ہیں دونوں اچھے ہیں اور اپنی وزارت اچھی طرح چلا رہے ہیں ۔ میں نے کہا سعد رفیق محنتی ہیں۔ اگر کچھ نہ کررہے ہوں تو بھی یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ وہ بہت کچھ کر رہے ہیں۔ صحافیوں سے رابطے میں رہتے ہیں‘ لہٰذا ان کے بارے میں میڈیا کا رویہ مثبت ہے۔ وہ سیدھی بات کرتے ہیں لہٰذا کسی حد تک قابل قبول ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بھی جنوبی کوریا سے کرائے پر کچرا ریلوے انجن لا رہے ہیں جنہیں سکریپ میں پھینک دیا گیا تھا۔ جنوبی کوریا والے اب بجلی پر اپنی ریلوے چلائیں گے‘ ہم ان کے متروکہ 25 سال پرانے انجن امپورٹ کر کے کوئلے پر چلائیں گے۔ سکریپ انجنوں کی اس ڈیل میں سارا فائدہ ان طاقتور پارٹیوں کو ہوا ہے‘ جو انہیں لیز پر پاکستان لا رہی ہیں۔ ان طاقتور لوگوں کے سامنے سعد رفیق بھی بے بس ہیں اور اس قدر بے بس کہ ان کا نام بھی نہیں لے سکتے۔ 
عامر متین کی خوبی ہے کہ وہ سیاست کو جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر دیکھتے ہیں‘ جب کہ ان میں سے ہوں جو چاہتے ہیں سیاستدان کو کیسے ہونا چاہیے۔ عامر متین نے طنزاً کہا آپ کا مسئلہ یہ ہے آپ ان سیاستدانوں سے اندھی توقعات باندھ لیتے ہیں‘ جب وہ پوری نہیں ہوسکتیں تو پھر آپ مایوس ہوکر اُن سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہ تو سیاستدانوں سے توقع رکھتے ہیں اور نہ ہی ان سے ناراض ہوتے ہیں۔ میں عامر متین کے احترام میں چپ رہا۔ وہ ان چند لوگوں میں سے ہے‘ جن کی میں بڑی عزت کرتا ہوں ۔
سوال یہ ہے اگر مجھے سیاستدانوں سے کوئی توقع نہیں ہے تو پھر کس سے توقع رکھوں؟ سیاستدان ہی تو ہمارے اندر یہ امید اور توقع پیدا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مسائل حل کریں گے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں وہ ہم سے بہتر ہیں اور ہمارے اوپر حکمرانی کا حق رکھتے ہیں ۔ وہ زیادہ ذہین اور اچھے لوگ ہیں ۔ وہ ملک اور معاشرے کے وفادار ہیں۔ وہ ہمیں چاند پر لے کر جائیں گے۔ وہ زمین کو ہی جنت بنا دیں گے۔ جب وہ ہمارے اندر امیدیں پیدا کرتے ہیں تو پھر ہم ان سے کیوں نہ توقع رکھیں اور اگر وہ توقعات پوری نہ کر سکیں تو کیوں ان سے خفا نہ ہوں؟ سب سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے سیاست دنیا کا واحد کام ہے جو عوام کی فلاح کے نام پر کیا جاتا ہے لیکن ہرگز مفت نہیں ہوتا ۔ ہر سیاستدان باقاعدہ اس کی تنخواہ عوام سے لیتا ہے اور بہت ساری مراعات‘ جن میں سرکاری رہائش، ماہانہ تنخواہ، مفت سرکاری گاڑیاں ، مفت دنیا بھر کے ملکوں کے سیر سپاٹے... اجلاس میںشرکت کے لیے الاونس، ہوائی جہاز کی فری ٹکٹیں‘ مفت ڈرائیور، مفت خانساماں، مفت ملازم، مفت پٹرول، مفت فون، مفت موبائل، اور بے پناہ اختیارات شامل ہیں۔ اس کے باوجود ہم کہیں کہ چھوڑیں ان بے چاروں سے کیا توقعات رکھنا؟ کیا کوئی سیاستدان اپنے گھر ایسا ملازم تنخواہ پر رکھ لے گا‘ جس سے وہ کسی کام کی امید نہ رکھے؟ توپھر یہ سب ہمیں کیوں بتایا جاتا ہے کہ جن سیاستدانوں کو ہم ہر ماہ تنخواہ دیتے ہیں اور جو ہماری زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں، ان سے امیدیں نہ رکھیں۔ وہ اسی سیاست سے اپنے کاروبار چلاتے ہیں، اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرتے ہیں۔ سب وزارتیں اپنے خاندان میں اس سیاست کے زور پر بانٹ لیتے ہیں اور اگر اس کے بدلے ہم کچھ توقعات رکھ لیں تو ہمارا قصور؟ یہ کیابات ہوئی؟
دوسری طرف دیکھ لیں کتنی آسانی سے یہ حکمران ایسے فیصلے کر لیتے ہیں‘ جن پر حیرانی ہوتی ہے لیکن کسی کونے سے آواز بھی نہیں اٹھتی۔ گلگت کا گورنر لگانے کے لیے شیخوپورہ سے ایک ایم این اے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ کراچی سے نواز لیگ کے تین لیڈروں کو‘ جو وہاں اپنے حلقے میں چند ہزار ووٹ تک نہیں لے سکتے‘ پنجاب لا کر اسمبلی سے سینیٹ کے ٹکٹ دیے جاتے ہیں اور کوئی نہیں بولتا ۔ سرائیکی علاقوں کی آبادی چھ کروڑ سے زیادہ ہے لیکن ایک بھی سینیٹ ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔ پنجاب اسمبلی میںایک سو سے زیادہ ممبران کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ پچاس ایم این ایز بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کم از کم تین سیٹیں سینیٹ کی سرائیکی علاقے کو ملنی چاہئیں تھیں‘ ایک بھی نہیں ملی۔ شاید جنوب کے لوگ کم عقل ہیں‘ جن کی ضرورت سینیٹ میں نہیں ہے اور ان کی جگہ کراچی سے ذہین لوگ لائے گئے ہیں جنہیںجنوبی پنجاب کی سیٹیں دی گئی ہیں ۔ وہ میڈیا جس نے ان ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانا تھی‘ لاہور میں وزیراعظم کی سیاسی دانش، ذہانت اور فیاضی کے نعرے لگا رہا ہے۔ وزیراعظم سے بہتر کون جانتا ہے کہ میڈیا کو کب ہنٹر اور کب مٹھائی کا ٹکڑا دکھانا ہے۔ اس سے زیادہ زیادتی جنوبی پنجاب کے سیاستدان اور ممبران اسمبلی کر رہے ہیں جو ان زیادتیوں کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتے۔ یہ سب بھیڑ بکریوں کا ایسا ریوڑ ہیں جس کا کوئی چرواہا نہیں۔ لگتا ہے‘ جنوبی پنجاب اور مرکزی پنجاب کے سیاستدانوں میں ایک خاموش گٹھ جوڑ بن چکا ہے۔ جب ان علاقوں کے ساتھ ہونے والی زیادیتوں پر کوئی احتجاج کرے تو کہا 
جاتا ہے سارا قصور آپ کے لیڈروں کا ہے جو اپنے علاقے کی ترقی کے لیے کام نہیں کرتے۔ سرائیکی علاقوں کے لیڈر ووٹ مرکزی پنجاب کے لیڈروں کو ڈالتے ہیں اور اس کے بدلے وہ وزیراعلیٰ سے ایک تھانیدار، دو کروڑ روپے کی ترقیاتی فنڈز کے نام پر رشوت، اپنے ضلع میں استانیوں کے تبادلے کا اختیار لے کر لوٹ جاتے ہیں۔ جب عوام اپنا ردعمل دیتے ہیں تو پھر انہی لیڈروں کو پناہ بھی یہی حکمران دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے اگر جنوب کے لیڈر آواز نہیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ چھ کروڑ لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ مارتے رہو؟ آپ صرف لاہور کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہو‘ لہٰذا باقی صوبے میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ فنڈز تقسیم کرتے وقت بھی یہ نہیں دیکھا جاتا کہ نو سو ارب روپے این ایف سی میں سے کس کو کیا مل رہا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تین تین سو ارب روپے سرائیکی، مرکزی پنجاب اور پوٹھوہاری علاقوں میں بانٹا جائے۔ اس سے بہتر ہے پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ آپ سے تو لاہور نہیں سنبھالا جاتا اور آپ دعویٰ فرماتے ہیں کہ پورا صوبہ چلائیں گے۔ خود بہاولپور اور سرائیکی صوبہ کی قراردادیں پنجاب اسمبلی میں پیش کیں اور آج تین برس گزر گئے ہیں، کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ 
اس ناانصافی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب سرائیکی نوجوانوں میں غصہ بڑھ رہا ہے۔ مجھے روزانہ کئی ای میل ملتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ ان نوجوانوں کے ساتھ کیسے زیادتیاں ہورہی ہیں ۔ ڈیرہ غازی خان، ملتان، بہاولپور، میانوالی، بھکر کے نوجوانوں کے لیے مقابلے کے امتحان خواب بنتے جارہے ہیں‘ کیونکہ ان علاقوں کے لوگوں کو ان نوجوانوں کے ساتھ مقابلے پر بٹھایا جاتا ہے جو گورنمنٹ کالج لاہور یا ایف سی کالج اور دیگر بڑے اداروں سے پڑھے ہیں۔ یہ میرٹ نہیں ہے۔ یہ مقابلہ نہیں ہے۔ یہ وہی کام ہے جو کبھی ریڈ انڈین کے ساتھ امریکہ میں کیا گیا تھا ۔ مقابلہ یہ ہے جنوبی پنجاب کا اپنا پبلک سروس کمشن ہو‘ جو وہاں کے نوجوانوں کو اپنے میرٹ پر نوکریاں دے ۔ سی ایس ایس میں پنجاب کے پچاس فیصد کوٹے میں سے پندرہ فیصد کوٹہ ان علاقے کے لوگوں کے ملے۔ این ایف سی میں سے تین سو ارب روپے ملیں۔ سینیٹ میں بیس سیٹیں ملیں ۔ اپنا علیحدہ سیکرٹریٹ ہو جہاں ہزاروں لوگوں کو نوکریاں ملیں۔ یہ سب اس وقت ہوگا جب سرائیکی علاقوں پر مشتمل نیا صوبہ بنے گا۔ آپ کچھ بھی کر لیں آپ کو نئے صوبے بنانے پڑیں گے۔ اس کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ضلعی حکومتیں واپس لائی جائیں۔ایسی ضلعی حکومتیں جنہیں مالی اور انتظامی اختیارات حاصل ہوں جو مقامی سطح پر بیٹھ کر اپنے مسائل حل کریں اور انہی ضلعی حکومتوں سے ہی آپ کو نئے لیڈر ملیں گے۔ 
لیکن کیا کروں‘ اب بھی عامر متین کہتے ہیں‘ میں سیاستدانوں سے کیوں امیدیں رکھتا ہوں۔ اگر میں امید نہ رکھوں تو بھی میں سیاست اور سیاستدانوں کا دشمن کہلاتا ہوں کہ ان کے رول کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ اگر امیدیں رکھتا ہوں تو سننے کو ملتا ہے کہ اتنی بھی جلدی کیا ہے۔ جمہوریت ابھی تو شروع ہوئی ہے۔
ویسے یہ سیاستدان اپنے ذاتی کاروبار‘ جو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔ ان کاروباروں کو چلاتے وقت وہ ''امیچورٹی‘‘ کیوں نہیں دکھاتے جو ''امیچورٹی‘‘ اور غیرذمہ داری پاکستان کو چلاتے وقت دکھاتے ہیں؟
ویسے پاکستان کو امیچورٹی سے چلانے کے پیچھے بھی ان سیاسی بھائی لوگوں کی بڑی سمجھداری چھپی ہوئی ہے۔ شیکسپیئر نے شاید ہمارے ان سیاسی کرداروں کے بارے میں کہا تھا۔
There is a method to his madness..

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں