ڈاکٹر انوار احمد کا سیالکوٹ سے لکھا گیا ایک خط مجھے پچیس برس پیچھے لے گیا ۔
ان دنوں میں، ملتان یونیورسٹی میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ یونانی ڈراموں کو پڑھ رہا تھا ۔ تعارف تو ان یونانی ڈراموں سے لیہ کالج کے پروفیسر شبیر نیر کی بدولت ہوا تھا جو ہمیں انگلش لٹریچر پڑھاتے تھے۔ شبیر نیر کی نفیس شخصیت آج تک یاد ہے۔ لیہ کی شوگر مل کا سارا دھواں اور گردو غبار ہم سب پر گرتا اور ہم سب بے بسی سے آسمان کو تکتے رہتے کہ شاید آج گرد کم ہوگی۔ شاید آج بھی وہ گرد گرتی ہو۔ شبیر نیر نے ایک دن سردیوں کی دھوپ میں بیٹھے ہوئے انگلش لٹریچر کی کلاس کو سفوکلیز کے ڈرامے کنگ ایڈپس کی کہانی سنائی۔ میری دلچسپی دیکھ کر انہوں نے لائبریری سے فوٹو کاپی بھی کرا کے دی تھی ۔ میں اس وقت فورتھ ایئر میں تھا۔ اس کمال ڈرامہ کو پڑھا تو شوق چرایا اس کا اردو میں ترجمہ کیا جائے۔
میں کبھی اپنی چیزوں کا ریکارڈ سنبھال کر نہیں رکھ سکا۔ بہت ساری چیزیں جنہیں میرے خیال میں سنبھال کر رکھنا چاہیے تھا‘ میرے پاس نہیں ہیں ۔ اس ڈرامے کا اردو ترجمہ بھی کہیں کھو گیا ۔۔ آج بھی یہی حالت ہے۔ بہت ساری اہم دستاویزات اور چیزیں جو محفوظ رکھنی چاہئیں اکثر سستی کی وجہ سے ضائع یا غائب ہوجاتی ہیں ۔ شاید لاشعوری طور پر میں اپنے بڑھاپے کے لیے کچھ بچا کر نہیں رکھنا چاہتا۔ ناول نگار مارسل پروست کے اس کردار کے برعکس جس کے پاس بڑھاپے میں اکیلے موت کے بستر پر لیٹے ہوئے اپنی یادوں میں گم کہنے کو بہت کچھ تھا اور یوں Rememberance of Things Past جیسا ایک عظیم ناول لکھا گیا۔
اب کون ان یادوں کو گلے سے لگا کر رکھے کہ کل کو بڑھاپے میں کام آئیں گی ۔ ابھی یہ حالت ہے جتنا ماضی کو بھلانے کی کوشش کرتا ہوں یہ دیو قامت پہاڑ کی طرح سامنے آن کھڑا ہوتا ہے، تو بڑھاپے میں کیا حشر ہوگا ۔
ملتان یونیورسٹی میں ایک دن ڈاکٹر انوار احمد سے پوچھا یونانی ڈراموں پر کس سے گفتگو ہوسکتی ہے۔ بولے‘ ابن حنیف سے مل لو ۔ ان سے ملنے گیا ۔ ایک خوبصورت شخصیت‘ میٹھا اور دھیما انداز۔ ان کے پاس بیٹھ کر لگا وقت ٹھہر گیا تھا ۔ سب زمانے ساکت ہوگئے تھے ۔ ایک عجیب سحر انگیز انسان‘ میں اپنی دانشوری جھاڑتا رہا‘ وہ سنتے رہے اور ایسے سنتے رہے جیسے اس سے پہلے کبھی کسی نے یونانی ادب پر اس انداز میں گفتگو نہیں کی ہوگی جو میں کررہا تھا ۔ حالانکہ میں نے ابھی تک چار یونانی ڈرامے ہی پڑھے تھے۔ وہ ایسے سراہتے رہے جیسے مجھے یونان کے ادب پر ایسا عبور حاصل ہے جو پہلے کسی کو تھا اورنہ ہوگا ۔ مجھے ایک سامع مل گیا تھا۔ جب اٹھ کر ملتان یونیورسٹی لوٹنے لگا تو وہ اٹھ کر چھوڑنے آئے۔ التجا کی اتنا شرمسار مت کریں۔ انکساری سے بولے ایک طالب علم کی کیسے عزت نہ کروں جو میرے علم میں کچھ اضافہ کر گیا ہے۔
اگلے دن میں گلگشت کالونی میں واقع کتابوں کی دکان بیکن بکس پر گیا تو ایک کونے میں کتابوں کی کئی جلدوں پر ابن حنیف کا نام پڑھ کر پانی پانی ہوگیا۔ دنیا کا قدیم ادب‘ مصر کا قدیم ادب‘ سات دریائوں کی سرزمیں۔ میں شرمسار ہوا کل میں کتنے عظیم انسان سے ملا تھا۔ جس کی ساری عمر دنیا کے قدیم ادب پر ریسرچ اور لکھتے گزری تھی اور وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے اور میں کل ایسے ان کے سامنے گفتگو کر آیا جیسے مجھے سے بڑا دانشور کوئی نہیںہوگا اور انہوں نے بھی مجھے یہی احساس دلایا۔ پھر ابن حنیف سے ملاقاتیں تواتر سے ہونے لگیں۔ ان کے گھر پر گرمیوں میں مزیدار شربت ملتا۔ سردیوں میں چائے کے ساتھ بسکٹ‘ شاندار لائبریری جس پر میری آنکھ ہوتی۔ صرف مجھے اجازت تھی کتاب اٹھا کر دیکھ لوں لیکن وہیں رکھنی پڑتی جہاں سے اٹھائی ہوتی۔ وہ شاندار اور نایاب کتابیں اب ملتان یونیورسٹی کی سنٹرل
لائبریری میں کسی کونے میں پڑی ہیں جو انہوں نے اپنی موت سے پہلے عطیہ کر دی تھیں۔ پتہ نہیں کبھی ملتان یونیورسٹی کے کسی طالب علم کو توفیق ہوئی ہوگی ان نایاب کتابوں کو صرف ایک نظر ہی دیکھ لے جن پر ابھی بھی ابن حنیف کے ہاتھوں کا لمس باقی ہوگا ۔ ابن حنیف کی وہ لائبریری بھی کیا خزانہ تھا ۔ ایسا خزانہ پھر برسوں بعد ڈاکٹر ظفر الطاف کی لائبریری کی شکل میں دیکھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کی لائبریری کی کتابیں دیکھ کر واقعی منہ میں پانی اتر آتا ہے۔
ایک دن موت پر بات ہونے لگی ۔ میں نے کہا موت کا خوف کیسے ختم ہوتا ہے۔ ایک عجیب بے اعتنائی سے ابن حنیف مسکرائے۔ رئوف میاں ۔ جب آپ کی نظروں کے سامنے صدیوں پرانی سلطنتیں ، قدیم زمانے، فرعون، جنگجو، ادیب، شاعر، اپنے وقت کے حاکم، ملکائیں، بادشاہ، فلاسفی اور جنونی عاشق جنم لیتے ہیں اور پھر آپ کے سامنے ہی دفن ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ انہی جیسے نئے کردارابھرتے ہیں اور اس طرح ہزاروں سال قبل کی سلطنتیں ابھرتی اور ڈوبتی رہتی ہیں تو پھر موت آپ کے لیے بے معنی ہوجاتی ہیں ۔ مجھے گفتگو میں ڈوبا دیکھ کر اچانک اداسی سے بولے آپ نہیں سمجھو گے۔جس دھیمے انداز میں انہوںنے موت کے فلسفہ پر گفتگو کی تھی اس کا اثر آج بھی مجھ پر ہے۔ اور پھر وقت بدل گیا۔ مسافر ملتان چھوڑ گیا ۔
ایک دن پتہ چلا ابن حنیف بھی سب کچھ چھوڑ کر ان پرانے زمانوں کو نکل گئے تھے جن قدیم وقتوں اور داستانوں پر ریسرچ کر کے انہوں نے دنیا اور مصر کے قدیم ادب کی کئی جلدیں لکھی تھیں۔ کئی دن دل ان کی موت پر افسردہ رہا ۔ آج پھر ان کی یاد بھی دلائی تو کس نے‘ اور کس انداز میں! یہ کام ڈاکٹر انوار احمد ہی کر سکتے تھے!
پیارے رئوف!
دعائیں!
آج کل گجرات یونیورسٹی کے سیالکوٹ کیمپس میں ایم فل اردو کو پڑھا رہا ہوں،ایک عجیب بات یہاں دیکھی کہ سیالکوٹ میں بہت سے لوگ ہیں جو پلک جھپکتے امیر ہوجاتے ہیں۔ میں نے دو چار لوگوں سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ' بہادر‘ ہیں ،جب وسائل نہ ہوں اور آپ امیر ہونا چاہتے ہوں تو صرف بہادری کی ضرورت ہے۔ لیکن مجھ جیسے ملتانی، پیر پرست نہ بھی ہوں تو استادیا درسگاہ سے فیض یا برکت اخذ کر نے کے قائل ہیں چنانچہ سب سے پہلے یہاں اس گھر کی زیارت کی جہاں اقبال پیداہوئے مگر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان کے گھر کے سامنے' طالبان‘ نے کفن دفن کی دکانیں کیوں کھول رکھی ہیں ؟ مرے کالج کی لائبریری کی زیارت کے لئے گیا ، تو معلوم ہوا کہ چھ برس سے اس کالائبریرین کوئی نہیں، نائب قاصد کے پاس چابیاں ہیں اور وہ چھٹی پر ہے۔جن لوگوں نے سمبڑیال میں ڈرائی پورٹ اور ایئر پورٹ بنا ڈالا ہے، ان' ہمت والوں‘ نے اعتراف کیا کہ علامہ اقبال کی والدہ امام بی بی اس گائوں کی رہنے والی تھیں، جو نہ صرف اب قصبہ ہے بلکہ سیالکوٹ کا حصہ ہے میں نے انہی تین چار خوش نصیبوں سے اپنے کیمپس کے مستحق طالب علموں کے لئے امام بی بی کے نام پر کچھ وظائف مانگے مگر اپنی مصروفیت کے سبب انہوں نے سنی ان سنی کردی، اس لئے اس شہر کے فیض احمد فیض کے کلام سے فال نکالی،مصرع سامنے آیا ع
پھر ہمیں قتل ہوآئیں یارو چلو
سو جیسے اپنی ایک کتاب ''اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ‘‘ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے ایک دیا ملتان یونیورسٹی میں خلیل صدیقی یاد گاری فنڈ کا ، اور ایک دیا گورنمٹ کالج یونیورسٹی فیـصل آباد میں مرزا ابن حنیف یادگاری فنڈ کا جلایا تھا،جس کی چراغی میں تم نے بھی حصہ ڈالا تھا ۔''اب یادگارِ زمانہ ہیں جولوگ‘‘ کا تیسرا ایڈیشن اپنے خرچ سے چھپوا رہا ہوں،اس کی دو ہزار کاپیوں کی فروخت سے اس فنڈ (امام بی بی یادگاری فنڈ) کے لئے دس لاکھ روپے اپنے کیمپس کے مستحق طالب علموں کے لئے جمع کرنے کا ارادہ ہے اور مزے کی بات سن لو تمہاری ہدایت کے باوجود حکمرانوں کو کم وسیلہ لوگوں کی زبان اردو کے فروغ کے لئے چند مشورے دیئے تھے،جس کا پہلا فقرہ یہ تھا کہ میاں صاحب اگر کبھی آپ کی کوششوں کے باوجود اس ملک سے اندھیرا دور ہوگیا تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ نے کتنا وقت ضائع کیا ہے، اس خط کی کاپی ان کے پانچ پیاروں کو بھی بھیجی تھی، مجھے خوش فہمی نہیں کہ میاں صاحب نے خط پڑھا ہوگا پر میرا خیال ہے کہ ان کے کسی رانا مقبول نے میرا خط وزارت داخلہ کو ضرور بھیجا ہوگا چنانچہ پچھلے مہینے میرے ملتان کے گھر میں چوری ہوئی ، یہ اور بات کہ چوروں کو تینوں کمروں میں رکھی ہوئی کتابوں میں سے کوئی کتاب پسندنہیں آئی ۔ البتہ میرا 38 ہزار روپے کا نقصان ہوا جو دروازے اور تالے ٹوٹنے سے کسی ریٹائرڈ پروفیسر کے گھر کا ہوسکتا ہے 'بولو ‘والے جمشید رضوانی نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی، اس کے لئے بھی 'چوروں‘ کے ہدف معنی خیز تھے۔ یعنی میرے مسودے ، ہمارے سہ ماہی 'پیلوں‘ کے شمارے، بچوں اور ان کے بچوں کی تصویریں ، دوستوں ،شاگردوں کے خط اور اس مقدے کے ادھورے فیصلے جن کے مطابق سرتاج عزیز کی وزارتِ خارجہ میرے دس ہزار ڈالر کی ابھی تک مقروض ہے۔
و السلام
انوار احمد