ہمیں صرف ایک مشہور زمانہ فون کال کا پتہ ہے جو گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد جنرل مشرف کو کی گئی تھی اور وہ مان گئے تھے۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ اس طرح کی دو اور فون کالز جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو بھی کی گئیں اور نتائج امریکیوں نے وہی حاصل کیے جو جنرل مشرف کے وقت حاصل ہوئے تھے۔
امریکیوں کی ایک عادت ہے۔ وہ ساری دنیا پر حملے کریں‘ حکومتیں گرائیں لیکن اپنی قوم کو سچ بتاتے ہیں۔ وہ پروا نہیں کرتے کہ دنیا کیا سوچے گی۔ اگر کوئی جھوٹ بولے تو پھر وہ اپنے لیڈروں کا وہی حال کرتے ہیں جو نکسن اور بل کلنٹن کا کیا تھا ‘ اس لیے جب میں نے سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا کی آٹو بائیو گرافی 'Worthy Fights' پڑھنا شروع کی اور اس نے جس طرح پاکستان کے دو سابق جرنیلوں جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے بارے میں کھل کر لکھا ہے اس پر حیرانی نہیں ہوئی۔ وہ اپنی قوم کو سچ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے کس حد تک گئے۔
پنیٹا لکھتے ہیں کہ لاہور میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کا پیچھا ہورہا تھا ۔ ایک سگنل پر ریمنڈ پر پستول تان لیا گیا۔ ریمنڈ نے Glock 17 نائن ملی میٹر پستول سے ان دونوں کو گولیاں مار دیں۔ کیمرے سے حملہ آور کی اس کے پستول کے ساتھ تصویریں بنائیں اور لوکل امریکن قونصلیٹ کو فون کر کے بلالیا۔ اتنی دیر میں ہجوم اکٹھا ہوگیا ۔ اس سے معاملہ مزید بگڑ گیا۔ قونصلیٹ سے آنے والی کار کی زد میں آکر ایک اور شخص مارا گیا۔ تاہم اس سے پہلے کہ ڈیوس کو کوئی مدد مل سکتی، پولیس موقع پر پہنچ گئی اور اسے گرفتار کر لیا۔ کار کی تلاشی لی تو اس میں سے پستول، پانچ میگزین اور پچھتر ایمونیشن رائونڈز ملے جب کہ جی پی ایس ڈیوائس، موٹرولا ریڈیو فون، ڈیجیٹل کیمرہ، فرسٹ ایڈ کِٹ، بیٹریاں، پاسپورٹ اور ایک سو پچیس ڈالرز ملے۔
پنیٹا لکھتے ہیں‘ ریمنڈ پاکستان میں سفارتی پاسپورٹ پر گیا ہوا تھا اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ وہ بہت تربیت یافتہ تھا اور اس نے اس تربیت ہی کا فائدہ اٹھایا جب اس پر دو لوگوں نے اسلحہ تان لیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوگیا کہ اس کا کیا کیا جائے؟ امریکہ نے رہائی کا مطالبہ کیا۔ پاکستان نے انکار کیا جس پر معاملہ مزید سنگین ہوگیا۔ لیون پنیٹا نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا سے بات کی اور سخت لہجے میں جنرل پاشا کو خبردار کیا کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو کچھ ہوا توامریکہ اسے ذاتی طور پر ذمہ دار سمجھے گا۔ اس دھمکی نے کام کر دکھایا۔
ایک اور کتاب'The way of the knife'میں یہ انکشاف ہوا کہ جنرل پاشا لاہور کی لوئر عدالت میں آخری بینچ پر بیٹھ کر پاکستان میں امریکی سفیر کو موبائل فون سے ٹیکسٹ کر کے بتا رہے تھے کہ اب ریمنڈ ڈیوس کو عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے اور رہائی مل گئی ہے اور وہ اسے لے کر لاہور ایئرپورٹ جا رہا ہے۔یہ وہی جنرل پاشا تھے جنہوںنے ایبٹ آباد کمشن میں یہ بیان دیا تھا کہ بعض پاکستانی چند ڈالرز، شراب کی بوتل اور لڑکی پر امریکیوں کے ہاتھوں بک جاتے ہیں۔
اب ہمارے چھ سال تک آرمی چیف رہنے والے جنرل کیانی کے بارے میں پڑھیں کہ سی آئی اے چیف کیا لکھتے ہیں:
لیون پنیٹا لکھتے ہیں کہ جارج بش اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کے کام سے ہاتھ اٹھا چکے تھے۔ انہیں اسامہ میں زیادہ دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ اوباما نے اپنی الیکشن مہم کے دوران کہا کہ اگر انہیں امریکی صدر کے طور پر یہ پتہ چل گیا کہ اسامہ پاکستان میں ہے تو وہ پاکستان کی خودمختاری کی پروا کیے بغیر پاکستان کے اندر براہ راست آپریشن کریں گے۔ جب وہ صدر بن گئے تو انہوں نے لیون پنیٹا کو کہا کہ وہ اسامہ بن لادن کو تلاش کریں۔ سب سے پہلے اسامہ کی فیملی کو مارک کیا گیا تاکہ پتہ چلایا جائے کہ کون کون اس سے رابطے میں تھا۔ پتہ چلا کہ ایران میں اسامہ کا ایک بیٹا سعد بن لادن جیل میں تھا۔ وہ رہا ہوا تو سی آئی اے اس کے پیچھے لگ گئی۔ وہ پاکستان پہنچا تو اسے قتل کر دیا گیا۔ جون 2009ء میں سی آئی اے نے پہلی دفعہ اوباما کو بتایا کہ ایک کوریئر پر انہیں شک ہے جس کا نام ابو احمد الکویتی ہے۔
لیون پنیٹا کے بقول‘ ہالی وڈ فلموں کے پلاٹ کے برعکس انٹیلی جنس کی اصل دنیا میں بڑے صبر اور مسلسل محنت سے کام کر کے بریک تھرو کیے جاتے ہیں۔ اس کوریئر کے بارے میں پہلی اطلاع 2002ء میں ملی تھی جب القاعدہ سے جڑے قیدیوں نے کچھ اشارے دیئے۔ اگلے سال خالد شیخ پنڈی سے پکڑا گیا تو اس نے کنفرم کیا کہ اس کا نام ابو احمد الکویتی تھا۔ چار برس بعد ایک اور سورس نے بتایا کہ ابو احمد کا پورا نام ابراہیم سعد احمد عبدالحامد تھا جو کویت کا شہری تھا اور جنگ لڑنے افغانستان گیا تھا۔ سوال اب یہ تھا کہ کیا وہ زندہ تھا اور اگر تھا‘ تو کدھر تھا۔
سی آئی اے نے پوری دنیا کو چھاننا شروع کر دیا۔ پتہ چلا کہ ابراہیم زندہ تھا اور پاکستان میں تھا اور وہ پاکستان کے ایک شہر میں اکثر دیکھا گیا تھا لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں سے آتا تھا۔ آخر ایک دن سی آئی اے نے اسے ایبٹ آباد کی ایک ایسی گلی میں تلاش کر لیا جو آگے جا کر بند ہوجاتی تھی۔
سی آئی اے نے رپورٹ دی کہ ابراہیم کی کار ایک قلعہ نما گھر کے سامنے رک گئی تھی۔ لیون پنیٹا کے کان کھڑے ہوئے۔ قلعہ؟۔ یوں پوری سی آئی اے اس کام پر لگ گئی کہ پتہ کریں کہ اس قلعے کے اندر کون رہتا تھا۔ سی آئی اے نے ایبٹ آباد میں اس گھر کے مالکان کی ملکیت کی دستاویزات نکلوائیں۔ ابراہیم اور اس کا بھائی اس قلعے کے مالک تھے؛ تاہم وہ اتنا امیر نہیں تھا کہ ایک ملین ڈالر کے گھر کا مالک بن سکتا۔ پتہ چلا کہ ابراہیم گھر کے گیسٹ ہائوس میں رہتا تھا ۔ مالک ہو کر گیسٹ ہائوس میں رہ رہا تھا؟ اس پر سب کے کان کھڑے ہوئے۔ اس گھر میں ٹاپ پر بالکونی تھی جس کے گرد دس فٹ کی دیوار تھی۔ کوئی انٹرنیٹ یا فون گھر پر نہیں تھا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ کسی نے بڑی احتیاط کی ہوئی تھی۔
اگست 2010ء میں کمپائونڈ پر سی آئی اے نے فوکس کر لیا تھا ۔ نگرانی شروع کی تو پتہ چلا کہ ایک شخص کبھی کبھار گھر سے نکل کر وہیں تھوڑی سی ایکسرسائز کرتا ہے‘ جیسے کوئی قیدی جیل میں۔
سوچا گیا کہ قریبی پہاڑی پر ایک دوربین لگائی جائے۔ پھر سوچا گیا کہ کیمرہ قریبی درختوں پر لگایا جائے۔ تاہم آئیڈیا ڈراپ ہوا۔ گھر کے مکین اپنا کوڑا کرکٹ جلاتے تھے۔ اس سے شک پڑا۔ قریب کے گھروں کا کوڑا کرکٹ اٹھایا جاتا تھا لیکن یہ جلاتے تھے۔ آخر سی آئی اے نے پتہ چلا ہی لیا کہ گھر کے اندر تین خاندان رہتے تھے۔ اب سی آئی اے ان کی نقل و حرکت کو دیکھ سکتی تھی۔ ابراہیم اور اس کا خاندان گیسٹ ہائوس میں رہتے تھے، اس کا بھائی اپنی بیوی کے ساتھ‘ جب کہ گھر کے اندر ایک آدمی، ایک جوان عورت اور ایک نوجوان تھے۔ چھ بچے بھی وہاں رہتے تھے۔
آخر سی آئی اے اگلے چھ ماہ میں نتیجے پر پہنچ گئی۔ آپریشن کرنے کا منصوبہ تیار ہوگیا۔ سوچا گیا اس قلعے پر بم گرائے جائیں‘ یا ڈورن سے حملے کیے جائیں۔ اوباما نے کہا کہ پاکستان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا‘ لہٰذا انہیں یہ اطلاع نہ دی جائے ورنہ وہ اسامہ کو بھگا دیں گے۔ یوں زمینی آپریشن کا فیصلہ ہوا۔
ایک طویل تفصیل ہے کہ کیسے یہ آپریشن ہوا؛ تاہم جب آپریشن مکمل ہوگیا تو فیصلہ ہوا کہ آرمی چیف جنرل کیانی کوجنرل ملن اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کو لیون پنیٹا آپریشن کے بارے میں بتائیں گے۔ جنرل ملن نے جنرل کیانی کو فون کر کے بتایا کہ ہم نے ایک خفیہ آپریشن اسامہ کے خلاف پاکستان میں کیا تھا۔ جنرل کیانی نے جواب دیا:"It is very good you arrested him". جنرل ملن نے جواب دیا ''وہ مر چکا ہے‘‘۔ جنرل کیانی کو پہلے اسامہ کے مرنے اور پھر اس خبر نے ششدر کر دیا کہ اسے پاکستان کے اندر مارا گیا تھا اور وہ پانچ برس سے ایبٹ آباد میں رہ رہا تھا؛ تاہم لیون پنیٹا لکھتے ہیں کہ سب امریکی اس وقت حیران رہ گئے جب جنرل کیانی نے امریکہ سے کہا کہ وہ اس کا اعلان خود کریں‘ اس سے پاکستان کی اس آپریشن میں شمولیت پر کچھ پردہ پڑا رہے گا ۔
لیون پنیٹا نے ایک فون جنرل پاشا کو کیا ۔ اسے اس حملے کی خبر ابھی ملی تھی ۔ اس کا جواب تھکے ہوئے بندے کا تھا جو اپنی قسمت کو مان چکا تھا۔ جنرل پاشا کو پنیٹا نے بتایا کہ جان بوجھ کر اسے اور آئی ایس آئی کو اس آپریشن سے دور رکھا گیا تھا۔ جنرل پاشا کے منہ سے صرف اتنا نکلا۔ اب کہنے کو کیا رہ گیا ہے۔ مجھے خوشی ہے آپ نے اسامہ بن لادن کو مار ڈالا ہے۔ لیون پنیٹا نے جنرل پاشا کو یاد دلایا کہ دو امریکی صدور نے کھلے عام کہا تھا کہ انہیں دنیا کے کسی کونے میں اسامہ کا پتہ چلا تو وہ براہ راست آپریشن کریں گے۔ جنرل پاشا نے ہاں میں ہاں ملائی۔ سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے ایک گہرا سانس لے کر فون بند کر دیا۔
لیون پنیٹا جنرل پاشا کو اس آپریشن کی اطلاع دینے کے جس کام کو اتنا مشکل سمجھتے تھے کہ پتہ نہیں آئی ایس آئی کے سربراہ پاکستانی جنرل ان سے کتنے ناراض ہوں گے‘ وہ کام کتنا آسان نکلا تھا!