"RKC" (space) message & send to 7575

حیا اور شرم کی تلاش میں…

میرے گندم سکینڈل کالم کے بعد ایک اعلیٰ سرکاری عہدے دار کا فون آیا کہ آپ کے کالم پر نوٹس لیا گیا ہے اور وزیراعظم نے ایک انکوائری کمیٹی بنا دی ہے جس کے ممبران میں ایم این اے دانیال عزیز اور وزیراعظم کے مشیر بیرسٹر ظفر اللہ شامل ہوں گے۔ چلیں‘ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اچھا کیا ۔ انہیں کسی نے بتایا ہوگا کہ کاروباریوں نے کس طرح اس ملک اور ملک کے خزانے کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت، سندھ، پنجاب کے محکمہ فوڈز اور سب سے بڑھ کر لاکھوں کسانوں کو چونا لگایا ہے‘ جس پر انہوں نے کہا کہ تحقیقات کرا لیتے ہیں ۔
اس انکوائری میں بہت سے سوالات اٹھیں گے اور مجھے علم نہیں کہ دانیال عزیز اور بیرسٹر ظفراللہ ان سوالات کی تہہ تک پہنچ پائیں گے یا نہیں۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ کیا وہ اس انکوائری میں اس بڑی شخصیت کو بلا کر سوال و جواب کر سکیں گے جنہوں نے اپنی صدارت میں ہونے والے اجلاسوں میں اس بحران یا سکینڈل کو روکنے کی بجائے الٹا سکینڈل کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا؟ میری مراد جناب وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے ہے۔ پہلا سوال انکوائری کمشن کو ڈار صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ آپ نے سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کا وہ خط کیوں نظرانداز کیا جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ فلور ملز مالکان نے سات لاکھ ٹن گھٹیا کوالٹی کی گندم یوکرائن اور روس سے منگوالی تھی۔دوسرا سوال ان سے یہ ہونا چاہیے کہ جب وہ خط ملا تو انہوں نے اس پر کیا کارروائی کی؟ تیسرا سوال یہ بنتا ہے کہ جب ان کے نوٹس میں لایا گیا کہ سات لاکھ ٹن گندم زیرو ڈیوٹی پر باہر سے منگوائی گئی ہے تو انہوں نے وزارت تجارت کے بڑوں سے جواب طلبی کیوں نہیں کی‘ کیونکہ امپورٹ ایکسپورٹ کو وہ کنٹرول کرتے ہیں۔ انہوں نے وزارت زراعت کے سیکرٹری سیرت اصغر سے کیوں نہیں پوچھا کہ کیا تم لوگ یہاں صرف عوام کے پیسوں پر عیاشی کرنے بیٹھے ہو؟ بارہ لاکھ ٹن گندم کا سٹاک سندھ اور پنجاب کے پاس موجود ہے اور سر پر نئی فصل کھڑی ہے تو پھر سات لاکھ ٹن گندم باہر سے کس کے حکم پر منگوائی گئی؟ اس کھیل میں کون کون شریک تھا؟ 
اسحاق ڈار صاحب سے یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ جب ای سی سی اجلاس میں سمریاں پیش کی گئیں‘ تو انہوں نے پنجاب اور سندھ سے کیوں نہیں پوچھا کہ انہوں نے انہی فلور ملوں کو پچپن ڈالرز فی ٹن سبسڈی دینے کی سفارش کیوںکی جنہوں نے ان کے اپنے بقول پنجاب اور سندھ کے محکمہ خوراک سے گندم خریدنے کی بجائے روس اور یوکرائن سے منگوالی؟ 
ایک دن قائم علی شاہ کہتے ہیں‘ ٹی سی پی کو سبسڈی دیں تاکہ وہ گندم کے سٹاک اٹھا کر بیرون ملک فروخت کریں‘ نئی فصل سے پہلے گودام خالی ہوں اور بینکوں سے جو اربوں روپے کا قرض لیا ہے وہ واپس کیاجائے۔ ایک ہفتے بعدوہی قائم علی شاہ فرماتے ہیں کہ نہیں جناب یہ کروڑوں ڈالرز کی سبسڈی ٹی سی پی کی بجائے انہی فلور ملز مالکان اور پرائیویٹ سیکٹر کو دے دیں جنہوںنے پنجاب اور سندھ کی بجائے روس اور یوکرائن سے گندم منگوائی تھی تاکہ وہ اس گندم کو آٹا بنا کر دوبارہ عالمی مارکیٹ میں بیچ دیں۔
اسحاق ڈار صاحب سے ایک اور سوال پوچھنا بنتا ہے کہ جنہوں نے ہماری بارہ لاکھ ٹن گندم ضائع کرائی، جن کی وجہ سے اربوں روپوں کی گندم گوداموں میں پڑی ہے، بینکوں کے اربوں روپے کے قرضے الگ‘ جو سندھ اور پنجاب کے محکمہ فوڈز نے لے رکھے ہیں اور جن پر اب تک سندھ چار ارب روپے سود ادا کر چکا ہے، انہی کو پاکستانی عوام کے ٹیکسوں سے پچپن ڈالرز فی ٹن سبسڈی دی گئی ہے... کیوں؟ 
چلیں مان لیتے ہیں کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو طاقتور فلور ملز لابی نے اپروچ کر لیا تھا ۔ ان کی چونچیں گیلی کر دی گئی تھیں‘ لیکن کیا وفاقی سطح پر بھی سب مل گئے تھے؟ اسحاق ڈار صاحب کو تو حساب کتاب کا ماہر سمجھا جاتا ہے پھر انہوں نے کیسے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستانی کسانوں کی گندم نہ خریدنے اور صوبوں کے اربوں روپے پھنسانے والوں کو ہی مال پانی دیا جائے؟ انہوں نے فوری طور پر نیب یا ایف آئی اے کو کیوں ہدایت نہیں کہ وہ ان فلور ملز اور پرائیویٹ سیکٹر والوں کو پکڑیں جنہوں نے گھٹیا کوالٹی کی گندم منگوائی ہے۔ اس کے بعد انہیں وزارت تجارت کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی کہ زیرو ڈیوٹی گندم کیسے پاکستان میں آنے دی گئی اور وہ بھی پورے سات لاکھ ٹن‘ جب کہ پہلے سے بارہ لاکھ ٹن گندم گوداموں میں پڑی تھی۔ 
اسٹیٹ بنک کو پتہ کیوں نہ چلا کہ سات لاکھ ٹن گندم منگوانے کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کھول دیے گئے ہیں اور دھڑا دھڑ گندم آرہی ہے؟ ایف بی آر کیوں سوئی رہی؟ کسٹم حکام نے کیوں شور نہ مچایا کہ پاکستان میں سات لاکھ ٹن روسی گندم آرہی ہے جس پر کوئی ڈیوٹی نہیں اور اس طرح ایک طرف پاکستان میں گندم ڈمپ ہورہی ہے اور دوسری طرف ڈیوٹی کی مد میں جو بھاری رقم کمائی جا سکتی تھی وہ بھی ضائع گئی۔ اس کا مطلب تو بڑا واضح ہے کہ اگر سندھ، پنجاب، ای سی سی ، وزارت خزانہ، وزارت تجارت، وزارت زراعت، ایف بی آر، کسٹم حکام اور سٹیٹ بینک اس گندم کے امپورٹ کرنے پر خاموش رہے ہیں تو یقینا کوئی بڑا آدمی اس کھیل میں ملوث ہے جس نے اسحاق ڈار صاحب سے الٹا پچپن ڈالرز فی ٹن سبسڈی بھی لے لی۔ کیا تماشا ہے کہ جن لوگوں کو اس جرم کی پاداش میں جیل میں ہونا چاہیے تھا‘ وہی عوام کی جیبوں سے سبسڈی لے کر مزے کر رہے ہیں۔ 
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب عوام کو سبسڈی دینی ہو تو ہمیں آئی ایم ایف سے ڈرایا جاتا ہے کہ وہ ہمیں کھا جائے گی۔ جب کاروباریوں کو ڈالروں میں سبسڈی دینی ہو تو نہ وزارت خزانہ کو کسی کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی آئی ایم ایف شور مچاتی ہے۔ 
حکومت لاکھ انکار کرے‘ ماننا پڑے گا کہ یہ بہت بڑا سکینڈل ہے کیونکہ پنجاب اور سندھ کو اب اربوں روپے کا قرض واپس کرنے کے لیے بجٹ سے پیسے نکالنے پڑیں گے اور بارہ لاکھ ٹن گندم کو تو ضائع سمجھیں۔ نئی فصل تیار ہے اور سندھ اور پنجاب میں اس کی کٹائی شروع ہوچکی ہے۔ جب گودام ہی خالی نہیں ہیں تو پھر نئی گندم کسانوں سے کیسے خریدی جائے گی۔ ؟ کیا سندھ اور پنجاب کے خوراک کے محکمے جنہوں نے بینکوں کو پچھلے سال کا قرض واپس نہیں کیا‘ اب نیا اربوں روپوں کا قرض لیں گے؟ اور اس پر بھی سود دیں گے؟ اگر گندم خرید بھی لی تو اسے رکھیں گے کہاں؟ کیونکہ اسٹور تو خالی ہی نہیں۔ 
یہ سب بحران جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہے۔ اس سکینڈل میں وہ سب شامل ہیں جو ای سی سی اجلاس میں موجود ہوتے ہیں۔ درجنوں وزیر اور درجنوں وفاقی سیکرٹریز اور زکوٹاز‘ جن کے سامنے سمریاں پیش ہوتی ہیں۔ وہ سب جانتے ہیں کہ کون اس ملک کے ساتھ دھوکا کر رہا ہے اور کیسے چالبازیوں سے مال کمائے جاتے ہیں لیکن وہ پھر بھی خاموش رہتے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ اس اربوں روپے کے سکینڈل میں سب ملے ہوئے ہیں۔ جب پنجاب اور سندھ کے وہ بڑے‘ جنہیں فلور ملز کے خلاف کارروائیاں کرنی چاہئیں تھیں وہی آپس میں اور پھر ملز مالکان کے ساتھ مل گئے تو کارروائی کیوں اور کیسے ہوگی؟ 
ایک اور اہم بات۔ جناب وزیراعظم نے یہ انکوائری کس کے خلاف آرڈر کی ہے؟ یہ سب فیصلے تو ای سی سی میں ہوئے ہیں۔ ای سی سی جس کی سربراہی اسحاق ڈار کرتے ہیں اور یہ فیصلہ انہوں نے کیا ہے کہ جنہوں نے اس ملک کو اربوں روپوں کا نقصان پہنچایا‘ انہیں سزا دینے کی بجائے الٹا پچپن ڈالرز فی ٹن ادا کیے جائیں تو پھر آپ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا دانیال عزیز اور بیرسٹر ظفراللہ میں یہ جرأت ہے کہ وہ اس سکینڈل میں اسحاق ڈار کے کردار پر روشنی ڈال سکیں؟ یا پھر جو حشر نندی پور سکینڈل کا ہوا تھا وہی حشر گندم سکینڈل کا بھی ہوگا۔ سب کو کلین چٹ مل جائے گی۔ یونہی تصور کر لیتے ہیں کہ دانیال عزیز اور بیرسٹر ظفراللہ اپنی نوکریاں خطرے میں ڈال کر اسحاق ڈار صاحب کے اس کردار کے خلاف کچھ سفارشات کرتے ہیں تو کیا وزیراعظم نواز شریف اپنے سمدھی کے خلاف ایکشن لے سکیں گے؟ 
ویسے مجھے اس موقع پر خواجہ آصف یاد آرہے ہیں۔ جو کچھ انہوں نے تحریک انصاف کے بارے میں قومی اسمبلی میں فرمایا تھا‘ وہی مجھے ان سب کے بارے میں کہنا ہے جو اربوں روپے کے اس سکینڈل میں ملوث ہیں اور دکھ اس بات کا ہے کہ سب ملوث ہیں۔ کیا فرمانا تھا خواجہ صاحب کا... ''کچھ شرم ہوتی ہے! کچھ حیا ہوتی ہے!‘‘ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں