پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی سینیٹ کی کمیٹی میں کرپشن کے خلاف دھواں دھار تقریر مجھے ماضی میں لے گئی۔ ایک دور تھا جب فرحت اللہ بابر 1996ء سے 2008ء تک اپوزیشن کے دنوں میں بینظیر بھٹو کے ترجمان ہوتے تھے۔ اور ان کا دوسرا دور وہ تھا جب وہ صدر زرداری کے ترجمان بن گئے۔
فرحت اللہ بابرنے کرپشن کے خلاف نئے سرے سے اپنی پرانی جدوجہد وہیںسے شروع کر دی ہے‘ جہاں انہوں نے سات برس قبل ایوان صدر میں داخل ہونے سے پہلے چھوڑی تھی۔ ان سات برسوں میں ان کے منہ سے کبھی کرپشن کے خلاف ایک لفظ نہیں سنا۔ اگر انہوں نے کبھی ایوان صدر سے پریس ریلیز جاری کی بھی تو پیپلز پارٹی کے کسی وزیر کی کرپشن کا دفاع کرنے کے لیے۔ فرحت اللہ بابراب فرماتے ہیں کہ این ایل سی کے چار ارب روپے کے سکینڈلز میں ملوث افسران کے خلاف کرپشن ثابت ہوئی لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہوسکا ۔ وہ کہتے ہیں ملک میں کرپشن کا کلچر ختم کیے بغیر ترقی نہیں ہوگی اور قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشکل دنوں میں فرحت اللہ بابر نے بینظیر بھٹو کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دیے اور خوب سرانجام دیے۔ خوب عزت کمائی۔ اپنی قابلیت کی دھاک بٹھائی۔اسلام آباد کے سب صحافی ان کی عزت کرتے تھے۔ ایک دور تو وہ بھی تھا جب وہ اسلام آباد میں پارٹی کو اکیلے چلاتے تھے۔ مگر2008ء سے پہلے کا فرحت اللہ بابر کچھ اور تھا۔ اب کچھ اور ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اگر پیپلز پارٹی میں چند لیڈروں کی مالی معاملات میں ساکھ اور عزت بچی ہوئی ہے تو وہ ان میں سے ایک ہیں ۔ اپوزیشن کے دنوںمیں انہوں نے سینٹ میں بڑا خوبصورت کردار ادا کیا تھا ۔ میرے جیسے رپورٹرز اس لیے وقفہ سوالات میں جاتے تھے کہ فرحت اللہ بابر، ڈاکٹر بابر اعوان اور انور بیگ جیسے سینیٹرز کی گفتگو سننے کو ملتی‘ جو اپنی ذہانت سے حکومتی بنچوں کے ارکان کی جان کو آجاتے۔ خوبصورت بحث ہوتی، دلائل دیے جاتے۔ حکومتی کرپشن کی کہانیوں پر بحث کی جاتی اور میرے جیسے رپورٹرز بہت کچھ سیکھتے۔ان کے بعد اگر کسی سینیٹر نے متاثر کیا تو وہ صغریٰ امام اور سعید غنی تھے۔دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی سینیٹ میں زیادہ سمجھدار اور ذہین لوگ بھیجتی رہی ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ جب بینظیر بھٹو کی جلاوطنی کے دنوں میں جنرل مشرف نے کرپشن مقدمات کا دبائو بڑھایا ہوا تھا تو ایک حکمت عملی بنائی گئی کہ جنرل مشرف کے وزراء اور اس دور کی کرپشن پر بھی شور مچایا جائے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ کرپشن صرف زرداری اور بینظیر بھٹو نے نہیں کی بلکہ جنرل مشرف کے قریبی وزراء بھی کرپشن کر رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت ایسے رپورٹرز اہم اور معتبر ٹھہرے جو کرپشن سکینڈل فائل کر رہے تھے۔ ان کی خبروں کو لے کر ہر ہفتے پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل میں ایک پریس کانفرنس کی جاتی ۔ تعلقات استعمال کرتے ہوئے اس رپورٹر سے سکینڈل کی دستاویزات لے کر پریس کانفرنس میں پیش کی جاتیں ۔ علاوہ ازیں اس کرپشن سٹوری کو ایک ریفرنس کی شکل دے کر نیب میں فائل بھی کر دیا جاتا اور پھرپیپلز پارٹی کی ویب سائٹ پر ڈال دیا جاتا تاکہ ریکارڈ موجود رہے۔ اس طرح جنرل مشرف پر دبائو بڑھنے لگا کیونکہ اگلے دن کے اخبارات اس سکینڈل کو پھر رپورٹ کرتے اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے مطالبات بھی شائع ہوتے کہ کارروائی کی جائے۔ پھر دھیرے دھیرے جب سکینڈلز کی تعداد بڑھنے لگی تو پیپلز پارٹی کے لیڈروںنے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اگر بینظیر بھٹو اور زرداری کرپٹ تھے تو جنرل مشرف کی ٹیم بھی کرپشن کر رہی تھی۔ اس دبائو کا مقصد بینظیر بھٹو اور زرداری کو سوئس کیسز سے نکالنا تھا ۔ جب جنرل مشرف کے وزیرداخلہ آفتاب شیر پائو نے بینظیر بھٹو کے ریڈ وارنٹ نکالے تو پیپلز پارٹی نے ایسے سکینڈلز فائل کرنے کی تعداد بڑھا دی۔ روزانہ کی بنیاد پر اخبارات کی خبروں سے ریفرنس نکال کر نیب کو بھیجنے کا عمل تیز ہوگیا۔ اس دبائو کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل مشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ طے پایا کہ بہتر ہوگا دونوں ایک دوسرے کی کرپشن کو بھول جائیں اور بدنام نہ کریں ۔ یوں این آر او کی بنیاد رکھی گئی۔ کرپشن معاف کرنے کے بدلے جنرل مشرف پانچ سال صدارت مانگ لی اور بینظیر بھٹو مان گئیں ۔
توقع کی جا رہی تھی کہ جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئے گی تو ان ستر سے زیادہ کرپشن ریفرنسز جو نیب کو بھیجے گئے تھے‘پر کارروائی ہوگی اور جنرل مشرف کے ساتھیوں کو کرپشن پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے گا ۔ مگراس وقت حیرانی کی حد نہ رہی جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو سب سے پہلے اس کی ویب سائٹ سے کرپشن ریفرنس اڑا دیے گئے۔پتہ چلا زرداری صاحب نے حکم دیا ہے جو کچھ ہمارے خلاف ہے‘ وہ جنرل مشرف نے معاف کر دیا ہے اور ہم نے اخباری سکینڈلز کی بنیاد پر نیب میں ان کے وزراء اور افسران کے خلاف جو ریفرنسز فائل کرائے وہ بھی آج کے بعد معاف کیے جاتے ہیں ۔ یوں جنرل مشرف نے پی پی پی کی کرپشن معاف کر دی اور بدلے میں زرداری صاحب نے مشرف دور کی کرپشن معاف کر دی ۔ ایسا لگا جیسے ان دونوں کی کرپشن ان کا ذاتی مسئلہ تھا جس سے اس ملک اور قوم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ دو لوگوں کی ایک دوسرے سے ڈیل تھی جسے نیب بھول گئی، زرداری صاحب بھی بھول گئے اور جنرل مشرف بھی بھول گئے اور ہم بھی بھول گئے۔ ہمیں بتایا گیا کرپشن کو بھول جانا جمہوریت کی ترقی کے لیے کتنا ضروری ہے۔ سب نے اپنا اپنا حصہ لے لیا تھا لہذا مفاہمت ضروری ہوگئی تھی۔
برسوں گزر گئے۔ چند روز پہلے ایک ٹی وی شو میں، فرحت اللہ بابر صاحب سے براہ راست سامنا ہوا تو اینکر نے مجھے کہا کہ کوئی سوال اگر کرنا ہوتو ان سے کر سکتے ہیں ۔ میں نے پوچھا : بابر صاحب ! ان ستر کرپشن ریفرنس کا کیا بنا‘ جو آپ نے 2007ء تک فائل کیے تھے‘ پانچ برس آپ کی پارٹی اقتدار میں رہی لیکن ہم نے جنرل مشرف کے ساتھیوں کی اس کرپشن کے بارے میں پھر کبھی نہ سنا۔انہوں نے ایسا جواب دیا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ بولے :ہم نے اس لیے ان کرپشن سکینڈلز پر کوئی کاروائی نہیں کی اور اپنی ویب سائٹ سے اڑادیے کیونکہ وہ سب اخباری خبروں پر مشتمل تھے‘ جنہیں کسی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکتا تھا۔ صدمے سے سنبھلنے کے بعد میں نے کہا : پہلی بات تو یہ ہے صحافی سکینڈل فائل کرنے کے بعد آپ کو فون نہیں کرتے تھے کہ ان کے سکینڈل پر پریس کانفرنس کر کے نیب کے پاس ریفرنس بھیج دیں اور پھر پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ پر بھی ڈال دیں ۔ یہ کام تو آپ خود سات برس تک کرتے رہے اور کل ستر کے قریب ریفرنس آپ نے
نیب میں فائل کیے تھے۔ آپ فون کر کے اس رپورٹر کی تعریفیں بھی کرتے تھے۔ دوسری بات ، کب کس نیب عدالت میں یہ سب کرپشن کے کیسز چلے تھے‘ جہاں ان صحافیوں کو بلایا گیا تھا کہ وہ ثابت کریں وہ سب سکینڈلز سچے تھے اور وہ ثبوت دینے میں ناکام رہے تھے۔ اب آپ فرمارہے ہیں ان سکینڈلز میں جان نہیں تھی۔ آپ کرپشن پر کی گئی مشہور زمانہ صلح صفائی کا نزلہ صحافیوں پر کیوں گرا رہے ہیں جنہوں نے جان پر کھیل کر جنرل مشرف دور میں سکینڈل فائل کیے تھے اور آپ لوگ انہی سکینڈلز کو بنیاد بنا کر جنرل سے این ار آو کے لیے خفیہ ڈیل کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اگر وہ سکینڈل جھوٹے ہوتے تو جنرل مشرف ان رپورٹرز اور اخباری مالکان کا جینا تک حرام کردیتے۔ اگر جنرل مشرف خود ان سکینڈلز کو نہیں جھٹلا سکے تو پھر آپ کیسے جھٹلا سکتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت آپ کو ان سکینڈلز کی ضرورت تھی تاکہ بینظیر بھٹو اور زرداری پر سے جنرل مشرف کا دبائو ختم کیا جائے اور جب این ار آو ہوگیا اور تمام مقدمات ختم ہوگئے اور زرداری صدر اور فرحت اللہ بابر انہی کے ترجمان بن گئے اور رپورٹرز اور ان کے سکینڈلز جھوٹے ہوگئے۔
آج پھر سات برسوں بعد بابر صاحب سینیٹ کی ایک کمیٹی میں کرپشن کے خلاف وہی پرانی تقریر کر رہے تھے جو ایوان صدر میں ترجمان لگنے سے پہلے کرتے تھے۔اب وہ نئے سرے سے ہمیں کرپشن کے خلاف جہاد کرنے کے فوائد گنوا رہے ہیں۔بابر صاحب بھول گئے جس این ایل سی سکینڈل کا وہ حوالہ دے رہے ہیں وہ بھی اخبار نے فائل کیا تھا ۔ اب یکدم وہ پرانا سکینڈل، اخبار اور رپورٹر کیسے معتبر ہوگئے؟کیا فرحت اللہ بابر اب ایوان صدر میں زرداری کے ترجمان نہیں رہے لہٰذا کرپشن کے پرانے اخباری سکینڈلز کی پھر ضرورت پڑگئی ہے‘ جیسے کبھی این آر او کے لیے جنرل مشرف دور کے ستر سکینڈلز کی ضرورت پڑی تھی ؟۔