"RKC" (space) message & send to 7575

آفتاب چیمہ اور نیکوکارا کو رول ماڈل بنائیں!

کبھی کبھار لگتا ہے ہم نے نہ سدھرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ لوگ باتیں بہت کرتے ہیں لیکن حل نہیں بتاتے۔کس کو بتائیں؟ عوام کو بتائیں؟ اگر بتا بھی دیں تو عوام کیا کر لیں گے؟ جو لاکھوں کا مجمع نواز شریف ، زرداری، مولانا فضل الرحمن یا عمران خان کے لیے باہر سڑکوں پر نکلتا ہے اور مارا بھی جاتا ہے‘ وہ کبھی اپنے حقوق کے لیے باہر نکلا؟ ایک بار بھی اس ملک میں عوام کا جلسہ نہیں ہوا جس میں کہا گیا ہو کہ ہمیں ضلعی حکومتیں دیں‘ ہم اس وقت گھر نہیں لوٹیں گے جب تک اعلان نہیں ہو جاتا۔ ہزاروں بار لکھ چکا ہوں اس ملک میں جب تک طاقتور بلدیاتی اداروں کا قیام نہیں ہوگا‘ یہ ملک ترقی نہیں کرے گا۔ آپ پنجاب کو چھوٹا نہیں کریں گے تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ کیسے آپ بارہ کروڑ انسانوں کا صوبہ چلا سکتے ہیں؟ کتنی دفعہ اس پر بحث ہوچکی۔ باقی چھوڑیں اب تو صرف لاہور بھی نہیں چل رہا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا‘ جو ڈسکہ میں ہوا ہے۔ پنجاب میں اس طرح کے ہنگامے اب روٹین بن گئے ہیں۔ ایک لمحے میں لوگ سڑکوں پر ہوتے ہیں اور پھر جو کچھ جس کے ہاتھ لگتا ہے‘ لے جاتا ہے اور جاتے ہوئے گھر بھی جلاتے جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کی مہربانی سے اب پولیس سے نفرت اپنے عروج پر ہے۔ ماڈل ٹائون واقعے نے لوگوں کے دلوں میں نفرت بڑھا دی ہے۔
ضلعی حکومت ہوتی تو مقامی منتخب کونسلرز صورت حال کو بہتر ہینڈل کر سکتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکمرانوں کو پتہ نہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے؟ انہیں سب پتہ ہے۔ وہ کرنا نہیں چاہتے اور کیوں کریں؟ اپنی بادشاہی کون چھوڑتا ہے۔بادشاہی سے یاد آیا آج کل بھارت میں چھپنے والی غالب کی بائیوگرافی Ghalib..The Man, The Timesپڑھ رہا ہوں جو ورن ورما نے لکھی ہے۔
بھارتی فارن آفس کے سابق افسر ورما نے کمال ریسرچ کر کے غالب کو ہمارے سامنے زندہ کر دیا ہے۔ غالب کے شہرہ آفاق خطوط تو ایک طرف لیکن ان خطوط کی جو تشریح ورما نے کی ہے وہ اپنی جگہ ایک کمال ہے۔ مغلوں کا ہندوستان ڈوب رہا ہے۔ مغل اب بھی سمجھ رہے ہیں کہ فرنگی سرکار ان کے ساتھ کیے گئے تحریری معاہدوں کی پابند ہے۔ انگریز بھی سمجھدار ہیں۔ وہ بھی مغل بادشاہوں کو یہی یقین دلا رہے ہیں کہ اب بھی ہندوستان ان کا ہے۔ مغل یہ نہیں سمجھ پارہے کہ وقت بدل گیا ہے۔ کچھ ہی دنوں کی بات ہے‘ سب رنگون میں قید ہوں گے۔ بادشاہ ہوتے ہوئے بھی اپنی عرضیاں فرنگی سرکار کو لکھ کر اپنے کام چلا رہے ہیں۔ فرنگیوں نے کمال فنکاری سے انہیں یقین دلایا ہوا تھا کہ ہندوستان میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ وہی دربار، وہی درباری، وہی جاہ و جلال۔ صرف اتنی سی تبدیلی ہے کہ دربار کے باہر ان کی رٹ ختم ہوچکی ہے۔ پورے ہندوستان کو پتہ چل چکا تھا مٖغل اقتدار کا چل چلائو ہے۔اگر پتہ نہیں تھا تو مغلوں کو نہیں تھا۔ اور اس ماحول میں بے چارہ غالب دلی کی گلیوں میں فرنگیوں سے اپنی پینشن سے زیادہ اپنی عزت کے لیے لڑ رہا تھا۔ اور پھر ایک دن کچھ باقی نہ رہا۔بہرحال غالب کے ہندوستان کے آخری دنوں کی یہ ایک طویل اداس داستان پھر کبھی سہی۔
تو کیا ہم بھی ہندوستان کے آخری مغل حکمرانوں کی طرح یہی سمجھ رہے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوا اور نہ ہی کچھ ہوگا؟ اس لیے کوئی بھی تبدیلی کی بات نہیں کرتا۔ وہی عوام کی طرف سے غالب جیسی لکھی گئی عرضیاں حکمرانوں کے نام کہ اب جانے دیں۔ بہت انجوائے کر لیا آپ نے۔ اب اس معاشرے کے لیے کچھ ہونے دیں۔ آپ نے اربوں روپے کے نئے کاروبار بنا لیے۔ بہت عیاشی کر لی۔ اپنی نسلوں کے لیے محفوظ پاکستان چھوڑ کر جائیں تاکہ ان کے لیے جو مال آپ نے سمیٹا ہے وہ اسے سکون سے خرچ بھی تو کر سکیں۔ اتنے اربوں کا کیا فائدہ اگر معاشرہ انارکی کا شکار ہو رہا ہے؟
آپ کو پتہ ہے اب پنجاب کا بڑا صوبہ نہیں چلایا جا سکتا۔ اسے چھوٹا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے اب دو نہیں بلکہ تین چار حصوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ لاہور کے دانشوروں کا پنجاب سے رومانس اپنی جگہ لیکن اب وقت ویسے ہی بدل رہا ہے جیسے مغلوں کے ہندوستان میں بدل رہا تھا۔ ہر سال اسلام آباد سے ملنے والے این ایف سی کے نو سو ارب روپے صرف لاہور پر خرچ کرنے کی بجائے پورے صوبے میں بانٹنے کی ضرورت ہے۔ لاہور کو ترقی دیتے دیتے آپ پورے صوبے کی ترقی پر کمپرومائز کر رہے ہیں۔ آپ کو علم ہے کہ بلدیاتی ادارے ہی جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں۔ اس حسن کا گلہ اس وقت گھونٹ دیا گیا جب نواز شریف اور زرداری صاحب نے اصلی اور نسلی جمہوریت 2008ء میں متعارف کرائی۔ عوام سمجھ رہے تھے کہ اب عوام کی بادشاہی کا دور آئے گا ۔ نوے ہزار منتخب کونسلرز کے ذریعے معاشرے کو بدلنے کی کوشش کی جائے گی۔ این ایف سی کے پیسے صوبائی فنانس کمشن کے ذریعے اضلاع تک پہنچایا جائے گا‘ لیکن اس کے قطعی برعکس ہوا۔ دونوں نے مل کر ان اداروں کا گلہ ہی گھونٹ دیا۔ نہ ہوگا بانس‘ نہ بجے گی بانسری۔ سپریم کورٹ نے کئی برسوں تک نواز شریف اور زرداری کی متعارف کرائی گئی جمہوریت کو مجبور کیا کہ وہ بلدیاتی اداروں کو کام کرنے دے اور اب کہیں جا کے الیکشن ہونے والے ہیں؛ تاہم ان لوگوں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ اس سے پہلے کہ بلدیاتی ادارے کام شروع کریں، وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر کو بارہ ارب روپے کے ایک فنڈ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ایک ایک ایم این اے کو تین سے پانچ کروڑ روپے کا فنڈ دے دیا گیا ہے۔ یوں ہم نے طے کر لیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے ہمیں بلدیاتی الیکشن کرانے پر مجبور کر بھی دیا تو بھی ابھی سے انہیں ناکام بنانے کا کام شروع ہے۔
سوال یہ ہے کہ آپ نے اس ملک کے مفادات کا سوچنا ہے‘ عوام کی بھلائی کا سوچنا ہے یا پھر چند سو لوگوں کے سیاسی اور کاروباری مفادات کا تحفظ کرنا ہے؟ اگر ہر ضلع کو اس لیے برباد کرنا ہے تاکہ وہاں ایم این اے اور دو تین ایم پی ایز کے مفادات کا تحفظ ہوتا رہے تو پھر یہ معاشرہ نہیں چلے گا۔ آپ کو مقامی لوگوں کو حکمرانی کا حق دینا ہوگا۔ پولیس کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت دینی ہوگی۔ ویسے اگر پولیس آزاد ہوتی تو اس میں آپ کا ہی بھلا تھا۔ اگر پولیس افسران کو اجازت ہوتی کہ وہ ہر صورت حال کو میرٹ پر ڈیل کریں تو عوام کا اعتماد بڑھتا اور کوئی پولیس پر ہاتھ نہ اٹھاتا۔ آپ پر ماڈل ٹائون میں ہونے والے قتل عام پر قتل کی ایف آئی آر نہ کٹتی کیونکہ سب کو علم ہوتا کہ آپریشن ایسی پولیس فورس نے کیا ہے جو کسی وزیراعلیٰ یا وزیرقانون سے ہدایات نہیں لیتی۔ وہ اپنا کام کرنا جانتی ہے اور اگر اس نے کچھ کیا ہے تو یقینا کوئی وجہ ہوگی۔ لیکن سانحہ ماڈل ٹائون سے بھی کچھ نہ سیکھا گیا۔ الٹا جن دو پولیس افسران آفتاب چیمہ اور محمد علی نیکوکارا نے اسلام آباد میں عمران خان اور طاہرالقادری کے ہزاروں لوگوں پر گولیاں چلانے اور تشدد سے گریز کیا اور اپنے طریقے سے ہینڈل کرنے کی کوشش کی انہیں برطرف کیا گیا یا پھر معطل کر دیا گیا۔ آپ پولیس کو کیوں آزادانہ کام کرنے دیتے؟ کیوں آپ ریاست کی طاقت کو اپنی ذاتی طاقت بنا کر پھر رہے ہیں؟ کس لیے سینکڑوں کی تعداد میں پولیس فورس اپنے خاندان کی حفاظت پر لگا رکھی ہے؟ دوسری طرف کراچی میں زرداری کی پولیس فورس نے ماسک پہن کرصحافیوں اور دیگران پر جو تشدد کیا‘ وہ اپنی جگہ نیا رجحان ہے۔ اب پولیس عوام کی نہیں بلکہ چند سیاستدانوں کی غلام بن گئی ہے۔ تنخواہ عوام پولیس کو دیتے ہیں اور وہ سب مل کر عوام کو ہی حکمرانوں کے کہنے پر قتل کرتے ہیں۔
پولیس کو ایک موقع ملا ہے۔ یہ اپنے آپ کو ان چند خودغرض سیاستدانوں کے چنگل سے آزاد کرے اور میرٹ پر پولیسنگ شروع کر دے۔ میڈیا کو کوئی آزادی دینے کو تیار نہیں تھا۔ میڈیا نے برسوں کی محنت اور سخت لڑائی کے بعد اپنے آپ کو آزاد کرا ہی لیا۔ اسی طرح عدلیہ بھی غلام تھی ۔ عدلیہ نے بھی ایک دن فیصلہ کر لیا کہ بس‘ کافی ہوگیا‘ اب مزید غلامی برداشت نہیں ہوگی۔ یوں جنرل مشرف دور میں ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا جو عدلیہ کی آزادی پر منتج ہوئی۔ یہی کام اب پولیس کو کرنا ہوگا۔ آفتاب چیمہ اور نیکوکارا نے ہمت کر کے بنیاد رکھ دی ہے۔ وہ دونوں پولیس افسران اپنے جونیئر افسران کے لیے ایک رول ماڈل بن سکتے ہیں۔ یہ حکمران کتنے پولیس افسران کو برطرف یا معطل کر سکتے ہیں؟ کتنے پولیس افسران کو یہ کالے پانی بھیج سکتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ڈیڑھ سال تک گھروں میں قید رکھا گیا۔ ایک دن عوام ان کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں دوبارہ عدالتوں میں لے آئے۔ جب جنرل مشرف نے تین نومبر کو ایمرجنسی لگا کر میڈیا چینل بند کر دیے تھے تو بھی سول سوسائٹی ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی۔ پولیس کو بھی یہ کام کرنا ہوگا۔ اسے اپنے آپ کو ان حکمرانوں سے آزاد کرانا ہوگا۔ ہر غلط حکم پر ناں کرنی ہوگی۔ کچھ برطرفیاں بھگتنی ہوں گی۔ آفتاب چیمہ اور محمد علی نیکوکارا کی طرح نوکریوں سے ہاتھ دھونا ہوں گے۔ پھر ایک دن یہی عوام جو ان سے نفرت کرتے ہیں ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ وہ انہیں کندھا دیں گے۔ محبت دیں گے۔ اگر انہیں پتہ ہوگا کہ اس وردی کی شان میںہی ان کا تحفظ ہے تو پھر وہ ان کی عزت کریں گے۔ پولیس کو اپنی عزت کرانا ہوگی۔ میڈیا اور عدلیہ کی شکل میں ان کے پاس مثالیں بھی موجود ہیں اور خوش قسمتی سے ان کے پاس آفتاب چیمہ اور نیکوکارا کی شکل میں رول ماڈل بھی ہیں۔
پولیس کو عوام کی محبت، اعتماد اور قانون کی حکمرانی چاہیے یا پھر ہوس بھرے حکمرانوں کی ذاتی غلامی اور بدلے میں عوام کی نفرت؟ فیصلہ انہیں خود کرنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں