چکوال کی خوبصورت دھرتی کے پروفیسر غنی جاوید سے ملاقات کی وجہ لائل پور سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر طارق چودھری بنے تھے۔
آسٹرولوجی کے ماہر پروفیسر کی عمر اسی برس سے زیادہ ہے۔ مشتاق احمد جاوید نیویارک سے آئے ہوئے تھے اور میرے پاس ہی ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ لاہور سے ان کے خالد بھائی اور طارق چودھری بھی تھے اور پروفیسر غنی بھی۔
یوں پوری رات بہترین محفل جمی ۔ اگرچہ پروفیسر غنی کا نام بہت سن رکھا تھا لیکن ملاقات پہلی دفعہ ہورہی تھی ۔ سابق بیوروکریٹ طارق پیرزادہ بھی پروفیسر غنی کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ طارق پیرزادہ کا گھر بھی اسلام آباد کے ان گھروں میں سے ایک ہے جہاں مہمان نوازی اپنے عروج پر رہتی ہے۔ طارق پیرزادہ کا میٹھا لہجہ اور دھیمے انداز میں گفتگو کا اپنا مزہ ہے۔ سابق کمشنر اسلام آباد رہنے کی وجہ سے ان کے پاس بھی بتانے کو بہت کچھ ہوتا ہے لہٰذا میں بھی کبھی کبھار ان کے ماضی کو کھنگالنے پہنچ جاتا ہوں ۔ ان کی بتائی ہوئی کہانیاں پھر کسی وقت کے لیے!
پروفیسر غنی کی طبیعت کچھ ایسی ہے کہ ہر ایک سے نہیں کھلتے۔ مجھے طارق چودھری نے باتوں باتوں میں بتایا‘ پروفیسر غنی اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ چپ چپ رہتے ہیں۔ لہٰذا دھیان سے۔ رات گئے پروفیسر غنی نے اپنے ستاروں کے علم کی بنیاد پر مجھے میرے بارے میں بتانا شروع کیا، میں حیرانی اور پریشانی سے سنتا رہا ۔ طارق پیرزادہ اور طارق چودھری جیسے بڑے لوگ اگر پروفیسر غنی کے قائل تھے تو یقینا کوئی بات تو ہوگی۔
طارق چودھری خود حیران ہوئے اور بولے‘ پروفیسر کسی سے پہلی ملاقات میں تو نہیں کھلتے اور آپ کے ساتھ قہقہے لگا رہے ہیں۔
آج کل میں خود بھی اسلام آباد میں وقت نکال کر پروفیسر صاحب کو پک کرتا ہوں۔ ہم کسی ریسٹورنٹ کے کونے میں بیٹھ کر گپیں لگاتے ہیں۔ان کے ماضی کو کھنگالتے ہیں۔ وہ خوبصورت گفتگو کرتے ہیں۔ انہیں بک اسٹور پر لے جاتا ہوں۔ وہ بہترین کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں۔ لٹریچر سے محبت کرتے ہیں۔ تاریخ‘آسٹرولوجی کی کتابیں اب بھی پڑھتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ پروفیسر جو کہتے ہیں وہ درست ہے۔ وہ سچ ہے۔وہ بڑی بڑی باتیں بغیر تڑکا لگائے بتاتے ہیں۔ مجھے پروفیسر صاحب کی گفتگو کے بعد ان کی مسکراہٹ پسند ہے۔اچانک خاموش اور اچانک کوئی خوبصورت جملہ ۔اب میں عادی ہوگیا ہوں۔
پروفیسر غنی کی ہر دوسری بات میں سینیٹر طارق چودھری کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔وہ اگر زندگی میں کسی بندے کو اپنا محسن سمجھتے ہیں تو وہ طارق چودھری ہیں۔طارق چودھری بھی ایک بے چین روح ہیں۔ اوپر سے جتنے پرسکون لگتے ہیں اندر سے وہ اتنے ہی بے چین لگتے ہیں۔ جوان بیٹے کی اچانک موت کو جس طرح طارق چودھری نے اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کیا ہے‘ وہ اپنی جگہ خدا سے لگن اور محبت اور اس کے آگے جھکنے کا اپنا ہی انداز ہے۔
پروفیسر غنی آج بھی چکوال کے ایک پس ماندہ گائوں میں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے اگر طارق چودھری نہ ڈھونڈ نکالتے۔ طارق چودھری کی بڑھتی الجھنیں دیکھ کر ایک دن طارق پیرزادہ نے انہیں ایک گائوں کا پتہ دیا کہ جائو وہاں پروفیسر غنی کا پوچھ لو اور ان سے اپنی الجھنوں کی کہانی سنو۔
میلوں کا سفر ضائع نہ گیا۔ طارق چودھری واپسی پر پروفیسر غنی کو بھی اسلام آباد لے آئے۔بولے‘ پروفیسر تیرے جیسا ہیرا یہاں گائوں میں کیوں پڑا ہے۔تمہاری منزل تو اسلام آباد ہے اور یوں طارق چودھری کا ایم این ایز ہوسٹل میں کمرہ پروفیسر غنی کا ہوگیا۔ وہ سینیٹر طارق چودھری کے روم میٹ بن گئے ۔ طارق چودھری کے پاس آتے جاتے سینیٹرز اور ایم این ایز نے پروفیسر غنی سے زائچے بنوانے شروع کیے تو سب حیرانی میں ڈوب جاتے اور یوں پروفیسر غنی کی شہرت پھیلنے لگی۔ ایک دن طارق چودھری جو غلام اسحاق خان کے بہت قریب ہوچکے تھے، پروفیسر غنی کو ان سے ملوانے لے گئے۔ ایوان صدر میں غلام اسحاق خان آرام سے نواز شریف کو اپنا بچہ جمہورا سمجھ کر حکومت کی باریکیاں سمجھا رہے تھے۔ پروفیسر نے ان کا زائچہ بنایا۔ پروفیسر میں ایک خوبی ہے جو شاید ہمیں پسند نہ ہو کہ جو بھی بات زائچہ بتائے گا وہ بغیر لگی لپٹی بتا دے گا اور اس کا نقصان ہوا ہے کہ کئی لوگ ناراض بھی ہوگئے۔ ہوتے رہیں۔پروفیسر اب اسی برس کی عمر میں کیا کسی کو خوش کرے گا۔
ایک دن بولے‘ میں اپنے پیشے سے بے ایمانی کر کے کسی کو کیسے خوش کروں؟
غلام اسحاق خان کو اپنی طرف غور سے دیکھتا دیکھ کر پروفیسر غنی بولے۔ جناب آپ کو گھر جانا ہوگا۔غلام اسحاق خان حیران ہوئے۔ پروفیسر بولے‘ نواز شریف بھی آپ کے ساتھ گھر جائیں گے۔اسحاق خان بولے: ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔
جب ایوان صدر سے اسحاق خان فارغ ہوئے تو انہیں پروفیسر غنی یاد آئے اور ملاقات کے لیے دوبارہ بلوا لیا۔
ایسے ہی طارق چودھری کی بدولت پیرپگاڑا سے ملاقات کراچی میں ہوئی ۔ پیرپگاڑا سے متاثر ہوئے بغیر انہیں ان کی زندگی کے بارے میں بتانا شروع کیا تو پیر پگاڑا کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات پیدا ہوئے۔تاہم جب تفصیل بتانی شروع کی تو پیرپگاڑا نے دھیرے دھیرے وضاحتیں پیش کرنا شروع کیں۔ جب پروفیسر غنی بات پوری بتا چکے تو پیرپگاڑا متاثر ہوچکے تھے۔ جیب سے پیسے نکالے۔ پروفیسر غنی نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔بولے: اگر کچھ کر سکتے ہیں تو کراچی کی ایک لائبریری میں آسٹرولوجی پر چند نایاب کتابیں ہیں وہ پڑھنے کا موقع فراہم کرا دیں۔پگاڑا بولے: آپ جائیں گے یا پھر لائبریری یہیں منگوا لیں۔ پیرپگاڑا نے بعد میں بھی پروفیسر غنی کو آسٹرولوجی پر کئی کتابیں تحفے میں دیں۔
اس طرح پروفیسر صاحب کی مشہوری ہوئی تو بے نظیر بھٹو کی ایک قریبی خاتون ساتھی نے انہیں چک شہزاد اپنے فارم ہائوس پر بلایا۔ بے نظیر بھٹو ان دنوں جلاوطنی میں تھیں۔ وہ خاتون پوچھنا چاہتی تھیں کہ وہ کب پاکستان لوٹ سکتی ہیں ۔گھر کے ڈرائنگ روم میں بڑی تعداد میں لوگ بیٹھے تھے۔ پروفیسر عموماً اتنے ہجوم میں کوئی بات نہیں بتاتے۔ پروفیسر غنی نے وہیں بتادیا کہ بینظیر بھٹو اور ان کے خاوند کے درمیان تو معاملات تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔اس پر وہ خاتون بھڑک اٹھیں اور خوب بھڑکیں۔ سب ان سے ڈر کے مارے خاموش کیونکہ ان دنوں پیپلز پارٹی میں ان کی مرضی کے بغیر پاکستان میں کوئی پتہ نہ ہلتا تھا۔ جب خاتون کی آواز مزید اونچی ہوئی تو وہ کھڑے ہوگئے اور چلنے لگے۔ پیپلز پارٹی کے ایک جیالے نے جرأت کی اور بولا میڈم اس کا کیا قصور کہ آپ اس کی اتنی بے عزتی کر رہی ہیں۔ آپ نے اسے خود بلوایااور جو کچھ اسے علم ہوا اس نے بتادیا۔
پروفیسر غنی کو ایک دن ان کے گھر پر ایک معزز صاحب ملنے آئے۔ انہیں ایک کار میں بٹھا کر وزیراعظم ہائوس لے جایا گیا ۔ نواز شریف صاحب کی اصل تاریخ پیدائش ان کی والدہ سے پوچھ کر انہیں بتائی گئی ۔ وزیراعظم سے ملاقات سے قبل ان صاحب نے بتایا کہ انہیں اچھی اچھی باتیں بتانی ہیں کیونکہ نوازشریف اگلے پندرہ برس تک اس ملک پر حکومت کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ پروفیسر خاموشی سے اپنے کام پر لگے رہے۔کافی دیر بعد سر اٹھایا اور اس معزز انسان کو بتایا کہ جناب آپ پندرہ برس کی بات کرتے ہیں‘مجھے تو نواز شریف کے اردگرد خطرہ نظرآرہا ہے۔یہ سن کر وزیراعظم ہائوس میں بیٹھے اس معزز کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ بولے: یہ باتیں آپ نے وزیراعظم کونہیں بتانی۔ پروفیسر بولے: کیسے نہ بتائوں‘ اگر وہ مجھ سے پوچھیں گے تو سب کچھ بتائوں گا۔اس پر ان صاحب نے پروفیسر سے کہا میرے ساتھ آئیں۔ انہیں ساتھ لیا اور انہیں ان کے گھر چھوڑ آئے۔ کچھ عرصے بعد نواز شریف بارہ اکتوبر کو گرفتار اور مشکل سے سزا سے بچ پائے۔
میں نے پوچھا‘ عمران خان کا کیا مستقبل ہے۔بولے‘ مجھے تو ان کا اقتدار میں آنا نہیں لگتا ۔ بولے‘ ان کی عمران خان سے ملاقات کرائی گئی۔ زائچہ بنایا۔پروفیسر غنی بولے‘ عمران کے اندر یہ بڑا گہرا احساس برتری ہے کہ جو بھی اس سے ملتا ہے وہ اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے۔اپنی شخصیت کے اس اہم پہلو کا عمران کو علم ہے کہ اس کے سامنے لوگ اس کی شخصیت کے سحر سے نہیں نکل سکتے اور وہ اس چیز کو خوب استعمال کرتا ہے۔ پروفیسر غنی متاثر نہ ہوئے اور جو کچھ تھا وہ منہ پر بتا کر واپس لوٹ آئے۔
میں نے بلاول بھٹو کا پوچھا تو بولے ان کے گرد وہی ستارے ہیں جو کبھی راجیو گاندھی کے تھے۔بلاول بھی اقتدار میں نہیں آئے گا۔ اگر آیا تو اس کی جان کو خطرات رہیں گے۔
پروفیسر صاحب مشکل سے مشکل بات بھی بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں بغیر دیکھے کہ اگلے پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔میں نے کہا: پاکستان کے بارے میں کوئی خبر سنائیں۔ بولے‘ جولائی بہت خطرناک ہے۔مجھے یاد آیا پاکستان کی ایک اور بڑی شخصیت زمرد نقوی بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ سیاستدانوں کے لیے جون سے انتہائی احتیاط طلب وقت شروع ہوچکا ہے۔ پروفیسر غنی بولے‘ جولائی بہت اہم ہے۔ سیاستدان کچھ سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔تو تاریخ بھی اپنے آپ کو دہرانے کو تیار ہے۔
وہ بار بار ایک بات کہتے ہیں‘ جولائی میں سیاسی لیڈروں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اپنی سکیورٹی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ خدانخواستہ کوئی ناگہانی آفت ۔ خدانخواستہ کوئی بڑا نقصان۔
پروفیسر غنی بہت کچھ بتاتے ہیں۔ میں ان کی بتائی ہوئی باتوں کو یہاں دہرانا نہیں چاہتا۔ میں تو ان کی پیشن گوئیاں سن کر پریشان ہوگیا ہوں۔اللہ پاکستان پر رحم کرے کیونکہ اس کے سیاسی لیڈرز تو رحم کے موڈ میں نہ پہلے کبھی تھے اور نہ ہی اب ہیں ۔ یہ سب تو کوئی بڑا نقصان کرا کے پھر ملک سے بھاگ جائیں گے۔بھگتیں گے عوام اور یہ ملک!