خواجہ آصف قومی اسمبلی میں فرماتے ہیں وہ کسی سے بھی بحث کرنے کو تیار ہیں کہ ان کی حکومت میں ایک بھی سکینڈل نہیں آیا ۔
میں اپنا سا منہ لے کر رہ گیا کہ کتنے اچھے اور شریف لوگوں کی پگڑیاں اچھالتا رہتا ہوں ۔ ہر طرف سب کچھ درست ہے۔ ایک احساس تھا وہ بھی نہ رہا۔ اب کرپشن ان کے نزدیک کرپشن نہیں رہی۔ اب اس کے بعد کہنے کو کیا رہ جاتا ہے۔ جب کہ اسی سانس میں وہ فرماتے ہیں کہ نندی پور جس پر ایک سو بیس ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوچکے ہیں وہ ابھی تک چلنے کے قابل نہیں ہے۔ حالانکہ انہی خواجہ صاحب نے ہی وزیراعظم نواز شریف سے اس نندی پور کا افتتاح کروڑوں روپے پبلسٹی پر لگا کر کرایا تھا۔ دو دن چلا اور پھر ٹھس۔
اب وہ کہتے ہیں کہ مزید انتظار کریں۔ جو منصوبہ چند برس قبل بارہ ارب روپے سے شروع ہوا تھا‘ اس پر ایک سو بیس ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں ۔ جب نواز لیگ نے دو سال قبل یہ منصوبہ دوبارہ شروع کیا تو اس وقت اس کی لاگت بائیس ارب روپے تھی۔ شہباز شریف نے چین جا کر معاہدہ کیا اور اس کی لاگت اٹھاون ارب روپے کر دی گئی۔ پھر چوراسی ارب ہوئی، اب ایک سو بیس ارب روپے ہو گئی ہے اور یہ سب پیسے نقدی کی شکل میں چینیوں کو ادا کیے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے نندی پور اگر ڈیزل پر چلایا جائے گا تو فی یونٹ بجلی اکتالیس روپے کی ہوگی۔ اب بتایا جائے کہ اٹھاون ارب روپے سے یہ منصوبہ کیسے ایک سو بیس ارب روپے کا ہوگیا اور ابھی تک نہیں چلا۔ اور اس دوران جو بجلی اس نے پیدا کر کے دینی تھی وہ نہیں دی اور اس کا جو نقصان ہوا ہے وہ علیحدہ ہے۔ خواجہ آصف کے نزدیک اٹھاون ارب روپے کی بجائے چینی کمپنی کو ایک سو بیس ارب روپے دیے جائیں تو یہ کوئی کرپشن نہیں اور نہ ہی کوئی سکینڈل ہے۔
ویسے یہ سب کمال کرتے ہیں۔ منہ پر مکر جاتے ہیں۔ آج کل انہوں نے نیا ہتھیار تھام لیا ہے۔ اب کرپشن یا سکینڈل زندگی کا طور طریقہ بن گئے ہیں۔ میں نے تو اس بات پر یقین کرنا شروع کر دیا ہے کہ بغیر کرپشن کے ہمارا معاشرہ نہیں چل سکتا ۔ ہم ایک دوسرے کو لوٹتے ہیں۔ ایک دفتر میں کوئی کسی سائل کو لوٹتا ہے تو وہ سائل پہلے سے کسی کو لوٹ کر وہاں آیا ہوتا ہے۔ جب کہ جس نے دفتر میں بیٹھ کر سائل کو لوٹا ہے وہ کسی اور جگہ کسی اور کے ہاتھوں لٹتا ہے۔ یہ وہ سائیکل ہے جو چل رہا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ سب شکایات فرماتے ہیں‘ ان سے فلاں دفتر میں رشوت لی گئی، کمشن لیا گیا ، حالانکہ وہ خود کسی اور دفتر میں ملازمت کرتے ہوئے یہی کام کرتے ہیں۔ وہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ تو لوٹیں لیکن جب وہ کسی کے پاس اپنا کوئی کام لے کر جائیں تو وہاں ان سے کوئی ایک روپیہ نہ مانگے ۔ جہاں وہ کام کرتے ہیں وہاں رشوت لینے والے جنت جائیں گے جب کہ کسی اور دفتر میں اس سے پیسے پکڑنے والا جہنم کا حقدار۔
یہ وہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہے۔کچھ لوگ یہ فارمولہ سمجھ چکے ہیں کہ اگر انہیں کسی دفتر میں اہلکار لوٹتے ہیں اور رشوت لیتے ہیں تو وہ بھی اپنا نقصان دوسروں کی جیب سے پورا کرتے ہیں۔ مجھے یاد آیا تیرہ برس قبل ایک دفعہ ایک دوست کے بھتیجے کی ضمانت کے لیے میں اور ڈاکٹر ظفر الطاف پنڈی کے ایک سیشن جج کے سامنے موجود تھے۔ ضمانت ہوئی تو جج کے سامنے ہی ان کے ریڈر نے کہا‘ مجھے پانچ سو روپے دو۔ حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے اسے ادا کیے۔ اس نے پولیس والے کو بلایا اور ہمیں کہا اسے سو روپے دو۔ اسے دیے تو وہ پولیس مین سے بولا اب اس میں سے پچاس روپے مجھے دو میرے کہنے پر انہوں نے تمہیں سو روپے دیے ہیں ۔ جس نے ضمانت دستاویزات ٹائپ کرنا تھیں اس نے دوسو روپے مانگے۔ جہاں سیکشن نے یہ ضمانت رجسٹرڈ کرنی تھی اس نے تین سو روپے مانگے۔ جب روبکار بخشی خانے کے سپاہی کو دی اس نے پانچ سو روپے مانگے۔ تاہم مجھے جو بات اچھی لگی وہ جس لڑکے نے ریکارڈ روم میں تین سو روپے لیے تھے اس کی تھی ۔ اس نے ہماری لٹکی ہوئی شکلیں دیکھ کر کہا بابو، پریشان نہ ہو ۔ سب جگہ یہی چلتا ہے۔ میں پچھلے دنوں ساہیوال گیا تھا ۔ میرا بھائی پکڑا گیا تھا۔ میں نے وہاں اسی طرح پیسے دیے جیسے آپ مجھے دے رہے ہیں ۔ اس بات کو آج تیرہ برس گزر گئے ہیں لیکن اس لڑکے کی بات ذہن سے نہیں اتری کہ ہم کیسے ایک دوسرے کا گوشت نوچتے ہیں ۔اور ہمیں علم ہے کہ اب ہمارا معاشرہ اس کے بغیر نہیں چل سکتا ۔
برسوں قبل عارف والہ سے ایک فون آیا ۔ وہ کہنے لگے جس طرح کی لوٹ مار کی کہانیاں آپ اپنے کالموں میں لکھتے ہیں اس سے ہمارے دیہاتی علاقوں میں جرائم بڑھ جائیں گے۔ میں حیران ہوا کہ اسلام آباد کی لوٹ مار کا پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں جرائم سے کیا تعلق ہے۔ کہنے لگے کہ ان کا سی این جی اسٹیشن ہے۔ جب اس کے اسٹیشن پر ملازم سنتے ہیں کہ یار اسلام آباد میں تو اَنھی مچی ہوئی ہے تو وہ بھی کسی دن یہ سوچنا شروع کردیں گے کہ یار ہم کس چکر میں پڑ گئے ہیں‘ خواہ مخواہ یہاں چند ہزار روپے کی نوکری کر رہے ہیں۔ کوئی بڑا ہاتھ مارتے ہیں جیسے اسلام آباد میں بڑے لوگ مارتے ہیں۔ ان کا کسی نے کیا بگاڑ لیا ہے کہ ہمارا بگڑ جائے گا ۔ یہ لوگ گن پوائنٹ پر ہی لوٹنا شروع کر دیں گے اور مزدوری چھوڑ دیں گے۔ میں ششدر ہوکر سنتا رہا اور کئی دنوں تک کرپشن یا سکینڈل فائل کرنے کی جرأت نہ کر سکا ۔
ویسے غور کریں کہ اس کی بات میں کیا غلط تھا۔ اندازہ کریں کس سطح کی کرپشن کی گئی ہے؟ ابھی تو رینجرز نے کچھ کام کیا ہے اور چیخیں نکل گئی ہیں ۔ ابھی تو بڑے پیمانے پر کام شروع ہی نہیں ہوا ۔ زرداری صاحب کے بڑے بڑے ارب پتی دوست پہلے ہی ملک سے چپکے سے نکل گئے ہیں۔ خود زرداری صاحب فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بجائے اپنی ''اینٹوں‘‘ کے ساتھ پاکستان ہی سے نکل گئے ہیں۔ ویسے لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر صرف فرنٹ مینوں کو ہی پکڑنا ہے جو آگے بھتے فراہم کرتے تھے تو پھر اس سارے ڈرامے کی کیا ضرورت تھی ۔ جو جمہوریت کے نام پر پوری قوم کو بلیک میل کرتے ہیں وہ پروٹوکول کے ساتھ باہر جا سکتے ہیں اور جب جنرل مشرف کی طرح کبھی ہمارے نئے فوجی آمر کو پاکستان میں دوبارہ این ار آو کی ضرورت پڑے گی تو کوئی نیا جنرل کیانی لندن جا کر ضامن بن کر باعزت انہیں واپس لائے گا۔ یا پھر سعودی عرب مستقبل کے کسی فوجی آمر پر دبائو ڈالے گا کہ ماضی کے حکمران اگر لوٹتے رہے ہیں تو موجودہ کیوں نہیں؟ یہ سب پھر نئے سرے سے اس ملک پر نازل ہوں گے اور اپنے ان گزرے برسوں کے حصے کی کرپشن بھی کریں گے۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سب کے خلاف ثبوت ہیں ۔کسی کی گفتگو ٹیپ کی ہوئی ہے تو کسی کی بیسمنٹ میں سے اربوں روپے
ملے ہیں۔ انہیں موقع دیا جارہا ہے کہ راتوں رات پچھلی گلی سے نکل جائیں۔ رحمن ملک کی طرح برقع پہن کر افغانستان کے راستے نکل جائیں۔(رحمن ملک یہ داستان خود فخر سے سناتے ہیں) میرا خیال ہے جو ایئرپورٹ سے نہیں نکل سکتے وہ چمن کے راستے برقعے پہن کر نکل جائیں‘یا پھر بقول عامر متین کے‘ بہتر ہوگا کہ وہ ہمارے ہر دل عزیز پشتون رہنما اچکزئی کی خدمات لیں جو ایسے کام دھڑلے سے کرتے ہیں اور کسی کو بھی پاکستان سے افغانستان بھجوا سکتے ہیں‘ کس مائی کے لال میں جرأت ہے کہ وہ اچکزئی کے مہمان کو ہاتھ لگا ئے۔
کبھی کبھار تو لگتا ہے کہ پاکستان ایک وائلڈ ویسٹ ہے‘ جہاں ہر ایک کے ہاتھ میں گن ہے ، جو جس کو چاہے گولی مار دے یا پھر اس گن کی مدد سے لوٹ لے۔ پاکستان کے حکمران جمہوریت کو ہی گن کے طور پر استعمال کر رہے ہیں‘ جو انہوں نے ہمارے سروں پر تان رکھی ہے اور دن رات ہمیں ڈراتے ہیں کہ اگر آپ نے ہماری لوٹ مار پر کوئی اعتراض کیا تو ہم جمہوریت کو گن سے اڑا دیں گے اور پھر بھگتتے رہنا ایک نئی آمریت کو اور ہم سہم کر چپ ہوجاتے ہیں کیونکہ میرے جیسے جنرل مشرف کے مارشل لاء دور کی خرابیوں سے خوفزدہ ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جناب اچھی آمریت سے بھی بدترین جمہوریت بہتر ہے۔
بہرحال فی الحال تو زرداری صاحب مع اپنی اینٹوں کے پاکستان سے باہر تشریف لا چکے ہیں۔ جب حالات دوبارہ نارمل ہوں گے تو موصوف ہم پر پھر نازل ہوں گے اور یقینا وہ باہر سے اتنی اینٹیں لائیں گے کہ جو بھی بچا کھچا پاکستان ہے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائیں گے۔
پھر بھی سوچ رہا ہوں صحافت چھوڑ کر اینٹیں بنانے کا کام شروع کر دوں ۔ کیا پتہ کب کسی کو اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی ضرورت پڑجائے اور مجھے ایک منافع بخش کنٹریکٹ مل جائے!