"RKC" (space) message & send to 7575

ریس کے گھوڑے کی موت

نیب نے ایک فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کون کون سے مقدمات زیرتفتیش ہیں۔ فہرست پڑھ کر آپ حیران ہوں گے کہ برسوں سے مقدمات پڑے ہیں‘ انہیں دیمک کھا گئی اور نیب افسران مال بٹورنے میں لگے رہے‘ جبکہ نیب کے تمام ملزمان اس ملک کے اہم عہدوں پر فائز ہونے کے بعد کب کے گھروں کو لوٹ چکے۔ 
مجھے یہ پڑھ کر حیرانی نہیں ہوئی کہ نیب کی کارکردگی صفر ہے۔ اس معاشرے میں اگر کرپشن عروج پر ہے اور کسی کو خوف نہیں رہا تو اس میں نیب کا قصور زیادہ ہے‘ جہاں باڑ کھیت کو کھانے لگ جائے‘ وہاں کیا بچتا ہے۔ 
میں خود سپریم کورٹ جاتا رہا ہوں۔ نیب کے حوالے سے میں نے ایک بات نوٹ کی تھی کہ جو بھی چیئرمین‘ عدالت میں پیش ہوا‘ طاقت ور ملزمان کا وکیل بن کر پیش ہوا۔ سب نے اپنی کرسی کے نام پر بڑے لوگوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی۔ بعض دفعہ حیرانی ہوتی تھی کہ کیا نیب ملزمان کا ساتھی ہے یا پراسیکیوٹنگ ایجنسی ہے جس کا کام ان کے خلاف تحقیقات کرنا ہے۔ عدالت میں بھی کئی دفعہ انہیں کہا گیا کہ وہ ملزمان کے وکیل ہیں یا ان کو جیل بھجوانے والے؟ 
یہ سب کام جنرل مشرف نے شروع کیا۔ جنرل مشرف سمجھدار تھے کہ انہوں نے فوری طور پر جنرل امجد کو ہٹا دیا تھا کیونکہ انہیں اب سیاست میں دلچسپی ہوگئی تھی اور اب انہی لٹیروں کا ساتھ چاہیے تھا جنہیں جیل میں ڈالنے کے لیے جنرل امجد کو استعمال کیا گیا تھا۔ جب جنرل امجد کو ہٹایا گیا تو یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ اگر کسی کا کچھ احتساب ہوبھی رہا تھا تو اب نہیں ہوگا اور وہی ہوا ۔ جنرل خالد مقبول تشریف لائے۔ انہوں نے معاملات کو سیٹل کرنا شروع کیا جیسے جنرل مشرف چاہتے تھے۔ یوں ایک سیاسی پارٹی کھڑی ہوئی اور جنرل مشرف نے اس پارٹی کی بنیاد پر حکمرانی شروع کر دی۔ جو ان کے ساتھ مل گئے انہیں نیب سے ضمانتیں مل گئیں، جو یوسف رضا گیلانی کی طرح ڈیل نہ کر سکے وہ جیل جا بیٹھے۔ ابھی جنرل مشرف کو نیب سے مزید مدد چاہیے تھی‘ لہٰذا خالد مقبول کو صلہ دینے کے لیے گورنر پنجاب بنا دیا گیا اور جنرل منیر حفیظ کو لایا گیا۔ منیر حفیظ بھی وہی کرتے رہے جو جنرل مشرف کے سیاسی مفادات کا تقاضا تھا۔ ان لوگوں نے ایک کام سمجھداری کا کیا۔ نیب کے ایک ملزم اقبال زیڈ احمد جسے نیب نے ایل پی جی سکینڈل میں پکڑا تھا‘ سے ہی ایل پی جی کے کوٹے لے کر کاروبار شروع کر دیا اور ہر ماہ گھر بیٹھے تیس تیس لاکھ روپے کماتے ہیں ۔ اس طرح جن فوجی افسران نے اقبال زیڈ احمد سے بارگین کی تھی انہیں بھی ایل پی جی کے کوٹے ملے۔ ایک سابق وزیرداخلہ نے اپنے بھیتجے کے نام پر کوٹہ لیا۔ ایک بڑے ایماندار نیب چیئرمین نے بھی خاموشی سے اپنے ایک دوست کے نام پر ایل پی جی کا کوٹہ لیا اور ایمانداری کا چغہ آج تک پہن کر معزز کہلواتے ہیں اور شام کو گولف کھیلتے ہیں۔ اقبال زیڈ احمد سے اگر پوچھ گچھ کی جائے تو وہ بہت کچھ بتائیں گے کہ ان سے نیب کے کن کن فوجی اور سول افسران نے ایل پی جی کے کوٹے لیے تھے۔ جنرل مشرف کی فرمائش پر چند ''خوبصورت‘‘ لوگوں کو بھی ایل پی جی کوٹے ملے۔ پکڑا تھا اقبال زیڈ احمد کو ایل پی جی سکینڈل کی پوچھ گچھ کے لیے کہ کس پیپلز پارٹی کے لیڈر کو کیا دیا تھا اور اس کے بدلے الٹا نیب نے ہی اپنی دکان کھولنے کا فیصلہ کیا۔ آج نیب کے سویلین اور فوجی افسران ہر ماہ اوسطاً تیس لاکھ روپے گھر بیٹھے کماتے ہیں۔ 
جب سیاسی حکومت آئی تو ایک روایتی بیوروکریٹ نوید احسن کو نیب کا چیئرمین لگایا گیا۔ مگر وہ بھی نیب کو واپس اس راستے پر نہ لاسکے کیونکہ نیب کا کام کرپشن کو روکنا نہیں بلکہ خود کرپشن کرنا تھا۔ ایف آئی اے سے ڈپیوٹیشن پر آئے افسران نے نیب میں مزید کرپشن کی کئی داستانیں رقم کیں ۔ ان دنوں مشہور ہوگیا تھا کہ نیب اغوا برائے تاوان کا ادارہ بن کر گیا ہے۔ جس افسر کو پیسوں کی ضرورت پڑتی‘ وہ کسی کو اٹھا لیتا۔ اس کے گھر والوں کو ڈرا کر پلی بارگین پرمجبور کرتا اور اس میں سے اپنا مال بنا لیتا۔ نیب کے سب ملزم ایک ایک کر کے رہا ہوتے گئے کیونکہ نیب کو مال چاہیے تھا نہ کہ انہیں سزائیں دلوانا تھیں۔ نیب کے ملزم ہی ایک دن ملک کے وزیراعظم‘ صدر اور اہم وزیر بن گئے اور نیب ان کے نیچے کام کرنے لگا جن کے خلاف کبھی وہ کارروائی کرتا تھا۔ جب نیب کے افسران کو یہ سیاستدان سر سر کہتے سنتے تو عجیب سی راحت محسوس کرتے۔ 
نوید احسن بہت جلد چھوڑ گئے تو ان کی جگہ سندھ کا ایک ریٹائرڈ جج لگایا گیا۔ اس پر چوہدری نثار علی خان سپریم کورٹ جا پہنچے۔ الزام لگا کہ وہ جج بننے سے پہلے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر بلدیاتی الیکشن لڑے تھے۔ پتہ چلا یہ وہی جج تھے جنہوں نے جنرل مشرف کے دبائو کے باوجود نواز شریف کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں پھانسی کی سزا دینے سے انکار کر دیا۔ آج اسی جج کو نواز لیگ نے ذلیل کر کے سندھ واپس بھیج دیا کہ ایسے جج کی ضرورت نہیں جو جنرل مشرف کے آگے بھی کھڑا ہوگیا تھا۔ 
یوں راستہ کھلا جناب فصیح بخاری کے لیے۔ ان کی رپیوٹیش اچھی تھی۔ تاہم پتہ چلا کہ ان کی تقرری بھی جناب زرداری سے ایک طاقتور مشترکہ دوست نے کرائی تھی اور وہ انہی کے بندے تھے۔ مجھے یقین نہ آتا اگر میں خود عدالت میں فصیح بخاری کی جناب زرداری اور ان کے ہمنوائوں کو بچانے کی کوششوں کا عینی گواہ نہ ہوتا۔ افسوس ہوا کہ ایک اچھے انسان اور سابق نیول چیف کا کیا انجام ہوا تھا۔ اس عمر میں بھی ملک اور قوم کی خدمت کی بجائے وہ چند لوگوں کی نوکری پر مامور تھے۔ یوسف رضا گیلانی سے لے کر زرداری اور راجہ پرویز اشرف یا پھر امین فہیم ہر جگہ بخاری صاحب نے پیپلز پارٹی کی سپورٹ کی اور یوں نیب ایک مردہ گھوڑا بن کر رہ گیا۔
میںنے مایوس ہو کر سپریم کورٹ جانا ہی چھوڑ دیا۔ 
فصیح بخاری نے انہی لوگوں کی خدمت کی جو انہیں اس پوزیشن پر لائے تھے۔ جب انہیں سپریم کورٹ کے حکم پر جانا پڑ گیا تو نئے گھوڑے کی تلاش شروع ہوئی کہ اب کی دفعہ ریس کون دوڑے گا۔ سب کی نگاہ مرد مومن قمرالزماں چوہدری پر پڑیں۔ جو لوگ انہیں جانتے تھے انہیں علم تھا کہ یہ چوہدری صاحب کے بس کی بات نہیں۔ وہ ضرورت سے زیادہ ہی نفیس انسان ہیں۔ برسوں کی نوکری سے وہ سیکھ چکے ہیں کہ جو لوگ آپ کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں ان سے پنگا مت لیں۔ ایک دفعہ انہوں نے ترکی میں چند صحافیوں سے خود کہا تھا کہ ذرا پتہ کریں کہ ستر ارب روپے کس وفاقی وزیر داخلہ نے چینی کمپنی کو سیف سٹی پراجیکٹ کے نام پر ایڈوانس دلوائے تھے اور وہ کمپنی کام پورا کیے بغیر چلی گئی تھی۔ اس وقت وہ خود وزرات داخلہ میں سیکرٹری تھے۔ جب چیئرمین نیب بنے تو بھول کر بھی کبھی اس سکینڈل کا ذکر نہ کیا۔ 
پھر وہ دور آیا کہ کچھ افراد کے خلاف مقدمات ختم ہونے لگے۔ گویا نیب ایک لانڈری بن کر رہ گیا ہے‘ جس کے کپڑے میلے ہوگئے اس نے آرڈر پر دھلوا لیے اور جاتے ہوئے معاوضہ کے طور پر چند ٹکے پھینک دیے۔ ایک دن ذوالفقار مرزا کے منہ سے سنا کہ اگر سابق پٹرولیم منسٹر ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کر کے رگڑا لگایا جائے تو وہ اربوں روپے اگل دے گا۔ کچھ دن بعد مرزا نے ایک اور انکشاف کیا کہ جناب ڈاکٹر عاصم حسین کا نام ایک سکینڈل میں تھا جس کا ریفرنس نیب کے پاس تھا؛ تاہم الزام لگا کہ موجودہ چیئرمین نے خاموشی سے ان کا نام اس سکینڈل اور ریفرنس سے نکال دیا تھا‘ پتہ چلا کہ ایف ٹین کے فلیٹس میں دونوں کے ایک مشترکہ دوست کی ہونیو الی ملاقاتیں رنگ لائی تھیں ۔
اب پتہ چلا ہے کہ ایک دن نیب کے چیئرمین کو بلا کر سمجھایا گیا کہ وہ سیاستدانوں کی وفاداری ترک کریں اور سنجیدگی سے اپنا کام کریں اور مقدمات کو دوبارہ شروع کرائیں۔ ساری عمر سرکاری نوکری کے بعد چیئرمین نیب یہ تو جانتے ہیں کہ جس طرف ہوا کا رخ ہو اس طرف ہی چلنا چاہیے لہٰذا اچانک آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ بھی ایکٹو ہوگئے ہیں۔ 
تاہم برسوں سے لٹکے مقدمات کی فہرست پڑھ کر افسوس ہورہا ہے کہ کیسے کیسے لوگ ملک لوٹتے رہے اور نیب عدالتوں میں ان کا ہی دفاع کرتا رہا۔ شیرپائو سے لے کر اسلم رئیسانی تک ایک طویل فہرست ہے۔ انجم عقیل نے سپریم کورٹ میں لکھ کر دیا کہ اس نے چھ ارب روپے کا نیشنل پولیس فائونڈیشن کے ساتھ فراڈ کیا اور ادائیگی کرے گا ۔ نیب کو سپریم کورٹ نے اس کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ۔ تین برس گزر گئے نیب اسے ہاتھ تک نہ لگا سکا۔ اس نے نیب کے ایک افسر سے ''دعا سلام‘‘ کی اور آزاد پھرتا ہے۔ 
جب ریس میں اپنا گھوڑا ہی بیکار نکلا اور چند ٹکے لے کر اس کا سوار ہی مخالفوں سے مل گیا تو پھر ان بڑے بڑے لٹیروں سے کیا شکایت...کیسا گلہ...کیسی سینہ کوبی... کیسا ماتم...کیسا وعظ! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں