"RKC" (space) message & send to 7575

جو پارٹی بھٹو کی پھانسی پر باہر نہ نکلی!

آخر وہ ہونا شروع ہوگیا ہے جو چند دن پہلے تک ناممکن لگتا تھا۔ 
اس ملک کو لوٹ مار کا بازار سمجھ لیا گیا تھا‘ جس کے ہاتھ جو لگا لے گیا۔ بات صرف یہاں تک نہیں رکی بلکہ جو لوٹ کر لے گئے تھے وہ دوبارہ جنرل مشرف اور جنرل کیانی کی مہربانی سے ایک بار پھر این ار آو لے کر پاکستان لوٹے اور وہیں سے لوٹ مار شروع کی جہاں اُسے چھوڑ کر گئے تھے۔ زرداری صاحب کے پانچ برسوں کی صلح صفائی کے نعرے نے گورننس کا بیڑا غرق کر دیا اور رہی سہی کسر پوری ہوگئی۔ اب تو این ار آو کے بعد کوئی خوف ہی نہیں رہا تھا ۔ باڑ ہی کھیت کو کھانے لگ گئی تھی‘ کسان کیا کر سکتا تھا ۔ ہم نے ہی کرپشن کو جمہوریت سے جوڑ دیا‘ زرداری صاحب کے ساٹھ ملین ڈالرز کا دفاع کرنے والے بھی ہم لوگ تھے۔ ہم جنرل مشرف سے تنگ آئے لوگ سمجھ بیٹھے کہ جمہوریت کی خاطر چھ ارب روپے کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں۔ زرداری صاحب نے بھی اسے بہت نہ جانا؛ چنانچہ چھ ارب چھوڑ کر انہوں نے ٹارگٹ ساٹھ ارب روپے کر دیا۔ اب کی دفعہ تو ایسے ایسے چہرے سامنے آئے کہ الامان۔ زرداری صاحب کی ٹیم نے کھل کر مال بنایا اور سب کے سامنے بنایا ۔ پہلی دفعہ زرداری صاحب نے دو نئے ڈاکٹرز متعارف کرائے اور انہیں اٹھا کر سیاستدان اور وزیربنادیا۔ جیل کے دنوں میں وہ ایک ڈاکٹر کے ہسپتال میں زیرعلاج رہتے تھے جب کہ دوسرا عطائی ڈاکٹر ان کی مالش کے لیے رکھا گیا تھا ۔ دونوں کو وہ انعامات ملے کہ وہ خود بھی حیران رہ گئے۔ ایک دفعہ ایک ایجنسی کے ایک سابق سربراہ نے مجھے خود بتایا تھا کہ جب وہ ایجنسی کے سربراہ بنے تو وہ حیران رہ گئے کہ ایوان صدر میں صدر کے ساتھ کام کرنے والے ایک عطائی ڈاکٹر کو ہر ماہ سیکرٹ فنڈ سے ایک کروڑ روپے مل رہے تھے۔
زرداری صاحب کے ایک اور ساتھی سلمان فاروقی کے خلاف ابھی ایک رپورٹ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پیش کی گئی ہے جس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے میرے ایک سال پرانے انکشاف کی تصدیق کی ہے کہ سلمان فاروقی اور زرداری صاحب کے سیکرٹری نے‘ جو بعد میں پبلک سروس کمشن کے سربراہ بنے تھے‘ غریبوں اور بیوائوں کے فنڈز میں سے چودہ کروڑ روپے آپس میں بانٹ لیے تھے۔ یہ رپورٹ اس وقت پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ سلمان فاروقی نے معاملہ اس پر ختم نہ کیا بلکہ انہوں نے جب اپنے آپ کو صدر زرداری سے محتسب لگوایا تو انہوں نے حکم دیا انہیں 2008ء سے 2012ء تک کا الائونس پچھلی تاریخ سے ادا کیا جائے اور یوں انہوں نے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے اس کام کے لیے جو انہوں نے نہیں کیا تھا ۔ 
یہ تو وہ چند چیزیں ہیں جو ریکارڈ پر آئی ہیں جو ریکارڈ پر نہیں آیا اس کا کسی کو علم نہیں ہوسکتا ۔ دوسری طرف ڈاکٹر عاصم حسین نے وہ کون سا کام اسلام آباد میں نہیں کیا جو ممکنہ طور پر وہ کر سکتے تھے۔ اسلام آباد کی ایک عدالت نے ان کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے‘ جب ان کے بارے میں انکشاف ہوا کہ انہوں نے اپنی ایک تعیناتی کے لیے جعلی نوٹیفکیشن ایک کمیٹی کے سامنے پیش کیا تھا‘ وہ مقدمہ اس وقت اسلام آباد کی عدالت میں چل رہا ہے۔ اس طرح جب انہیں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں اہم عہدہ دیا گیا تو انہوں نے کھل کر کھیل کھیلا۔ ایسے نجی کالجوں کو تسلیم کیا گیا جو اس قابل ہی نہ تھے۔ اس کی پوری انکوائری رپورٹ موجود ہے یوں میڈیکل تعلیم کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔ اس طرح وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے ساتھ بھی جو کھیل کھیلا گیا وہ اپنی جگہ ایک کہانی ہے۔ پہلے کوشش کی گئی کہ حفیظ شیخ سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جائیں اور اس کے لیے ای سی سی کا فورم استعمال کیا گیا؛ تاہم حفیظ شیخ سارا کھیل سمجھ چکے تھے؛ لہٰذا انہوں نے بہت سارے معاملات کو لٹکائے رکھا‘ جس میں ایل این جی ڈیل کا کنٹریکٹ شامل تھا جس کی مالیت بیالیس ارب روپے تھی۔ عاصم چاہتے تھے کہ انہیں سپاٹ خریداری کی اجازت دی جائے وہ جس سے چاہیں ایل این جی خرید لیں اور اس کے لیے انہیں کوئی ٹینڈر کی ضرورت نہ ہو۔ ان کی اس ایل این جی پالیسی پر اعتراضات ہوئے کہ اس میں بے ضابطگیوں کے بہت امکانات موجود تھے۔ اس طرح ایل این جی کی ڈیل میں بہت ساری بے ضابطگیاں سامنے آئیں‘ جن پرحفیظ شیخ نے ای سی سی کے ایک اجلاس میں ڈاکٹر عاصم کی وزارت کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا۔ ایک اور کیس میں ایک ایسے بحری جہاز کو کروڑوں روپے کی ادائیگی وزارت پٹرولیم نے کرائی جس کی مخالفت کی گئی تھی کہ اس کو یہ پیسے ادا نہیں ہوسکتے‘ لیکن وزارت پٹرولیم نے وہ ادائیگی کرائی۔ یہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے۔ کوئی چیلنج کرتا ہے تو میں دستاویزات پیش کرنے کو تیار ہوں ۔ 
آج تک اس انکوائری کا کوئی پتہ نہیں کہ اس کا کیا بنا؛ تاہم اس کا حل یہ نکالا گیا کہ حفیظ شیخ کا ہی پتہ کاٹ دیا گیا اور اندر کھاتے زرداری صاحب کے ساتھ مل کر طے ہوا کہ اب پیپلز پارٹی کے آخری دن آرہے ہیں تو بہتر ہوگا کہ ان دو تین ماہ میں جو اندھیر نگری مچانی ہے وہ مچا لو۔ یوں سلیم مانڈوی والا کو وزیرخزانہ لایا گیا ۔ اب پتہ چلا ہے کہ سلیم مانڈوی والا نے بھی اپنے قرضے معاف کرالیے۔ یوں دھڑا دھڑ ایسے فیصلے ہونے لگے کہ بندہ حیران ہوتا ہے کہ کیا اس ملک پر غیرملکیوں نے قبضہ کر لیا تھا جن کا کام تھا کہ جو کچھ سمیٹ سکتے ہو وہ سمیٹ لو ۔ ان دنوں ڈاکٹر عاصم حسین کا راج تھا‘ جو وہ چاہتے ای سی سی سے اس کی منظوری لے لیتے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے سے آٹھ دن پہلے کابینہ سیکرٹری نرگس سیٹھی نے دو دن تک ای سی سی کا اجلاس بلوایا جس کی صدارت سلیم مانڈوی والا نے کی تھی۔ ان کے ایجنڈے پر کوئی 26کے قریب آئٹم تھے‘ سب سے زیادہ آئٹم ڈاکٹر عاصم لائے تھے جنہیں پریشانی تھی کہ آخری دن رہ گئے ہیں جو بڑے بڑے فیصلے کرانے ہیں کرا لو۔ یوں ای سی سی میں ایک منڈی کھل گئی جہاں سب کچھ بک رہا تھا۔ ایسے ایسے فیصلے ہوئے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ لاہور سے کراچی بزنس ٹرین میں گھپلوں کو جو تحفظ دیا گیا اورایک سابق سینیٹر کو فیورز دی گئیں وہ اپنی جگہ ایک ایسی داستا ن ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کو کیسے لوٹا گیا‘ کس نے کیا کچھ نہیں کمایا۔ 
ڈاکٹر عاصم حسین ہی تھے جنہوں نے ایران سے مہنگی گیس کی ڈیل کی تھی۔ جن دنوں ایران پر دبائو تھا اور کوئی ان سے کاروبار کرنے کو تیار نہیں تھا‘ عاصم نے زرداری صاحب کی مدد سے ایران سے مہنگی گیس خریدنے کا سودا کیا۔ جب کہ ایران نے وسط ایشیا کے ایک ملک کو پاکستان سے بہت کم ریٹ پر گیس بیچی۔ جب پاکستان کے ایک آدھ بیوروکریٹ نے کچھ شور مچایا تو ایران نے جواب دیا کہ وہ گیس کی قیمت کم نہیں کر سکتے کیونکہ اس کی منظوری پارلیمنٹ نے دی تھی ۔ یہ تھا پاکستان کے مفاد کا تحفظ۔ 
اسلام آباد کو نچوڑنے کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین نے سندھ کا رخ کیا اور وہیں سے کام شروع کیا جہاں پر اسلام آباد میں رکا تھا۔ انہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن سندھ کا سربراہ لگادیا گیا اور پھر وہ اپنے دفتر سے ہی گرفتار ہوگئے۔ مجھے اکثر لگتا ہے یہ ملک ہمارا نہیں۔ ہمارے بعض لیڈروں نے اسے کالونی کا درجہ دے رکھا ہے۔ ان کا ایک ہی کام ہے جو کچھ لپیٹ سکتے ہو لپیٹ لو اور جو لوٹ سکتے ہو لوٹ لو۔ لگتا تھا یہ ملک کسی مغربی فلم کا ایک حصہ ہے جہاں گھوڑوں پر سوار بندوق بردار‘ سرعام لوگوں کو گولیاں مارتے پھرتے ہیں۔ لوٹتے پھرتے ہیں اور کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ انہیں نکیل ڈال سکے۔ کچھ امیدیں جاگ پڑی ہیں ۔ پہلے این ایل سی سکینڈل میں کچھ فوجیوں کو سزائیں ہوئیں۔ اب کچھ بڑے مگرمچھوں کی باری آئی ہے۔ کام مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے‘ اس ملک کو چراہ گاہ سمجھنے والوں کے لیے برے دن آخر آہی گئے ہیں۔ 
لطیفہ یہ ہے خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ اگر زرداری صاحب پر ہاتھ ڈالا گیا تو جنگ ہوگی۔ بھٹو جیسے مقبول لیڈر کو راتوں رات پھانسی دے گئی اور یہی پارٹی لیڈرز باہر نہ نکلے وہ اب زرداری صاحب کو بچانے نکلیں گے...!! یہ لطیفہ بھی سننا باقی تھا...! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں