پاکستان بھارت تعلقات ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ مجھے کوئی خوش فہمی نہیں کہ میرے دو تین کالموں سے پاکستان کے ایک طبقہ کی سوچ بدل سکتی ہے۔ جرمنی‘ فرانس اور برطانیہ کے لوگ تو جنگ عظیم اول اور دوم میں ایک دوسرے کے لاکھوں شہریوں کا قتل عام بھول سکتے ہیں لیکن ہم تقسیم کے فسادات کو نہیں بھول سکتے۔ یورپ کتاب پڑھتا ہے لہٰذا وہاں لوگ جلدی جلدی اپنے خیالات بدلتے رہتے ہیں۔ کتاب بینی آپ کے اندر ذہنی لچک پیدا کرتی ہے جو ہمارے ہاں نظر نہیں آتی۔
میرے ایک پیارے‘ محترم اور قریبی دوست نے میرے پاکستان بھارت بارے کالم پر رائے دی ہے۔ حیران ہوتا ہوں کہ مسلمانوں نے ہزار برس تک ہندوستان پر حکومت کی لیکن اس عرصہ میں ان کا ایمان اور ثقافت خطرے میں نہیں پڑا‘ لیکن پھر ایک دن اچانک انہیں فکر پڑگئی کہ انہیں ہندوئوں سے شدید خطرہ ہے۔ میرے مذکورہ دوست کسی دن مغلوں کے آخری دنوں اور دربار کی کہانی پڑھ لیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ ہندوستان کے مسلمان کہاں پہنچ گئے تھے‘ دلی کی کہانی پڑھ لیں‘ غالب دور کی دلی پڑھ لیں اس سے بھی پتہ چلے گا کہ مسلمانوں کی کیا حالت ہوچکی تھی۔ شکر کریں سر سید احمد خان جیسا بندہ مل گیا جس نے کہا اردو اور فارسی اپنی جگہ لیکن انگریزی پر ضرور توجہ دو۔ اس وقت انہیں بھی لبرل فاشسٹ کہا گیا ہوگا کہ وہ کیوں فرنگیوں کی زبان سکھانے پر تل گیا تھا۔ وہیں سے علی گڑھ کالج تحریک چلی اور پھر تحریک پاکستان میں اس نے اہم کردار ادا کیا ۔ اردو اور فارسی مغلوں کے دربار کی زبان تھی وہ بھی انہیں زوال سے نہ بچا سکی لیکن اب ہم دوبارہ اردو کے نعرے لگارہے ہیں کہ اب قوم کھڑی ہوجائے گی‘ ہنسی آتی ہے۔
میرے یہ دوست حیران ہو کر کہتے ہیں کہ اگر پاکستان تاشقند میں بھارت سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر بھی لیتا تو بھی بھارت نے فوجیں مشرقی پاکستان میں اُتارنا تھیں‘ یہ مفروضہ ہے۔ پاکستان بھارت میں ماضی میں کئی معاہدے ہوئے جن پر دونوں ملک اب تک قائم ہیں۔ شملہ معاہدے کے تحت پاکستان کو اس کے علاقے واپس کیے گئے جو بھارتی فوج کے قبضے میں تھے۔ شملہ معاہدے کے تحت ہی نوے ہزار قیدی (فوجی اور شہری) واپس ملے۔ بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کبھی وہ فوجی واپس نہیں مانگے۔ لائن آف کنٹرول پر معاہدہ ہوا جس پر دونوں ملک قائم ہیں ۔ شملہ معاہدہ کے تحت ہی پاکستانی اور بھارتی فوجیں دوبارہ عالمی سرحد پر چلی گئیں اس پر بھی دونوں ملک اب تک قائم ہیں۔ دونوں ملکوں نے معاہدے کے تحت ایک دوسرے کے نیوکلیئر پلانٹ کی تفصیلات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر رکھی ہیں تاکہ جنگ کے دنوں میں انہیں نشانہ نہ بنایا جائے اس پر بھی دونوں ملک اب تک قائم ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ معاہدے ہوتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں‘ غلط بات ہے۔
اب آتے ہیں اپنے دوست کی اس بات کی طرف کہ اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں فوجیں کیوں بھیجی تھیں ۔ اس کے لیے انہیں تین کتابیں پڑھنا ہوں گی تاکہ انہیں پورا تناظر سمجھ آئے ( میں جان بوجھ کر لفظ پورا تناظر استعمال کررہا ہوں کیونکہ یہ اُن کا پسندیدہ لفظ ہے)۔ ایک کتاب چار امریکی صدور کے ساتھ کام کرنے والے بروس ریڈل کی ہے، دوسری کتاب ‘بلڈ ٹیلی گرام اور تیسری ہے اورنا فلاسی کی انٹرویو ود ہسٹری۔ ہاں اگر انہیں امریکیوں کی کتابوں پر یقین نہیں ہے جیسے ہماری اکثریت ان کتابوں کو پڑھے بغیر مسترد کر دیتی ہے تو پھر وہ الطاف گوہر کی کتاب ایوب خان کے دس سال پڑھ لیں ۔ ایوب خان جس طرح کی نفرت کا اظہار بنگالیوں سے کرتے تھے وہ اس کتاب میں درج ہے۔ بنگالیوں کے بارے میں ان کے کیا جذبات تھے وہ بھی آپ اس کتاب میں غور سے پڑھ لیں۔ ایوب خان نے مشرقی پاکستان میں نوکری کی تھی اور وہ بنگالیوں کے ذہنی طور پر خلاف تھے۔ پیش نظر رہے کہ ایوب خان حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی بنگالیوں کے خلاف اپنا ذہن بنا چکے تھے۔
بات ہورہی تھی اندرا گاندھی کے فوجیں اتارنے کی جس پر میرے دوست حیران ہیں۔ بروس ریڈل نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے جب اندرا گاندھی واشنگٹن گئیں تو انہوں نے صدر نکسن اور وائٹ ہاوس کے دیگر افسران کو بار بار بتایا: مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی وجہ سے دس لاکھ بنگالیوں نے بھارت میںپناہ لے لی ہے۔ اب بھارت کے لیے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو سنبھالنا مشکل ہورہا ہے لہٰذا آپ پاکستان پر دبائو ڈال کر اس فوجی آپریشن کو رکوائیں۔ صدر نکسن اندرا گاندھی کو ہرگز پسند نہیں کرتے تھے اور ان کا واضح جھکائو پاکستان کی طرف تھا۔ لہٰذا نکسن نے اندرا گاندھی کے بار بار کہنے کے باوجود پاکستان پر دبائو نہیں ڈالا کہ وہ فوجی آپریشن روکیں بلکہ اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ نکسن سے چٹا جواب ملنے کے بعد وہ روس گئیں اور روسی قیادت سے مل کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب مشرقی پاکستان میں فوجیں بھیج کر اس معاملے کو ختم کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ اندرا کو خطرہ تھا کہ مشرقی پاکستان پر حملے کی صورت میں چین پاکستان کی مدد کرے گا۔ اس پر روس نے چین کو باقاعدہ پیغام دیا کہ اگر اس نے مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج کشی کی صورت میں پاکستان کی مدد کی تو وہ برداشت نہیں کرے گا۔ یوں آج تک اس پر ہر پاکستانی خاموش ہے کہ چین نے پاکستان کی مدد کیوں نہیں کی تھی۔ مزے کی بات ہے ہم سب دانشور امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے کی بے وفائی کی کہانیاں اپنی ہر نسل کو سناتے اور پڑھاتے ہیں لیکن کبھی کسی نے ہمیں یہ نہیں بتایا امریکہ چھوڑیں، ہمالیہ سے بھی اونچے دوست چین نے جس کے ساتھ ہماری سرحد ملتی ہے اور چند منٹ کے فاصلے پر رہتا ہے اس نے پاکستان کو ٹوٹنے سے کیوں نہیں بچایا تھا؟
اس راز سے بھی پردہ بروس ریڈل نے اپنی کتاب میں اٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ نکسن ہر صورت پاکستان کو بچانا چاہتے تھے اور انہوں نے مصر، ترکی، ایران، اردن وغیرہ کو کہا کہ وہ پاکستان کو فوراً امریکی اسلحہ فراہم کریں۔ ہنری کسنجر چینی سفیر سے ملے کہ وہ بھارت کو اپنی سرحد پر کچھ انگیج کرے اور وہ اتنی دیر میں اپنا جنگی بیڑہ بھیج رہے ہیں۔ چینی سفیر دوبارہ ہنری کسنجر سے نہیں ملا اور نہ ہی پاکستان کی مدد کی۔ امریکی حیران رہ گئے جب چند دن بعد پاکستانی جنرل ہتھیار ڈال رہے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا پاکستانی فوج طویل جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس دوران ان کو مدد پہنچ جائے گی۔ آپ ''بلڈ ٹیلی گرام‘‘ پڑھیں کہ کیسے ڈھاکہ میں امریکی سفارت کار بار بار وائٹ ہاوس کو پیغامات بھیج رہے تھے کہ امریکی صدر پاکستان پر دبائو ڈال کر فوجی آپریشن رکوائیں کیونکہ اس سے عام شہری بڑی تعداد میں مارے جارہے تھے۔
اگر آپ اطالوی صحافی اورنا فلاسی کی شاندار کتاب انٹرویو ود ہسٹری پڑھیں تو اس میں یہی سوال اورنا فلاسی نے جب بھٹو سے کیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ فوجی آپریشن کے بعد بنگالی بڑی تعداد میں بھارت جارہے تھے اور بھارت پر دبائو تھا کہ وہ ہندو آبادی کے تحفظ کے لیے قدم اٹھائے؛ تاہم بھٹو نے کہا اندرا گاندھی ان بنگالی مہاجرین کی تعداد جان بوجھ کر زیادہ بتا رہی تھیں تاکہ وہ مشرقی پاکستان میں مداخلت کا جواز ڈھونڈ سکے۔ یہ انٹرویو شملہ معاہدے سے پہلے ہوا تھا اور مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہوئے دو برس گزر چکے تھے۔ اس لیے یہ کہنا کہ اگر تاشقند میں پاکستان اور بھارت کا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوتا تو پھر بھی بھارت مشرقی پاکستان میں فوج بھیجتا، میں کم از کم اس مفروضے کو ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ یہ وہ پورا تناظر ہے کہ کن حالات میں بھارت نے فوجیں مشرقی پاکستان بھیجی تھیں ۔
جہاں تک سیکولر، لبرل کے طعنوں کا تعلق ہے جو ہمارے رائٹ کے دوست نیکی سمجھ کر دیتے رہتے ہیں، وہ ذہن میں رکھیں کہ اس وقت لبرل اور سیکولر ممالک اور معاشرے ہی لاکھوں شامی لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دے رہے ہیں ۔ یہی لبرل اور سیکولر تھے جو لاکھوں کی تعداد میں اپنی حکومتوں کے خلاف لندن، جرمنی، پیرس اور میڈرڈ میں باہر نکلے تھے کہ عراق پر حملے مت کرو اور ہر سال اب بھی باہر نکلتے ہیں ۔ ایک عرب مسلمان ملک آج تک امریکہ سے ناراض ہے کہ اس نے شام پر حملہ کیوں نہیں کیا۔ لبرل آپ کو یہ کہتے ہیں زندہ رہو اور زندہ رہنے دو۔ کتنے لبرلز نے اب تک خودکش جیکٹ پہن کر انسان قتل کیے ہیں۔ کتنے لبرل اس وقت فوجی عدالتوں میں ٹرائل بھگت رہے ہیں؟
ویسے میرے فاضل دوست کبھی وقت نکال کر سرفراز شاہ کی کتاب ''کہے فقیر‘‘ پڑھ لیں کہ اس میں انہوں نے پاک بھارت جنگ کا کیا خوفناک نقشہ کھینچ رکھا ہے اور کیسی کیسی تباہی ہماری منتظر ہے۔ باقی میرے بھائی! آپ لگے رہو‘ میرے ایک آدھ کالم سے کیا فرق پڑتا ہے!