"RKC" (space) message & send to 7575

بھارتی سیکولرازم کی شکست مبارک ہو

بھارت میں گائے کے معاملے پر مسلمانوں کو انتہاپسند ہندو ہجوم کے ہاتھوں زندہ درگور ہوتے دیکھ کر ہم کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے اس پر تو پاکستانیوں کو خوش ہونا چاہیے کہ بالآخر بھارتیوں کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ سیکولرازم کوئی چیز نہیں ہوتی، ریاست وہی ہوتی ہے جو اکثریتی مذہب والوں کی ہو، اس میں باقی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے جگہ نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی ہے تو انہیں اکثریت کی شرائط کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ان شرائط پر زندگی نہیں گزار سکتے تو کسی دوسرے ملک میں پناہ لے لیں یا اپنا مذہب تبدیل کر لیں یعنی مسلمانوں پر دبائو ہے کہ یا تو وہ پاکستان چلیں جائیں یا پھر ہندو بن جائیں۔ ہمارے ہاں بھی مسیحیوں نے جانیں بچانے کے لیے اپنے نام مسلمانوں والے رکھ لیے ہیں۔ 
بھارت میں مسلمانوں کا جینا حرام ہو رہا ہے۔ بھارت کی جو طاقت تھی وہ کمزوری میں بدل رہی ہے۔ اس کی طاقت اور خوبصورتی سیکولرازم میں تھی۔ ایک سیکولر ریاست میں ہی سیکڑوں نسلوں، زبانوں اور مذاہب کے انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ پہلے بھارتی دانشوروں اور سیاستدانوں کو اور کوئی بات نہ ملتی تو ہم پاکستانیوں کو یہ طعنے دیتے تھے کہ دیکھو ہندوستان کا آئین سیکولر ہے۔ یہاں سکھ، مسلمان، شودر، چائے بیچنے والا، ہندو کوئی بھی ملک کا وزیر اعظم یا صدر بن سکتا ہے، ملک کے کسی بھی عہدے پر تعینات ہو سکتا ہے‘ پاکستان کے آئین میں یہ گنجائش موجود نہیں ہے۔ ہم (پاکستانی) کرپٹ ترین سیاستدان کو وزیر اعظم یا صدر بنا لیں گے، چاہے اس پر نیب کے مقدمات ہوں، لیکن آئین میں ایک ہندو، مسیحی یا سکھ کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ ہمیں ایک اچھے، ایماندار، محب وطن ہندو، مسیحی یا سکھ سے زیادہ وہ کرپٹ مسلمان سیاستدان عزیز ہے‘ جو مسلمان گھر میں پیدا ہوا ہو، چاہے وہ پورا ملک لوٹ کر سوئس، لندن یا دبئی کے بینکوں میں لے جائے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ چیف جسٹس کارنیلیس، جسٹس بھگوان داس اور سیسل چوہدری جیسے کئی پاکستانی ثابت کر چکے ہیں کہ ان سے اچھے اور ملک سے محبت کرنے والے شاید کوئی اور ہوں۔ انہیں موقع ملا تو ثابت کیا کہ انہیں مذہب سے زیادہ اپنے وطن سے محبت تھی۔ مجھے کمینی سی خوشی ہو رہی ہے کہ بھارت بھی دھیرے دھیرے ہندو ریاست بننے کی جانب گامزن ہے۔ کم از کم میرے جیسے لوگوں کی اپنے بھارتی دوستوں کے طعنوں اور طنزیہ ہنسی سے جان چھوٹ جائے گی۔ لیکن لگتا ہے انتہا پسند ہندوئوں کے لیے یہ کام اتنا آسان نہیں ہو گا۔ راکھ میں دبی ہوئی چنگاری بھڑک سکتی ہے۔ جہاں مودی پوری کوشش کر رہے ہیں، ہندوستان کا آئین بدل دیا جائے، ہندوستان کا صدیوں پرانا کلچر تبدیل کر دیا جائے وہاں ایسی طاقتیں بھی موجود ہیں جو شدت پسند بھارتیوں سے لڑ رہی ہیں، جو بھارت کو سیکولر چاہتی ہیں۔ تین بہادر اور انسان دوست ہندو لڑکوںکی کہانی پاکستانی میڈیا کو پسند نہیں آئی کہ کیسے انہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ستر مسلمان ہمسایوں کو ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں مرنے سے سے بچایا۔ شاید ہم ڈر گئے کہ کہیں پاکستانی ان ہندو لڑکوںکو اچھا نہ سمجھ بیٹھیں۔ 
ہمارے میڈیا میں یہ خبر بھی جگہ نہ بنا سکی اور نہ ہی اس پرکوئی ٹاک شو ہوا کہ اکتالیس ادیبوں اور شاعروں نے بھارتی حکومت کو وہ تمام سرکاری ایوارڈ احتجاجاً واپس کر دیے ہیں‘ جو ان کی ادبی خدمات کے صلے میں دیے گئے تھے۔ یہ سارے ادیب احتجاج کر رہے ہیں کہ مودی کے بھارت میں جس طرح عدم برداشت اور سیکولرازم کا جنازہ نکالا جا رہا ہے، وہ سرکار کا توکچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن وہ ایوارڈ واپس کر سکتے ہیں جو ان کے گلے میں بھارتی سرکار نے ڈالے تھے۔ ہمارے دانشوروں، ادیبوں اور کالم نگاروں کے نزدیک شادی یہ بھی41 بھارتی ادیبوں اور شاعروں کا ڈرامہ ہو گا۔ سب کہیں گے، اس سے کیا فرق پڑے گا۔ ویسے جب کوٹ رادھا کشن میں ایک مسیحی جوڑے کو جلایا گیا توکتنے ادیبوں یا شاعروں نے احتجاجاً اپنے ایوارڈ واپس کیے تھے؟ 
ہمارے ہاں سیکولرازم کو گالیاں دینا فیشن ہے۔ ہمارے نزدیک جو بھی واقعات ہوتے ہیں وہ بھارتی سیکولرازم کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ مجھے ایک بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی، ہم بھارتی سیکولرازم سے نفرت کرتے ہیں، چڑتے ہیں اور اسے بھارت کا ڈرامہ سمجھتے ہیں، لیکن شاید جب بھارتی، سیکولرازم سے ہماری نفرت سے متاثر ہو کر خود کو ہندو ریاست بنانے کا سفر شروع کرتے ہیں یعنی یہ کہ بھارت کو ایک ایسی مذہبی ریاست بنایا جائے‘ جس میں صرف ہندو رہ سکیں تو بھی ہم اس پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں، دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ ہندو ہمیشہ سے ہندو ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ہم بھارت کو ہندو ریاست بنتے دیکھ کر ناراض ہو جاتے ہیں۔ سیکولر انڈیا بھی ہمیں پسند نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہندو بھی ہماری طرح ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اعتراض کیوں ہو رہا ہے؟ ہو سکتا ہے ہندوئوں کو اب احساس ہوا ہو کہ ان کا سیکولرازم کی طرف جھکائو غلط تھا۔ انہیں بھی پہلے دن سے ایک ہندو مذہبی ریاست کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ چلیں، دیر آید درست آید۔ وہ اگر آج گاندھی اور نہرو کو غلط ثابت کر رہے ہیں تو ہمیںکیوں تکلیف ہے؟ ہم کیوں ان سے ناراض ہیں؟ حالانکہ وہ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہم چاہتے ہیں اور کہتے ہیں وہ سیکولرازم کا ڈرامہ بند کرے، دنیا کو بتائے کہ وہ ہندو ریاست ہے... جیسے ہم مسلمان ریاست ہیں یا اسرائیل یہودی ریاست ہے۔ اب وہ اپنا ڈرامہ بند کر رہے ہیں۔
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اگر ہمیں سیکولرازم پسند نہیں ہے، ہندو ریاست بھی پسند نہیں ہے تو پھر ہندوستان کو اپنے لیے کون سا نظام اپنانا چاہیے جس میں سیکڑوں مذاہب، زبانیں، ثقافتیں اور قومیں ایک دوسرے کا خون بہائے بغیر آرام سے رہ سکیں، جیسے اللہ کے فضل سے ہم پاکستان میں رہتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں نہ تو عیسائی جوڑے کو جلایا جاتا ہے، نہ لاڑکانہ میں ہندوئوں کے مندروں کو جلایا جاتا ہے، نہ گوجرہ میں نو مسیحیوں کو جلایا جاتا ہے۔ لاہور کی جوزف کالونی میں بھی کوئی غلط نہیں ہوتا۔ ہزارہ شیعوں کا قتل عام نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں سے ہزاروں کی تعداد میں اقلیتوں کے لوگ دوسرے ملکوں میں پناہ لے رہے ہیں لیکن ہم پھر بھی خوش ہیں کہ ہماری ریاست میں اقلیتوںکا وہ حشر نہیں ہو رہا جو بھارت میں مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔ 
ویسے کبھی ہم نے سوچا، ہندوستان میں رہنے و الے بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کی زندگیاں آسان بنانے اور انہیں بھارت میں سر اٹھا کر جینے کے لیے ہم نے کیا آسانیاں فراہم کی ہیں؟کیا ہم نے کبھی اپنے کچھ مفادات قربان کر کے ان مسلمانوں کو ہندوستان میں آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش کی ہے؟ 2004ء میں پاکستانی صحافیوں کا ایک گروپ ہندوستان گیا تو ایک مسلمان رکن پارلیمنٹ نے جو بات کہی وہ آج تک میرے ذہن میں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ آپ کشمیریوں کے لیے تو ستر برس سے لڑ رہے ہیں، جو مان لیتے ہیں آپ درست لڑتے ہوں گے کیونکہ آپ کو پانی وہیں سے ملتا ہے، لیکن کبھی ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کے لیے بھی ہندوستان سے لڑائی کی ہے؟ تینوں لڑائیاں کشمیر کے لیے لڑی گئیں۔ کبھی ہمارے لیے بھی لڑائی نہ سہی، ہندوستان سے کوئی کمپرومائز کیا ہے جس سے ہماری زندگیاں آسان ہو سکتیں؟ کیا ساٹھ لاکھ کی اہمیت ہم بیس کروڑ سے زیادہ ہے؟ آپ کو ملک مل گیا، اس کے بعد آپ لوگوں نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا کہ جو رہ گئے تھے ان کا کیا ہوا۔ اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا تو ہندوستان سے ایسے تعلقات رکھتے کہ ہماری زندگیاں محفوظ رہتیں۔ الٹا نہرو لیاقت معاہدے میں پابند کر دیا گیا کہ دونوں ملکوں کے شہری اب واپس نہیں لوٹ سکتے۔ میں نے جواب دیا تھا کہ یہ باتیں میرے جیسوں کے بس سے باہر ہیں۔ اس پر اس مسلمان رکن پارلیمنٹ تلخ انداز میں کہا تھا کہ پھر آپ دانشوری کرنا بند کر دیں، ایسے سوالات نہ پوچھیں اور نہ ہم سے ملا کریں، ہم جانیں اور ہندوستان جانے، ہمارا رونا مت روئیں اور مگرمچھ کے آنسو نہ بہایا کریں۔ 
میرا خیال ہے پاکستانیوں کو خوش ہونا چاہیے کہ بھارت کے سیکولرازم کا جنازہ نکل رہا ہے۔ بھارتی وہی کر رہے ہیں جو ہم چاہتے تھے۔ وہ سیکولرازم سے جان چھڑا رہے ہیں۔ ہمیں ان انتہا پسندوں کو گاندھی اور نہرو کو غلط ثابت کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی تعریف کر کے ایک شدت پسند ہندو ریاست بنانے میں مدد کرنی چاہیے نہ کہ دن رات مذمت! اب ماشاء اللہ نیوکلیئر بموں سے لیس اور صدیوں کی نفرت سے سرشار مسلمان اور ہندو ریاستیں ایک دوسرے کی ہمسایہ ہوں گی۔ اب خطے میں تاریخی امن قائم ہو گا۔ فتح ہماری ہوئی ہے۔ بھارت ایک شدت پسند ہندو ریاست بن رہا ہے۔ بھارتی سیکولرازم شکست کھا گیا، جو ہم چاہتے تھے۔ سب کو مبارک ہو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں