اٹھارہ برس بعد زرداری صاحب باعزت بری ہوگئے۔ تقریباً ایک سال بعد ایان علی کو پاسپورٹ مل گیا ۔
اب سوچ رہا ہوں‘ برطانوی حکومت کی تصدیق شدہ ان سرکاری دستاویزات کا اچار ڈالوں جو گیلانی دور کی وزیر عاصمہ ارباب اور ان کے شوہر ارباب عالمگیر کی لندن میں چینی کمپنی سے پچیس لاکھ ڈالرز کمیشن سے خریدے گئے چار فلیٹس کے بارے میں ہیں۔ کیا کرنا ہے ان دستاویزات کا‘ اگر ایک دن نیب کے کسی افسر نے کھڑے ہوکر عدالت میں یہ بیان دینا ہے کہ جناب اصل دستاویزات تو غائب ہیں... اور پھر ثبوت نہ ملنے کی بنا پر عدالت باعزت بری کر دے۔
اب عاصمہ ارباب صاحبہ کے فلیٹس کی دستاویزات سنبھالے بیٹھا حیران ہورہا ہوںکہ کیسے لکھا جائے اور کیا لکھا جائے۔ کچھ دوستوں کا اصرار ہے کہ اب میں کرپشن پر لکھنا بند کردوں‘ ہلکے پھلکے موضوعات پر لکھا کروں۔ ماضی کی کہانیاں لکھا کروں۔ انہیں میرا ''میرا ملتان لوٹا دو‘‘ کالم پسند آیا ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ اس طرح کے کالم لکھا کروں۔ ایسے کالم جن سے ان کا کچھ نہیں بگڑتا‘ بلکہ انہیں میرے ان کالموں سے اپنے ماضی کو یاد کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہر ایک کا اپنا ماضی ہے‘اپنی اپنی کہانی ہے۔
ایک بات اور سن لیں۔ پچھلے ہفتے دوستوں کے ساتھ کراچی میں تھا۔ عامر متین، کاشف عباسی، ارشد شریف، عماد یوسف، سمیع ابراہیم‘ سب سلمان اقبال صاحب کے گھر ڈنر پر مدعو تھے۔ وہیں اتفاقاً ایک بڑے آدمی سے ملاقات ہوگئی‘ جو کراچی کے معاملات دیکھتے ہیں۔ کراچی کی گندگی دیکھ کر مزاج پہلے ہی خراب تھا۔ سوچا‘اس شہر کو کیسے برباد کر دیا گیا ہے۔کراچی پر خاصی دیر بات ہوتی رہی۔ میں ڈاکٹر عاصم حسین کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ وہ صاحب بولے: ''پہلے پانچ دن تو ڈاکٹر عاصم نے ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دی۔ کسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ رینجرز پر رعب ڈالنے کے لیے مسلسل انگریزی میں گفتگو کرتے رہے۔ جب انہیں یقین ہوگیا اب دال نہیں گلے گی تو سب کچھ اگل دیا۔ ایسا اگلا کہ سن کر گھن آرہی تھی۔ کون سی بربادی کی کہانی ڈاکٹر عاصم نے نہیں لکھی‘‘۔ میں نے کہا: ''ہم سنتے رہتے ہیں‘کراچی کے پیپلز پارٹی کے ایک صوبائی وزیر کے گھر کی بیسمنٹ سے ایک ارب روپے کیش ملا تھا۔ کیا یہ سچ ہے؟ ایک لانچ بھی پکڑی گئی تھی جس میں اربوں روپے دبئی بھیجے جارہے تھے؟‘‘ وہ صاحب بولے:''بالکل یہ بات درست ہے‘ ان کی بیسمنٹ سے ایک ارب روپے کا کیش بھی ملا تھا‘‘۔
ہم سب نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ جس کی بیسمنٹ سے ایک ارب روپے ملے ہوں‘ وہ اب دبئی بیٹھا ہوا ہے ‘ ٹی وی پر انٹرویوز دیتا ہے۔ کراچی کے ہر اہم اجلاس میں شریک بھی ہوتا تھا۔ اب کل خبر چلی کہ شرجیل میمن کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہ کیسا آپریشن ہے کہ ایک ارب روپے کیش ملتا ہے اور پھر بھی بحفاظت کراچی ایئرپورٹ ڈراپ کیا جاتا ہے۔ تو کیا یہ احتساب کے نام پر سب ڈرامہ ہے جو ہم ملاحظہ فرما رہے ہیں‘ جیسے مشرف دور میں ہوا تھا ؟ ایک سال ہونے کو ہے اب تک کسی ٹارگٹ کلر کو سزا نہیں ملی۔ اگر سب کو پکڑ کر محض نوے دن کے لیے اپنا سرکاری مہمان رکھنا ہے تواس کارروائی کا کوئی فائدہ نہیں۔
اب ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف ایک اور ایف آئی آر کاٹی گئی ہے‘ جس میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے نام ہیں‘ جو اپنی اپنی پارٹیوں کے دہشت گردوں کا علاج عاصم حسین کے ہسپتال سے کراتے تھے۔ زرداری صاحب کے باعزت بری ہونے سے یاد آیا‘ جب نواز شریف دوسری دفعہ وزیراعظم بنے ‘تو انہیں سیف الرحمن نے کہا تھا: ''اگر انہیں تیس کروڑ روپے دیے جائیں تو وہ دنیا بھر میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے زرداری اور بینظیر بھٹو کی خفیہ جائیدادوں کی دستاویزات ڈھونڈ لائیں گے۔ وزارت خزانہ کو ہدایت دی گئی کہ وہ تیس کروڑ روپے کی خفیہ گرانٹ سیکرٹ ایجنسی آئی بی کو ریلیز کرے۔ آئی بی کو کہا گیا کہ وہ یہ تیس کروڑ روپے کا سیکرٹ فنڈ سیف الرحمن کے حوالے کر دیں۔ ا ٓئی بی کے ذریعے ادائیگی کا مقصد یہ تھا کہ ان تیس کروڑ روپوں کا کل کلاں آڈٹ نہ ہو۔ (برسوں بعد وزیرداخلہ رحمن ملک نے بھی سیکرٹ فنڈ کے چالیس کروڑ روپے اسی طرح آئی بی سے وصول کیے اور اکیلے کھا گئے۔ ملتانی وزیراعظم کو پتہ بھی نہ چلنے دیا ) ۔
سیف الرحمن نے وہ تیس کروڑ روپے دنیا بھر میں اپنے جاسوسوں اور وکیلوں کو دیے ‘ جنہوں نے زرداری اور بینظیر بھٹو کی کرپشن کی دستاویزات کی بھرمار کر دی ۔ اس اثنا میں نواز شریف صاحب کو پتہ چلا کہ سوئس حکومت نے خود ہی منی لانڈرنگ پر میاں بیوی پر مقدمات چلائے ہیں۔ فوراً اس وقت کے اٹارنی جنرل محمد فاروق کو کہا گیا کہ وہ خط لکھیں کہ جناب یہ ساٹھ ملین ڈالرز پاکستان سے لوٹ کر لے گئے تھے‘ لہٰذا ہمیں واپس کیے جائیں۔ بینظیر اور زرداری مقدمات بھگتتے رہے۔ انہیں وہاں سزا تک ہوگئی۔
اللہ بھلا کرے ہمارے جنرل مشرف کا‘ جنہیں کرپشن اور کرپٹ سیاستدان راس آگئے تھے۔ وہ بھی اسی رنگ میں رنگ گئے۔ کون سا ان کی جیب سے جارہا تھا۔ جنرل کیانی کو لندن بھیجا گیا کہ گارنٹی دے کر بینظیر بھٹو کو واپس لائو۔ اور پھر این آر او ہوا تو جنرل کیانی ضامن بنے۔ سب نے کچھ نہ کچھ حصہ اس ڈیل میں سے لیا۔ انصاف ملاحظہ فرمائیں۔ جسے سپریم کورٹ نے شہباز شریف اور سیف الرحمن کی گفتگو کی ٹیپ سامنے لانے پر برطرف کیا تھا‘ اسے جنرل مشرف نے اپنا اٹارنی جنرل لگایا اور اس نے سوئس کو خط لکھا کہ ہم نے این آر او کے تحت زرداری پر مقدمات بند کر دیے ہیںلہٰذا آپ بھی ساٹھ ملین ڈالرز کا مقدمہ بند کر دیں۔ ایک دن ہم نے دیکھا پاکستان کے لندن میں برطانوی شہری واجد شمس الحسن کو جنیوا میں اس وقت ایک ٹی وی رپورٹر مرتضیٰ علی شاہ نے کیمرے پر پکڑ لیا‘ جب وہ جیمز بانڈ بن کر سوئس مقدمات کی فائلیں چرا رہے تھے۔ آج نیب نے عدالت کو بتایا ہے جناب ہمارے پاس زرداری کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔فائلیں گم ہوگئی ہیں۔
ایک اور کہانی سن لیں۔ ایک ٹی وی شو میں گیلانی دور کی وزیر عاصمہ ارباب عالمگیر نے مجھے چیلنج کیا کہ اگر ان کی لندن میں کوئی جائیداد نکل آئی تو وہ میری ہوئی۔ میں نے لندن میں ان کے چار فلیٹس ڈھونڈ نکالے۔ میرے پاس وہ سب ثبوت بھی موجود ہیں کہ کیسے 2012ء میں ایک کمپنی نے عاصمہ ارباب کے دبئی کے ایک بینک اکاونٹ میں پچیس لاکھ ڈالرز جمع کرائے۔ یہ پیسے مبینہ طور پر ان کے شوہر ارباب عالمگیر کی مہربانیوں کی وجہ سے ملے تھے ‘جو اس وقت وزیر مواصلات تھے۔ بعض کمپنیوں کو ٹھیکے مل رہے تھے اور ان ٹھیکوں میں سے تگڑا مال بھی مل رہا تھا۔ دو ماہ بعد عاصمہ ارباب نے لندن میں عاصمہ ارباب کے نام سے اپنی کمپنی رجسٹرڈ کرائی جو بعد میں ختم کر دی گئی۔ اس دوران جنوری 2013ء میں ڈھائی لاکھ پونڈ کا ایک فلیٹ خریدا گیا اور پھر لندن کی ایک ہی عمارت میں کل چار فلیٹس خریدے گئے۔ لندن میں یہ کروڑوں کے فلیٹس ان پچیس لاکھ ڈالرز سے خریدے گئے۔ اب پتہ چلا ہے عاصمہ ارباب نے اپنی وزارت کے دنوں میں 180 بیرون ملک کے دورے کیے۔ تو اتنی دولت کہاں سے آئی۔ یہ کہنے سے بات نہیں بنتی کہ میرے سسرال ہی کھرب پتی تھے۔ ان کھرب پتیوں کے ٹیکس ریٹرن دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ بے چارے تو اپنے آپ کو مقروض دکھا رہے تھے۔
یہ تھے ہمارے لیڈرز، ہمارے وزیر۔ جن کے نزدیک کردار، ایمانداری اور اس ملک سے محبت سب کچھ بیکار کام تھا۔ ان کا سب کچھ بے ایمانی اور کرپشن تھی۔ جس ملک نے انہیں عزت دی اسے ہی لوٹ کر کھا گئے۔ اپنے بچوں کو لندن اور دبئی میں جائیدادیں خرید کر دیں۔ یہ پچیس لاکھ ڈالرز کا کمیشن پاکستانیوں کی جیب سے ادا کیا گیا تھا۔ یہ ہے ہمارے جمہوریت پسند اور ان کے طبلچی جبکہ ہم دن رات ان کا دفاع کرتے ہیں۔ انہیں ٹاک شوز میں مدعو کر کے ان سے ملک کے مسائل کا حل پوچھتے ہیں ۔ بڑادل چاہتا ہے اپنے دوست ایک سے درخواست کروں کہ وہ اب بھی لندن اور دبئی جا کر ایک دن ان لوگوں کے ساتھ گزاریں‘ جیسے اس وقت گزارا تھا‘ جب وہ پاکستان میں تھے۔ لوگوں کو ان کی جائیدادیں دکھائیں، بتائیں پیپلز پارٹی جیسی''مظلوم پارٹی‘‘ کے جمہوریت پسند اب لندن دبئی میں اپنا دن کیسے گزارتے ہیں۔
کسی دن آپ وقت نکال کر ان لوگوں کے پاکستانی ٹی وی شوز دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے کہ ہزاروں گھنٹے میرے جیسے اینکرز ان معززین سے پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے طریقے پوچھتے تھے۔ ان دونوں کی منت ترلے کر کے انہیں ٹی وی شوز پر لایا جاتا تھا ۔ آج لندن میں چار فلیٹس کی مالکن لندن تو کراچی کے نرالے شہزادے دبئی میں بیٹھ کر عیاشی کرتے اور ہم اینکرز، ہمارے پروڈیوسرز اور انہیں غور سے ٹی وی پر دیکھتے سنتے لاکھوں عوام پر قہقہے لگاتے ہوں گے کہ وہ ایک طرف چاروں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے تو دوسری طرف ہم سب کو اس ملک کو کرپشن فری بنانے کے طریقے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے گر بھی سکھا رہے تھے!
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں