"RKC" (space) message & send to 7575

پاک چین کوریڈور: سرائیکی علاقوں سے ناانصافی

اپنے دوست کاشف عباسی کے پروگرام میں سینیٹر نہال ہاشمی کو دیکھ کر میں نے کہا، آپ کو پتا ہے آپ کس علاقے کے کوٹے سے سینیٹر بنے ہیں؟ میرا اشارہ ان تین سینیٹرز کی طرف تھا جنہیں کراچی سے لا کر پنجاب اسمبلی سے سینیٹر بنایا گیا... مشاہداللہ خان، سلیم ضیا اور نہال ہاشمی۔ کراچی اور لاہور والوں کی قسمت نرالی ہے۔ نواز لیگ کے تین لیڈروں کو کراچی سے لا کر پنجاب سے سینیٹر بنایا گیا‘ تو لاہور شہر کی 34 خواتین کو خصوصی سیٹوں پر ایم پی اے بنا دیا گیا۔ کسی کونے سے آواز نہیں اٹھی۔ لاہور کے میڈیا کے نزدیک لاہور شہر سے 34 خواتین کو ایم پی اے بنانا ملک کی وحدت کے لیے ضروری تھا۔
میں نے نہال ہاشمی سے کہا، سر جی! آپ جنوبی پنجاب کے کوٹے سے سینیٹر بنے ہیں، آپ تھوڑی سی اداکاری کر کے ہمارے علاقے کے حقوق کی بات کر لیا کریں۔ بولے، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میں جنوبی پنجاب سے نہیں بلکہ شمالی پنجاب کے ضلع جہلم سے سینیٹر ہوں۔ مجھے یاد آیا‘ جہلم میں ایک بھی کام کا بندہ نہ تھا‘ جو سینیٹر بن سکتا‘ لہٰذا کراچی سے انہیں (نہال ہاشمی) لانا پڑا تاکہ جہلم کے حقوق کی آواز اٹھائیں۔ 
میں نے کہا، چلیں جہلم بھی ہمیں اتنا ہی پیارا ہے۔ آپ جہلم اور پوٹھوہار کی دھرتی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بات کر لیا کریں، پوٹھوہار کا خوبصورت خطہ بھی سرائیکی علاقے کی طرح پس ماندہ ہے۔ پوٹھوہار کو بھی ترقی کی ضرورت ہے۔ یہاں کے لیڈر بھی ہمارے سرائیکی لیڈروں کی طرح اپنی قیمت وصول کرکے اپنے ہی لوگوں کو پس ماندہ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ نہال ہاشمی بولے، آپ کو اور کیا چاہیے، دیکھیں ناں اس بار گورنر رفیق رجوانہ ملتان سے ہیں، اب آپ کے سارے مسائل حل ہو گئے ہیں، شکایت کس بات کی؟
میں ہنس کر ٹال گیا کیونکہ نہال ہاشمی اچھے سیاسی ورکر ہیں، مزید بحث نہیں کی۔ میں نہال ہاشمی کوکیا بتاتا کہ رفیق رجوانہ جب سینیٹر بنے تو انہیں پیپلز پارٹی دور میں وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے ایک کروڑ روپے کا ترقیاتی فنڈ دیا تھا۔ انہوں نے اگلے روز وہ کروڑ روپے میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدرکو مانسہرہ شفٹ کر دیے کہ انہیں زیادہ ضرورت ہے، ملتان تو کب کا پیرس بن چکا! ان کی دیکھا دیکھی سینیٹر چوہدری جعفر اقبال گجر نے بھی اپنے کروڑ روپے کیپٹن صفدر کو عطیہ کر دیے، بہاولپور سے بھی دو خواتین ایم پی ایز نے اپنے دو کروڑ روپے کے فنڈز کیپٹن صفدر کو بھیج دیے۔ بعد میں اسحاق ڈار، پرویز رشید، ظفر علی شاہ نے بھی اپنے اپنے ترقیاتی فنڈ مانسہرہ کو دے دیے۔ سندھ سے پیپلز پارٹی کے ایک مرد اور ایک خاتون ایم این اے کے علاوہ چکوال سے پیپلز پارٹی کی ایک خاتون ایم این اے‘ سمجھدار نکلے کہ انہوں نے لکی مروت میں بوگس واٹر سکیموں کے نام پر ٹھیکداروں کو وہ فنڈز بیچ دیے... ایک کروڑ روپے پر بیس لاکھ روپے نقد وصول کیے۔ وہ آج کل ہر ٹی وی چینل پر سندھ اور ڈاکٹر عاصم حسین کا مقدمہ لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب فنڈ بیچے سندھ کی محبت یاد نہ رہی‘ لیکن آج کل سندھ حکومت میں عہدہ ملنے پر سندھ کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ 
کیا گورنر رجوانہ میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ سرائیکی علاقے کا مقدمہ لڑ سکیں؟ نواز شریف اور شہباز شریف نے ماضی سے شاید اور کچھ نہ سیکھا ہو لیکن یہ سیکھ لیا ہے کہ کس بڑے عہدے پر کس بے ضرر اور معصوم انسان کو بٹھانا ہے جو ساری عمر شکرگزاری اور تابع داری میں مصروف رہے، ان کے نام کی تسبیح کرتا رہے۔۔۔۔ چاہے وہ صدر ممنون حسین ہوں یا گورنر رفیق رجوانہ! مجال ہے آنکھ اٹھا کر نواز شریف یا شہباز شریف کو دیکھ سکیں، ہمیشہ دونوں کی نظریں جھکی ہوئی ملیں گی!
سرائیکی علاقوں کی بدقسمتی کہ ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں بھیجا، مجال ہے کہ ان میں سے کوئی بولنے کی جرأت کرتا ہو۔ کئی ایم این ایز تین تین دفعہ منتخب ہو کر اسلام آباد آئے‘ لیکن میڈیا نے شاید ان کا نام تک نہ سنا ہو گا کیونکہ وہ ہائوس میں بولتے تک نہیں۔ اتنے خوفزدہ ہیں کہ بندہ حیرت زدہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ جو اپنے علاقوں میں خوف اور دہشت کی علامت سمجھے جاتے ہیں، قومی اسمبلی کی راہداریوں میں خوفزدہ ہرنی کی طرح چھپتے پھرتے ہیں۔
پچھلے ہفتے میں قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھا تھا۔ ملتان کے ایم این اے عامر ڈوگر کھڑے ہوئے۔ میں خوش ہوا، وہ جنوبی پنجاب کے اہم معاملات پر رولا ڈالے گا۔ ڈوگر نے شکایت کی کہ پارلیمنٹ لاجز میںکچھ غیرقانونی لوگوں نے ملازمین کے کمروں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ سپیکر ایاز صادق نے عامر ڈوگر کوگھورا اور سختی سے ڈانٹ کر کہا: بیٹھ جائو۔ عامر ڈوگر فوراً خوفزدہ ہوکر بیٹھ گیا۔ صلاح الدین ڈوگر کا برخوردار اس قدر خوفزدہ!۔۔۔اللہ اللہ!! میں حیران ہو کر دیکھتا رہا۔ ملتان میں اس کی دہشت سے میں واقف ہوں۔ اگر ملتان میں اس کے ساتھ کوئی ایسی جرأت کرتا تو پتا نہیں اس کے ساتھ کیا ہوتا۔ جمشید دستی نے کھڑے ہوکر بات کرنے کی کوشش کی‘ تو ایاز صادق نے بولنے نہیں دیا۔ ان دونوںکے بعد پنڈی سے سرور خان صاحب کھڑے ہوئے۔ سپیکر نے انہیں روکنے کی جرأت تک نہ کی اور انہوں نے چوہدری نثار علی خان کی ایسی تیسی کر کے رکھ دی۔ 
یہ ہے جنوبی پنجاب اور اس کے ایم این ایز کی اوقات! سنٹرل پنجاب سے کوئی ایم این اے کھڑا ہو جائے تو ایاز صادق صاحب کی جرأت نہیں ہوتی کہ انہیں انکار کرے یا انہیں ڈانٹ دے۔ جنوب سے پچاس ایم این اے ہائوس میں بیٹھے ہیں، مجال ہے کسی میں دم ہو، تڑ ہو‘ سب خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ چین پاکستان کوریڈرو میں کیا کیا ڈیل ہوئی... مجھے اپنے مرحوم دوست ڈاکٹر شیر افگن کے بیٹے ایم این اے امجد خان سے کچھ توقع تھی مگر وہ بھی روایتی سرائیکی نکلا، اپنے علاقے کے ساتھ ہونے والے برے سلوک پر کوئی آواز نہ اٹھا سکا۔ امجد خان کسی دن اسمبلی لائبریری سے اپنے والد کی تقریریں نکلوا کر سن لے کہ شیر افگن اکیلا کیسے پورے ہائوس پر بھاری پڑتا تھا۔ ہمارے دوست حفیظ اللہ نیازی کا قلم بھی خاموش ہے۔
اصل روٹ بنتا تھا ڈیرہ اسمٰعیل خان، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور پھر بلوچستان۔ اسلام آباد میں بیٹھے وارداتیوں کے کمال دیکھیں کہ اس روٹ کو ڈیرہ اسمٰعیل خان سے میانوالی لے جانے کے بجائے اسے فتح جھنگ کی طرف موڑ دیا اور یہاں سے یہ لاہور تشریف لے جائے گا۔ وہاں سے فیصل آباد اور پھر گھومتا پھرتا، ناچتا، رقص کرتا ملتان جائے گا اور وہاں سے سندھ۔ اسلام آباد ـ لاہور، فیصل آباد ـ ملتان تو پہلے موٹروے بن چکا۔ وہاں اس کوریڈروکی کیا ضرورت تھی؟ 
کسی کو خیال نہیں آیا کہ میانوالی، لیہ، بھکر، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ اس روٹ کے لیے بہترین انتخاب تھا۔ ان علاقوں میں غربت عروج پر ہے۔ ان علاقوں کو انفراسٹرکچر، صنعتی ترقی کی ضرورت ہے۔ غربت بڑھنے سے مدارس بڑھ رہے ہیں۔ میانوالی ـ ملتان روڈ پر سفر کر کے دیکھیں تو پتا چل جائے گا۔ پولیس پٹرولنگ، میڈیکل سہولت کچھ بھی نہیں۔ لوگ مر رہے ہیں، روزانہ حادثے ہوتے ہیں۔ تلہ گنگ سے میانوالی تک روڈ کی حالت دیکھ لیں۔ اسی روڈ پر امجد خان، مولانا فضل الرحمان کے علاوہ لیہ اور بھکر کے ایم این اے سفر کرتے ہیں، کسی کو احساس نہیں، سب گونگے بہرے بن کر بیٹھے ہیں۔ امجد خان چپ رہا، بھکر کے ایم این اے چپ، لیہ کا صاحبزادہ سواگ بھی چپ، لیہ کا پیر ثقلین بخاری خاموش، کوٹ ادو کا سلطان ہنجرا بھی چپ، ڈیرہ غازی خان کا اویس لغاری، امجد کھوسہ سب چپ! کسی کے پاس زبان نہیں رہی کہ وہ رولا ڈالے کہ اصل روٹ کیا بنتا ہے! گویا میانوالی سے ڈیرہ غازی خان تک پانچ چھ سو کلومیٹر کی طویل پٹی پس ماندہ ہے اور رہے گی۔ 
اختر مینگل نے اسلام آباد میں شوکر لیا۔ پرویز خٹک نے بھی رولا ڈال کر بات منوا لی۔ نواز شریف اور احسن اقبال نے کوریڈور کو لاہور، فیصل آباد کی سیر کرا کے ملتان بھجوا دیا‘ لیکن مجال ہے کسی کو خیال آیا ہو کہ میانوالی، لیہ، بھکر، ڈیرہ غازی خان، مظفرگڑھ، راجن پور جو سب سے پسماندہ علاقے ہیں، وہاں سے یہ کیوں نہیں گزرے گی؟ ہم بات کریں تو جواب ملتا ہے آپ کے لیڈر بات نہیں کرتے۔ اگر لغاری، کھوسے، قریشی، گیلانی، پیر، نیازی سب خاموش ہیں تو نواز شریف اور شہباز شریف کو یہ حق ہے کہ وہ ان علاقوں کی ترقی کے بارے میں بات نہ کریں؟ لیکن کیا وہ صرف لاہور کے وزیر اعظم ہیں؟ کیا احسن اقبال کے ذمے سنٹرل پنجاب کی منصوبہ بندی کا کام ہے؟ کیا سرائیکی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی پلاننگ ڈویژن کا منڈیٹ نہیں ہے؟ اگر پچاس ایم این ایز گونگے ہیں تو کیا پلاننگ ڈویژن بھی گونگا ہے؟ احسن اقبال نے کوریڈور میں میانوالی اور مذکورہ چھ اضلاع کو کیسے نظرانداز کیا؟ روٹ ڈیرہ اسمٰعیل خان سے فتح جنگ آسکتا ہے تو وہ سیدھا میانوالی، لیہ، بھکر، ڈیرہ غازی خان کیوں نہیں جا سکتا جو سیدھا روٹ بنتا ہے؟ آپ کوریڈور فتح جنگ ضرور لائیں کہ ان علاقوں کو بھی ترقی کی ضرورت ہے، لیکن آپ سیدھا روٹ بھی رکھتے جو دریائے سندھ کے کنارے بسنے والے لوگوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔ 
عمران خان ہوں یا شاہ محمود قریشی یا پھر امجد خان، کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ ان سب کو سرائیکی علاقوں سے ووٹوں کی ضرورت ہے۔ مفادات کا خیال کرنا ہو تو پھر ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ ایم این ایز نے اس طویل پٹی اور سندھ کے کنارے چھ اضلاع کے سرائیکیوں کی نسلوں کو اس ترقی سے محروم رکھا ہے جو ان کی معاشی ترقی کے لیے ضروری تھی۔
چین پاک کوریڈر پر اصل روٹ کو نظرانداز کرنے پر روا رکھی گئی خاموشی وہ جرم ہے جس پر تاریخ میانوالی، بھکر، لیہ، کوٹ ادو، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے بنائے گئے ایم این ایز کو کبھی نہیں بخشے گی۔ تاریخ دان لکھے گا کہ جب اسلام آباد میں بلوچ، پشتون، سندھی اور سنٹرل پنجاب کے لیڈر کوریڈور کی بندر بانٹ کر رہے تھے تو سرائیکی علاقوں کے روایتی سست پچاس ایم این ایز اور سو سے زائد ایم پی ایز لسی کے بڑے بڑے مٹکے پی کر اسلام آباد اور لاہورکی اسمبلیوںکے سرسبز لان میں سردیوں کی دھوپ میں رضائیاں اوڑھ کر قیلولہ فرما رہے تھے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں