"RKC" (space) message & send to 7575

محمود اچکزئی سے ایک تقریر کی فرمائش

وزیر اعظم میاں نواز شریف پاکستان کئی روز بعد واپس لوٹے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں ملک پر ایک اور قیامت گزر گئی، لیکن انہوں نے ایک مذمتی بیان جاری کر کے جان چھڑا لی۔ سوئٹزرلینڈ سے سیدھے لندن جا اترے۔ وطن لوٹنے کے بعد اب تک چارسدہ نہیں گئے۔ سوئٹزرلینڈ سے لندن تو چلے گئے لیکن اسلام آباد سے چارسدہ اتنی دور ہے کہ اب تک ان کا جانا نہیں ہوا۔ لاہور میں ان کے چھوٹے بھائی کی اچھی عادت ہے کہ کسی کے گھر کی دیوار بھی گر جائے تو افسوس کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور سرکاری خزانے سے کچھ روپے نکال کر روتے بچوں کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں جبکہ بڑا بھائی بیس بچوں کے مارے جانے پر بھی وقت نہیں نکال سکا کہ والدین کے آنسو ہی پونچھ لیتے۔ 
مجھے یاد پڑتا ہے کہ لندن میں وہ بے چین رہتے تھے۔ ہمارے ڈان کے سینیٔر ضیاء الدین، ارشد شریف، مَیں اور دیگر پاکستانی صحافی خبر کی تلاش میں ڈیوک سٹریٹ پہنچ جاتے کیونکہ ان دنوں بینظیر بھٹو اور نواز شریف جنرل مشرف کے خلاف مشترکہ جدوجہد کر رہے تھے، اس لیے خبروں کا مرکز پاکستان نہیں بلکہ لندن ہو گیا تھا۔ 
نواز شریف ہر وقت چہرے پر اداسی پھیلائے رکھتے۔ انہیں پاکستان کی یاد ستاتی تھی۔ پاکستان سے کوئی اچھی خبر نہ آتی تو فوراً فخریہ انداز میں فرماتے کہ اگر آج وہ پاکستان میں ہوتے تو آپ لوگ دیکھتے رنگ کتنا مختلف ہوتا۔ وہ ہوتے تو یہ تو نہ ہوتا، وہ ہوتا! میرا اور ارشد شریف کا نواز شریف سے یہ پہلا براہ راست ٹاکرا تھا، اس لیے ہمیں سیاستدانوں کی چالاکیوں اور سیاسی ہتھکنڈوں کا اتنا علم نہ تھا۔ ہم یہی سمجھتے تھے وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں واقعی ان کا یہی مطلب تھا۔ وہ واقعی اس ملک کے دکھ اور درد میں شریک ہونا چاہتے تھے، لیکن جنرل مشرف انہیں اجازت نہیں دے رہا۔ برسوں بعد ایک دن نواز شریف کے لندن میں ترجمان سے کوہسار مارکیٹ میں ملاقات ہوئی، وہ قابل آدمی ہیں اس لیے ان کی آج تک عزت کرتا ہوں۔ چلیں انہیں بھی ڈھائی سال بعد ایک ملک کا سفیر لگا دیا گیا ہے۔ وہ اس عہدے کے مستحق بھی ہیں۔ وہ کہنے لگے آپ ہمارے خلاف کیوں اتنا لکھتے ہیں۔ میں نے جواب دیا، جان بوجھ کر نہیں لکھتا۔ کوئی پاگل ہی بڑے بڑے لوگوں کو اپنا دشمن بنا کر جینا چاہے گا۔ بہت کم لوگ یہ بات سمجھتے ہیں کہ جو حکمران ہو گا اس کے بارے میں ہی لکھا جائے گا۔ آپ اپوزیشن کو کیسے تیل کی قیمتیں کم نہ کرنے کا الزام دے سکتے ہیں؟ صاف ظاہر ہے، وزیر اعظم اور ان کی کابینہ پر ہی بات ہو گی کیونکہ سارے فیصلے وہ خود کرتے ہیں۔ میں نے کہا: ویسے ایک بات بتائیں، جو کچھ لندن میں میاں صاحب کہتے تھے وہ سب دعوے کہاں گئے؟ وہ تو کہتے تھے جس جس نے جنرل مشرف سے ہاتھ بھی ملا لیا ہے اس سے بات نہیں ہو گی اور وہی آج ان کے وزیر اور مشیر ہیں۔ میں نے لندن کے دنوں کی کچھ اور باتیں یاد دلائیں تو ہنس پڑے اور بولے، بھولے بادشاہو یہ سب چلتا ہے۔ اپوزیشن کے دنوں میں یہ باتیں کہنا پڑتی ہیں۔ زمینی حقائق کچھ اور ہوتے ہیں۔ میں حیرت سے یہ سنتا رہا کہ 'یار سب چلتا ہے‘۔ 
مجھے پہلی دفعہ سیاست اور سیاستدانوں کا اصلی رنگ دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ ہمارے جیسے لوگ ان کے لیے استعمال ہوتے ہیں؟ انہیں پتا ہوتا ہے کہ وہ ہمیں استعمال کر رہے ہیں؟ اچھی اچھی باتیں، اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کی قسمیں، اصولی سیاست، جمہوریت کا درد... لیکن سب کچھ فراڈ ہوتا ہے! طاقت ملتے ہی وہی کچھ ہوتا ہے جو کیا جانا چاہیے۔ 
آج وہی لوگ نواز شریف کا دفاع کرتے ہیں جو جنرل مشرف کی ٹیم کا حصہ تھے؛ تاہم بات کچھ آگے بڑھ گئی ہے۔ اب وزیر اعظم ہائوس میں باقاعدہ ایک سیل قائم کیا گیا ہے جس کا کام میڈیا کے معاملات کو دیکھنا ہے۔ ایک سمری وزیر اعظم نے منظور کی جس کے تحت بھرتیاں کی گئیں۔ ایک منور سعید صاحب لاہور سے لائے گئے ہیں۔ ایک سابق ٹی وی پروڈیوسر کو بھی اس سیل میں اہم عہدہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹر کے اکائونٹس بنا لیے ہیں، ان کا کام یہی ہے کہ جو حکومت کی کارکردگی پر تقنید کرتے ہیں‘ وہ ان کے بارے میں نازیبا کلمات کہیں۔ کبھی یہ کام اکیلی تحریک انصاف کرتی تھی، اب اللہ کے فضل سے ہر جماعت یہی کام کرتی ہے۔ انہیں سمجھ آ گئی ہے کہ گالیاں دے کر ہی حکومتی کارگردگی کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ کبھی مسلم لیگ نواز کے حامی صحافی اور کالم نگار یہ شکایت کرتے تھے کہ تحریک انصاف کے نوجوان انہیں گالیاں دیتے ہیں۔ اب اللہ کے فضل سے یہ کام حکومت خود کراتی ہے اور جو اس کام کی نگرانی پر مامور ہیں ان کا نام بتا دوں تو شاید یہ کالم ہی نہ چھپے۔ جب خود شاہی خاندان کا ایک فرد ناشتے کی میز پر بیٹھ کر تالیاں بجوائے گا کہ کل رات فلاں حکومتی ایم این اے اور ترجمان نے اپنے مخالفوں کی بولتی بند کر دی اور کتنی سخت زبان استعمال کی، اس کے بعد کیا باقی رہ جاتا ہے۔ باقی پارٹیاں اپنی جیب سے خرچ کر کے گالیاں دیتی ہیں، لیکن یہاں لوگوں کے ٹیکسوں سے پیسہ نکال کر گالیاں دی جاتی ہیں۔
دوسری طرف اسلام آباد میں مزے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ چوہدری نثار علی خان ایک دفعہ پھر میدان میں کود پڑے ہیں اور اس دفعہ ان کا ہدف اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ہیں۔ شاہ جی کے بارے میں فرمایا ہے کہ ان کا حکومت سے مک مکا چل رہا ہے اور وہ غلط کام کراتے رہے ہیں۔ ان کے پاس خورشید شاہ کی کرپشن کے ثبوت ہیں اور وہ یہ ثابت بھی کر سکتے ہیں۔ ویسے اس ملک میں کیا کیا کمال ہوتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کچھ عرصہ قبل رحمن ملک کے بارے میں بھی ایک پریس کانفرنس کر کے ارشاد کیا تھا کہ ان کے دور کے اتنے سکینڈل ہیں کہ اگر بتا دیے تو قیامت آ جائے گی۔ پھر تلوں میں تیل نہ رہا۔ اب کہتے ہیں کہ رحمن ملک کو بھول جائیں، خورشید شاہ کی کرپشن کے بارے میں بتانا شروع کیا تو لوگوں کو دن میں تارے نظر آجائیںگے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وزیر داخلہ یہ فرماتے ہیں کہ ان کے پاس اپوزیشن لیڈر کی کرپشن کے ثبوت ہیں تو پھر ایف آئی اے کیا کر رہی ہے؟ کیا ایف آئی اے انتظار کرے گی کہ کب چوہدری نثار علی خان یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آج خورشید شاہ کو فکس کرنا ہے تو وہ کریں گے؟ دوسری بات یہ ہے کہ خورشید شاہ کے ناجائز اور غلط کام کون کر رہا تھا؟ اگر وزیر اعظم آفس کر رہا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کا وزیر اعظم ہی اپنی اپوزیشن کو کرپٹ کرتا ہے۔ اسے بلیک میل کرتا ہے تاکہ خاموش رہے اور وہ اپنی مرضی سے حکمرانی کرتے رہیں۔ اگر ملک کا وزیر اعظم بقول وزیر داخلہ مک مکا کر رہا ہے تو پھر کیا بچ جاتا ہے۔ 
مجھے محمود اچکزئی کی ایک تقریر یاد آتی ہے جو کبھی جوانی کے دنوں میں، جب وہ اقتدار سے نفرت کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کی دنیا میں واحد ایجنیساں ہیں جو اپنے سیاستدانوں کو کرپٹ کرتی ہیں اور پھر انہیں بلیک میل کرتی ہیں۔ ماشاء اللہ جمہوریت مضبوط ہو گئی ہے۔ جو کام کبھی سیکرٹ ایجنسیاں کرتی تھیں یہ نیک کام اب جمہوری انداز میں منتخب وزیر اعظم کا دفتر خود کرتا ہے۔ پاکستانی جمہوریت اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی ہے۔ اپوزیشن لیڈر کو کرپٹ کرنا، اپوزیشن سے خفیہ مک مکا کرنا اور پھر سرعام اپنے وزیر داخلہ سے اسے بلیک میل کرانا ان جمہوری فوائد میں سے ایک ہے۔
اب سیکرٹ ایجنسیوں کی ضرورت نہیں رہی کہ وہ سیاستدانوں کو کرپٹ اور بلیک میل کریں۔ خود کفیل ہونا اسی چیز کا نام ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں