پی آئی اے کے تین ملازمین کی ہلاکت اور اس کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وزیر پرویز رشید کے غصیلے اور دھمکی آمیز بیانات پر اسلام آباد ایئرپورٹ کا 10ستمبر 2007ء کا وہ منظر یاد آگیا جب اس وقت کے وزیرداخلہ آفتاب شیرپائو کے حکم پر بھیجے گئے کمانڈوز نے نواز شریف کو پکڑ کر طیارے میں ڈالا اور انہیں جدہ بھیج دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کمانڈوز نے نواز شریف کو گھسیٹ کر ایئرپورٹ کے باتھ روم میں بند کر دیا تھا ۔ جب نواز شریف کو گھسیٹا جارہا تھا تو اس وقت پرویز رشید کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ چلا اٹھے، کچھ شرم کرو، یہ شخص تمہارا دو دفعہ وزیراعظم رہا ہے!نادر چوہدری نے دور سے چیخ کر کہا میاں صاحب ''وی لو یو‘‘۔ افضال بھٹی (جو آج مجھے پہچاننے سے انکاری ہے) میرے اوپر چڑھ دوڑا کہ دیکھو تمہارے پاکستان میں سابق وزیراعظم کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے۔ اس سے پہلے برطانیہ کے مشہور وکیل امجد ملک جو خصوصی طور پر لندن سے اس جہاز میں نواز شریف کے ساتھ آئے تھے، وہ دو گھنٹے تک ایئرپورٹ پر نیب اور دیگر اداروں کے اہلکاروں سے الجھتے رہے تھے کہ وہ نواز شریف کو کیسے ایئرپورٹ سے باہر نکلنے سے روک سکتے ہیں ۔بے بسی کے شکار نواز شریف کے منہ سے صرف اتنا نکلا، جو ان کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں وہ یاد رکھیں انہیں خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔تاہم پرویز رشید کو وزارت ملی، میرے دوست نادر چوہدری کو ایک ملک میں سفیر لگا دیا گیا۔افضال بھٹی بھی ماشاء اللہ ایک اچھے عہدے پر نواز شریف کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ وفاداری کا صلہ مل گیا ۔ فیصل آباد کی دھرتی کا سپوت اور دوست امجد ملک بھی کبھی کبھار نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ لندن میں نظرآجاتا ہے۔نواز شریف نے ایئرپورٹ اسلام آباد پر ان کے ساتھ موجود تمام دوستوں کو یاد رکھا۔۔کسی کے آنسو تو کسی کا محبت بھرا ہوائی بوسہ تو کسی کی چیخ پکار!!
نواز شریف بڑے دل کے ہیں یا سمجھ دار، کہ مشکل وقت میں ساتھ دینے والوں کو یاد رکھا اور وزیراعظم بننے کے بعد اُن سے بادشاہوں والا سلوک کیا تھا ۔ انہیں خلعتیں دیں وزارتیں عطا فرمائیں ۔ منہ ہیرے جواہرات سے بھر دیے۔ وہی طارق عظیم جو جنرل مشرف دور میں میڈیا کو نواز شریف کی دس سالہ ڈیل کے ثبوت دکھاتے تھے اور میڈیا کو خبریں لیک کرتے تھے وہ نواز شریف کے اہم ساتھی بن گئے اور کینیڈا میں سفیر لگ چکے ہیں۔ وہی آفتاب شیرپائو ان کے قریبی بن گئے اور دھرنے کے دنوں میں بھی اور اب وزیراعظم ہائوس میں بھی ان سے مشورے ہوتے ہیں کہ عمران خان کو کیسے ڈیل کیا جائے۔مجھے جو سوال ڈنک مار رہا ہے وہ یہ ہے کہ نواز شریف نے سب کو نوازا۔ لیکن وہ پی آئی اے کے ان اہلکاروں کو کیسے بھول گئے جنہوں نے نواز شریف کے لیے وہ کام کیا تھا جو پرویز رشید ، نادر چوہدری بھی نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں کیسے یاد نہ رہا کہ کبھی اسی پی آئی اے کے ملازمین نے ان کے لیے اپنی نوکریوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا جب وہ سیکورٹی فورسز کے گھیرے میں آئے، اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تھے۔
اس سے پہلے جب نواز شریف لندن سے روانہ ہوئے تھے تو انہیں میرے جیسے کچھ خوشامدیوں اور درباریوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ امام خمینی کی طرح پاکستان میں انقلاب لانے جارہے تھے اور پورا پاکستان انہیں لینے کے لیے امڈ آئے گا ۔ انہیں یقین دلایا گیا تھا ان کی پارٹی کے ورکرز اور لیڈرز جانوں پر کھیل کر انہیں ایئرپورٹ سے وصول کرکے پوری شان و شوکت کے ساتھ لاہور اس طرح جلوس میں جائیں گے جیسے افتخار چوہدری گئے تھے۔ میرے جیسے خوشامدی ہر وقت نواز شریف کو یہ باتیں بتا رہے تھے۔ میں، ارشد شریف اور دیگر صحافی بھی اس جہاز میں اپنی اپنی ٹکٹیں لے کر سوار تھے تاکہ کوریج کی جا سکے۔ مجھے اس وقت ہنسی آئی جب ٹی وی اینکر جو ساتھ تھے وہ نواز شریف کے کمانڈوز اور باڈی گارڈز کا کردار ادا کررہے تھے کہ جب جہاز اسلام آباد پر اترے گا تو پھر کیا ہوگا ۔ پولیس کمانڈوز کس طرح اندر داخل ہوں گے، کہاں سے جھپٹیں گے۔ اس اینکرز کی میاں صاحب کی ٹیم کو دی گئی ہدایات نہیں بھولتیں کہ کیسے کمانڈوز کا مقابلہ کرنا ہے۔ جہاز میں نعرے لگ رہے تھے۔ تاہم نواز شریف کے چہرے پر سنجیدگی اور پریشانی اس وقت بڑھ گئی جب انہوںنے سیٹیلائٹ فون سے اپنے قریبی سیاسی ساتھیوں کو فون کرنے شروع کیے تو وہ سب بند ملے۔ بعد میں پتہ چلا اکثر نے پولیس کو فون کر کے گرفتاری دے دی تھی اور فون بند کر کے مزے سے بیٹھے تھے۔ کون ایئرپورٹ پر پولیس کی لاٹھیاں کھائے، آنسو گیس کا سامنا کرے۔کچھ نواز لیگ کے میرے جیسے سمجھ داروں نے تو زیرو پوائنٹ پر میڈیا میں اپنے دوستوں کے ذریعے اپنی گرفتاری کی فلم بنوا کر ٹی وی چینلز پر چلوائی اور میاں صاحب سے حسب توفیق انعام پایا۔ میاں صاحب کو پتہ چل گیا تھا ان کا جوا ناکام ہوگیا تھا۔ ایئرپورٹ پر تو پرندے کو پر مارنے کی اجازت نہ تھی۔ لندن کے ان مسافروں کے چہرے پر پریشانی گہری ہوگئی تھی۔ ان کا خیال تھا اگر مشرف نے ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہ بھی دی تو ایئرپورٹ کے باہر اتنا مجمع ہوگا وہ ایئرپورٹ میں زبردستی گھس کر انہیں اپنے کندھوں پر بٹھا کر لاہور لے جائے گا ۔
تاہم سب کچھ ڈوب گیا تھا ۔کوئی ورکر اور لیڈر ایئرپورٹ نہیں پہنچا۔۔پولیس نے سب کو، ٹھکائی کر کے درست کر دیا تھا۔ اب میاں صاحب جہاز میں اپنی سوچوں میں گم کہ ان کا استقبال تو دور کی بات ہے انہیں تو شاید جہاز سے اترنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے تک جہاز ایئرپورٹ پر کھڑا رہا۔۔مذاکرات ہوتے رہے۔ ایک اچھے پولیس افسر کلیم امام کو میاں صاحب کے پاس بھیجا گیا وہ اپنا پاسپورٹ دیں تاکہ انہیں امیگریشن کے مراحل سے گزارا جائے۔ کسی سمجھ دار نے میاں صاحب کو مشورہ دیا کہ پاسپورٹ نہ دینا کیونکہ حکومت اس پر مہر لگا کر اس پاسپورٹ کی کاپی سپریم کورٹ میں جمع کرادے گی کہ انہیں داخلے کی اجازت دی گئی تھی ،لیکن وہ پھر خود ہی جدہ چلے گئے۔ یہ ایک قانونی نکتہ تھا ؛چنانچہ نواز شریف نے پاسپورٹ دینے سے انکار کیا ۔
تاہم نواز شریف کلیم امام سے آج تک اتنے خفا ہیں کہ اسلام آباد کے آئی جی کی پوسٹ خالی پڑی ہے لیکن کلیم امام جیسا اچھا افسر کھڈے لائن لگا ہوا ہے اور لگتا ہے لگا رہے گا کیونکہ وہ میاں صاحب کے وفاداری ٹیسٹ میں ناکام رہے تھے۔ میاں صاحب سے جس طرح کی وفاداری ڈی ایم جی افسران نبھا سکتے ہیں وہ بھلا کلیم امام جیسے عزت دار اور اچھے پولیس افسران کے بس کی بات کہاں۔۔
خیر جہاز سے نکلنے کا فیصلہ ہوا کہ چل کر وی آئی پی لائونج میں بیٹھتے ہیں اور باقی مذاکرات وہیں ہوں گے ۔وی آئی پی لائونج میں کلیم امام نے نواز شریف اور دیگر ساتھیوں کو چائے کافی پیش کی، سنیکس اور بسکٹ پیش کیے۔ میڈیا کو بھی کلیم امام نے چائے پیش کی ۔ کلیم امام کا رویہ بلاشبہ شاندار تھا اور اس اچھے افسر نے ماحول کو بڑی حد تک نارمل کر دیا تھا ۔ بلاشبہ کلیم امام نے ایئرپورٹ پر نواز شریف کو اور میڈیا کو عزت دی۔
خیر اس سے پہلے وی آئی پی لائونج میں جانے سے قبل میں اور ارشد شریف دیگر مسافروں کے ساتھ اتر گئے تھے۔ ہم ایک طرف کھڑے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ وہاں بہت سارے لوگوں نے جہاز کو گھیرے میں لے رکھا تھا جس میں کمانڈوز اور پولیس موجود تھی۔ پی آئی اے کا بھی عملہ خاصی تعداد میں جہاز کے قریب موجود تھا۔ نواز شریف طیارے سے نمودار ہوئے۔ میں نے ارشد شریف کو کہا اگر نواز شریف سمجھ داری کریں تو اترتے ہی زمین پر شکرانے کا سجدہ کریں ۔ اس وقت سب میڈیا ان کے ساتھ ہے۔ ان کی پاکستان کی سرزمین کو چومنے کی تصویر کل کے اخبارات میں فرنٹ پیج پر ہوگی، ٹی وی چینلز چلائیں گے اور انہیں وہ ہمدردی ملے گی کہ وہ سوچ نہیں سکتے کہ وہ برسوں بعد آئے، اپنی دھرتی ماں کو چوما اور پھر بھی جنرل مشرف نے انہیں واپس سعودی عرب بھیج دیا ۔ ارشد شریف شرارت سے مسکرایا اور بولا تمہیں یہ مشورہ جہاز میں نواز شریف کو دینا چاہیے تھا ۔ میں نے بھی مسکرا کر کہا جہاز کے اندر خوشامدیوں اور درباریوں کے ہجوم میں مجھے خوشامد کا موقع نہیں ملا۔ ویسے بھی میں صحافی ہوں، درباری نہیں،یہ تو میں آپ کے ساتھ بات کر رہا ہوں ۔
جونہی نواز شریف جہاز کی سیڑھیوں سے اترے تو ماحول تالیوں سے گونج اٹھا ۔ ہم سب حیران اس دہشت زدہ ماحول میں کون تالیاں بجا کر نواز شریف کا استقبال کر رہا تھا ؟ کمانڈوز اور پولیس بھی اچانک الرٹ ہوگئی ۔ میڈٖیا کی ٹیمیں بھی چونک گئیں ۔ ہم سب کی نگاہیں اس طرف گئیں جہاں سے تالیوں کی گونج ابھر رہی تھی تو ہم سب حیران رہ گئے۔ یہ پی آئی اے کے افسران ، ایئرپورٹ کا عملہ تھا جو بڑے زور شور سے تالیاں بجا کر ان کا استقبال کررہے تھے۔ نواز شریف کے اداس چہرے پر اس وقت مسکراہٹ پھیلی چلیں کوئی تو تھا جس نے انہیں ویلکم کیا تھا ۔ تالیاں خاصی دیر تک بجتی رہیں۔ میاں صاحب ہاتھ ہلاتے رہے۔کمانڈوز پی آئی اے کے اہلکاروں کو دھکے دیتے رہے مگر وہ پھر بھی تالیاں بجاتے رہے۔
آج نواز شریف وزیراعظم ہیں۔انہیں سب یاد رہے۔ سب کو نوازا ، جنرل مشرف کی پوری وزرا کی اس ٹیم کو نوازا جس نے انہیں ایئرپورٹ پر سبکی کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔سب کی مہربانیاں انہیں یاد رہیں، نہ رہیں تو پی آئی اے کے ان ملازمین کی تالیاں جو انہوں نے جنرل مشرف کی پوری دہشت اور ان کے کمانڈوز کی موجودگی میں اپنی نوکریوں کو خطرے مین ڈال کر بجائی تھیں۔
پی آئی اے کے افسران اور اہلکاروں نے یہ تالیاں اس وقت بجائی تھیں جب نواز شریف کے اپنے لیڈرز، جو آج اہم عہدوں پر فائز ہیں اور ورکرز پولیس کے خوف سے زیرو پوائنٹ سے ہی بھاگ گئے تھے، گھروں میں چھپ گئے تھے۔ پرویز رشید صاحب کے بے بسی کے آنسو ، نادر چوہدری کے ہوائی بوسے، افضال بھٹی کی چیخ و پکار، امجد ملک کے ایئرپورٹ پر لڑائی جھگڑے سب کچھ یاد رہا،نہ یاد رہا تو وہ غیرمعمولی تالیاں۔جن کی گونج نے ایئرپورٹ کے خوف زدہ اور دہشت زدہ ماحول کو لمحوں میں بدل کر نواز شریف کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی تھی۔
آج اسی پی آئی اے کے ملازمین گولیوں سے بھون دیے گئے ہیں...!رہے نام اللہ کا...!