برادرم رئوف طاہر نے اپنے کالم میں وہ کہانی لکھ دی ہے جس کی تلاش برسوں سے مجھے تھی کہ آخر وزیر اعظم نواز شریف کا پاسپورٹ اسلام آباد ایئرپورٹ سے کیسے غائب ہوا اور کیسے دوبارہ سعودی عرب پہنچ گیا تھا ۔
مجھے یاد پڑتا ہے جب نواز شریف کا طیارہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترا تو امیگریشن کو سب سے زیادہ تلاش نواز شریف کے پاسپورٹ کی تھی جس پر وہ مہر لگا کر سپریم کورٹ میں پیش کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ انہیں پاکستان آنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن وہ پھر اگلی فلائٹ پر جدہ چلے گئے تھے۔
شاید مجھے بھی یہ پتہ نہ چلتا کہ پاسپورٹ کہاں غائب ہوگیا تھا اگر مجھے نواز شریف کے ایک سیکرٹری عمران کا لندن سے فون نہ آتا کہ افضال بھٹی کو،جو نواز شریف کے لندن آفس کے معاملات کو دیکھتے تھے‘ لاہور میں ایک سیکرٹ ایجنسی نے اٹھا لیا تھا ۔اس پر شک تھا کہ اس کے پاس نواز شریف کا پاسپورٹ تھا۔
عمران سے لندن کے دنوں میں بہت اچھا تعلق قائم ہوگیا تھا۔ عمران اورافضال دونوں نواز شریف کے لندن دفتر کو سنبھالتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں عمران اور افضال سلجھے ہوئے اور ذہین تھے اور اگر نواز شریف ان پر اعتماد کرتے تھے تو انہوں نے بھی اپنا انتخاب درست ثابت کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب لندن سے نواز شریف نے پاکستان لوٹنے کا منصوبہ بنایا تھا تو سب رپورٹرز اس خبر کی ٹوہ میں تھے کہ نواز شریف آخر کس ایئرلائن کا انتخاب کریں گے۔ اگر غیرملکی ایئرلائن پر سوار ہوتے تو ممکن تھا کہ اس ایئرلائن کو پاکستان نہ آنے کی اجازت دی جاتی یا اس پر دبائو ڈال کر نواز شریف کو سوار نہ ہونے دیا جاتا۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ اس وقت کی بنگلہ دیش کی فوجی حکومت نے برٹش ایئرویز پر دبائو ڈال کر حسینہ واجد کو لندن سے ڈھاکہ سوار ہونے سے روک دیا تھا کہ اگر اسے لے کر اڑی تو اسے ڈھاکہ نہیں اترنے دیا جائے گا۔ برٹش ایئرویز نے حسینہ واجد کو اتار دیا تھا ۔
دوسرا آپشن تھا کہ پی آئی اے کی لندن اسلام آباد پرواز پر سوار ہوکر اسلام آباد اترا جائے۔ تاہم پھر سب کو شکوک ہوتے کہ یہ سرکاری ایئرلائن ہے‘ اس پر نواز شریف کبھی خطرہ نہیں مول لیں گے کہ جہاز ساری رات کسی فنی خرابی کا بہانہ بنا کر ہیتھرو ایئرپورٹ پر کھڑا رہے گا ۔ اس لیے ہمارے سینئر ضیاء الدین، ارشد شریف، میں اور دیگر لندن کے صحافی دوست اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح پتہ چل جائے کہ وہ کس ایئرلائن پر جارہے تھے ۔ ایک تو ہمیں یہ بھی خواہش تھی کہ ہم بھی اس ایئرلائن پر اپنی سیٹیں بک کرالیں گے دوسرے خبر بھی بہت بڑی بن جائے گی۔ بکنگ کا یہ کام عمران اور افضال کے ذمے تھے۔ ان دونوں نے اس خبر کو خفیہ رکھنا تھا اور بکنگ بھی کرانی تھی۔ تاہم اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ تین چار ایئرلائنز پر انہوں نے بکنگ کرادی جس میں پی آئی اے بھی شامل تھی ۔ ہم سب نے اپنا زور لگا لیا لیکن عمران اور افضال سے یہ خبر نہ نکلوا سکے کہ نواز شریف آخر کس فلائٹ پر پاکستان جائیں گے۔
خیر نواز شریف نے آخری لمحوں پر پی آئی اے کا فیصلہ کیا ۔ سب حیران ہوئے۔ بھلا جنرل مشرف کیسے پی آئی اے کی فلائٹ پر نواز شریف کو اسلام آباد اترنے کی اجازت دیں گے۔ تاہم میرا خیال تھا کہ نواز شریف نے درست جوا کھیلا تھا۔ جنرل مشرف پی آئی اے کی پرواز کو کبھی نہیں روکیں گے کیونکہ اگر انہوں نے نواز شریف کے جہاز کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر نہ اترنے دیا تو جس بات کا جواز جنرل مشرف برسوں سے ڈھونڈ کر بیٹھے تھے کہ انہوں نے نواز شریف کا تختہ اس لیے الٹا تھا کہ انہوں نے پہلے انہیں برطرف کیا اور پھر پی آئی اے کی پرواز کو کراچی پر نہیں اترنے دیا تھا‘ وہ ختم ہوجائے گا۔
اگر نواز شریف نے انہیں برطرف کیا تھا تو وہ جواباً نواز شریف کو بھی برطرف کر کے سکور برابر کر چکے تھے۔ اب اگر وہ پی آئی اے کی لندن فلائٹ کو نہ اترنے دیں گے تو پھر جنرل مشرف اس اخلاقی جواز سے محروم ہوجائیں گے جو وہ نواز شریف کے خلاف حاصل کر چکے تھے۔ اس لیے یہ جوا ء درست تھا اور فیصلہ بھی۔
جب اسلام آباد ایئرپورٹ سے ہی نواز شریف کو جدہ بھیج دیا گیا تو پھر حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی کہ نواز شریف کا پاسپورٹ کہاں گیا۔ کئی لوگوں پر شک تھا جو لندن سے میاں نواز شریف کے ساتھ آئے تھے۔ تاہم کسی کو کچھ پتہ نہ چلا،بات دب سی گئی؛ تاہم کچھ دن بعد مجھے لندن سے عمران کا فون آیا ۔ وہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ بولا ‘رئوف بھائی ایک پرابلم ہوگیا ہے۔ افضال بھٹی کو لاہور میں ایک سیکرٹ ایجنسی نے اٹھا لیا ہے۔ وہ لندن آنے کے لے دوبئی کے راستے لاہور ایئرپورٹ جارہا تھا ۔ خواجہ آصف اور دیگر نے بہت کوشش کر کے دیکھ لی تھی لیکن پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں ہے۔ کوئی ماننے کو تیا رنہیں تھا ۔ افضال بھٹی کے لندن گھر میں ماتم کی سی کیفیت تھی۔ میں نے عمران کو تسلی دی ۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کس کو کہوں کہ مدد کرے۔ میرے ذہن میں ڈاکٹر شیر افگن کا خیال آیا جو ان دنوں وفاقی وزیر تھے۔ شیر افگن میرے دوست تھے اور میری بات بہت کم ٹالتے تھے۔ دوڑا دوڑا ان کے دفتر گیا۔ ہنس پڑے اور بولے: بادشاہو، آپ نواز شریف کو نہیں جانتے۔ وہ بہت انتقامی انسان ہے۔ اس نے تو میرے میانوالی میں اکلوتے پٹرول پمپ پر بلڈوزر چلانے کا حکم دیا تھا۔بولے بھولے بادشاہو ‘انہیں لوٹنے دو اور پھر دیکھنا وہ سب کا کیا حشر کرتے ہیں۔ میں نے کہا سرجی جانے دیں۔آپ افضال بھٹی کا کچھ کریں۔ بولے ابھی کرتے ہیں۔ فورا ًآئی جی پنجاب کو فون کیا۔ آئی جی نے بتایا کہ وہ پولیس کے پاس نہیں بلکہ ایک ایجنسی کے پاس تھا۔ اس وقت اس سیکرٹ ایجنسی کے ڈپٹی ڈی جی کو فون کیا اور کہا کہ افضال بھٹی کو رہا کریں۔ آگے سے جنرل نے بتایا کہ اس پر الزام تھا کہ اس نے نواز شریف کا پاسپورٹ چھپا رکھا تھا اور ایئرپورٹ سے وہی لے کر نکلا تھا اور اس نے لاہور میں کسی کے حوالے کیا تھا۔ اس سے پاسپورٹ کی برآمدگی کرنی ہے۔
شیر افگن بولے، مہربانی فرمائیں آپ اسے رہا کردیں۔ اس بے چارے کا کیا قصور ہے اور طعنہ دیا کہ جس کو گرفتار کرنا تھا اسے تو جدہ دوبارہ بھیج دیا اور جو اس کے ساتھ آئے تھے ان کو پکڑنا شروع کر دیا۔ جنرل کو طنزیہ کہا‘ اگر زیادہ غصہ تھا تو نواز شریف کو پکڑ کر رکھ لیتے۔۔اب اس کے سیکرٹری کو اٹھانا کہاں کی بہادری ہے۔
شیر افگن نیازی واقعی دبنگ انسان تھے۔ جنرل نے آگے سے کچھ انکار کرنے کی کوشش کی تو شیر افگن بولے‘ افضال بھٹی کو تو میں رہا کرالوں گا لیکن مجھے ایوان صدر جنرل مشرف تک جانا پڑے گا، آپ ہی مہربانی کر دیں۔اس پر جنرل ٹھنڈا پڑ گیا اور کہا،کچھ کرتے ہیں۔ شیرافگن بولے: نہیں جناب ابھی کریں۔تھوڑی دیر بعد عمران کا لندن سے فون آگیا کہ افضال بھٹی کو سیکرٹ ایجنسی نے رہا کردیا تھا۔
یہ اور بات ہے کہ جب نواز شریف لوٹے اور پنجاب میںحکومت بنی تو اسی آسمان نے دیکھا کہ لاہور کی سڑکوں پر شیرافگن کو وکیلوں کے ذریعے ذلیل کرایا گیا۔ گھنٹوں تک پنجاب پولیس کو ان کی مدد نہ کرنے دی گئی تاکہ پوری طرح ذلیل کیا جائے۔ انہیں وہاں مارنے کی کوشش کی گئی اور جب لاہور کے وکیل شیرافگن کو مارنے کے لیے اکٹھے تھے تو مجھے ان کے الفاظ یاد آرہے تھے کہ رئوف لالہ: اپنے چہیتے اور پیارے شریفوں کو لوٹنے دیں، یہ انتقامی لوگ ہیں، یہ مجھ سے انتقام لیے بغیر نہیں ٹلیں گے...!