"RKC" (space) message & send to 7575

آئیں بلاول بھٹو کی مدد کریں!

گجرات سے پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما سے اسلام آباد کے کیفے میں ملاقات ہوگئی۔ مجھے ایک طرف لے جا کر کہنے لگے یار تم لوگ کیا کرتے ہو، بلاول بھٹو کی مدد کیوں نہیں کرتے، اس کے حق میں کیوں نہیں لکھتے۔ بولو اس کے حق میں۔ مجھے تھوڑا سا بیزار دیکھ کر میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مجھے خبردار کیا اگر پیپلز پارٹی پنجاب سے ختم ہوگئی تو بہت بڑا المیہ ہوگا ۔ میں نے کندھے اچکائے، مجھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سندھ ہے ناں پیپلز پارٹی کے پاس ہر سال این ایف سی کے پانچ کھرب روپے کے لیے: اور کیا چاہیے؟ کہنے لگے زرداری کا وقت گزر چکا ۔ اس کے نام پر پنجاب میں اب کوئی ووٹ نہیں دیتا۔ ایک ہی امید بلاول ہے۔ میٖڈیا میں تمہارے جیسے لوگوں کو مدد کرنی چاہیے،بہت ضروری ہے۔ اتنی دیر میں قریب سے پختون خوا سے پیپلز پارٹی کے ایک اور سابق لیڈر گزرے جو کبھی قومی اسمبلی میں اہم عہدے پر بیٹھے رہتے تھے۔ گجرات کے اس لیڈر نے اپنے تئیں میرا ان سے تعارف کرانے کی کوشش کی کہ ان سے ملو یہ ہیں رئوف صاحب۔ اس نے بڑی مشکل اور بیزاری سے ہاتھ ملایا اور چلا گیا۔ گجرات کے پیپلز پارٹی کے اس رہنما کو حیرانی ہوئی کہ کتنی بے دلی سے اس نے ہاتھ ملایا تھا ۔ وہ اپنے تئیں مجھے بلاول بھٹو کے حق میں بولنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا تھا اور وہ ہیں کہ ساتھ دینے کی بجائے بیزاری سے ہاتھ ملا کر گزر گئے۔ میں نے کہا حیران نہ ہوں، موصوف پر تین سکینڈل فائل کر چکا ہوں۔ وہ گاڑی مانگ کر اسلام آباد آئے تھے۔ آج پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور کے بعد ماشاء اللہ ان کا کشمیر ہائی وے پر بہت بڑا پٹرول پمپ ہے، سی ڈی اے میں زرداری صاحب کے ایک یار سے، جو کبھی سی ڈی اے کو چلاتے تھے، مل کر کراچی میں اربوں روپے کا پلازہ ہتھیا لیا ہے۔ آج کل ہر ٹی وی شوز میں شریک ہوتے ہیں، ہمیں جمہوریت کے فوائد سمجھاتے ہیں، معاشرے میں معزز سمجھے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وہ پرانے لیڈر بولے چھوڑ یار! یہ تو چلتا رہتا ہے، یہ کیا بات ہوئی اگر اس نے کچھ مال بنا لیا ہے۔ آپ اس پر غور کریں جو میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ بلاول کی مدد کریں اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ختم ہونے سے بچائیں ۔میں منہ کھولے دیکھتا رہا۔ ان کے نزدیک ان کے سابق ایم این اے کا مار دھاڑ کرنا ، مال کمانا ، راتوں رات امیر ہوجانا کوئی خبر نہیں،یہ سب چلتا ہے،ان کی توجہ بلاول پر تھی۔ دل پر گھونسا لگا، ہم کہاں جا گرے ہیں۔ وہ میرا ہاتھ پکڑے بلاول بھٹو کی شان میں ہی قصیدے پڑھتے رہے، میں نے ان سے پوچھا چلیں آپ بتائیں لوگوں کو کیا بتایا جائے؟ 
آپ لوگوں نے میڈیا کے لوگوں کو کیا سمجھ رکھا ہے،انہیں چائے پلائیں ، کھانے پر بلائیں، آموں کا ایک آدھ ٹوکرا بھجوا دیں اور پھر انہیں کہیں چلو منے بھائی شروع ہوجائو اور لوگوں کو جمہوریت کے فوائد گنوائو اور اتنی دیر میں ہم کچھ مال پانی اکٹھا کرتے ہیں، دبئی شفٹ کرتے ہیں۔ سیاست کبھی اچھے لوگ کرتے تھے اب یہ کن لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ میں نے کہا ایک بات سمجھائیں،میرے، بلاول کی مدد کرنے سے معاشرے کا کیا بھلا ہوسکتا ہے؟ ذرا سمجھائیں۔اگر آپ کے نزدیک جس سابق ایم این اے سے آپ نے ملایا ہے اس کا مال پانی کمانا اور راتوں رات ارب پتی بن جانا کوئی بڑی بات نہیں تو پھر کیا باقی رہ گیا ہے؟ پھر آپ اپنا کام کرتے رہیں، ہم اپنا کام کرتے رہیں ۔ فیصلہ لوگوں کو کرنے دیں۔ اگر لوگ کرپٹ لیڈرز چاہتے ہیں جو گاڑی مانگ کر اسلام آباد آئیں اور پانچ سالوں میں وہ پٹرول پمپ اور پلازے کھڑے کر لیں تو جی بسم اللہ ! 
یہ وہ سوچ ہے جو اب اس معاشرے پر حاوی ہوچکی ہے، اچھے برے کی تمیز ختم ہوگئی ہے۔ اکثر فون سنتا ہوں جناب آپ کی باتوں کا کچھ اثر نہیں ہوتا ۔ میں کہتا ہوں کیسے ہوگا جب ہم سب یہی کچھ کرتے ہیں ۔ اس معاشرے میں تبدیلی اس لیے نہیں آرہی اور نہیں آئے گی کیونکہ جو الزامات نواز شریف، زرداری اور ان کے ٹولے پر لگتے ہیں وہی کام ہم میں سے اکثر لوگ اپنے اپنے پیمانے اور اپنی اوقات کے مطابق کرتے ہیں ۔ ریڑھی والا دن میں بیس روپے گاہکوں سے غلط طریقے سے تول کر کما لیتا ہے، پٹرول پمپ والا کم پٹرول یا ملاوٹی تیل فروخت کرتا ہے، دوا دو نمبر 
بیچتا ہے تو پھر اسے زرداری اور نواز کے غلط کاموں سے کیا مطلب؟ وہ ظاہر ایسا کرے گاکہ اسے ملک کی بہت فکر ہے،ملک لٹ رہا ہے، سیاستدان لوٹ رہے ہیں، ہر طرف افراتفری مچی ہوئی ہے۔وہ ٹی وی شوز دیکھ کر آنسو بھی بہائے گا، گاہک کے ساتھ ملکی معاملات پر بحث کرے گا۔ لٹ گئے، تباہ ہوگئے کی گردان کرے گا۔ لیکن اندر کھاتے اسے پتہ ہے کہ جس کا جہاں بس چل رہا ہے وہ بھی وہی کام کر رہا ہے جو اس کے لیڈر کرتے ہیں جنہیں وہ گالیاں دے رہا ہے ۔ اس لیے اب معاشرے میں کرپشن کے خلاف آپ کو ہر جگہ بحث ملتی ہے لیکن اس کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ ہر کوئی کسی نہ کسی جگہ ، کچھ نہ کچھ غلط کر رہا ہے اور اپنے آپ کو فریب دے رہا ہے ،کیا کرے مجبوری ہے۔ کاروبار میں یہ کچھ نہیں کرے گا تو پھر کیا کرے گا،بچے ہی بھوکے مریں گے۔
یہی مجبوری کسی دور میں زرداری نے بے نظیر بھٹو کو سمجھائی تھی کہ اگر پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو پھر اس کے لیے اتنا پیسہ کمانا ہوگا جتنا نواز شریف نے کما لیا ہے۔ بے نظیر بھٹو، زرداری کی اس دلیل سے قائل ہوگئی تھیں اور پھر سب نے دیکھا کہ سرے محل سے لے کر سوئس بنکوں میں ساٹھ ملین ڈالرز تک ہر جگہ دولت کے انبار لگ گئے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2007ء سنڈے ٹائمز میں بے نظیر بھٹو کا انٹرویو چھپا تھا ،جو دبئی میں ان کے تازہ تازہ خریدے گئے محل میں لیا گیا تھا۔ برطانوی خاتون صحافی نے انٹرویو کے اختتام پر حیرانی سے پوچھا تھا جس عالی شان محل میں وہ بیٹھی ہیں اس کی کیا لاگت ہوگی؟ بے نظیر نے بڑے فخر سے جواب دیا، بائیس ملین درہم ۔ یہ اور بات کہ وہ اس میں تین ماہ بھی نہ رہ سکیں۔ خاتون رپورٹر کو یہ پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی کہ بائیس ملین درہم کہاں سے آئے ، محل کیسے خریدا گیا ، بس خرید لیا گیا ۔
اب پیپلز پارٹی کے اہم رہنما فرماتے ہیں ہمارے جیسے لوگوں کو بلاول کی مدد کرنی چاہیے۔ تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے، ادھار گاڑیاں مانگ کر اسلام آباد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونے والے پانچ سال بعد پلازوں اور پٹرول پمپوں کے مالک بن کر ٹی وی شوز میں بڑی سنجیدگی سے قوم کو کرپشن فری طریقے بتاتے رہیں۔ دبئی لندن میں جائیدادوں میں اضافہ ہوتا رہے۔ لوٹ مار کر کے لندن اور دبئی فرار ہوتے رہیں ۔ڈاکٹر عاصم حسین لوٹ مار کے ریکارڈ قائم کردے ۔ شرجیل میمن کی طرح لندن ایئرپورٹ پر پوچھ گچھ کراتے رہیں یا پھر گیلانی صاحب کے پسندیدہ وزیر میاں بیوی عاصمہ ارباب اور عالمگیر کی طرح وزارت مواصلات کے ٹھیکے کے بدلے لندن میں فلیٹس خریدتے رہیں لیکن ہم میڈیا کے لوگ بلاول بھٹو کو اچھا بنا کر پیش کرتے رہیں تاکہ پیپلز پارٹی پنجاب میں بچ جائے ورنہ ہم سارے بہت بڑے المیہ کے لیے تیار رہیں ۔
یہ دن بھی آنے تھے۔ اب پیپلز پارٹی کے لیڈرز مار دھاڑ ، لوٹ مار اور مال کمانے کے بعد ہمیں بلیک میل کرنے پر اتر آئے ہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں