نہرو اپنے سامنے خفیہ رپورٹ دیکھ کر خاموش رہے۔ انہیں علم تھا اگر وہ خفیہ کی بات کو ٹال دیں اورکل کلاں کوئی ایسی ویسی بات ہوگئی تو وہ اپنے ہاتھ کھڑے کر لیںگے اوراگلی دفعہ وہ بے دلی سے کام کریںگے۔ دوسری طرف نہروکو یہ بھی احساس تھا کہ ان کا پرانا دوست جوش ملیح آبادی پاکستان سے آیا ہے جس کی وہ دل سے عزت کرتے تھے۔ انہیں یہ بھی پتا تھا وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جلد ناراض ہوجاتے ہیں۔
دیوان سنگھ مفتوں اپنی کتاب ناقابل فراموش میں لکھتے ہیں: ایک دفعہ جوش ان سے ملنے آئے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے وزیراعظم ہندوستان کو حاجت ہوئی اور وہ اٹھ کر باتھ روم چلے گئے۔ وہ جانے سے پہلے جوش کی اجازت لینا بھول گئے۔ جوش ناراض ہوگئے اور اٹھ کر چلے آئے کہ آداب کا تقاضا تھا کہ نہرو بتا کر جاتے کہ وہ ابھی واپس لوٹ آئیںگے۔ نہرو واپس لوٹے تو جوش جا چکے تھے۔ وزیراعظم ہندوستان کو پتا تھاکہ جوش کیسے انسان ہیں۔ نہرو نے فون کر کے بڑی منت ترلے کرکے جوش کا غصہ ٹھنڈا کیا کہ انہیںکام کے دبائو میں یاد نہ رہا کہ وہ بیٹھے ہیں اور انہیں بتانا چاہیے تھا۔ بڑی مشکل سے جوش نہرو سے راضی ہوئے۔ نہرو نے سی آئی ڈی کی رپورٹ ایک طرف کی اور فیصلہ صادر کیا کہ وہ جوش کے دوست کے گھر جائیں گے، جہاں جوش نے ان کو دعوت پر بلایا تھا۔ کہا، میں نے جوش صاحب سے وعدہ کیا تھا، میں ضرور جائوںگا۔ کنور مہندر سنگھ بیدی لکھتے ہیں کہ وہ بھی اس دعوت میں شریک تھے۔ وزیراعظم ڈھائی گھنٹے جوش صاحب کے ساتھ رہے۔ نہرو نے کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد جوش صاحب سے اپنا کلام سنانے کی فرمائش کی۔ کہا، جب سے وہ ہندوستان چھوڑ کر پاکستان گئے وہ سننے کو ترس گئے ہیں۔
اگلی صبح جوش صاحب وزیراعظم کا شکریہ ادا کرنے گئے تو نہرو نے کہا، صاحب ایک بات دل میں کھٹک رہی ہے۔ آپ نے ہندوستان کیوں چھوڑ دیا؟خیر اب آپ پاکستان کے شہری بن گئے ہیں، کوئی بات نہیں، پاکستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، ہمیں ایک دوسرے کا دوست بن کر رہنا ہوگا۔ نہرو نے جوش کو ہندوستان کے ساتھ تعلق رکھنے پر مجبور کرنے کے لیے ایک پیشکش کی جو ان کے دل میں تھی۔کہا، جوش صاحب! اگر آپ صرف تین ماہ کے لیے ہی ہندوستان آ جایا کریں تو میں آپ کو پورے بارہ ماہ کی تنخواہ دلاتا رہوںگا۔ میں ہندوستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے یہ کام تو کر سکتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں آپ کا ہندوستان سے بھی سرکاری تعلق قائم رہے۔ جوش نے ہندوستان کے وزیراعظم کی یہ پیشکش قبول نہ کی۔ نہرو اپنے دوست کا انکار سن کر افسردہ ہوئے اور خاموش ہوگئے۔
جوش پاکستان لوٹنے سے پہلے کنورسنگھ بیدی سے ملنے گئے اور دیر تک بیٹھے رہے۔ کنور بیدی کے دل میں بھی یہ بات تھی کہ جوش صاحب ان تمام مراعات اور نہرو جیسے وزیراعظم کے تمام تر احترام کو نظرانداز کر کے پاکستان کیوں چلے گئے؟ جوش صاحب نے کہا، میرا تو جیسے تیسے یہاں ہندوستان میں گزارا ہوجاتا لیکن میرے بچوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ ادھر پاکستان والوں نے مجھے جو کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے اس سے کم از کم اٹھارہ ہزار روپے ماہوار کی آمدن فوراً شروع ہو جائے گی۔ کنور بیدی لکھتے ہیں، پاکستان والوں نے کس حد تک جوش صاحب سے وعدہ پورا کیا لیکن انہیں جھٹکا ضرور لگا۔ بیدی کو علم تھا کہ جوش نے ساری عمر سرمایہ داری اور سرمایہ داروں کی مذمت کی لیکن آخر دولت ہی انہیں کھینچ کر پاکستان لے گئی۔ کنور بیدی نے بھی روکنے کی آخری کوشش یہ کہہ کر کی کہ اگر آپ منکر خدا نہ ہوتے تو میںکبھی آپ کو پاکستان جانے سے نہ روکتا لیکن آپ تو خدا کو نہیں مانتے، اب آپ ہی بتائیں کہ ایک خالص مسلمان ملک میں ایک ملحد، کافر کیسے پنپے گا۔ جوش صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
کنور بیدی لکھتے ہیں، جوش صاحب کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا جسے جوش کے دشمنوں نے بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور ان کو بہت نقصان پہنچایا۔ آخری بار جب جوش ہندوستان آئے تو ان کے ساتھ ایک شاعر دوست بھی تھے۔ وہ سائے کی طرح جوش کے ساتھ رہتے اور جہاں بھی جوش مشاعروں میں بلائے جاتے وہ بھی ساتھ ہوتے۔ دہلی کے آگرہ ہوٹل میں بھی وہ جوش صاحب کے ساتھ مقیم تھے۔ کنور بیدی ہر روز شراب کی بوتل جوش صاحب کو بھیج دیتے اور موتی محل سے کھانا پہنچ جاتا۔ بیدی نے ہوٹل کو بھی کہہ رکھا تھا کہ جوش کو بوتل کی طلب ہو تو دے دیا کریں۔
جوش کے وہ دوست جوش کو بتائے بغیر بوتل ان کے نام پر لے کر بازار میں فروخت کرآتے۔ جب کنور سنگھ کو بل گیا تو انہیں پتا چلا کہ وہ جوش کے دوست دکاندار سے ان کے نام پر بوتل لے کر بیچ دیتے تھے۔ تاہم بیدی نے جوش صاحب سے اس کا ذکر نہ کیا کہ ان کا دوست کیا حرکت کر رہا تھا۔ اسی دوست نے موقع پا کر جوش صاحب کی جیب سے چار ہزار روپے بھی نکال لیے۔ اس پر جوش صاحب نے ان سے علیحدگی اختیارکر لی لیکن جب واپس آئے تو بسمل سعیدی ٹونکی کی منت سماجت پر اسے معاف کر دیا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اس دوست نے جوش صاحب کے احسانات کا بدلہ ایسے چکایا کہ سرحد عبور کرتے ہی ان سے الگ ہوگیا اور ان کے خلاف حکومت پاکستان کو بے بنیاد اور غلط شکایتیں کیں جن کی بنا پر حکومت نے جوش صاحب کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔
جو شکایتیں جوش صاحب کے خلاف کی گئیں ان میں ایک یہ تھی کہ انہوں نے بمبئی میں ایک اخباری انٹرویو میں پاکستان کے خلاف زہر اگلا تھا۔ کنور بیدی لکھتے ہیں کہ اتفاق سے وہ بھی وہاں موجود تھے۔ یہ انٹرویو ظ انصاری نے سیدو بھائی کے گھر لیا۔ اس سارے انٹرویو کے دوران میں جوش صاحب نے ہندوستان سے اپنی محبت کا اظہار ضرور کیا تھا لیکن پاکستان اور حکومت پاکستان کے خلاف ایک لفظ نہ بولا۔
کنور بیدی لکھتے ہیں، جہاں تک جوش کے عظیم ہونے کا سوال ہے، اس میں کسی دوسری رائے کی گنجائش نہیں۔ لیکن ان کا عقیدہ ان کی شہرت پر اثرانداز ہوا۔ اگر جوش خدا پرست ہوتے تو وہ بھی علامہ اقبال کی طرح قابل پرستش تصور کیے جاتے۔ کنور بیدی لکھتے ہیں، ان کا منکر ہونا ان کی بڑی بدقسمتی ہے۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ مرنے سے پہلے ایک بار جوش کے منہ سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی میٹھی آواز سن لوں۔
اس خواہش کو دبائے ایک سکھ سردارکنور سنگھ بیدی نومبر1981ء میں پاکستان آئے۔ جہاں کلمہ سننے کی خواہش تھی وہیںکنور بیدی یہ بھی چاہتے تھے کہ وہ جوش کو ہندوستان آنے کی دعوت دیں۔ لاہور سے وہ اسلام آباد پہنچے۔ دوپہر ڈھل چکی تھی۔ جاتے ہی جوش صاحب کے ہاں ٹیلی فون کیا کہ شام کو آپ سے ملنے آ رہا ہوں۔ شام کو پہنچے تو ان کے اکلوتے بیٹے سجاد کو باہر گیٹ پر انتظار کرتے پایا۔ کہنے لگے آپ کا سن کروالد صاحب دوپہر سے خوشی سے نہیں سوئے۔ بیدی صاحب کو بالائی منزل پر لے جایا گیا۔ جوش نے دور سے ہی بیدی کو دیکھا تو اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکے۔ جب بیدی قریب گئے تو سجاد اور ان کے پوتے نے انہیں پکڑکراٹھایا۔ وہ بیدی سے لپٹ گئے اور زار زار رونے لگے گئے۔ بیدی بھی رونے لگے۔ سمے بیت گیا تھا، وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ یادوں کا ایک ریلا دونوں کو بہا کر لے گیا۔ بیدی نے بات کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ جوش اب سن نہیں سکتے۔ بیدی نے مزاج پرسی کی تو پتا چلا کہ وہ بات بھی نہیں کرسکتے۔ سجاد بولا دو تین ماہ پہلے تو کچھ لکھ پڑھ لیتے تھے لیکن اب اس قابل بھی نہیں رہے۔ بیدی یہ سوچ کر گئے تھے کہ وہ جوش صاحب کو مجبور کریں گے کہ وہ کلمہ پڑھ لیں۔ خدا سے اپنی محبت آشکار کر لیں تاکہ دنیا پر ظاہر ہو جائے کہ آپ ملحد نہ تھے مگر جوش اس قابل نہ رہے کہ بول سکتے۔ بیدی کو اپنے دل پر ایک گھونسا سا لگا۔ وہ جس کام کے لیے ہندوستان سے پاکستان
آئے تھے وہ نہ ہوسکا۔ رخصت لیتے وقت بیدی نے جوش کو جی بھر کے دیکھا اور اس احساس کے ساتھ کہ دوبارہ وہ جوش کو نہ دیکھ سکیں گے، جوش کو دیکھتے ہی رہے۔ اگلی شام جب بیدی دوبارہ جوش سے ملنے گئے تو سجاد پھر گیٹ پر ملے۔ بولے ابھی ابھی آنکھ لگی ہے۔ بیدی نے جگانا مناسب نہ سمجھا۔بیدی کی کمال یادوں کا جشن میرے ہاتھ میں ہے۔ ابھی میں نے آپ کو نہروکی وہ کہانی سنانی ہے کہ جب دہلی میں فسادات شروع ہوئے اور مسلمانوں کو مارنا شرو ع کیا گیا تو نہرو کیسے بے چین ہوگئے۔انہوں نے چاندنی چوک جا کر مسلمانوں کو بچانے کے لیے کیا تقریرکی۔ گاندھی نے کنور سنگھ بیدی کو مسلمانوں کی مسجدوں پر پاکستان سے گئے ہوئے ہندوئوں کے قبضے چھڑانے کے بارے میں کیا ہدایات دی تھیں۔ لیکن کنور بیدی کو اسلام آباد میں اپنے بوڑھے دوست جوش کے گھرکے باہر غمزدہ دیکھ کر مجھے انتیس برس کا پٹھان جوش یاد آ رہا ہے جو تیرہ وادی سے ہجرت کر کے ملیح آباد میں بسنے والے اپنے پٹھان بزرگوںکا وطن ہندوستان چھوڑ کر اب نظام دکن کے دربار میں نوکری کے لیے علامہ اقبال کا سفارشی خط لے کرکھڑا ہوا ہے۔ نظام کو بتایا جاتا ہے کہ جوش نام کا نوجوان ملنا چاہتا ہے اور علامہ اقبال کا سفارشی خط لایا ہے۔ نظام نے پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں۔ جوش جواب دیتے ہیں کہ وہ یہاں نہ آتے لیکن جب ان کے حالات ملیح آباد میں بگڑنے شروع ہوئے تو انہیں خواب میں حضور پاکﷺ نے حکم دیا تھا کہ ملیح آباد چھوڑواور دس برس کے لیے دکن چلے جائو۔ سو آگیا ہوں! نظام دکن ایک جھٹکے سے کھڑے ہوگئے۔ ان پر کپکپی طاری ہوگئی ۔ بوڑھے نظام کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوگئیں۔ پورے دربار پر سناٹا چھا گیا۔۔۔۔ سب خاموش۔۔۔۔ سب چپ۔۔۔۔ جوش نے بات ہی ایسی کہہ دی تھی!
پورے دربار کے ماحول پر ہیبت طاری ہوچکی تھی اور جوش کے لبوں سے یہ شعر پھسل گیا ؎
مجھے فلک نے دیا ٹھیکرا گدائی گا
کبھی تھے صاحب جاہ و حشم مرے اجداد
(جاری(