بھارت اور پاکستان دو الگ ملک بن چکے تھے۔ ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ دونوں اطراف قافلے لٹ پٹ کر آجارہے تھے۔ دلی میں حالات بگڑ گئے تھے ۔ وزیراعظم نہرو بہت پریشان ہوئے۔ طے ہوا کہ حوض قاضی چوک جلسہ کیا جائے جس سے وزیراعظم خطاب کریں۔ جلسہ ہوا‘ پولیس اور فوج کا اہتمام تھا۔ لال کنواں بازار میں مسلمان بیٹھے ہوئے تھے‘ بازار سیتا رام میں ہندو تھے۔ نہرو پہنچے تو سب نے ان کا استقبال کیا۔ نہرو نے جذبات بھری تقریر کی ا ورکہا کہ مسلمانوں کا ان حالات میں بھارت سے چلے جانا بھارتی حکومت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔ نہرو بولے، آپ ہندو سکھ جو چاہتے ہیں میں کرنے کو تیار ہوں لیکن یہ بربریت اور وحشت کا دور ختم کرنا ہوگا۔ اس پر سکھوں اور ہندوئوں نے یقین دلایا کہ وہ ہر حال میں ساتھ دیں گے۔ جب مسلمانوں کی باری آئی تو حاجی علی جان فرم کے مالک اٹھے اور اپنی تقریر میں کہا ،نہرو جی! ہمارے باپ دادا کی ہڈٖیاں اس دھرتی میں گڑی ہیں‘ ہمیں یہاں کے ذرے ذرے سے عشق ہے لیکن جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو ہم مجبور ہوگئے۔ مسلمانوں نے اپنے آٹھ مطالبات نہرو کو پیش کیے جن میں ایک یہ بھی تھاکہ کنورمہندر سنگھ بیدی کو دوبارہ دلی کا سٹی مجسٹریٹ لگایا جائے تو وہ شہر میں رہنے کو تیار ہیں۔
جب بیدی کو پتہ چلا تو وہ خوش تو ہوئے کہ مسلمان ان پر اعتبار کرتے ہیں لیکن وہ پریشان بھی ہوئے کیونکہ دلی میں اس وقت زیادہ افسران وہ تھے جو پاکستان سے آئے تھے اور وہ مسلمانوں کے خلاف تھے۔ اس پر بیدی نے ایک دن سردار پٹیل کی موجودگی میں تمام افسران سے کھل کر کہا؛ چنانچہ پٹیل نے تمام اختیارات بیدی کو دے دیے کہ وہ فسادات کو کنٹرول کریں۔ پھر ساہیوال کی دھرتی پر جنم لینے والے اس سکھ سردار نے دلی کو کس طرح کنٹرول کیا وہ لمبی داستان ہے۔
بیدی دلی تعیناتی سے پہلے دھرم شالہ میں نوکری کر رہے تھے وہاں بھی مسلمانوں کو مارنے کا معاملہ شروع ہوگیا تھا۔ دھرم شالہ میں کئی مسلمان کنبے تھے جنہیں ریفیوجی کیمپ پہنچانا تھا۔ مسلمان ڈرتے تھے کہ ان کے ساتھ دھوکا نہ ہوجائے۔ ڈی سی نے بیدی کی ڈیوٹی لگائی کہ انہیں حفاظت سے کیمپ پہنچائو۔ ان دنوں سابق ڈی سی خان بہادر چوہدری غلام مصطفیٰ کے بیٹے مسٹر محمود بھی دھرم شالہ میں مجسٹریٹ کے عہدے پر تعینات تھے۔ جب گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کو ڈی سی سردار کپور سنگھ اپنے گھر لے گئے تاکہ انہیں نقصان نہ ہو۔ لیکن جونہی وہ اپنی کوٹھی سے ڈی سی کے گھر منتقل ہوئے تو لوگوں نے ان کا گھر لوٹ لیا ۔ جب بیدی کو اطلاع ملی تو اس نے پورے علاقے کا گھیرائو کر لیا اور لائوڈ سپیکر سے اعلان کیا کہ آدھے گھنٹے میں سارا سامان لوٹنے والوں نے اگر خود ہی لا کر واپس نہ کیا تو وہ تلاشی لیں گے اور جن کے گھر سے سامان برآمد ہوگا ان کا حشر کر دیا جائے گا ۔ تھوڑی دیر بعد محمود کے گھر ان کا سارا سامان پہنچ چکا تھا۔ دو ایک زیوارت پھر بھی نہ مل سکے ۔ محمود صاحب نے کہا، بیدی صاحب جانے دیں۔ اب جو ہوگیا، سو ہوگیا۔ جہاں بیدی ہندوستان میں مسلمانوں کو بچانے کے مشن پر نہرو اور گاندھی اور پٹیل کی طرف سے کام جاری رکھے ہوئے تھے وہیں ان کے اپنے آبائو اجداد کی کہانی ‘ جو ساہیوال میں تھے ‘ بیدی تک پہنچ رہی تھی۔
آزادی کے قریب ہی بیدی کے بزرگوں کو ساہیوال کے زمینداروں کے خطوط آنے شروع ہوگئے تھے کیونکہ سب کی آنکھیں ان کی زمینوں پر لگی ہوئی تھیں۔چنانچہ بیدی کے والد اگست شروع میں ساہیوال پہنچ گئے۔ ریڈکلف اپنا فیصلہ سنانے والے تھے۔ ساہیوال کے بارے میں جو اس وقت منٹگمری تھا ‘کہا جا رہا تھا کہ یہ پاکستان میں جائے گا۔ ہندوستان اور پاکستان میں تو فسادات شروع ہوچکے تھے۔ بیدی کے والد کے پہنچنے پر علاقے کے زمینداروں کا اجلاس ہوا جس میں طے ہوا ساہیوال کہیںبھی جائے لیکن خون خرابہ نہیں ہوگا۔ چودہ اگست کو پاکستان بن گیا۔ دو چار دن حالات درست رہے لیکن ادھر ہندوستان پاکستان میں فسادات شروع ہوئے تو ساہیوال میں بھی فضا بدلنے لگی۔ پانی سر سے گزرنے لگا تو علاقے کے زمیندار بیدی کے باباکے پاس پہنچے اور کہا‘ ہمارے دل میں آپ کا احترام ہے۔ آپ نے پورے پنجاب کی خدمت کی ہے۔ لیکن اس وقت لوگوں کے سر پر بھوت سوار ہے کہیں آپ پر کوئی ہاتھ نہ اٹھا دے‘ ہم کہیں منہ نہ دکھا سکیں گے‘ اس لیے کچھ دن بھارت چلے جائیں اور پھر لوٹ آئیں۔ علاقہ کے زمیندار بیدی کے باپ اور بھائی کو ہیڈٖسلیمانکی تک چھوڑنے آئے‘ ہزاروں آدمی ان کے ساتھ تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بیدی کے باپ نے سب کی خدمت کی تھی۔ گائوں چھوڑ کر وہ بیدی کے پاس دھرم شالہ پہنچ گئے۔ ان کے جانے کے بعد ساہیوال میں بہت فساد ہوا اور ہندوئوں اور سکھوں کا قتل عام ہوا۔ قافلوں کے قافلے قتل ہوئے اور لوٹ مار ہوئی۔ادھر اس قدر اشتعال تھا کہ افواہیں پھیل رہی تھیں۔ تصدیق کیے بغیر ہی لوگ جوابی کاروائی کرتے اور ہزاروں لاکھوں کنبے بے گھر ہوگئے۔ لاکھوں یتیم ہوئے۔ ہزاروں عورتوں کے سہاگ اجڑ گئے اور یہ سب ہندوئوں، مسلمانوں اور سکھوں نے نے کیا تاکہ اپنے اپنے مذہب کا نام اونچا کر سکیں ۔ بیدی کو یہ سب اطلاعات مل رہی تھیں۔ دلی بھی جل رہا تھا۔ مسلمانوں کو مارا جارہا تھا۔ شرنارتھی اپنے ساتھ کہانیاں لاتے اور دلی میں قتل عام شروع ہوجاتا ۔
ایک دن بیدی کو گاندھی جی نے بلایا ۔ بیدی پہنچے تو وہ چٹائی پر کھدر کی چادر اوڑھ کر لیٹے کچھ پڑھ رہے تھے۔ بیدی چپکے سے ان کے قریب جا کر کھڑے ہوگئے۔ کچھ دیر بعد سیکرٹری نے گاندھی کو بتایا آپ نے بیدی صاحب کو یاد فرمایا تھا۔ مہاتما نے ان کی طرف دیکھا اور چٹائی پر بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ بولے‘ میں خوش ہوں آپ نے مسلمانوں کو ان کے مکان واپس دلائے ہیں مگر مسجدوں کو بھی تو خالی
کرائیں جو ہندووں نے اپنے قبضے میں لے رکھی ہیں۔ بیدی بولے وہ کوشش کر رہے ہیں ۔ گاندھی بولے‘ مجھے اس بارے میں مسلسل بتاتے رہیں۔ بیدی کو بعد میں پتہ چلا کچھ مسلمانوں نے گاندھی جی سے شکایت کی تھی کہ ان کی مسجدیں خالی کرانے پر دلی انتظامیہ توجہ نہیں دے رہی۔ بیدی یہ سن کر مولانا آزاد کے پاس چلے گئے تو انہوںنے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ کچھ لوگ کہتے ہیں ہندووں سے ابھی مسجدیں خالی نہیں کرائی گئیں۔ بیدی نے بتایا اسی فیصد خالی ہوگئی تھیں اور ان مسجدوں کی فہرست دی۔ پتہ چلا کچھ مسجدیں ایسے علاقوں میں تھیں جہاں اب کوئی مسلمان آباد نہیں تھا۔ جب وہ خالی ہوتیں تو لوگ دوبارہ قفل توڑ کر قبضہ کر لیتے۔ اس پر بیدی نے مسجدوں کے باہر پولیس بٹھانا شروع کر دی ۔ جب مسجد خالی کرائی جاتی تو پاکستان سے گئے ہوئے ہندوشرنارتھی بیدی کو کہتے آپ کو پتہ ہے ہمارے ساتھ پاکستان میں کیا ہوا ہے۔ ہمارے مندروں اور گوردواروں کا کیا حشر ہوا ہے۔ مندروں میں گائے ذبح کی جاتی رہی ہے اور مورتیوں پر گوبر اور فضلہ پھینکا جاتا تھا ۔ بیدی اس کا جواب دیتے اگر وہ غلطی کرتے رہے ہیں تو کیا ہمیں بھی وہی غلطی کرنی چاہیے؟ آخر سب مسجدیں خالی ہوگئیں تو گاندھی اور مولانا آزاد نے بیدی کی پیٹھ ٹھونکی ۔
بہت سارے بیدی کے دوست پاکستان جاتے وقت اپنا قیمتی سامان بند بکسوں میں ان کے گھر چھوڑ گئے تھے۔ اگرچہ بیدی انکار کرتے لیکن وہ سب یہی کہتے اگر زندہ رہے تو وہ واپس لے جائیں گے ورنہ آپ کی نذر ہے۔ بیدی لکھتے ہیں خدا کا شکر کہ وہ سب چھ ماہ بعد واپس لوٹے اور سامان پہچان کر پاکستان لے گئے۔ یا اپنے عزیزوں کو خط دے کر بھیجا۔ کچھ پاکستان سے مسلمان واپس آئے جو جاتے ہوئے سامان دلی میں اپنے گھروں میں دبا گئے تھے۔ بیدی انہیں ان کے گھروں میں لے کر جاتے، کھدائی کراتے اور سامان نکلوا کر ان کے حوالے کرتے۔ ایک مسلمان آئے تو وہ اپنے پرانے مکان پر بیدی کو لے گئے جہاں پاکستان سے آیا ایک سکھ رہ رہا تھا۔ جب سکھ کو بتایا گیا تووہ بچوں کو باہر نکال کر بولا یہ لیں آپ کا مکان آپ کے حوالے؛ چنانچہ ان کا سارا روپیہ اور زیورات جہاں انہوں نے دبائے تھے وہیں سے برآمد ہوئے۔ وہ صاحب خوش ہو کر سکھ شرنارتھی کو انعام میں چند ہزار روپے دینا چاہتے تھے لیکن اُس نے لینے سے انکار کردیا۔ بولا آپ کی امانت تھی آپ تک پہنچ گئی۔ مجھ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ کن حالات میں لوگ اپنا وطن چھوڑتے ہیں؛ چنانچہ سکھ نے سب کو پرتکلف چائے پلائی۔ سکھ بولا جب وہ پاکستان سے آئے تھے تو محلے دار مسلمانوں نے ان کو حفاظت کے ساتھ ملٹری کے پاس پہنچایا تھا اور وہ زندہ سلامت ہندوستان پہنچ گئے تھے۔
جب دلی شہر میں سکون ہوا تو پاکستان سے آئے ہوئے شرنارتھی بسانے کا معاملہ اٹھا تو سب کے لیے نئے مکان نہ بن سکے تھے۔ مسلمانوں کے مکانات الاٹ کرنے سے منع کر دیا گیا تھا ۔ یہ حکم گاندھی جی کا تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ خود مسلمانوں کو واپس دلی لائیں گے اس لیے ان کے گھر کسی کو الاٹ نہ کیے جائیں۔ ان حالات میں پاکستان سے آنے والوں کو جہاں جگہ ملی وہ بیٹھ گئے جس سے پورا شہر بدترین حالات میں نظر آنے لگا۔ ان مہاجرین نے سڑکوں پر قبضہ کر لیا اور کاروبار شروع کردیے۔ ساری تجارت ان مہاجرین کے قابو میں آگئی جس سے مقامی دکاندار بگڑ گئے کیونکہ ان کا کاروبار تباہ ہوگیا تھا۔ مقامی دکانداروں نے حکومت سے کہا کہ ان شرنارتھیوں کو شفٹ کیا جائے اور ان افسروں کو مقرر کریں جو شرنارتھی نہ ہوں تاکہ یہ کام جلدی ہو۔ اس کے لیے الگ محکمہ بنایا گیا۔ درجنوں نئی آبادیاں بسائی گئیں۔ مہاجرین بھی بگڑ گئے اور کہا ہمارے لیے نیا پاکستان بنایا جارہا تھا ۔ شروع میں تکلیف ہوئی لیکن پھر سب ایڈجسٹ ہوگئے۔ شروع میں دلی میں مقامی باشندے پاکستان سے آئے لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔
بیدی دن رات اس کام پر لگے ہوئے تھے کہ اسی اثنا میں جوش صاحب بھی دلی پہنچ گئے.....بھارتی حکومت نے جوش کو اردو رسالہ آجکل کا ایڈیٹر مقرر کر دیا تھا۔بیدی نے ابھی جوش سے ان کی کہانی سننی تھی کہ وہ کیسے نظام دکن کے دربار میں پہنچے۔ جوش کے پاس بتانے کو بہت کچھ تھا تو بیدی کے پاس سننے کے لیے بہت وقت تھا۔ بیدی کو تجسس تھا وہ کون سی ایسی نظم تھی جو جوش سے سن کر نظام دکن ناراض ہوگئے تھے اور حکم جاری ہوا کہ ر اتوں رات دکن چھوڑ دیں۔ (جاری)