23 مارچ کا دن گزر گیا....
جب سے وزیراعظم نواز شریف کے منہ سے یہ بات سنی کہ اگر وہ چاہتے تو فلاں منصوبے میں تیس ارب روپے چپکے سے اپنے اکاونٹ میں ٹرانسفر کرا سکتے تھے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلتا کیونکہ انہوں نے نوے ارب روپے کا منصوبہ ساٹھ ارب روپے میں مکمل کرایا تھا ‘ یقین کریں دل اپنے سیاستدانوں اور لیڈروں سے اٹھ گیا ہے۔ ایک عجیب سا ڈپریشن محسوس ہوتا ہے۔ ایک وزیراعظم یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ وہ چاہتا تو تیس ارب روپے کھا لیتا اور کسی کو پتہ تک نہ چلتا۔ ایک عجیب سی بیزاری نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔رہی سہی کسر سپریم کورٹ میں نیب کے ان 179 کرپشن میگا سکینڈلز کی فہرست نے پوری کر دی ہے جس میں کون سا ایسا قومی سیاستدان ہوگا جس کا نام نہیں ہے۔کہاں سے چلے تھے اور کہاں آن گرے ہیں۔کچھ نے کہا کیا کریں گے ایسی تحریروں کا ہم۔کون اب ان باتوں میں دلچسپی رکھتا ہے قائداعظمؒ کون تھے۔ ان کا کردار کیا تھا یا پھر بھارتی وزیراعظم نہرو انسان بڑا تھا یا لیڈر۔بس ٹھیک ہے وقت گزر گیا تھا ۔ جانے دو،کہاں مٹی پھرول رہے ہو،کیا ملے گا اس دھول میں سے،کون بچ گیا ہے،؟ کس کو تلاش کر رہے ہو؟ ع
ادھر کو لوٹ جاتی ہے نظر کیا کیجیے
اپنا ڈپریشن دور کرنے کے لیے آج کل ماضی کے سیاستدانوں اور لیڈروں کے بارے میں پڑھ رہا ہوں۔ میری یہی تلاش مجھے نہرو، جوش اور بیدی تک لے گئی تھی ۔ حسین شہید سہروردی کے بارے میں الطاف گوہر کی کتاب جنرل ایوب کے دس سال پڑھی تومعلوم ہوا کبھی اس خطے میں ایماندار اور اچھے سیاستدان بھی پیدا ہوتے تھے۔ وزیراعظم نہرو کے بارے میں جو کچھ جوش نے خود اپنی کتاب یادوں کی بارات میں لکھا ہے اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے‘ بڑے لوگ کیسے ہوتے ہیں۔نہرو، جوش اور بیدی کا وہ سلسہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اسے ختم کرنا باقی ہے لیکن کیا کروں ایک پرانی انگریزی میں لکھی کتاب میرے ہاتھ لگ گئی جو قائداعظم کے معالج کرنل الٰہی بخش نے لکھی تھی۔ جس کا نام ہے :
With Quaid Azam..During his last days
کتاب ان کی وفات کے ایک سال کے اندر اندر لکھی گئی تھی لیکن اگست 1949ء میں شائع ہوئی کیونکہ فاطمہ جناح کے ہاتھ سے لکھے گئے دیباچے پر تاریخ 14اگست 1949 ء درج ہے۔
بعض کتابیں اتنی دلچسپ ہوتی ہیں، کہ ایک ہی نشست میں پڑھ لی جاتی ہیں۔ یہ کتاب بھی انہی میں سے ایک ہے۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ یہ کتاب اتنا گہرا اثر ڈالے گی۔ میرے بس میں ہو تو یہ کتاب اردو اور انگریزی میں سکول اور کالج کے سلیبس کا حصہ ہوتی تاکہ ہماری نئی نسلوں کو پتہ چلتا کہ لیڈر کیا ہوتا ہے۔ جس نے یہ ملک بنایا تھا وہ کیسا انسان تھا اور بستر مرگ پر اسے کیا فکر لاحق تھی۔
کنگ ایڈورڈ کالج لاہور کے کرنل الٰہی بخش کو 21جولائی 1948ء کو حکومت پاکستان کے سیکرٹری جنرل محمد علی کا فون آتا ہے کہ وہ فورا کوئٹہ پہنچیں ۔ بتایا گیا انہیں قائداعظم کا علاج کرنا تھا لیکن اسے خفیہ رکھیں۔ کوئٹہ جی او سی میجر جنرل اکبر خان نے کرنل الٰہی بخش کا استقبال کیا ۔ وہاں سے سیدھا زیارت کے لیے نکل گئے کیونکہ بتایا گیا تھا قائداعظم کی طبیعت سخت خراب تھی۔ کرنل الٰہی بخش کو بریف کیا گیا کہ قائداعظم کو انجیکشن سے چڑہے اور دوسرے انہیں یورایکسی لینسی کہلانا اچھا نہیں لگتا تھا ‘ سر کہنا مناسب رہے گا۔ زیارت پہنچ کر فاطمہ جناح کو اطلاع دی گئی۔ اگلی صبح آٹھ بجے قائداعظم سے ملاقات کا وقت طے ہوا ۔ڈاکٹر حیران ہوا کہ یہ کون سا وقت تھا، یہ بھی پتہ چلا قائداعظمؒ کو ہمیشہ سے ہی میڈیکل چیک اپ سے چڑ رہی تھی۔ ڈاکٹر پریشان کہ بغیر جدید مشینوں کے وہ کیسے ان کی بیماری کا پتہ چلائیں گے۔ بہت سارے سوالات کا جواب ڈھونڈتے الٰہی بخش رات کو سو گئے۔
اگلی صبح وہ بنگلہ پہنچے تو ان کا خیال تھا کہ فاطمہ جناح انہیں پہلے بیماری کے متعلق بتائیں گی اور پھر وہ قائداعظم سے ملیں گے۔ تاہم فاطمہ جناح انہیں سیدھا قائداعظم کے پاس لے گئیں اور الٰہی بخش کو اپنی ٹانگوں میں لرزش محسوس ہوئی کہ وہ اس قوم کے قائد سے ملنے والے تھے جسے انہوں نے ایک دفعہ دور سے باغ جناح ایک تقریب میں دیکھا تھا ۔ کرنل نے اپنے آپ کونروس محسوس کیا۔ کمرے میں داخل ہوئے تو قائداعظم کو بیڈ پر لیٹے دیکھا۔ قائد نے مسکرا کر کرنل سے ہاتھ ملایا ۔ قائداعظم بہت کمزور ہوچکے تھے اور رنگ بھی زرد۔ کرنل ان کی حالت دیکھ کر ڈر گئے۔ قائداعظم نے الٰہی بخش کا ذہن پڑھ لیا اور انہوں نے بات کا رخ کسی اور طرف موڑ دیااور کہا کرسی پر بیٹھ جائیں۔ سفر کیسا گزرا۔ قائداعظم بولے مجھے کوئی خاص بیماری نہیں ہے۔ بس ہاضمہ درست نہیں رہتااور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ شاید زیادہ کام اور پریشان رہنے کی وجہ سے۔ میں نے چالیس برس تک چودہ گھنٹے کام کیا ۔ مجھے پتہ ہی نہ تھا بیماری کس بلا کا نام ہے؛ تاہم پچھلے کچھ برسوں سے مجھے بخار اور کھانسی کے حملے ہوتے ہیں۔ بمبئی کے ڈاکٹر میراعلاج کرتے تھے ایک ہفتے میں ٹھیک ہوجاتا رہا ہوں؛ تاہم پچھلے دو ایک برسوں میں اب یہ حملے زیادہ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر بخش خاموشی سے قائداعظم کو سنتے ہوئے محسوس کر رہے تھے ان کا منہ خشک ہورہا تھا اور بعض دفعہ تو آواز اتنی کمزور تھی کہ سننے میں بھی مشکل پیش آرہی تھی۔ قائداعظم مختصر اور کام کی بات کرتے تھے۔کچھ دیر بعد انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ وہ سوئے ہوئے سے زیادہ اس انسان کی طرح لگ رہے تھے جو دنیا سے گزر گیا ہو۔
وہ بولتے رہے۔ تین ہفتے پہلے مجھے سردی لگی اور بخار کے ساتھ کھانسی شروع ہوگئی۔ مجھے کچھ گولیاں دی گئیں ان سے بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ لیکن مجھے بہت کمزوری محسوس ہورہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب! اگر آپ میرا معدہ درست کر دیں تو میں بالکل ٹھیک ہوجائوں گا۔ بہت عرصہ پہلے لندن میں یہ مسئلہ ہوا تھا تو وہاں تین ڈاکٹروں کو چیک کرایا تھا تاہم وہ بیماری کا پتہ نہ چلا سکے۔ ان میں سے ایک نے تو آپریشن کا مشورہ دیا تھا۔ تاہم میں مطمئن نہ ہوا اور جرمنی جا کر ایک اور ڈاکٹر کو دکھایا۔ اس نے کہا تھا کہ مجھے صرف آرام اور ریگولر خوراک کی ضرورت ہے۔ 1934ء میں بمبئی میں مجھے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ مجھے دل کی بیماری لاحق ہوچکی تھی؛ تاہم جرمن ہارٹ سپیشلسٹ نے مجھے بتایا کہ میرا دل بہترین حالت میں تھا۔
قائداعظم سے یہ سب ہسٹری سننے کے بعد کرنل الٰہی بخش نے ان کا معائنہ شروع کیا تو انہیں محسوس ہوا ان کی جسمانی حالت تو اس سے بھی زیادہ خراب تھی جتنی کپڑوں میں سے نظر آرہی تھی ۔ ڈاکٹر حیران کہ وہ اب تک کیسے زندہ بچے ہوئے تھے اور اس حالت میں بھی کام کر رہے تھے۔ معائنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ان کی حالت بارے بہت مایوس ہوچکا تھا ۔ تاہم اس نے قائداعظم کو اندازہ نہ ہونے دیا ۔ جب معائنہ ختم ہوا تو کہا ان کے خیال میں یہ پھیپھڑوں کی بیماری تھی۔ ان کا معدہ درست کام کر رہا تھا۔ تاہم قائداعظم نے اصرار کیا نہیں ان کا معدہ درست کام نہیں کر رہا تھا ۔
نیچے اتر کر کرنل نے فاطمہ جناح کو ان کی حالت بارے بتایا۔ وہ بولیں ابھی تو ان کی حالت کچھ بہتر ہے۔ کچھ دن پہلے تو بہت خراب تھی۔ انہوں نے قائداعظم سے پوچھے بغیر ہی انہیں لاہور سے بلوا لیا تھا۔ اگر بتاتے تو قائداعظم منع کرتے۔ اگلے دن کوئٹہ ہسپتال سے آلات اور ماہرین بلا کر مزید ٹیسٹ کرائے گئے تو جو کچھ کرنل الٰہی بخش کا خدشہ تھا وہی درست نکلا تھا ۔ بری خبر آچکی تھی۔کرنل الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو وہ بری خبر سنائی،تووہ خاموش بیٹھی سنتی رہیں،بم گر چکا تھا۔ کچھ دیر بعد بولیں اس خطرناک بیماری سے بچنے کی کیا امیدیں ہیں؟ کرنل الٰہی بخش بولے پاکستان میں موجود تمام میڈیکل سہولتیں ان کے لیے وقف کر دی جائیں گی۔ انہیں بچانے کے لیے سب کچھ کیا جائے گا۔ تاہم ابھی وہ فائنل رپورٹ سینے کا ایکسرے کر کے ہی دیں گے۔ وہ قائد کو بچانے کے لیے سب کچھ کریں گے۔ ڈاکٹر کے منہ سے سب کچھ سن کر فاطمہ جناح جو اب تک بڑی بہادری سے سب باتیں سن رہی تھیں ، رونے لگ گئیں۔
بولیں وہ دو ماہ سے اپنے بھائی کو بار بار کہہ رہی تھیں کہ کسی اچھے ڈاکٹر کو بلا لیں لیکن وہ نہ مانے۔ کچھ دن زیارت اور کوئٹہ رہنے کے بعد طبیعت بہتر ہوگئی تھی لیکن پھر کراچی سٹیٹ بنک کی تقریب میں چلے گئے تھے اور حالت بگڑ گئی تھی۔ فاطمہ جناح بولتی رہیں کہ قائداعظم بولے تم خواہ مخواہ پریشان ہوتی ہو۔یہ میرے کام کی تھکاوٹ ہے جو میرے چہرے پر نظرآتی ہے۔کھانسی ایک ہفتے بعد ٹھیک ہوجائے گی۔ فاطمہ بولیں کچھ دن پہلے اس سنگین بیماری کا پتہ چل جاتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ وہ مسلسل پچھتاوے کا شکار لگ رہی تھیں ڈاکٹر کو کیوں اتنی دیر سے بلوایا تھا ۔ قائداعظم کی نہ سنتیں اور پہلے بلوا لیتیں تو علاج ممکن تھا۔
فاطمہ جناح کے خدشات کو درست قرار دیتے ہوئے کرنل بولے پریشان نہ ہوں۔ قوم کی دعائوں سے وہ تندرست ہوں گے اور اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ فاطمہ جناح سے کرنل الٰہی بخش نے درخواست کی کہ بہتر ہوگا مریض کو اس بیماری کے بارے پتہ نہ چلے ورنہ وہ بہت پریشان ہوں گے اور علاج کرنا مشکل ہو جائے گا‘مریض دل چھوڑ دے گا۔ فاطمہ جناح بولیں نہیں بہتر ہوگا‘ بھائی کو بیماری بارے بتا دیا جائے وہ اس طرح علاج میں تعاون پر راضی ہوں گے۔ تاہم ڈاکٹر کشمکش کا شکار، کہ قائد کو بتائیں یا نہ بتائیں؟ بتادیا تو ان کا اس پر کیا ردعمل ہوگا ؟ کیسے ایک مریض کو بتائیں کہ اُسے لاعلاج بیماری لگ چکی تھی؟کرنل الٰہی بخش کے لیے اپنی زندگی کا سب سے بڑا مشکل مرحلہ آن پہنچا تھا۔قائد اعظم یہ سب جان کر کیا کہیں گے،وہ کیسے ان کا علاج کر پائیں گے؟کرنل الٰہی بخش انہی سوچوں میں غرق چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے قائداعظم کے کمرے میں داخل ہوئے۔۔آخری بار سوچا کہ کیا کریں۔قائد کو بتائیں یا نہ بتائیں۔کرنل الٰہی بخش نے ایک گہری سانس لی اور سوچ سمجھ کر ایک ایک لفظ بولنا شروع کیا ۔قائداعظم چپ کر کے اپنے ڈاکٹر کو سنتے رہے۔جب الٰہی بخش انہیں بتا کر چپ ہوئے تو قائداعظم نے الٰہی بخش سے فورا ایک سوال پوچھا۔کرنل الٰہی بخش نے اس سوال پر چونک کر ایک کمزور اور بستر مرگ پر لیٹے قائداعظم کی طرف دیکھا۔ جو سوال کا جواب سننے کے منتظر تھے۔
کرنل الٰہی بخش کا جواب سن کر قائداعظمؒ سختی سے بولے ڈاکٹر آپ کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھے۔ بالکل نہیں کرنا چاہیے تھے۔
ڈاکٹر الٰہی بخش کو قائداعظم کا ردعمل دیکھ کر جھٹکا لگا! (جاری)