میرا دوست ارشد شریف اور نیو یارک کے تبسم بٹ مجھ سے ایک ہی بات کرتے ہیں۔۔۔۔
ہونا کُج وی نئیں!
جب بھی سکینڈل بریک کرتا ہوں، تبسم بٹ کا پیغام ملتا ہے 'ہونا تے کج وی نئیں!‘ بٹ صاحب روایتی لاہوری ہیں۔ نیو یارک آئی لینڈ میں اچھی زندگی گزار رہے ہیں لیکن پاکستان کے لئے پریشان رہتے ہیں۔ کہتے ہیں، ٹی وی پر جب سنجیدگی سے پاکستانی ٹاک شوز دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں تو ان کی بیگم کہتی ہیں: آپ اتنے غور سے سن رہے ہیں، لیکن ہونا کج وی نئیں! وہ یہی پیغام مجھے لکھ کر بھیج دیتے ہیں۔
کیا ہم صحافیوںکو اس لیے خاموش ہو جانا چاہیے کہ ہونا کج وی نئیں؟ میں کبھی مایوس ہوا کرتا تھا، پاکستان جیسے ملکوں میں چیزیں اتنی تیزی سے آگے نہیں بڑھتیں۔ ایسا ملک جہاں صحافی عہدے لے کر جرنلزم کرتے ہوں، جج ریٹائر ہو کر صدر بن جائیں، ریٹائرڈ فوجیوں کے لیے علیحدہ پیکج تیار ہو، بیوروکریٹس اسّی سال کی عمر میں بھی وزیر اعظم ہائوس میں نوکری کر رہے ہوں، ہر ایک فیور دے کر فیور لینے کے چکر میں ہو، ڈی ایم جی افسران سیاسی خاندانوں کو جوائن کر رہے ہوں، وہاں احتساب آسانی سے نہیں ہوتا؛ تاہم میں نے ایک بات سیکھی ہے۔ سٹوری، فالو اپ سے زندہ رہتی ہے۔ ایک دو بار خبر دینے سے قیامت نہیں ٹوٹتی۔ کسی کو دوسرے دن یاد بھی نہیں رہتا کہ اس نے ناشتے میں کیا کھایا تھا، خبر سن یا پڑھ کر کسے یاد رہتا ہے! مجھے یاد ہے، جب میں نے ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف پہلا او جی سی ڈی سکینڈل فائل کیا تو سب ہنستے تھے۔ خود ڈاکٹر عاصم مذاق اڑاتا تھا۔ میں موقف لینے کے لیے فون کرتا تو وہ میرا مذاق اڑاتا۔ لیکن میں خبریں دیتا رہا، اخبارات میں چھپتی رہیں۔ عاصم حسین نے پاکستان کی میڈیکل تعلیم کا بیڑا غرق کرنے کا منصوبہ بنایا‘ جب پی ایم ڈی سی اس کے حوالے کر دی گئی۔ عاصم حسین کی ہمشیرہ اس بورڈ میں شامل تھیں‘ جو میڈیکل کالجوں کی منظوری دیتا تھا۔ اس پر سکینڈل دیے تو عاصم حسین پھر ہنس دیے۔ کوئی کیا بگاڑ سکتا تھا؟ وہ آصف زرداری کے قریب ترین دوست تھے اور پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ میں نے ایران کے ساتھ ڈیل کے حوالے سے عاصم حسین پر سوالات اٹھائے کہ مہنگی گیس لی جبکہ ایران نے سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کو سستی بیچی تھی۔ اس پر بھی سب نے مذاق اڑایا، اس ملک میںکچھ نہیں ہو گا۔ اس کے بعد عاصم حسین نے اقبال زیڈ احمد کے ساتھ مل کر ایل پی جی میں ہاتھ مارا۔ خبریں دیں تو پھر سب ہنس دیے۔۔۔ ہونا کج وی نئیں۔ عاصم حسین نے ڈرانے کے لیے عدالت سے مجھے سمن بھی بھجوائے۔ میں پھر بھی خبریں دیتا رہا۔ پیپلز پارٹی کے آخری دنوں میں اس نے خوب مال سمیٹا۔ میں نے 2010ء میں پہلی بار عاصم حسین کے خلاف سکینڈل فائل کیا تھا۔ وہی ڈاکٹر عاصم آج کہتا ہے کہ خود کشی کرنا چاہتا ہے۔ زرداری صاحب فرماتے ہیں، عاصم تو بزدل انسان ہے۔ بچپن میں اس کا 'نک نیم‘ خرگوش رکھا ہوا تھا۔ اسی خرگوش کے بارے میں نیب کا کہنا ہے کہ اس نے 460 ارب روپے کا گھپلا کیا ہے۔ کسی اور کا کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، عاصم حسین کا کیس ہمارے سامنے ہے۔
دوسری مثال متروکہ وقف املاک بورڈ کے سابق چیئرمین آصف ہاشمی کی ہے۔ موصوف نے گیلانی صاحب کے ساتھ مل کر لمبے ہاتھ مارے۔ جو حیثیت اور اہمیت عاصم حسین کی زرداری کے لیے ہے، وہی میری سرائیکی دھرتی کے سپوت آصف ہاشمی کی گیلانی کے لیے ہے۔ جو کام زرداری عاصم حسین سے لیتے تھے، وہی گیلانی صاحب آصف ہاشمی سے لیتے تھے۔ خدمت پاکستان میں ہو یا بیرون ملک، آصف ہاشمی ہر جگہ ہر وقت دستیاب رہتے۔ میں نے آصف ہاشمی کے خلاف سکینڈل فائل کرنے شروع کیے تو انہوں نے بھی مجھے لیگل نوٹس بھیجا۔ ان کا خیال تھا‘ اس طرح رپورٹر ڈر جاتے ہیں؛ تاہم خبروں کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک دن اسلام آباد کلب گیا تو ایک دوست مل گیا جس کے ساتھ کوئی کھڑا باتیں کر رہا تھا۔ بولے، یہ ہیں آصف ہاشمی۔ میں نے مشکل سے ہاتھ ملایا۔ چند دن بعد ایک اور سکینڈل فائل کیا تو فرمایا، رئوف کلاسرا نے اسلام آباد کلب میں مجھے کچھ ذاتی کام کہے تھے، وہ نہیں ہوئے اس لیے بلیک میل کرنے کے لیے خبر فائل کی ہے۔ اس کے بعد اس طرح کے لوگوں سے ہاتھ ملانے سے ڈرنے لگا۔ آصف ہاشمی کا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس شیر کے بچے نے سکھوں کے گوردوارے کی زمین بھی ہائوسنگ سوسائٹی کو بیچ دی۔ اس سکینڈل پر بھارتی پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا۔ بھارت نے کہا، تحقیقات کرائی جائے۔ فارن آفس کے کہنے پر تحقیقات ہوئی۔ انکوائری سیکرٹریٹ گروپ کے ایماندار افسر منیر چوہدری کے ذمے لگی تو آصف ہاشمی کے کرتبوں کی کہانی کھل گئی۔ منیر چوہدری کو ہاشمی نے گیلانی کے ذریعے سزا دلوائی۔ میں نے وہ انکوائری رپورٹ فائل کر دی۔ وہ بھی ڈاکٹر عاصم کی طرح مسکراتے رہے کہ وزیر اعظم گیلانی پارٹنر ہے تو فکر کیسی! آصف ہاشمی کے خلاف پرائم منسٹر انسپکشن کمشن نے بھی تحقیات کرائی۔ رپورٹ میں سب الزامات ثابت ہوئے۔ ایک دن چیئرمین امجد نون کو وزیر اعظم گیلانی نے دفتر بلایا اورکہا، کیوں ہمارے دوست ہاشمی کو تنگ کرتے ہو؟ امجد نون ایک شریف انسان ہیں اور ضرورت سے زیادہ بامروت، وہ اس کام کے لیے فٹ نہ تھے۔ نون نے وضاحت کی کہ جناب آپ نے خود تحقیات کا حکم دیا تھا اور سب کچھ سامنے ہے۔ گیلانی صاحب نے فرمایا، چلو میں نے حکم دیا تھا، اب میں ہی کہہ رہا ہوں، جانے دو۔ امجد نون حیران ہوئے۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ تحقیقات کا حکم بھی اس لیے دیا تھا کہ ہاشمی سے مزید مال نکلوایا جائے۔ وزیر اعظم آفس سے نکلنے کے لیے اٹھنے لگے تو گیلانی بولے، نون صاحب، آپ پچھلے دروازے سے جائیں، سامنے والے کمرے میں آصف ہاشمی بیٹھا ہوا ہے، آپ کو دیکھ لیا تو کوئی ایسی ویسی بات نہ کہہ دے۔ امجد نون شرمندہ ہو کر وزیر اعظم ہائوس سے نکل گئے۔ یہ بھی دن آنا تھا کہ وزیر اعظم کہہ رہا ہے، پچھلی گلی سے نکل جائو ورنہ چور اور ڈاکو جو میرے دفتر میں بیٹھے ہیں، وہ تمہیں برا بھلا کہیں گے۔ پھر کیا ہوا۔ آصف ہاشمی باہر بھاگ گیا، اب دبئی میں پکڑا گیا ہے۔
خود وزیر اعظم گیلانی سے ایک دفعہ میں نے صحافیون کی موجودگی میں کہا، آپ پر سنگین الزامات لگ رہے ہیں، اچھا نہیں لگتا وزیر اعظم پر اس طرح کے الزامات لگیں۔ بولے، آپ میرے خلاف عدالت میں چلے جائیں۔ میں نے کہا، پہلے میں سکینڈل فائل کروں، پھر تیس چالیس لاکھ روپے کا وکیل کروں، سپریم کورٹ جائوں اور مقدمہ لڑوں۔۔۔ تو آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ ملک کے وزیر اعظم ہیں، آپ کو تنخواہ اور مراعات اسی لیے ملتی ہیں۔ آج وہی گیلانی ہیں، نیب بلاتی ہے، وہ پیش ہونے سے گریز کرتے ہیں۔
آج کل فارن آفس کے افسروں کی بیگمات کی این جی او سکینڈل پر کام کر رہا ہوں۔ سب کہتے ہیں، ہونا تے کج وی نئیں۔ فارن سیکرٹری اعزاز چوہدری کی بیگم اس این جی او کے لیے بھارتی سفارتخانے سمیت چھبیس ملکوں سے لاکھوں روپے چندہ لے کر آئی ہیں۔ طارق فاطمی کی بیگم نے بھی اپنی این جی او کے لیے جاپانی سفارتکاروں سے ستر ہزار ڈالر لیے۔ فاطمی اور اعزاز چوہدری نے سی ڈی اے سے دس کنال کا پلاٹ مفت لیا اور اربوں روپے مالیت کا یہ پلاٹ روٹس ملینیم کے مالک فیصل مشتاق کو دے دیا کیونکہ اس نے بیگمات کی این جی او کو تین لاکھ روپے عطیہ دیا تھا۔ اس ڈیل میں کس کس نے کیا ہاتھ مارا، وہ تفصیل پھر کبھی۔ مختصر یہ کہ اپنی نوعیت کا یہ ایسا سکینڈل ہے جس میں طارق فاطمی اور اعزاز چوہدری کی بیگمات نے وہ کام کر دکھایا جو بڑے بڑے کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اب سب کہتے ہیں۔۔۔ ان کی بیگمات کا ہونا کج وی نئیں۔ اس پر مجھے ڈاکٹر عاصم اور آصف ہاشمی یاد آتے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر مواصلات ارباب عالمگیر اور ان کی بیگم عاصمہ ارباب کے لندن میں چار فلیٹس کا سکینڈل فائل کیا تو سب نے کہا ہونا کج وی نئیں۔ ایک چینی کمپنی کو ٹھیکہ ملا جس میں چوبیس لاکھ ڈالر کا کمیشن بینکاک میں لیا گیا، جو دبئی شفٹ ہوا اور وہاں سے لندن میں چار فلیٹس خریدے گئے۔ عاصمہ ارباب سے جب بات کی تو وہ بھی مسکراتی رہیں۔ وہ بھی یہی سمجھتی ہیںکہ ہونا کج وہ نئیں۔ میں بھی جواباً ہنس دیتا ہوں۔ ڈاکٹر عاصم اور ہاشمی یاد آجاتے ہیں۔
اب نواز شریف کے صاحبزادوں کی آف شور کمپنیوںکا سکینڈل آیا ہے تو ارشد شریف کہتے ہیں، ہونا کج وی نئیں۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں، ہر روز ان کے خلاف شکوک پیدا کئے جاتے ہیں، روزانہ الزام لگتا ہے۔ سوال یہ ہے، وزیر اعظم پر شک ہی کیوں کہ وہ غلط کام کرے گا۔ جولیس سیزر ڈرامے میں شیکسپیٔر نے ایسے تو نہیں لکھا کہ سیزر تو دور کی بات ہے، سیزر کی بیوی پر بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کوئی غلط کام کرے گی۔ نواز شریف صاحب کو کون سمجھائے، شیکسپیٔر کے اس جملے میںکیا راز چھپا ہے۔۔۔ آپ کا حکمران کیسا ہونا چاہیے! اگر عام انسانوں پر حکومت کرنے والے حکمران ان سے اخلاقیات میں کم ہیں تو پھر انہیں یہ حق کیسے مل سکتا ہے کہ وہ ان پر حکمرانی کریں۔ اگر کسی نے مجھ پر حکمرانی کرنی ہے تو اس کی اخلاقیات اور کردار مجھ سے بہتر ہونا لازم ہے۔ یہ وہ راز ہے جو آئس لینڈ جیسے ملکوں کی عوام نے پا لیا ہے۔ اگر ملک کا وزیر اعظم چور ہے تو وہ چوروں کے ساتھ رہے، وزیر اعظم ہائوس میں نہیں! بل کلنٹن پر مقدمہ چلا کہ اگر اس نے جھوٹ بولنا ہے تو وہ جھوٹوںکے ساتھ زندگی گزارے، وائٹ ہائوس میں اس کا کائی کام نہیں۔
اگر نواز شریف صاحب اور ان کے خاندان نے ہم پر حکومت کرنی ہے، ہماری زندگی موت کے فیصلے کرنے ہیں تو انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ وہ عام پاکستانیوں کی نسبت بہتر اخلاق اور کردارکے مالک ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو پھر انہیں وزیر اعظم ہائوس میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر وہ بھی ہم عام پاکستانیوں جیسے ہیں جو غلط کام کرتے ہیں تو وہ ہمارے درمیان آ کر رہیں، وزیر اعظم ہائوس میں نہیں!