فیڈرل سروسز ٹریبونل کی طرف سے سمن ملے‘ تشریف لے آئیں۔
حیران ہوا سروسز ٹریبونل کے جج صاحبان کو مجھے کیوں یاد کرنا پڑ گیا۔ سرکاری لفافہ کھول کر دیکھا تو اس میں پٹیشن تھی‘ جس میں مجھے بھی پارٹی بنایا گیا تھا۔ پوری پٹیشن پڑھی تو مسکرا دیا۔ سپریم کورٹ یاد آ گئی جہاں پانچ دفعہ مجھے طلب کیا گیا تھا۔
عدالت پہنچے تو ارشد شریف بولے کہ انہیں عدالت کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ پٹیشن منظور نہیں ہو گی کیونکہ فارن آفس نہیں ہونے دے رہا۔ جو وجہ بتائی گئی‘ وہ بتائی تو توہین عدالت کا خطرہ ہے۔
پٹیشن کے مطابق یاسر محمود کے خلاف فارن آفس کی افسر تسنیم اسلم نے ایک چارج شیٹ جاری کی ہے۔ اس چارج شیٹ کے مطابق یاسر محمود نے رئوف کلاسرا اور ڈان کے خاور گھمن کو انتہائی حساس دستاویزات لیک کی تھیں۔ اس کے بعد یاسر محمود کو سزا کے طور پر کوئٹہ ٹرانسفر کر دیا گیا ہے‘ اور اس دوران برطرف کر دیا جائے گا۔
اس مقدمے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یاسر محمود تین سال سے فارن آفس سے چھٹی پر تھے‘ اور ان کے پاس ان دستاویزات کی موجودگی کا تصور تک نہیں ہو سکتا تھا‘ جن کی بنیاد پر وہ سٹوریز فائل کی گئی تھیں۔
پٹیشن میں کہا گیا کہ پہلی خبر رئوف کلاسرا نے فائل کی تھی‘ فارن آفس کے افسران کی بیگمات نے اپنی ایک ذاتی این جی او بنا رکھی ہے۔ اس این جی او کا فارن آفس سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ لیکن اس این جی او نے اسلام آباد میں چھبیس غیرملکی سفارت خانوں سے لاکھوں روپے کا چندہ اکٹھا کیا۔ دیگر سفارت خانوں کے علاوہ اس این جی او نے بھارتی سفارت خانے سے بھی عطیہ وصول کیا۔ فارن سیکرٹری اعزاز چوہدری کی بیگم‘ جو گھریلو خاتون ہیں‘ اس این جی او کی سربراہ ہیں‘ جو چندے اکٹھے کر رہی ہے‘ جبکہ وزیر اعظم کے خصوصی مشیر طارق فاطمی کی بیگم زہرہ اس این جی او کی پیٹرن ان چیف ہیں۔ یوں دونوں خواتین اپنے اپنے شوہروں کی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر غیرملکی سفارت خانوں سے پیسے اکٹھے کر رہی ہیں‘ جو نہ صر ف ملکی بدنامی کا سبب ہے‘ بلکہ Conflict of Interest بھی ہے۔ اس طرح یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ طارق فاطمی کی بیگم زہرہ جو کہ خواتین کے خصوصی کوٹے پر ایم این اے بنی ہیں، نے اپنی این جی او کے لیے ستر ہزار ڈالر جاپان کے سفارت خانے سے لیے۔
ایک اور سکینڈل کے مطابق روٹس میلینیم کے مالک فیصل مشتاق نے اعزاز چوہدری اور طارق فاطمی کی بیگمات کی این جی او کو تین لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ کچھ دنوں بعد ان خواتین نے اس این جی او کو الاٹ کیے گئے پوش ایریا میں دس کنال کا پلاٹ فیصل مشتاق کو دے دیا۔ سی ڈی اے نے یہ پلاٹ مفت میں این جی او کو الاٹ کیا تھا۔ سب سے پہلے تو این جی او کو پلاٹ الاٹ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ بولی لگنی چاہیے تھی۔ لیکن فارن آفس افسران نے اپنی بیگمات کی این جی او کے لیے زور لگایا‘ اور لے لیا کہ اس پلاٹ پر فلاحی سرگرمیاں ہوں گی۔ کچھ دن بعد سی ڈی اے کو کہا گیا کہ وہ پلاٹ ایک اور این جی او کو دینا چاہتے ہیں۔ سی ڈی اے کے قوانین اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس پر فارن آفس کے افسران نے اپنی بیگمات کی این جی او کے لیے قوانین تبدیل کرا لیے؛ تاہم کچھ عرصے بعد وہ این جی او بھاگ گئی۔ اب کئی برس بعد سی ڈی اے کو دوبارہ کہا گیا کہ اس دفعہ وہ یہ پلاٹ ایک نجی سکول کے مالک فیصل مشتاق کو دینا چاہتے ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ قوانین میں گنجائش نہیں۔ اس پر دوبارہ فارن آفس کے افسران نے قوانین میں تبدیلی کرائی۔ اب پتہ چلا ہے کہ اس ڈیل کے تحت فیصل مشتاق کو دس کنال کا یہ پلاٹ ننانوے سال کے لیے مفت ملے گا۔ وہ اس پر سکول بنائے گا۔ ایک ہزار طالب علموں کو داخلہ ملے گا۔ پندرہ ہزار روپے فی طالب علم فیس کے تحت وہ ہر ماہ ڈیڑھ کروڑ روپے کمائے گا۔ اس میں سے وہ ہر ماہ صرف ڈیڑھ لاکھ روپے فارن آفس کے افسران کی بیگمات کی این جی او کو چندہ دے گا۔ علاوہ ازیں فارن آفس کے افسران کے بچوں کو بیس فیصد رعایت دی جائے گی۔
اس ڈیل پر سوال اٹھے۔ فیصل مشتاق کو پلاٹ اس لیے ملا کہ وہ سینیٹر راحیلہ مگسی کا داماد ہے‘ یا پھر وزیر اعظم ہائوس میں ایک طاقتور شخصیت‘ جسے امریکہ نے ابھی سات ارب روپے تعلیم کے لیے دیے ہیں‘ کا اس میں ہاتھ ہے‘ کیونکہ وہ فیصل مشتاق کے ساتھ مل کر وہ سات ارب روپے خرچ کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ ایک بندہ دس ارب روپے کا پلاٹ مفت لیتا ہے۔ ہر ماہ وہ ڈیڑھ کروڑ روپے کمائے گا‘ اور صرف ڈیڑھ لاکھ روپے ہر ماہ فارن آفس کے افسران کی بیگمات کو چندہ دے گا۔
اب اعزاز چوہدری صاحب کا ایک سکینڈل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کشمیر فنڈ سے اپنے گھر کی آرائش کے لیے ایک کروڑ دس لاکھ روپے استعمال کیے ہیں۔ کشمیر آزاد ہو یا نہ ہو‘ لیکن اس کے فنڈ نے اعزاز چوہدری کے گھر کو کشمیر بنا دیا ہے۔ اس طرح ایک اور خبر سامنے آئی ہے کہ فارن آفس کے افسران نے اپنی بیگمات کی این جی او کوغیر ملکی سفر کے لیے فارن آفس کے بجٹ سے لاکھوں روپے کی ٹکٹیں خرید کر دیں۔ ایک این جی او کو بھلا کیسے فارن آفس اپنے بجٹ میں سے ٹکٹیں لے کر دے سکتا ہے؟
عدالت میں، میرے علاوہ ارشد شریف، خاور گھمن، یاسر محمود اور اس کے وکیل بیرسٹر شعیب بھی موجود تھے۔
عدالت کے جج ارشد بھٹی صاحب نے مجھے دیکھا تو بولے: آپ یہاں کیسے؟
ارشد بھٹی کی شہرت ایک اچھے اور ایماندار انسان کی ہے‘ اس لیے ان سے کھل کر بات کرنے میں حرج نہ تھا۔ کہنے لگے: وہ اس پٹیشن کو نہیں سن سکتے۔ یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا کیس ہے۔ وہاں جائیں۔ بیرسٹر شعیب نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بھی گئے تھے‘ لیکن کہا گیا کہ سروسز ٹریبونل جائیں۔ اب آپ کہہ رہے ہیں دوبارہ ہائی کورٹ جائیں!
بولے: کیا کریں مجبوری ہے۔ قوانین یہ کہتے ہیں۔ میں نے کہا: سر قانون کی تشریح آپ نے کرنا ہوتی ہے۔ بھلا کیسے ایک ایسے افسر کو سزا دی جا سکتی ہے جو تین سال سے چھٹی پر تھا‘ اور جن دستاویزات کو حساس قرار دیا گیا ہے‘ ان سے ریاست کو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ کیا بھارتی سفارت خانے سے فارن آفس کی بیگمات کا چندہ اکٹھا کرنے کی خبر سے ریاست کو نقصان ہو گا؟ اس طرح مشتاق فیصل کو دس ارب روپے کا مفت پلاٹ دینے کی خبر سے ریاست کا نقصان ہو گا؟ کشمیر فنڈ سے سیکرٹری خارجہ کے گھر پر ایک کروڑ روپے کی آرائش کرانے کی خبر سے بھی ریاست کو نقصان ہو گا؟ این جی او کی بیگمات کو فارن آفس کی بجٹ سے غیرملکی دوروں کی ٹکٹیں دینے کی خبر سے ریاست خطرے میں پڑ جائے گی؟
میں نے کہا: سر! اندازہ کریں‘ اس سکینڈل میں جو لوگ ملوث ہیں‘ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ کسی نے اعزاز چوہدری صاحب سے پوچھا تک نہیں۔ ان کے خلاف کسی نے انکوائری شروع نہیں کی‘ لیکن ایک افسر یاسر کے خلاف انکوائری شروع ہو گئی ہے‘ جو تین سال سے چھٹی پر تھا‘ اور ہمارے کندھے استعمال ہو رہے ہیں۔
فیصل مشتاق اور فارن آفس کے افسران کی بیگمات‘ جنہوں نے دس ارب روپے کا پلاٹ مفت میں فیصل مشتاق کو دے دیا تھا‘ کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے تھی‘ لیکن کارروائی یاسر محمود کے خلاف ہو رہی ہے۔ کشمیر فنڈ کا ایک کروڑ روپیہ گھر کی آرائش پر لگانے پر اعزاز چوہدری کو جیل میں ہونا چاہیے تھا‘ وہ الٹا دوسروں کو برطرف کر رہے ہیں۔
میں نے کہا: سر! آپ کو علم ہے‘ ہم صحافی لوگ کتنے خطرات مول لے کر ایسے سکینڈل سامنے لاتے ہیں؟ بڑے بڑے مگرمچھوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ہم احسان نہیں کرتے‘ لیکن یہ توقع تو عدالتوں سے رکھتے ہیں کہ کچھ سپورٹ تو وہ ان لوگوں کی کریں‘ جو ان طاقتور عناصر کو ایکسپوز کر رہے ہیں۔ یہ کام ہم کوئی ذاتی مفاد میں نہیں کر رہے‘ ریاست اور اس کے شہریوں کے مفادات کے لیے کرتے ہیں۔
دوسرے جج رفیق صاحب بولے: سچ بولنے کی قیمت تو دینا پڑتی ہے۔
میں نے کہا: سر ہم تو قیمت دے رہے ہیں۔ یہ فارن آفس والے کتنے خوش قسمت ہیں کہ ان سے کوئی پوچھ بھی نہیں رہا۔ فیصل مشتاق کو عدالت، نیب، ایف آئی اے نہیں بلاتی۔ میں نے مزید کہا: جس کرسی پر آپ بیٹھے ہیں‘ اس کی بھی ایک طاقت ہے۔ اس کرسی کا بھی تقاضا ہے۔ اس کرسی کی قیمت بہت ہے جو آپ کو بھی ادا کرنا چاہیے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ لوگ اس وقت بہت فرسٹریٹڈ ہیں۔ لوگوں میں ڈپریشن بہت ہے کیونکہ لوگوں کو محسوس ہوتا ہے سب طاقتور لوگ مل گئے ہیں۔ ایک دوسرے کا تحفظ کرتے ہیں۔ مجھے بتائیں اس طرح ریاست کیسے چلے گی؟... یہ ملک کیسے چلے گا؟ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: سینیٹ کی کمیٹی برائے کابینہ کے چیئرمین طلحہ محمود نے شروع میں بڑھکیں ماریں کہ وہ فارن آفس کو اڑا کر رکھ دیں گے‘ انہوں نے کیسے اربوں روپے کا پلاٹ مفت میں فیصل مشتاق کو دے دیا؟ بھارتی سفارت خانے سے چندہ لے لیا۔ کچھ دن بعد طلحہ محمود بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے‘ جب ان کے ہاتھوں کی مالش کی گئی۔
جج صاحبان کی مہربانی انہوں نے چپ کر کے میری تلخ باتیں سن لیں‘ لیکن بولے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے‘ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
ابھی جج صاحب کی عدالت سے مایوس ہو کر لوٹا ہوں تو پیمرا سے نوٹس ملا ہے کہ جناب آپ نے فارن سیکرٹری اعزاز چوہدری، طارق فاطمی، ان کی بیگمات کی این جی او، فیصل مشتاق کی شان میں گستاخی کی ہے۔ اپ پیش ہوں ورنہ آپ کے خلاف کارروائی ہو گی۔
حاضر جناب! ... پیش ہو جاتے ہیں پیمرا کی عدالت میں۔
چلیں میرے خلاف ہی کارروائی ہو کہ فارن آفس کے معززیں کو کیوں بے نقاب کیا‘ جو اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانے سمیت چھبیس غیرملکی سفارت خانوں سے اپنی بیگمات کی این جی او کو تگڑا مال لے کر دیتے ہیں، اسی این جی او کو چلانے والی اپنی بیگمات کو غیرملکی سفر کے لیے فارن آفس کے بجٹ سے لاکھوں کی ٹکٹیں لے دیتے ہیں‘ یا پھر سینیٹر راحیلہ مگسی کے داماد کو دس ارب روپے کا پلاٹ مفت دیتے ہیں‘ جس سے وہ ڈیڑھ کروڑ روپے ہر ماہ کما کر ڈیڑھ لاکھ روپے کا چندہ ان کی بیگمات کو دے گا... یا پھر اعزاز چوہدری جیسے کشمیر فنڈ سے ایک کروڑ روپے گھر کی آرائش پر خرچ کر دیتے ہیں... اور جلیل عباس جیلانی کو ہٹوا کر واشنگٹن میں سفیر لگنے کے بھی امیدوار ہیں۔